
انسدادوبا اور اقتصادی سماجی ترقی کا چیلنج
جمعہ 12 جون 2020

شاہد افراز خان
ووہان کو چینی معیشت کا ایک اہم مرکز بھی سمجھا جاتا ہے یہی وجہ ہے کہ دنیا کے اہم ممالک اور ووہان کے درمیان اقتصادی سماجی روابط بھی چین کے دیگر کئی شہروں کی نسبت زیادہ ہیں۔
(جاری ہے)
ووہان شہر میں ان نتائج کے حصول کو انسداد وبا کی جنگ میں ایک بڑی پیش رفت قرار دیا جا رہا ہے۔یہ اقدام انتظامیہ کی درست اور بر وقت فیصلہ سازی کا اظہار ہے۔اس سے قبل ووہان کے شہریوں نے ایک طویل لاک ڈاون میں بھی تحمل اور صبر کا مظاہرہ کرتے ہوئے عظیم قربانیاں دیں اور اب ان نتائج کی بدولت شہریوں میں نفسیاتی مضبوطی سے اقتصادی سماجی استحکام میں مدد مل سکے گی۔اگرچہ ووہان میں آٹھ اپریل کو لاک ڈاون کا خاتمہ کر دیا گیا تھا مگر اس کے باوجود ووہان کے شہریوں کو دیگر لوگوں سے میل جول میں مسائل کا سامنا تھا کیونکہ یہ ڈر اور خوف بدستور موجود تھا کہ کہیں وائرس کا شکار نہ ہو جائیں۔
وسیع پیمانے پر اپنی نوعیت کے اس منفرد ٹیسٹ کی بدولت ووہان کے شہریوں کا اعتماد بھی بڑھے گا اور انہیں یہ اندیشہ بھی نہیں رہے گا کہ انہیں کسی بھی جگہ امتیازی سلوک کا نشانہ بننا پڑے گا۔ووہان سمیت چین بھر میں انسداد وبا کی بہتر صورتحال اور ان تمام کامیابیوں کی بنیاد پر ہی چین میں اس وقت اقتصادی سماجی سرگرمیاں بحال ہو چکی ہیں۔اگرچہ دیگر دنیا کی طرح چین کی ترقی بھی وبا کے باعث متاثر ضرور ہوئی ہے مگر سنگین طور پر متاثر ہونے کے امکانات کم ہیں۔چین میں ملکی کھپت کو اس وقت ترجیح دی جا رہی ہے اور بیرونی انحصار کو کم کرنے کی حکمت عملی اپنائی گئی ہے۔چین نے حالیہ عرصے میں تین اہم کامیابیاں حاصل کی ہیں جن میں سرفہرست انسداد غربت سے متعلق حیرت انگیز نتائج شامل ہیں۔غربت کی شرح کو 0.6 فیصد کی سطح تک لایا گیا ہے۔شہریوں کے معیار زندگی میں نمایاں بہتری آئی ہے اور فی کس آمدنی بھی بیالیس سو ڈالرز ہو چکی ہے۔اس کے علاوہ شہری آبادکاری کو بھی ترجیح دی گئی اور اس وقت ملک کی مجموعی آبادی کا تقریباً ساٹھ فیصد شہری آبادی پر مشتمل ہے۔چینی حکومت نے ماحولیاتی تحفظ کو بھی نمایاں اہمیت دی ہے۔گرین ترقی کے نظریے کے تحت آلودہ عناصر کی روک تھام و کنٹرول کو یقنی بناتے ہوئے ماحول کے تحفظ کو اجاگر کیا گیا ہے۔ چین کی گرین ترقی میں جن چیزوں کو اہمیت دی گئی ہے ان میں گرین صنعتوں کا فروغ ، کلین انرجی کی فراہمی ، گرین ٹرانسپورٹ اور آلودہ عناصر کی روک تھام اور خاتمہ اہم ہیں۔آپ کو اب چین بھر میں الیکٹرک گاڑیاں نظر آ ئیں گی۔ فیکٹریوں کو شہروں سے باہر منتقل کیا گیا ہے تاکہ لوگوں کی صحت متاثر نہ ہو۔آبی آلودگی پر کنٹرول کرنے کے لیے زراعت میں جدید اصلاحات کی گئی ہیں جبکہ کاربن ڈائی آکسائیڈ کے اخراج میں چار فیصد سے زائد کمی لائی گئی ہے۔
چین نے اس دوران مالیاتی شعبے کے استحکام پر بھی توجہ دی ہے۔کھلے پن کے فروغ سے بیرونی سرمایہ کاری کو راغب کیا گیا ہے۔نئے آزاد تجارتی زون قائم کیے جا رہے ہیں جبکہ ٹیکس اور فیس میں کمی سمیت سرمایہ کاروں کو دیگر مراعات دی جا رہی ہیں۔ٹیکنالوجی کا شعبہ بھی چینی حکومت کی ترجیحات میں شامل ہے۔ چین بھر میں فائیو جی نیٹ ورک کی تعمیر تیز ی سے جاری ہے ۔ ملک کے چھوٹے شہروں ، کاونٹیوں میں فائیو جی نیٹ ورک کی تعمیر کے اقدامات میں تیزی لائی جا رہی ہے ۔ رواں سال کے اواخر تک چین میں چھ لاکھ سے زائد فائیو جی بیس اسٹیشنز تعمیر کیے جائیں گے ۔ فائیو جی سروس نے وباکے کنٹرول اور سماجی سرگرمیوں کی بحالی میں بھی اہم کردار ادا کیا ہے ۔ اسی باعث مختلف ادارے فائیو جی نیٹ ورک کو سرمایہ کاری کی ایک اہم سمت اور چینی معیشت کی ترقی کا اہم پہلو سمجھتے ہیں ۔ چین کی جانب سے حال ہی میں"دو اجلاسوں" کے دوران ہر ہفتے دس ہزار سے زائد فائیو جی سروس بیس اسٹیشنز قائم کرنے کا عزم بھی ظاہر کیا گیا ہے جبکہ اس وقت ملک میں فائیو جی صارفین کی تعداد بھی ساڑھے تین کروڑ سے تجاوز کر چکی ہے۔
