صاحبزادہ خورشید گیلانی

بدھ 10 جون 2020

Sarwar Hussain

سرور حسین

زندگی کے سفر میں بہت سے لوگوں سے ملاقات ہوتی ہے اور یہ ملاقات ذہن پر وقتی، جز وقتی اوردائمی نقش بناتی چلی جاتی ہے۔کچھ نقش بن ہی نہیں پاتے ، کچھ ذرا دیر کیلئے بنتے اور غائب ہو جاتے ہیں اور کچھ ہمیشہ ہمیشہ کیلئے لوح ِدل پہ نقش ہو کر رہ جاتے ہیں۔شخصیت کے یہ مختلف النوع اثرات کا تعلق دراصل ان لوگوں کے کردار سے ہوتا ہے جن سے ہم ملتے ہیں۔

صاحبزادہ خورشید گیلانی بھی ان معدودے چند لوگوں میں سے تھے جن کی صحبت کے رنگ جازب نظر ہونے کے ساتھ ساتھ بہت پختہ اور دلآویز بھی تھے۔ان سے میری ملاقات ان کے کالم ”قلم برداشتہ“ کے ذریعے ہوئی۔نثر میں روانی ہر قلمکار کا مقدر نہیں ہوتی،،لفظوں کے ربط باہم سے موسیقیت پیدا کر دینا ہر کسی کے حصے میں نہیں آتا، جملوں کی ترتیب اور بناوٹ سے نغمگی کشید کرنا ہر کس و ناکس کا کام نہیں ہوتااورپیرا گراف کی لہروں سے ترنم ریزی تخلیق کر دیناہر کسی کے بس کی بات نہیں ہوتی۔

(جاری ہے)

زمانہء طالب علمی میں ہی کالج کی لائبریری میں ان کا کالم دیکھنا اوراسے دیوانگی سے پڑھنا معمول کا حصہ تھا۔ایک تقریب میں اعلیٰ حضرت کی ایک نعت ”پھر کے گلی گلی تباہ ٹھوکریں سب کی کھائے کیوں“ سے یہ اجنبیت آشنائی میں بدل گئی۔ان کا بڑا پن تھا کہ میرے جیسے طالب علم کو انہوں نے اپنے حلقہ میں ہونے والی ایک فکری نشست میں مدعو کیا۔اپنا رسالہ ”تسخیر“ عطا کیا اورپھر یہ مستقل میرے پتے پر آنے لگا جس کے سرورق پر ان کے ادارئیے کا کوئی اقتباس موجود ہوتا جسے پڑھ کر طبیعت سرشار ہو جاتی۔

نوائے وقت کے ایک نعتیہ مشاعرے میں راقم نے پہلی بار بطور نعت گو شرکت کی جس میں وہ بھی بطور مہمان جلوہ گر تھے۔میرے ایک شعر ”کیوں تشنہ لب رہوں گا کیوں نار میں جلوں گا، کوثر مرے نبی کا، جنت مرے نبی کی“پر ان کے چہر ے پر پھیلنے والے تبسم اور محبت بھری نظرکی برکت کی روشنی آج بھی میرے فکر و فن میں اجالا کئے رکھتی ہے۔بات آگے بڑھی اور لاہور میں ہونے والی مرکزی تقریبات میں ان سے ملاقات ہونا معمول کی بات بنتی گئی۔

انہیں کبھی لوگوں کو اپنے علمی و فکری مقام و مرتبے سے مرعوب کرتے نہیں بلکہ اپنے کردار کی عظمت اوراحترام و محبت سے قریب کرتے دیکھا۔ بلا شبہ وہ ایک جامع الصفات شخصیت کے مالک تھے جو بیک وقت ایک باکمال ادیب، بے مثال خطیب،صاحب علم مبلغ،بالغ نظر مفکر،ایک باعمل و باکرادار صوفی اورخدا داد صلاحیتوں کے حامل منتظم تھے۔ تمام مکاتب فکر کی معتبر شخصیات کو مسلکی اختلاف کے باوجود ان کیلئے دیدہ و دل وا کرتے ہوئے دیکھا جس کی مثال اب ناپید ہوتی جا رہی ہے۔

