پنجاب بجٹ، اعدادوشمار کا ہیر پھیر

منگل 25 جون 2019

Sanaullah Nagra

ثناء اللہ ناگرہ

بجٹ کسی بھی حکومت کی سال بھر کی اچھی یا بری کارکردگی کا پیمانہ ہوتا ہے،بجٹ کے اعدادوشمار میں توہیرپھیر ہوسکتا ہے،لیکن حقیقت میں عوامی زندگیوں پر پڑنے والے منفی اثرات کو جھٹلایا نہیں جاسکتا، بجٹ نہ صرف حکومت کی ترقی اورخوشحالی کی جانب سمت کا تعین کرتا ہے،بلکہ بیڈکارکردگی سے سیاسی نعروں اور پارٹی منشور کا پول بھی کھول دیتاہے،بجٹ سے پتا چلتا ہے کہ مالی سال میں حکومت نے آمدن اور اخراجات میں کس طرح توازن برقرار رکھا،اور عوامی مسائل پر قابوپانے ،مہنگائی بے روزگاری کے خاتمے کیلئے اقدامات اٹھانے اور عوام کو ریلیف دینے میں کس قدر کامیاب رہی ہے۔

پنجاب آبادی اور زرعی لحاظ سے پاکستان کا سب سے بڑا صوبہ ہے،جس کے سیاسی اور معاشی استحکام یا عدم استحکام کا اثر پورے پاکستان پر پڑتا ہے۔

(جاری ہے)

ماضی یا حال کو دیکھیں توہر حکومت نے ہی بجٹ کو عوامی امنگوں کا ترجمان اور متوازن قرار دیا ہے،بالکل اسی طرح تحریک انصاف کی پنجاب حکومت بھی بجٹ کومتوازن اور خوشحالی سے تعبیرکررہی۔وزیراعلیٰ پنجاب عثمان بزدار نے بجٹ کو پی ٹی آئی منشور کے عین مطابق قراردیا،ان کا کہنا ہے کہ مشکل معاشی حالات کے باجودبجٹ عام آدمی کی فلاح و بہبود کاعکاس ہے،بجٹ کے بعدوزیراعلیٰ پنجاب اور اسپیکرپنجاب اسمبلی چودھری پرویز الٰہی نے ایک دوسرے کو مبارکباد بھی پیش کی۔

 قائد حزب اختلاف پنجاب اسمبلی حمزہ شہباز نے کہا کہ بجٹ میں غریبوں پر 16 فیصد سروس ٹیکس لگا دیا گیا ہے، عوام دشمن بجٹ سے بدترین مہنگائی اور بے روزگاری کا طوفان آئے گا،بجٹ میں ٹیکسز کی بھرمار کا منفی اثر غریبوں اورمتوسط طبقے پرآئے گا،پنجاب حکومت کا ترقیاتی بجٹ 630 ارب سے کم کرکے350 ارب روپے تقریباً آدھا کر دیا گیا،وزیراطلاعات پنجاب صمصام بخاری نے کہا کہ جنوبی پنجاب کے بجٹ میں 35فیصد اضافہ کیا گیا،جبکہ صدرپیپلزپارٹی پنجاب نے کہا کہ جنوبی پنجاب کیلئے مختص فنڈز میں بھی 45 فیصد کٹوتی کر دی گئی ہے۔

چیئرمین پیپلزپارٹی بلاول بھٹو کا کہنا ہے کہ پنجاب پاکستان کی 60فیصد آبادی پر مشتمل صوبہ ہے،پرانے پاکستان کا 600بلین کابجٹ کٹوتی کرکے 220ارب کردیا ہے،کٹوتی کا اتنابوجھ کون برداشت کرے گا؟میں اس کوپنجاب کی عوام کا معاشی قتل سمجھتا ہوں۔
تحریک انصاف کی پنجاب حکومت نے پچھلے مالی سال 2018-19ء میں پی ٹی آئی نے صرف8مہینے کا پنجاب بجٹ پیش کیا تھا،جس میں ن لیگ کی حکومت کے وفاقی بجٹ کو ہی فالو کیا گیا تھا،تاہم پی ٹی آئی کی وفاقی حکومت نے 2منی بجٹ بھی پیش کیے،لیکن آئندہ مالی سال2019-20ء کیلئے پی ٹی آئی کا پہلا مکمل بجٹ تصور کیا جا رہا ہے،تاہم موجودہ حکومت کے بجٹ کا ن لیگ کی پنجاب حکومت کے بجٹ کے ساتھ موازنہ کیا جائے توموجودہ حکومت کا2017-18ء کے مقابلے میں آئندہ مالی سال کا بجٹ صرف ساڑھے 3کھرب زیادہ ہے،جبکہ پچھلے مالی سال کی نسبت تین کھرب کا اضافہ ہوا ہے۔

