”نسوار“ مضرصحت، فضائی سفر پر پابندی عائد

پیر 15 جولائی 2019

Sanaullah Nagra

ثناء اللہ ناگرہ

دنیا میں زیادہ ترنشہ آور مصنوعات اورمنشیات کا استعمال امریکا اوریورپ سے شروع ہوا، منشیات کی4بڑی اقسام ہیں، جن میں کوکین،شراب،ہیروئن اور ہالوسینوجن (Hallocinogens,LSD)شامل ہیں،ان کا شماربالترتیب دنیا کی مہنگی ترین منشیات میں ہوتا ہے،باقی منشیات میں تمباکو نوشی،افیون، بھنگ وغیرہ شامل ہیں،تمباکوسگریٹ، سگار،نسوار،پان اور حُقے میں استعمال ہوتا ہے، لوگ عموماًتمباکو نوشی کاآغاز فیشن کے طور پر کرتے ہیں،لیکن بعد میں عادی ہوجاتے ہیں، تمباکو میں شامل ایک کیمیکل نکوٹین وقتی طور پرانسان کو متحرک اور ذہنی سکون فراہم کرتی ہے،نکوٹین سے دماغ ڈوپامائن (dopamine) نامی ہارمون خارج کرتا ہے جس سے تمباکوشی کا عادی شخص بڑا سکون محسوس کرتا ہے،اور جلد ہی یہ نکوٹین انسانی دماغ اوررویے کو کنٹرول کرنے لگتی ہے،نکوٹین نہ لینے کی صورت انسان کو چڑچڑا پن، کمزوری، بے چینی اور دیگر کئی مسائل کا سامنا ہوتا ہے، جس سے عادی لوگ سگریٹ،نسوار، پان کا استعمال وقفے وقفے سے کرتے رہتے ہیں، تمباکونوشی کا استعمال البتہ مضرصحت قراردیا گیاہے ۔

(جاری ہے)

لیکن دوسری منشیات کی طرح قانونی لحاظ سے ممنوعہ یا سنگین جرم نہیں ہے،اس لیے تمباکو نوشی سے بنی مصنوعات کی نہ صرف خریدوفروخت عام ہے بلکہ لوگ اپنے گھروں ،پبلک مقامات اور دفاترز میں بھی دوران ڈیوٹی استعمال کرتے رہتے ہیں،تمباکو نوشی چونکہ مضرصحت ہے اس لیے پچھلے کچھ سالوں سے دیگر ممالک کی طرح پاکستان میں بھی تمباکونوشی کے تدارک کیلئے مہم چلائی جا رہی ہے،تاکہ لوگوں کو اس سے متنفر کیا جاسکے۔

مشرق وسطیٰ کے تمام عرب ممالک نے نسوار کو باقاعدہ قابل جرم منشیات کی فہرست میں شامل کرلیا ہے،جس پرپاکستان سول ایوی ایشن اتھارٹی اور اینٹی نارکوٹکس فورس پنجاب نے نسوارکے ساتھ فضائی سفر کو جرم قراردے دیا ہے،مئی 2019ء میں عراق میں پاکستانی سفارتخانے کے کمیونٹی اتاشی نے ڈی جی سول ایوی ایشن کو خط لکھا کہ عراق میں نسوار کا استعمال جرم ہے،وہاں پچھلے متعدد پاکستانیوں کو گرفتاربھی کیا گیا تھا، اب تقریباًتمام عرب ممالک میں نسوار کا استعمال قابل سزاجرم ہے،لہذا پاکستان کے تمام ایئرپورٹس پر انتباہی بینرزآویزاں کیے گئے ہیں کہ ”مشرق وسطیٰ کے تمام ممالک نے نسوار کومنشیات کی فہرست میں شامل کردیا ہے،اگر ان ممالک میں پہنچ کرکسی مسافر کے سامان سے نسوار برآمد ہوئی توسخت سزا دی جائے گی“ اے این ایف نے حجاج کرام کیلئے بھی باقاعدہ مہم کا آغاز کردیا ہے،حجاج کرام کو بھی نسوار ساتھ لے جانے کی ہرگز اجازت نہیں ہوگی۔

