متفقہ نظام حکومت ہی معاشی ترقی کا زینہ ہے

ہفتہ 18 مئی 2019

Sanaullah Nagra

ثناء اللہ ناگرہ

پاکستان دنیا کا واحد ایٹمی ملک ہے جہاں پارلیمانی نظام، صدارتی نظام اور مقامی حکومتوں یا بلدیاتی نظام پر کئی بار تجربات کیے جاچکے ہیں،ایٹمی قوت کے حامل امریکا، روس، چین، برطانیہ، فرانس ،بھارت اور شمالی کوریاکو دیکھیں توپتا چلتا ہے کہ ان ممالک کی معاشی ترقی کا راز کسی ایک نظام پرٹھہرنے میں ہی پوشیدہ ہے،نظام صدارتی ہو،پارلیمانی ہو،یامقامی حکومتوں کا نظام ہو، اس کو بہتربنانے کیلئے آئین یا قانون میں ترامیم توکی جاسکتی ہیں لیکن یہ ممکن نہیں کہ پورے کا پورا نظام اٹھا کرپھینک دیا جائے،پھر اس کے متوازی ایک نیا نظام کھڑا کردیا جائے۔


مگرافسوس!70سال گزرگئے ،مقتدرقوتیں تاحال کوئی ایسانظام رائج نہیں کرسکیں،جو نہ صرف طویل المدتی ہو،بلکہ اس پرسیاسی جماعتوں اور تمام اسٹیک ہولڈرز کا اتفاق رائے بھی ہو،پاکستان کی معاشی بدحالی،سیاسی عدم استحکام ،کرپشن بدعنوانی،انصاف کا ناقص نظام،اداروں میں امیر غریب کے درمیان امتیازی سلوک کا ہونا،نچلی سطحوں پر عوام کی محرومیاں،چندشہروں یا علاقوں کے سواباقی کاپسماندہ ہونا،بنیادی تعلیم وصحت کی سہولیات کی عدم فراہمی ،یہ سب اسی وجہ سے ہے کہ ہمارے ہاں کوئی سسٹم نہیں ہے،پاکستان کی تاریخ کودیکھیں توواضح ہوتا ہے کہ پاکستان میں وقفے وقفے سے کچھ سالوں کیلئے مارشل لاء ،یعنی جمہوری لب ولہجے میں آمرانہ یا ڈکٹیٹرشپ کانظام قائم رہا،دراصل یہ صدارتی نظام ہی رہا ہے،جس میں پارلیمان برائے نام رہی،اختیار ات صدر کے پاس رہے،ان میں جنرل ایوب خان،جنرل ر یحیٰ خان،جنرل رضیاء الحق اور جنرل پرویزمشرف کا دور قابل ذکر ہے۔

(جاری ہے)

کچھ عرصے کیلئے بانی پیپلزپارٹی ذوالفقار بھٹو نے بھی کچھ عرصے کیلئے صدارتی نظام کے قائم رکھا،1973ء کے آئین کے بعد پارلیمانی نظام قائم کیا، جبکہ کچھ عرصے کیلئے جمہوری یا پارلیمانی نظام قائم رہا، فیلڈمارشل صدرایوب خان نے مشرقی اور مغربی پاکستان کیلئے 44ہزار بلدیاتی نمائندوں کا نظام متعارف کروایا،لوکل گورنمنٹ ایکٹ 1959ء کے تحت 1962ء میں الیکشن کروائے ، بلدیاتی نمائندے ہی صدر مملکت کا بھی انتخاب کرتے تھے،مطالعہ سے پتا چلتا ہے کہ صدر ایوب خان کومغربی پاکستان اور محترمہ فاطمہ جناح کومشرقی پاکستان میں اکثریت حاصل تھی،لیکن بلدیاتی عوامی نمائندے افسرشاہی کے ماتحت تھے ،لہذاکمشنرزنے اپنا اثرورسوخ دکھایا اور عوامی مقبولیت کی حامل محترمہ فاطمہ جناح کو الیکشن ہرا دیا،لیکن ایوب خان کے ساتھ ہی ان کانظام ختم ہوگیا،پھردوسرا مارشل لاء جنرل(ر)یحیٰ خان نے لگایا،یحیٰ خان نے لیگل فریم ورک آرڈر1970ء جاری کیا،اس کے بعد بانی پیپلزپارٹی ذوالفقار بھٹو کا دور شروع ہو،انہوں نے 1972ء میں پیپلزآرڈیننس جاری کیا،1973ء میں تمام اسٹیک ہولڈرز،سیاسی قوتوں نے ملکرپاکستان کاپہلا مکمل آئین تشکیل دیا،جس کے تحت پاکستان میں پارلیمانی جمہوری نظام قائم ہوگیا،یوں پارلیمنٹ سپریم ادارہ بن گیا۔