ن لیگ کا2017-18ء کا بجٹ 19 کھرب70 ارب سے زائد تھا، جس میں ٹیکسز اور نان ٹیکسزکے ریونیو کی مد میں 348 ارب 30 کروڑ روپے کا تخمینہ تھا،عمومی محصولات 1502 ارب اوراین ایف سی ایوارڈ کی مد میں وفاق سے 1154 ارب 18 کروڑ روپے کی آمدن کا تخمینہ لگایا گیا تھا۔دونوں حکومتوں کے بجٹ کے اہم خدوخال کا جائزہ لیں تو پتا چلتا ہے کہ موجودہ پنجاب کا بجٹ بھی اعدادوشمارکا ہیر پھیر ہے۔

صوبائی وزیر خزانہ پنجاب مخدوم ہاشم جواں بخت نے پنجاب کے آئندہ مالی سال 2019-20ء کابجٹ جمعے کوپنجاب اسمبلی میں پیش کیا،بجٹ کاکل حجم 23 کھرب 57 کروڑ روپے رکھا گیا ہے،پنجاب کی آمدن کا حجم368 ارب روپے اورجاریہ اخراجات کا تخمینہ1298 ارب 80 کروڑ روپے لگایا گیا ہے ،جاری اخراجات میں337 ارب 60 کروڑ روپے تنخواہوں ، 244 ارب 90 کروڑ روپے پنشن، 437 ارب 10 کروڑ مقامی حکومتوں اور 279 ارب 20 کروڑ روپے سروس ڈیلیوری شامل ہیں،اسی طرح پنجاب کااین ایف سی میں 1494 ارب روپے اورصوبائی محصولات کی مد میں 388 ارب 40 کروڑ روپے کا تخمینہ ہے۔

مقامی حکومتوں کا بجٹ 437 ارب دیکھیں توپنجاب میں نئے بلدیاتی نظام کی منظوری کے بعد پرانا نظام تحلیل ہوچکا ہے،اب ایڈمنسٹریٹرمقامی حکومتوں کا نظام چلا رہے ہیں،کیا مقامی حکومتوں کا بجٹ افسرشاہی کے زیرنگرانی عوام کی فلاح یا ترقیاتی کاموں پرخرچ کیا جائے گا، یا پھرارکان اسمبلی اس بجٹ کو خرچ کریں گے؟
اس کا تعین نہیں کیا گیا،کیونکہ پی ٹی آئی ارکان اسمبلی کی بجائے بلدیاتی نمائندوں کوہی اختیار دینے کی حامی رہی ہے۔

اسی طرح بجٹ میں ترقیاتی پروگرامزکیلئے 350 ارب روپے ہیں،جس میں 35 فیصد جنوبی پنجاب کیلئے مختص کیے گئے۔ ترقیاتی بجٹ میں تعلیم کیلئے46.9ارب روپے، صحت 47.5ارب روپے،واٹر سپلائی اینڈ سینی ٹیشن 22.4ارب روپے، سوشل ویلفیئر کے بجٹ کا حجم1ارب روپے، ویمن ڈویلپمنٹ80کروڑ روپے رکھے گئے ہیں،جبکہ 2017-18ء کے بجٹ میں ن لیگ نے تعلیم، صحت، واٹر سپلائی اور سیوریج، ویمن ڈیولپمنٹ اور سوشل ویلفیئر کے لئے مجموعی طور پر 201 ارب 63 کروڑ روپے مختص کیے تھے، جوکہ موجودہ حکومت نے 80ارب کم رکھے ہیں،لیکن پی ٹی آئی کی پنجاب حکومت کا کہنا ہے کہ ہمارا تعلیم اورصحت کا بجٹ گزشتہ حکومت سے 8.4 فیصد زیادہ ہے،حکومت نے تعلیم کیلئے 382.9 ارب،صحت 308.5 ارب ،صحت کارڈ کیلئے 2 ارب روپے رکھے او 9بڑے شہروں میں ہسپتال بھی بنائے جائیں گے، حکومت نے عزم کیا کہ پنجاب بھر میں 63 کالجز مکمل کرنے ، 68 کالجوں میں عدم سہولیات کی فراہمی اورہرضلع میں کم از کم ایک یونیورسٹی جبکہ ہر تحصیل میں الگ الگ بوائز اور گرلز ڈگری کالج بنائے جائیں گے۔