 تمباکو نوشی کی مصنوعات میں اگر” نسوار “کا جائزہ لیا جائے توپاکستان میں نسوار پشتونوں کی ثقافت یا ان کی ایجاد تصور کی جاتی ہے، لیکن ایسا لاعلمی کی بنیاد پر سمجھا جاتا ہے،ہاں یہ کہا جاسکتا ہے کہ پشتونوں میں نسوار کا استعمال دوسرے لوگوں کی نسبت بہت زیادہ ہے،اور پاکستان میں نسوار کا رواج اور پھیلاؤ پشتونوں کی وجہ سے ہوا،کیونکہ پشتونوں کا ملک کے ہر علاقے میں کاروبار اور محنت مزدوری کیلئے آنا جانا رہتا ہے،لیکن دنیا میں امریکا کی دریافت اور نسوار کی ایجادایک ساتھ ہوئی ہے،1493-96ء میں ہیٹی میں کولمبس کے امریکہ دریافت کرنے کے سفر کے دوران رومن پین(RamonPane)نامی راہب نے ایجاد کیا،کولمبس کے ساتھیوں نے دیکھا کہ مقامی ریڈ انڈینز ایک پودے کے پتوں کا رول بنا کر اس کے اگلے سرے کوسلگا کر دھواں اندر کھینچتے ہیں جبکہ کچھ لوگ پتوں کو منہ میں رکھ کرچباتے رہتے ہیں، یوں کولمبس نے باقی دنیا میں بھی تمباکونوشی کومتعارف کروادیا۔

تمباکو کی اقسام میں نسواردرجہ بندی میں“نکوٹینا“ خاندان سے تعلق رکھتی ہیں،انگریزی کا لفظ Nicotinaیا Nicotineجین نکوٹ کے اعزاز میں رکھا گیا ،پرتگال میں فرانسیسی سفیرنے اپنے بیٹے کی بیماری کو جواز بنا کرپہلی بار 1561ء میں اس کو عدالت کے سامنے بطور ’دوا‘ متعارف کروایا تھا،17ویں صدیں میں یورپ میں اس کا استعمال عام ہوا،یورپی ممالک میں سگریٹ نوشی پر پابندی عائد ہوئی تونسوار کا استعمال بڑھ گیا،اسی عرصہ میں کچھ حلقوں سے اس کیخلاف تحریک بھی اٹھی، پوپ اربن سیون نے لوگوں کو خریداری پر دھمکیاں دیں، اسی طرح روس میں 1643ء اور چین میں 1638ء میں پوری طرح نسوار کی مصنوعات پوری طرح پھیل گئی تھیں، 18 ویں صدی تک نسوار کو پسند کرنے والوں میں نپولین بانو پارٹ، کنگ جارج تھری کی ملکہ شارلٹ اور پوپ بینڈکٹ سمیت اشرافیہ اور ممتازلوگ شامل تھے، اٹھار ویں صدی میں ہی انگلش ڈاکٹر جان ہل نے نسوار کی کثرت سے کینسر کا خدشہ ظاہر کیاتھا۔

 امریکہ میں نسوار کو عیش وعشرت کی نشانی سمجھا جانے لگا تھا،یوں نسوار پر 1794ء میں پہلا وفاقی ٹیکس لگایا گیا،اٹھارویں صدی میں جینٹل ویمن نامی میگزین میں پرتگالی نسوار کی اقسام اور استعمال کے مشورے شائع ہوئے،ہندوستان میں کاروباری اور تجارتی غیر ملکی کمپنیوں نے یہ مصنوعات متعارف کروائی،یوں پاک و ہند میں بھی اس کا استعمال پھیل گیا۔

ہمارے خطے میں نسوار کا زیادہ تراستعمال افغانستان،پاکستان،بھارت،ایران،کرغزستان،تاجکستان،ترکمانستان میں ہوتا ہے،ترکمانستان نے نسوارکے کاروبار پر 2008 ء میں پابندی لگا دی، قازقستان حکومت نے 2011 ء میں نسوار کو ہیروئن کی طرح خطرناک قرار دے کرمکمل پابندی عائد کردی ۔ ایک رپورٹ کے مطابق پاکستان اور افغانستان میں ایک ہفتے میں کروڑوں روپے کی نسوار استعمال کی جاتی ہیں،سرکاری اعدادوشمار کے مطابق پاکستان میں خیبرپختونخواہ میں70سے 80فیصدسے زائد لوگ نسوار کا استعمال کرتے ہیں،نسوار کی یہ ایک بڑی مارکیٹ ہے، جہاں سالانہ6بلین سے زائدکی نسوار فروخت ہوتی ہے،اسی طرح اسلام آباد،شمالی اورسرائیکی علاقہ جات ،لاہور، کراچی میں سب سے زیادہ استعمال ہوتی ہے،پنجاب ، سندھ، اور بلوچستان کے دوسرے علاقوں میں بھی نسوار کا استعمال کیا جاتا ہے، نسوارچونکہ بغیر دھواں کھائے تمباکو سے نکوٹین لینے کی ایک مثال ہے، اس لیے پاکستان میں سموک لیس تمباکو استعمال کرنے والے مرداورخواتین کی تعداد35فیصد سے زائد ہے۔