جنرل (ر)ضیاء الحق نے77ء میں مارشل لگایا اور 1979ء میں لوکل گورنمنٹ آرڈیننس کے تحت بلدیاتی نظام رائج کیا،اس کے بعد 90ء اور 98ء میں بھی بلدیاتی انتخابات ہوئے، 12اکتوبر 1999ء میں جنرل(ر)پرویز مشرف نے مارشل لاء لگایا اور 2001ء میں لوکل گورنمنٹ سسٹم رائج کیا،ماضی اور حال میں مقامی حکومتوں یا نچلی سطح پرعوام کواختیارات کی منتقلی کے نظام کودیکھاجائے توپرویز مشرف کے رائج کردہ نظام بہتر کہا جاسکتا ہے،جس کے تحت غیرجماعتی بنیاد پرناظم ،نائب ناظم یونین کونسلزکے براہ راست انتخابات کروائے گئے اور ناظم ،نائب ناظم تحصیل، اور ضلعی ناظم اور نائب ناظم کو بلواسطہ منتخب کروایا گیا،ان منتخب عوامی نمائندوں کے ماتحت سرکاری ایڈمنسٹریشن جس میں یونین انتظامیہ ، تحصیل میونسپل آفیسر اور ڈی سی اوزکو رکھا گیا،تاہم اس نظام میں کچھ خرابیاں تھیں ان کومشاورت کے ساتھ دورکیا جاسکتا تھا،لیکن مسلم لیگ ن کی پنجاب حکومت نے لوکل گونمنٹ ایکٹ 2013ء جاری کیا، جس میں ناظمین کی جگہ چیئرمین متعارف کروائے گئے،ڈی سی اوز کی جگہ کمشنرز،ڈپٹی کمشنرلگائے دیے گئے،بلدیاتی نمائندوں کواختیارات بھی منتقل نہیں کیے گئے،ترقیاتی فنڈز بھی ارکان اسمبلی کے ہاتھ میں دیے گئے،یوں بلدیاتی نظام غیرفعال رہا،پرویز مشرف کے نظام میں ڈی سی اوزعوامی نمائندوں کے ماتحت جبکہ یہاں ڈی سی صرف وزیراعلیٰ کو جواب دہ ہے،پرویز مشرف نے ناظمین کیلئے تعلیمی اہلیت میٹرک رکھی،اسی طرح اب تحریک انصاف کی پنجاب حکومت نے خیبرپختونخواہ کو کاپی کرتے ہوئے پنجاب کا لوکل گونمنٹ ایکٹ 2019ء رائج کردیا ہے۔

پی ٹی آئی کا بلدیاتی نظام عوامی مسائل حل کرنے کا ذریعہ بنے گا ،یہ تووقت بتائے گا،لیکن اپوزیشن کے ساتھ حکومتی کی اتحادی جماعت مسلم لیگ ق کا لوکل گورنمنٹ ایکٹ پر تحفظات کا اظہارکرنا ثابت کرتا ہے کہ تحریک انصاف نے یہ نظام عجلت میں تیار کیا ہے،ابھی ن لیگ کے بلدیاتی نمائندوں کی مدت پوری نہیں ہوئی کہ نئے نظام کا گورنر پنجاب نے گزٹ جاری کردیا،تشویش کی بات یہ ہے کہ حکومت کو نیابلدیاتی نظام رائج کرنے میں اتنی جلدی کیوں؟ ابھی توپی ٹی آئی کی پنجاب حکومت کو صرف 8ماہ ہوئے ہیں،جبکہ حکومت کالمبا عرصہ باقی ہے،پھر جلدبازی اور عجلت میں بلدیاتی نظام کیوں رائج کیا گیا؟صدارتی نظام کی افواہیں اور اہم وزارتوں میں ٹیکنوکریٹ کی تعیناتیاں ،شکوک وشبہات سے بھرے سوالات دال میں کچھ کالا ہے،کیا صدر ایوب خان کا طرزعمل تونہیں اپنایا جائے گا؟البتہ وزیراعظم عمران خان صدارتی نظام کورائج کرنے اور 18ویں ترمیم کو رول بیک کرنے کی ہرفورم پر تردید کرچکے ہیں،لیکن ان کے بعض قریبی رفقاء اور تجزیہ کاروں کے نزدیک عمران خان خود اسمبلیاں توڑ دیں گے،کیونکہ ابھی تک موجودہ پارلیمنٹ قانون سازی اور عوامی مسائل حل کرنے میں ناکام رہی ہے،اگر اسمبلیاں توڑ دی جاتی ہیں،حکومت تحلیل ہوجاتی ہے، توپھر آئے گا کون؟شریف فیملی اورزرداری فیملی کو توسیاست سے آؤٹ قراردیا جارہا ہے۔