وحدت و احیائے امت مسلمہ کا محض درد ہی نہیں بلکہ وہ اس کیلئے عملی جد و جہد کرنے والے خوش بختوں میں شامل تھے ۔ سیرت النبی کی کوئی تقریب ہو یا علمی ادبی سیمینار، کوئی سنجیدہ سیاسی مذاکرہ ہو یا دینی و روحانی اجتماع،وہ جس جگہ بھی موجود ہوتے مرکز نگاہ ہوتے۔وہ حقیقی طور پہ جہاد قلم کے علمبردار تھے جنہوں نے اپنی عمر سے کہیں زیادہ کام کیا اور مرتے دم تک لفظ و خیال سے رشتہ استوار رکھا۔

ان کی بیماری کے دوران ان کی عیادت کے لئے جناب حفیظ تائب کے ہمراہ جانا اور اس عالم میں بھی ان کا تائب صاحب کیلئے محبت و احترام آج بھی میری یادوں کے دریچوں میں محفوظ ہے ۔ ان کی تحریریں زندگی افروز بھی ہیں اور جذبہء فکر و عمل کیلئے باعث تحرک بھی۔ ان کی کتابیں ہماری نسلوں کو جذبہء حب الوطنی سے سرشار ، دین متین کاغیرت مند سپاہی اور امت مسلمہ کا ایک متحرک داعی بنا سکتی ہیں۔

خورشید گیلانی صاحب کی بہت سی تحریریں اس موضوع پر حرف آخر کا درجہ رکھتی ہیں جس میں سے ایک ”نعت اور لمحہء موجود “ بھی ہے۔نعت اور ادب کا طالب علم ہونے کی حیثیت سے بڑے وثوق سے یہ بات عرض کر رہا ہوں کہ اس موضوع پر اسلوبیاتی اور معنوی اعتبار سے ایسی مربوط اور مرصع تحریر کہیں دکھائی نہیں دیتی جس کا ایک ایک جملہ شہپر جبریل کی ہم نوائی میں تحریر ہوامحسوس ہوتا ہے۔

چند جملے آپ بھی اس دعا کے ساتھ دیکھئے کہ اللہ ان کی فکر کے چراغ روشن رکھے اور ہمیں اس سے کما حقہ استفادہ کی توفیق عطا فرمائے۔آمین
”نعت دراصل مومن کا وظیفہء حیات، ادیب کا سرمایہء فن، دانشور کی آبروئے فکر،اہل دل کا سامان شوق،شب زند ہ دار کی آخری پہر کی بانگ بلال، پروانے کاسوز، بلبل کا ساز،قلب کا گداز، آئینہء روح کی تاب، آبشار محبت کا ترنم، قلزم عشق کی موج، منزل سعادت کا چراغ،کتاب زیست کا عنوان، حیات عشق کی گرمی، سینہء کائنات کا راز، دیدہء نمناک کا موتی، خاک حجاز کی مہک، فضائے طیبہ کی نکہت، ازل کی صبح، ابد کی شام،اور شاعر کے رتجگوں کا حاصل ہے۔

نعت سے غنچہء روح کھلتا، چشمہء جاں ابلتا،، گلشن ایماں مہکتا، بحر شوق امڈتا، افق فکر چمکتا، سینہء ذوق مچلتا، قلب کون و مکاں دھڑکتا، حسن زندگی نکھرتا اور قد شعر و فن ابھرتا ہے۔نعت سے دماغ روشنی، قلم پاکیزگی، افکار تازگی، خیالات توانائی، الفاظ رنگینی اور لہجے رعنائی پاتے ہیں۔نعت مضمون کو عزت، عنوان کو شہرت، اسلوب کو ندرت، بیان کو وسعت اور کلام کو قوت عطا کر تی ہے۔نعت تخیل کے نازک آبگینے، عشق کے بے بہا خزینے، حرف و لفظ کے رواں دواں سفینے اور اظہار و بیان کے خوبصورت قرینے کا دوسرا نام ہے۔“

ادارہ اردوپوائنٹ کا کالم نگار کی رائے سے متفق ہونا ضروری نہیں ہے۔

تازہ ترین کالمز :