 نسوار، پان یا سگریٹ کے ذریعے تمباکو نوشی منہ، حلق ،پھیپھڑوں کے کینسر اور معدے کی تیزابیت کاباعث بنتی ہے، آج کل نکوٹین کے پیچز ملتے ہیں جنہیں جسم کی جلد پر کہیں بھی چپکاکر نکوٹین کی طلب پوری کی جاتی ہے،لیکن نکوٹین کی زیادہ مقدار جان لیوا بھی ہے، ایک اندازے کے مطابق دنیا بھر میں ایک ارب دس کروڑ افراد تمباکو نوشی کی عادت میں مبتلا ہیں، اقوام متحدہ کے عالمی ادارہ صحت کے مطابق تمباکو نوشی سے سالانہ 8ملین افراد ہلاک ہو جاتے ہیں، اس میں7ملین لوگ پھیپھڑوں کے سرطان، دل کے امراض اور دوسری وجوہات کی بنا پرجبکہ تقریباًڈیڑھ ملین افراد تمباکونوشی کے عادی لوگوں کا چھوڑا ہوادھواں لینے سے مرجاتے ہیں،تاہم تمباکونوشی کا تدارک ممکن ہے،حکومتی سطح پر سخت قوانین بنائے جائیں، بچوں کو شروع سے ہی تمباکو نوشی کے خطرات سے آگاہ کیا جائے، اور عادی افراد کو چاہیے بچوں کے سامنے سگریٹ ،نسوار،یاپان کا استعمال نہ کریں،اقوام متحدہ کے مطابق پچھلی چند دہائیوں میں ترقی یافتہ ممالک میں تمباکو نوشی کی شرح میں کمی جبکہ ترقی پزیر ممالک میں اضافہ بھی ہوا ہے،بیڑہ یانسوار کسی بھی شخصیت کوبدنمااورناپسندیدہ بنا دیتی ہے،نسوار رکھ کر بار بار پڑچ پڑچ تھوکنا پڑتا ہے،جس سے گندگی پھیلتی ہے، ہاتھ منہ گندے بدبو داررہنے سے پاس بیٹھنے والے بھی الجھن محسوس کرتے ہیں، نسوار خوروں کے جگہ جگہ تھوکنے سے دوسرے لوگ بھی تنگ ہوتے ہیں۔

نسوار (Snuff)کیا ہے؟نسوارکاشمارتمباکو کے پتوں سے بنی گہرے سبز رنگ کی ہلکی نشہ آور چیز ہے، نسوار کھانے والا ایک چٹکی کے برابر نسواراپنے زیریں لب اور دانتوں کے درمیان دبا کرنکوٹین کو مزہ لیتا رہتا ہے۔
نسوار کی تیاری کودیکھیں توتمباکو کی فصل جودوسری زرعی اجناس اگائی جاتی ہے،فصل تیار ہونے کے بعد اس کے پودوں کو سوکھنے کیلئے چھوڑ دیا جاتا ہے جس سے اس میں کئی کیمیائی عمل وقوع پذیر ہوتے ہیں،تمباکو کی چبانے،یا کھانے والی مصنوعات میں متعدد کیمیکل اجزاء کینسرکا باعث ہیں،نسوار بھی ارسینک اور نکل سمیت ریڈیواجزاء جس میں پلونیئم،یورینئم،بریلیئم کا مرکب ہے،نسوار تیار کرنے کیلئے تمباکو کے پتوں کو خشک کیا جاتا ہے،خشک پتوں میں حسب ضرورت معیاری چونا، راکھ اور ایک خاص درخت کی گوند ملا کر پتھر کی اوکھلی میں لکڑی کے موٹے موصل سے کوٹ کوٹ کر پانی کے ہلکے چھینٹے لگاکر تیارکی جاتی ہے، تیاری کے بعد پڑیوں یا ڈبیہ میں پیکنگ کی جاتی ہے،نسوار کی موجودہ اقسام میں سبز نسوار اور کالی نسوار کا استعمال عام ہے،سبز نسوار تیار کرنے کیلئے تمباکو کے پتوں کو سایہ دار جگہ پرخشک کیاجاتاہے، کالی نسوار بنانے کیلئے تمباکو کے پتوں کو دھوپ میں سکھایا جاتا ہے،کالی نسوار کے لئے خصوصی تمباکو صوابی سے آتا ہے جس پر حکومت ٹیکس لیتی ہے، چار سدہ اور صوابی میں نسوار کیلئے بہترین تمباکو کی کاشت ہوتی ہے۔

