گورنر پنجاب کاایک تاریخی حکم

ہفتہ 7 اگست 2021

Sarwar Hussain

سرور حسین

مجھےاپنے ترکی کے سفر کے دوران وہاں پہ تیزی سے رونما ہونے والی مثبت تبدیلیوں کے حوالے سے مختلف لوگوں سے استفسار کرنے  کا موقع ملا ۔ چند سالوں میں ترکی نے اپنی  قومی شناخت ، تہذیبی اقدار اور معاشرتی رویوں میں کیسے انقلاب برپا کر لیا اور ہم ان جہات میں مسلسل تنزلی کو شکار کیوں ہوتے جا رہے ہیں یہ میرے لئے معمہ تھا۔ جمع کی گئی معلومات کی روشنی میں جو نتیجہ سامنے آیا وہ میرے لئے بہت حیران کن بھی تھا اور حوصلہ افزا ءبھی ۔

مجھے بتایاگیا  کہ طیب اردگان نے اقتدار سنبھالتے ہی حکم جاری کیا کہ پورے ملک کے سکولوں،کالجوں اور جامعات میں صبح  کا پہلا پیریڈ قرآن   مجید کو قومی زبان میں ترجمے کے ساتھ پڑھا جائے گا ۔اسی طرح تمام سرکاری اور پرائیویٹ اداروں میں بھی صبح کا آغاز تلاوت اور اس کے ترجمے سے کرنے  کو بھی لازم قرار دے  دیاگیا ۔

(جاری ہے)

گویا پورے ملک میں دن کے آغاز کا  پہلا گھنٹہ اللہ کی سچی اور ہمیشہ رہنے والی کتاب کے ساتھ گزارا جانے لگا ۔

لوگوں کا کہنا تھا کہ ہماری کامیابی  اور اسلامی اقدار کے احیاء کا یہ نکتۂ آغاز تھا جو  بہت قلیل عرصے میں ساری صورتحال میں تبدیلیوں کا سبب بنا ۔ اس کے بعد ہر گزرنے والا دن ترکی کے لئے خوشحالی اور نیک نامی کا پیام لے کر آیا۔اس  حکم کے نافذ ہونے سے پہلے ہمارے  بچے تو کیا کئی شادی شدہ نوجوان بھی قرآن پڑھے ہوئے نہیں تھے اور صرف  ایک سال کے قلیل عرصے میں ترکی کی بیشتر آبادی قرآن کو ترجمے کے ساتھ پڑھنےا ور سمجھنے کے قابل ہو گئی۔

  کہنے کو یہ ایک چھوٹا سا کام ہے لیکن اس کے نتائج بہت ثمر آور ثابت ہوئے جنہیں ہم نے اپنی آنکھوں سے پنپتے دیکھا۔گورنر پنجاب چوہدری محمد سرور بہت وضعدار اور رکھ رکھاؤ والے آدمی ہیں۔ سیاست کو سیاست اور دوستی کو دوستی کی جگہ پر رکھتے کا ہنر جانتے ہیں ۔ دوستی نبھانے  اورتعلقات کو لے کر چلنے  کی جادوگری جانتے ہیں ۔ برطانیہ اور پاکستان میں ان کےکچھ احباب سے میری بھی شناسائی ہے جن سے ہمیشہ ان کے باری میں نیک نامی ہی سننے کو ملی۔

انہوں نے ایک ایسا ہی شاندار اور ہمیشہ زندہ رہنے والا کام کیا ہے جس کے تحت پنجاب کی  چھوٹے تعلیمی اداروں  اورجامعات میں ڈگری مکمل کرنے والوں کے لئے قرآن کریم  کے مختلف حصوں کو بتدریج ترجمے کے ساتھ پڑھنے کی شرط رکھی گئی ہے ۔ان سے ہونے والی ملاقات میں میں نے سوال کیا کہ آپ کی طرف سے کئے گئے اعلان  پر کہاں تک عملدرآمد ہوسکا تو انہوں نے جواب میں خوشخبری دیتے ہوئے کہا کہ شروع میں تو اس حوالے سے کافی رکاوٹیں اور پس و پیش کا سامنا کرنا پڑا لیکن اب یہ  حکم نافذ العمل ہو چکا ہے جس کی تصدیق پچھلے دنوں اخبار میں پنجاب کریکولم اینڈ ٹیکسٹ بک بورڈ لاہور کے  چھپنے والے اشتہار سے بھی ہو گئی جس میں   اول سے گیارہویں جماعت تک  قرآن مجید کو لازمی مضمون کے طور پر پڑھائے جانے کی اطلاع دی گئی تھی جس میں مختلف جماعتوں کے لئے مختص کئے گئے پاروں کی تفصیل بھی درج تھی ۔