بیلٹ اینڈ روڈ کی ترقی کو بھی چینی قیادت کے نزدیک اہم مقام حاصل ہے اور پاکستان کے لیے " چین پاک اقتصادی راہداری " کے تناظر میں اس کی مزید اہمیت ہے۔چین بناء کسی خفیہ ایجنڈے کے تمام ممالک کو اس منصوبے میں شمولیت کی دعوت دے رہا ہے تاکہ ایک ساتھ مل کر انسانیت کے لیے ایک مشترکہ مستقبل کے حامل سماج کی تعمیر کی جا سکے۔چینی قیادت واضح کر چکی ہےکہ دی بیلٹ اینڈ روڈ کی اعلیٰ معیار کی ترقی کو یقینی بنایا جائے گا اور "وِن۔وِن" کی بنیاد پر ہی آگے بڑھا جائے گا۔وبائی صورتحال کے تناظر میں اگرچہ تعمیراتی سرگرمیوں میں عارضی تعطل آیا ہے مگر یہ امید کی جا سکتی ہے کہ صورتحال کی بہتری سے مثبت پیش رفت جاری رہے گی۔
نوول کورونا وائرس کے باعث چینی معیشت میں رواں برس کی پہلی سہ ماہی کے دوران 6.8 فیصد کی گرواٹ آئی ہے تاہم چینی حکومت نے اقتصادی بحالی کے لیے بروقت اہم فیصلے کیے ہیں اور سرمایہ کاروں بالخصوص چھوٹے اور درمیانے درجے کی صنعتوں کو خصوصی مراعات دی گئی ہیں۔قرضوں کی فراہمی سے اقتصادی سرگرمیوں کی بحالی کے لیے اقدامات کیے جا رہے ہیں۔رواں برس روزگار کے نوے لاکھ سے زائد نئے مواقع پیدا کیے جائیں گے۔غربت کے مکمل خاتمے سے ایک معتدل خوشحال معاشرے کی تعمیر کی جائے گی اور انسداد وبا کی سرگرمیوں کو اقتصادی سماجی ترقی سے ہم آہنگ کیا جائے گا۔عالمی اقتصادی ترقی کے ایک اہم انجن کی حیثیت سے چین کی کوشش ہے کہ عالمگیر اقتصادی ترقی کے عمل میں اپنا بھرپور کردار ادا کیا جائے۔
عالمگیر وبائی صورتحال کے تناظر میں ایک چیز تو طے ہے کہ صرف ویکسین کی دستیابی کی صورت میں ہی عالمی معیشت بتدریج بحال ہو سکے گی لیکن جب تک ویکسین دستیاب نہیں ہوتی اُس وقت تک تو حکومتوں کو موئثر ترقیاتی منصوبے ترتیب دینا پڑیں گے۔اس ضمن میں چین کی پالیسی سازی سے سیکھا جا سکتا ہے۔
ادارہ اردوپوائنٹ کا کالم نگار کی رائے سے متفق ہونا ضروری نہیں ہے۔
تازہ ترین کالمز :
شاہد افراز خان کے کالمز
-
چین کا معاشی آوٹ لُک 2022
پیر 10 جنوری 2022
-
افغانستان میں چین کے انسان دوست اقدامات
جمعہ 17 دسمبر 2021
-
چین کا عوامی حاکمیت کا تصور
منگل 7 دسمبر 2021
-
اقتصادی تعاون کا نیا ماڈل
ہفتہ 27 نومبر 2021
-
جدوجہد سے عبارت 100 سال
جمعہ 19 نومبر 2021
-
حقیقی وژنری قیادت
ہفتہ 13 نومبر 2021
-
عالمی سطح پر"میڈ اِن چائنا" کی اہمیت
ہفتہ 6 نومبر 2021
-
علاقائی انضمام سے مشترکہ ترقی کا خواب
جمعہ 29 اکتوبر 2021
شاہد افراز خان کے مزید کالمز
کالم نگار
مزید عنوان
UrduPoint Network is the largest independent digital media house from Pakistan, catering the needs of its users since year 1997. We provide breaking news, Pakistani news, International news, Business news, Sports news, Urdu news and Live Urdu News
© 1997-2025, UrduPoint Network
All rights of the publication are reserved by UrduPoint.com. Reproduction without proper consent is not allowed.