اسی طرح ایک سونگھنے والی نسوار ہوتی ہے،اس کو لال نسوار کہا جاتا ہے،نسوار گھریلوانڈسٹری کی مدد سے بڑے پیمانے پر مشینوں سے بھی تیار کی جاتی ہے،پشاور اور بنوں کی نسوار مشہور ہے ،کراچی اور لاہور میں بھی بڑے پیمانے پر نسوار تیار کی جاتی ہے، لیکن خیبرپختونخواہ کے نسوار خورجو بہت زیادہ عادی ہوتے ہیں، وہ لاہور یا کراچی کی نسوار کو زیادہ پسند نہیں کرتے،جبکہ پشاور اور بنوں کی نسوار کو ہردم تازہ مکھن سے تشبیہ دیتے ہیں،کہ یہاں کی نسوار میں ایک ذرہ بھی زبان میں تلخی پیدا نہیں کرتا،یہ سمجھتے ہیں کہ باقی علاقوں کی نسوار میں ملاوٹ ہوتی ہے۔

پاکستان ٹوبیکوبورڈ کے مطابق پاکستان میں تمباکو کی سالانہ پیداوار 100ملین کلوگرام تک ہے،جس میں 70ملین کلوگرام خیبرپختونخواہ ،34ملین کلوگرام پنجاب اور باقی دیگر صوبوں کی پیداوار ہے،حکومت کو تمباکومصنوعات سے 2014-15ء میں 114بلین اور 2017-18ء میں 87بلین ٹیکس اکٹھا ہوا ہے۔
 حکومت کو چاہیے کہ نسوار کی تیاری،پیکنگ اور خریدوفروخت کیلئے سگریٹ کی طرح قانونی قواعدوضوابط بنائے،پاکستان میں زیادہ ترتیارہونے والی نسوار گھریلو صنعتوں کا درجہ رکھتی ہے،لوگ اپنے طور پر اس کو تیار کرتے ہیں اور ڈبیہ یاپڑیابناکر فروخت کرتے ہیں،نسوار کی تیاری گھریلوسمال انڈسٹریز، گھریلویونٹس میں ہی تیاری کیوں نہ کی جائے لیکن قانونی طور پرپابندی ہونی چاہیے کہ نسوار کی تیاری میں تمام قواعدوضوبط کو ملحوظ خاطر رکھا جائے،اور نسوار کی پیکنگ بھی سگریٹ کی طرز پر ایسی ڈبیہ میں کی جائے جس پر لوگوں کیلئے مضرصحت آگاہی پیغام بھی درج ہو،حکومت نسوار کی تیاری سے فروخت کے تمام مراحل کو قانونی شکل دے کرکثیرزرمبادلہ کما سکتی ہے،مثال کے طور پرروزانہ کی بنیاد پر اگر20لاکھ لوگ نسوار استعمال کرتے ہیں،اورنسوار کے ایک پیکٹ کی قیمت10سے 15روپے ہے،توسالانہ 7ارب 20کروڑ سے 10ارب 80کروڑ بنتے ہیں،حکومتی سطح پر نسوار کو منافع کمانے والی فیکٹری کا باقاعدہ درجہ حاصل نہیں،اس لیے درست اعدادوشمار کا اندازہ لگانا مشکل ہے،لیکن اگر حکومت اس کیلئے باقاعدہ قواعدوضوابط بنادے تو نہ صرف بڑا منافع کما سکتی ہے،بلکہ لوگوں کی زندگیاں بھی محفوظ ہوسکتی ہیں۔

ادارہ اردوپوائنٹ کا کالم نگار کی رائے سے متفق ہونا ضروری نہیں ہے۔

تازہ ترین کالمز :