پی ٹی آئی اورن لیگ کے آخری تعلیمی بجٹ کا جائزہ لیں توپی ٹی آئی نے تعلیم کیلئے کل بجٹ کا تقریباً17مختص کیا ، پی ٹی آئی کا تمام تعلیمی شعبوں کا ترقیاتی بجٹ ن لیگ کے مقابلے میں صرف سکول ایجوکیشن ڈیپارٹمنٹ سے بھی کم ہے۔
ن لیگ نے 2016-17ء کے کل بجٹ 1681ارب میں تعلیم کیلئے312ارب روپے رکھے جو کل بجٹ کا 18.6فیصد بنتا ہے،دانش سکول، لیپ ٹاپ اسکیم، پنجاب انڈوومنٹ فنڈ ، ہسپتالوں میں مفت ادویات کی فراہمی کیلئے رقم مختص کی گئی، اسی طرح نئی کاروباری فرموں کے لئے ہرقسم کی رجسٹریشن فیس کو ختم کی گئی،اپنا روزگار سکیم کے تحت 50 ہزار بے روزگار نوجوانوں کو ییلوکیب کیلئے 35 ارب مختص کیے گئے،جس کا موجودہ حکومت کے بجٹ میں کوئی ذکر نہیں۔

اسی طرح انفرا سٹراکچر ڈویلپمنٹ جس میں سڑکوں،آبپاشی،توانائی، پبلک بلڈنگ اوراربن ڈویلپمنٹ کا ترقیاتی بجٹ87.7ارب روپے مختص ہے، جو کہ انتہائی کم رقم ہے،2017-18ء کے بجٹ میں ن لیگ نے صرف توانائی اور آبپاشی کے لئے 59 ارب 17کروڑ روپے مختص کئے۔پروڈکشن سیکٹرجو پی ٹی آئی حکومت کابرآمدات بڑھانے کا ذریعہ ہے،پروڈکشن سیکٹر جن میں زراعت، جنگلات، وائلڈ لائف، فشریز، فوڈ، لائیو سٹاک اینڈ ڈیری ڈویلپمنٹ، انڈسٹریز کامرس اینڈ انوسمنٹ، مائنزانڈ منرلز اور ٹور ازم کے ترقیاتی بجٹ کا حجم صرف34.5ارب روپے ہے۔

ٹرانسپورٹ کا مسئلہ کافی حد تک ن لیگ کے دور میں حل ہوچکا تھا، ن لیگ کے دور میں میٹروبسز، انٹرسٹی ٹرانسپورٹ چلائی گئی، جبکہ اورنج لائن ٹرین میگاپراجیکٹ تعمیر کے آخری مراحل میں ہے،لہذا ٹرانسپورٹ کے شعبے کی بہتری کیلئے 71 کروڑ روپے رکھے گئے، موجودہ حکومت نے میٹروبس پر 9ارب میں تقریباً2ارب سبسڈی کم کردی ہے،اور 10روپے کرائے میں اضافہ بھی کردیا ہے۔

سرکاری ملازمین کی تنخواہوں کا ن لیگ کے دور سے موازنہ کیا جائے توپی ٹی آئی نے آئندہ مالی سال کے بجٹ میں گریڈ16 تک کے ملازمین کی تنخواہوں میں 10 فیصد، گریڈ 17 سے گریڈ 20 تک کیلئے 5 فیصد اضافے کا اعلان کیا،جبکہ گریڈ 21 اور 22 کے ملازمین کی تنخواہ نہیں بڑھائی گئی، ریٹائرڈ ملازمین کی پنشن میں 10 فیصد اضافہ کیا گیا،تاہم بجٹ کو مشکل حالات کا بجٹ قراردیتے ہوئے وزیراعلیٰ اور صوبائی وزرا کی تنخواہوں میں 10 فیصد کمی کی گئی، اس کے برعکس ن لیگ کے 2017-18ء کے بجٹ میں تمام سرکاری ملازمین کی تنخواہوں میں ایڈہاک الاؤنس 2010 ء کو ضم کرنے کے بعد 10 فیصد اضافہ کیا گیا،جبکہ محکمہ تعلیم میں 9 ارب کے سالانہ پیکیج سے گریڈ9سے 16کے تقریباً3 لاکھ سے زائد اساتذہ کو اپ گریڈ کیا گیا۔

اسی طرح پنجاب بجٹ میں نئے پروگرام بھی شروع کیے گئے، جن میں ’ہم قدم اور احساس پروگرام ‘ کے ذریعے یتیموں اور بیواؤں کوماہانہ 2ہزار وظیفہ دیا جائے گا، ٹورازم اتھارٹی کے قیام،نوجوانوں کو بلاسود قرضے دینے،اور 3 ارب سے باہمت بزرگ پروگرام کا فیصلہ بھی کیا گیا، خواتین کو معاشی خود مختار بنانے کیلئے 7 ارب کی لاگت سے پانچ سالہ منصوبے کا آغاز کیا جارہا ہے،5شہروں میں پہلی بار ماسٹرپلاننگ کیلئے ایک ارب 54 کروڑ روپے مختص کیے گئے، تین مراحل میں ایک لاکھ ستر ہزار مکانات کی تعمیرحکومت کے اچھے اقدامات ہیں۔