سابق وزیراعظم نوازشریف کی جیل واپسی سے قبل ن لیگ میں اکھاڑ پچھاڑ کی گئی، اور مریم نوازنائب صدرکاسیاسی عہدہ دے کرسیاست میں متعارف کروادیا ہے، اب مریم نوازکو الیکشن جتواء کرپارلیمنٹ کا حصہ بھی بنایا جاسکتا ہے،آصف زرداری کے صاحبزادے چیئرمین پی پی بلاول بھٹو پہلے ہی رکن قومی اسمبلی ہیں،سربراہ جے آئی ف مولانا فضل الرحمن کارکنان کو حکومت کیخلاف کسی بڑی تحریک کیلئے متحرک کررہے ہیں،بجٹ سیشن کے دوران یا فوری بعد اپوزیشن جماعتیں حکومت کیخلاف پارلیمنٹ کے اندراور باہر احتجاجی تحریک چلا سکتی ہیں،بجٹ سے صرف سے چارپانچ ماہ قبل اسد عمر کے بعد حفیظ شیخ کی مشیرخزانہ تقرری،چیئرمین ایف بی آر اور گورنراسٹیٹ بینک کی تعیناتیوں سے ظاہر ہے کہ حکومت معاشی پلان بنانے اور عوام کومہنگائی کی مد میں ریلیف دینے میں ناکام ہے۔

بجلی ، گیس ،پٹرولیم مصنوعات کی قیمتوں میں اضافے نے عوام کی زندگی اجیرن بنا دی ہے،بجٹ میں مزید مہنگائی کا طوفان آنے کو ہے،اس میں کوئی شک نہیں وزیراعظم عمران خان عوام کو ریلیف دینے اور سیاسی ومعاشی استحکام کیلئے کوشاں ہیں،عمران خان کی محنت اپنی جگہ ،کپتان کی ٹیم میں ناتجربہ کاراور نااہل لوگوں نے پالیسیوں کو ناکام بنانے میں کوئی کسر نہیں چھوڑی۔

وزیراعظم عمران خان کی طرف سے نیا بلدیاتی نظام بھی عوام کو نچلی سطح تک بنیادی سہولیات کی جانب اقدام ہے، نئے نظام کے تحت 2سطحوں پر انتخاب ہوگا،ویلج کونسل اور تحصیل کی سطح پربراہ راست انتخابات ہوں گے،بڑے شہروں میں میئربراہ راست منتخب کیے جائیں گے اوران کواپنی ٹیکنوکریٹ کی ٹیم تشکیل دینے کا اختیار بھی حاصل ہوگا،22ہزار پنچائت کو40ارب فنڈ ملیں گے،ویلج کونسل کاسالانہ ترقیاتی بجٹ 110ارب ہوگا۔

اپوزیشن لیڈرحمزہ شہبازنے نئے بلدیاتی نظام کوعدالت میں چیلنج کرنے کااعلان کیا ہے۔
حکومت کی اتحادی جماعت ق لیگ نے بھی تحفظات کا اظہار کیا، چودھری مونس الٰہی نے کہا کہ خیبرپختونخواہ کے نظام کو پنجاب میں کاپی پیسٹ نہیں کیا جاسکتا،چارہزاریونین کونسلز،چوبیس ہزار ویلج کونسل اور بائیس ہزار پنجائت بھی ہوں گی،لہذانئے ڈھانچے سے انتظامی اخراجات 6گنا بڑھ جائیں گے، لہذا حکومت اورمقتدرقوتوں کو چاہیے کہ ملک میں صدارتی نظام،پارلیمانی نظام ،یا مقامی سطح پر بلدیاتی نظام رائج کرنا کوئی بڑا مسئلہ نہیں ہے،چیلنج یہ ہونا چاہیے کہ جونظام بھی رائج کیا جائے ،اس نظام کے طویل المدتی اور دورس نتائج کیلئے حکومت ،تمام سیاسی جماعتوں اور اسٹیک ہولڈرزکا اتفاق رائے ہونا چاہیے،تاکہ حکومتی نظام کا تسلسل برقراررہ سکے،اور یہ تماشاہمیشہ کیلئے ختم ہونا چاہیے کہ ہر آنے والی نئی حکومت اپنا نظام اور قوانین نافذکرسکے،بلکہ جو حکومت بھی اقتدار میں آئے وہ پچھلی حکومتوں کے تسلسل کوبرقراررکھے اور اسی نظام کو مزید بہتربناتے ہوئے نچلی سطح سے لیکر اوپرتک ملک کے معاشی، خارجی ،داخلی،دفاعی اور عوامی مسائل کو حل کرنے کی کوشش کی جانی چاہیے،اگرماضی سے سبق نہ سیکھا تو70سال اور گزر جائیں گے ،لیکن ملک وقوم کے مسائل شاید حل نہ ہوپائیں۔

ادارہ اردوپوائنٹ کا کالم نگار کی رائے سے متفق ہونا ضروری نہیں ہے۔

تازہ ترین کالمز :