امید ہے کہ اسی طرح کا میکنزم ڈگری کلاسز کے لئے بھی بنا لیا گیا ہو گا  جسے بجا طور پر سراہا جا نا چاہئے۔ اگر یہ سلسلہ حقیقی معنوں میں جاری ہو جائے تو یقینا مستقبل کے بارے میں اچھی پیشن گوئی کا تعین کیا جا سکتا ہے ۔عہدے اور وزارتیں آنی جانی چیز ہیں  لیکن گورنر پنجاب نے اس  تاریخی حکم کو نافذ کرنے کے عملی اقدامات کر کے نہ صرف اپنے لئے  نیک نامی اور تاریخ میں زندہ رہنےو الا کام کیا ہے بلکہ ہماری آئندہ پروان چڑھنے والی نسلوں کے مستقبل کو بھی محفوظ بنایا ہے۔

قرآن حکیم کو نہ صرف ترجمے کے ساتھ پڑھنا بلکہ اس کی گہرائی میں اترنا سب کلمہ گو مسلمانوں پر لازم ہے اور یہ کام اگر عملی زندگی میں داخل ہونے سے  پہلے ہو جائے تو معاشرے میں مثبت قدروں کے استحکام کی طرف پیش قدمی کی جا سکتی ہے ۔ اگر اس کو ہماری بیوروکریسی اور مذہب بیزار پرائیویٹ تعلیمی اداروں نے مذاق نہ بنایا اور واقعی ہر ڈگری کوترجمۂ قرآن  کی صلاحیت کے ساتھ مشروط کر دیا تو اس میں خیر کے بہت سے پہلو کارفرما ہیں۔

گزشتہ برس ربیع الاول کے موقع پر محکمہ اوقاف مذہبی امور کے زیر اہتمام صوبائی سیرت کانفرنس  میں بھی  گورنر پنجاب  کی گفتگو میں بہت سچائی  اور  چمک محسوس ہوئی تھی جب انہوں نے اس موقع پر بہت دلخراش حقیقت کی عقدہ کشائی کرتے ہوئے کہا تھا کہ کہ  بزرگوں کے مزارات پر نذرانوں کی صورت میں جمع ہونے و الی رقم کو قانون سازی کے بعد  محکمے کے سرکاری ملازمین کی تنخواہ کے لئے استعمال   کرنے کی بجائے ان بزرگوں کی تعلیمات کو عام کرنے یا دیگر رفاہ عامہ پر خر چ ہونا چاہیے ۔

یہ کام بھی اگر ان کے فیصلے کے مطابق ہو جائے تو واقعی ایک انقلابی قدم ہو گا۔گورنر ہاؤس کی یہ دیواریں کتنے ہی باسیوں سے آباد ہوئیں اور آئندہ بھی آباد رہیں گیں لیکن قرآن حکیم کے حوالےسے ان کا کیا گیا فیصلہ اور حکم نہ صرف ان کے لئے توشۂ آخرت ثابت ہو گا بلکہ معاشرے میں  تیزی سے  پھیلتی ہوئی لادینیت اور افراتفری کے طوفان کے آگے بند باندھنے میں  بھی معاون ہو گا ۔

کیا ہی اچھا ہو اگر اس طرح کا حکم نامہ وزیر اعظم سیکرٹریٹ سے بھی جاری ہو اور قرآن کی تعلیم کا دائرہ پورے ملک کی درسگاہوں، سرکاری و پرائیویٹ اداروں  میں ہر جگہ نافذ  ہو جائے ۔اس بظاہر انتہائی آسان لیکن بہت سود مند فیصلے  سے پورا ملک قرآن حکیم کی برکات کے حصار میں آنے کے ساتھ ساتھ ریاست مدینہ کے حقیقی تصور کی طرف  بھی عملی پیش قدمی  کر سکے گا ۔لمحۂ موجود میں کئے گئے مثبت فیصلے مستقبل میں ارض وطن کی تعمیر و ترقی اور افراد کی ذہنی و اخلاقی تربیت   کے آفاق روشن کرتے جائیں گے۔سو دیر کس بات کی۔۔۔۔۔

ادارہ اردوپوائنٹ کا کالم نگار کی رائے سے متفق ہونا ضروری نہیں ہے۔

تازہ ترین کالمز :