پنجاب زرعی صوبہ ہے ، جس کے تحت 5سالوں پر محیط125 ارب(25کروڑ سالانہ) کے زرعی پیکیج کا اعلان کیا گیا،جو کہ پچھلے برس کی نسبت 100 فیصد زائد اضافہ ہے،زرعی شعبہ کیلئے مجموعی طور پر 40 ارب 76 کروڑ روپے مختص کیے گئے ہیں،کھادوں اور بیجوں پر سبسڈیز ای کریڈٹ اور فصل بیمہ پروگرام کیلئے 7 ارب 85 کروڑ روپے تجویز کیے گئے ہیں، شجر کاری مہم کے تحت3 ارب 43 کروڑ روپے سے 5سالوں میں 55 کروڑ درخت لگانے کا پروگرام تیار کیا ۔

اسی طرح 50 لاکھ گھروں کی تعمیر اور ایک کروڑ نوکریاں تحریک انصاف کے منشور کا اہم حصہ ہے، اسی نعرے پر تحریک انصاف نے انتخابی مہم بھی چلائی، کیونکہ گھروں کی تعمیر کا عمل نوکریوں اور 40صنعتوں کے چلانے سے جڑا ہوا ہے،لیکن وفاقی بجٹ کے بعد پنجاب حکومت نے بھی اپنے بجٹ میں نیا پاکستان ہاؤسنگ اسکیم کو اہمیت نہیں دی،پنجاب ہاؤسنگ اینڈ ٹاؤن پلاننگ ایجنسی کو لاہور اور گوجرانوالہ میں اراضی کے حصول کو مزید اگلے تین سالوں کیلئے لٹکا دیا ہے۔

لاہور میں موہلنوال میں128ایکڑ اراضی 93 کروڑ 70لاکھ روپے سے خریدی جانی تھی، بجٹ میں اس کیلئے صرف 20 کروڑ روپے مختص کیے گئے۔گوجرانوالہ میں اراضی کیلئے صرف8 کروڑ 52 لاکھ مختص کیے،216 ایکڑ اراضی 80 کروڑ سے خریدی جانی ہے، جبکہ باقی رقم اگلے مالی سالوں میں رکھی جائے گی۔
دوسری جانب اقتصادی لحاظ سے دیکھا جائے توپنجاب حکومت کے بجٹ سے عام آدمی کیلئے ضروریات زندگی اور علاج معالجہ پہنچ سے باہر ہوجائے گا۔

بجٹ میں جیولرزاورالیکٹرانک اشیاء والے اسٹورز پر2ہزارماہانہ،نئی فرنچائززاور ڈیلرز پر 5ہزار ٹیکسزماہانہ عائد کرنے کی تجویز ہے،وکلاء پر ایک ، منی چینجرزپر6اور موٹرسائیکل ڈیلرز پر ہرماہ 10ہزار ٹیکس لگانے،اور 5سے 10کروڑ رکھنے والی کمپنی کیلئے سالانہ 70ہزار ٹیکس رکھنے کی تجویز ہے۔
میونسپل کارپوریشن کی حدودمیں ہومیوپیتھک اورحکماء ،ڈاکٹروں، درزیوں، فیشن ڈیزائنر پر بھی ٹیکس عائد کردیے گئے ہیں۔

اقتصادی ماہرین کی جمع تفریق سے پتا چلتا ہے کہ نئے ٹیکسوں سے اشیائے خوردونوش چینی، گھی، چائے ،کوکنگ آئل ،دالوں ودیگر کی قیمتیں 17فیصد بڑھ جائیں گی،جس سے لوئرمڈل کلاس پر45 ہزارروپے تک کے اخراجات کاسالانہ بوجھ مزیدبڑھ جائے گا،حکومت کے پاس غریبوں اور سفیدپوش طبقے کو ریلیف فراہم کرنے کا بہترین فارمولہ ڈالر کی قدرکو گرانے اورروپے کو طاقتوربنانے کاہے،اس وقت ڈالر اوپن مارکیٹ میں 156تک پہنچ گیا ہے،لہذا ڈالر کو نیچے لاکر عوام کو ریلیف بھی فراہم کیا جاسکتا ہے اور قرضوں کی قسطوں کے حجم کو بھی کم کیا جاسکتا ہے۔

تاہم حکومت نے بجٹ میں پارٹی منشور پرپورااترنے کی پوری کوشش کی ہے پنجاب حکومت بجٹ میں کس قدر عوامی توقعات پر پورا اترنے میں کامیاب ہوگی،اس کا تعین مستقبل قریب میں جلد ہوجائے گا۔

ادارہ اردوپوائنٹ کا کالم نگار کی رائے سے متفق ہونا ضروری نہیں ہے۔

تازہ ترین کالمز :