
کووڈ۔19کا عفریت ، ایک کروڑ کی حد عبور
پیر 29 جون 2020

شاہد افراز خان
پاکستان میں بھی مریضوں کی یومیہ بڑھتی تعداد کے پیش نظر صورتحال تسلی بخش نہیں ہے جبکہ دنیا کے کئی ترقی پزیر اور غریب ممالک سمیت تنازعات سے دوچار خطوں کے عوام وائرس کا نشانہ بن رہے ہیں۔
(جاری ہے)
عالمی ادارہ صحت نے بھی خبردار کیا ہے کہ یہ اعداد و شمار دنیا بھر میں شدید انفلوئنزا سے سالانہ متاثر ہونے والے افرادکا دوگنا ہیں۔
کووڈ۔19 کے باعث مصدقہ مریضوں کی تعداد کے اعتبار سے سرفہرست پانچ شدید متاثرہ ممالک میں امریکہ ،برازیل ،روس ،بھارت اور برطانیہ شامل ہیں۔ عالمی سطح پر مصدقہ مریضوں کی پچیس فیصد تعداد کا تعلق شمالی امریکہ ،لاطینی امریکہ اور یورپ سے ہے ،ایشیا میں یہ تعداد گیارہ فیصد جبکہ مشرق وسطیٰ میں مجموعی تعداد کا نو فیصد ہے۔موجودہ صورتحال میں بھارت اور برازیل دو ایسے ملک ہیں جن کے بارے میں کہا جا رہا ہے کہ وہ وبا کے ایک نئے مرحلے میں داخل ہو چکے ہیں جہاں یومیہ مریضوں کی تعداد دس ہزار سے تجاوز کر چکی ہے جبکہ وسائل بھی انتہائی محدود ہیں۔اسی باعث ایشیا میں بھارت کو نوول کورونا وائرس کا ایک گڑھ قرار دیا جا رہا ہے ۔یہ بات تشویشناک ہے حالیہ عرصے میں عالمی سطح پر مریضوں کی تعداد میں یکدم اضافہ دیکھنے میں آیا ہے جبکہ اس کی وجوہات میں متعدد ممالک کی جانب سے لاک ڈاون یا دیگر پابندیوں میں نرمی ایک اہم عنصر ہے۔چند ممالک ایسے بھی ہیں جہاں موئثر طور پر وبا پر قابو پا لیا گیا تھا مگر اس کے باوجود چند نئے کیسز کا سامنا آنا باعث تشویش ہے۔ان ممالک میں چین ،نیوزی لینڈ اور آسٹریلیا شامل ہیں۔چین کے دارالحکومت بیجنگ میں دو ماہ تک کوئی ایک بھی نیا کیس سامنے نہیں آیا تھا اور شہر میں معمولات زندگی تقریباً بحال ہو چکے تھے مگر گیارہ جون کے بعد ایک ہول سیل مارکیٹ سے سامنے آنے والے نئے کیسز کی تعداد اب تک تین سو سے تجاوز کر چکی ہے۔وبا کی روک تھام و کنٹرول میں چین باقی ممالک سے اس لحاظ سے منفرد ہے کہ یہاں ٹیسٹنگ ،ٹریسنگ اور علاج کا جامع نظام فعال ہے اور گزشتہ عرصےکے دوران مثبت پیش رفت اور حاصل شدہ کامیابیاں بھی چین کی سبقت کا مظہر ہیں۔بیجنگ کی ہی اگر بات کی جائے تو یہاں تاحال یومیہ ٹیسٹنگ کی صلاحیت ساڑھے چار لاکھ سے تجاوز کر چکی ہے اور بارہ جون سے اب تک تقریباً تیراسی لاکھ شہریوں کے ٹیسٹ بھی کر لیے گئے ہیں۔
عالمگیر وبائی صورتحال ظاہر کرتی ہے کہ انسانیت کا مقابلہ ایک ایسے چالاک دشمن سے ہے جو انتہائی معمولی انسانی غلطی ، کمی یا کوتاہی سے بڑے پیمانے پر فائدہ اٹھانا جانتا ہے۔ نوول کورونا وائرس جیسے چھپے ہوئے دشمن کی سنگینی کو مختلف ممالک کے غیر سنجیدہ رویوں کے باعث بھی مزید تقویت ملی ہے۔ اکثر ممالک نے وبا کو بہت ہلکا لیا اور ضروری اقدامات نہیں کیے گئے۔دنیا کے اکثریتی ممالک کے پاس طبی نظام وائرس کے سامنے بے بس نظر آیا جبکہ ترقی یافتہ ممالک وبائی صورتحال کے آغاز میں چین پر الزام تراشی اور وبا کو ایک سیاسی آلے کے طور پر استعمال کرتے نظر آئے جس سے حالات مزید ابتر ہوتے گئے اور آج ایک کروڑ کی حد عبور ہو چکی ہے۔
رواں برس کے آغاز میں چین اور ڈبلیو ایچ او کی جانب سے تمام ممالک کو سنگین خطرے سے بروقت خبردار کیا گیا لیکن اس کے باوجود بدترین انتظامات دیکھنے کو ملے۔ الزام تراشی ، سیاسی پوائنٹ اسکورنگ یا دیگر ممالک کو اپنی کوتاہیوں کا ذمہ دار ٹھہرانے سے وائرس کے خلاف کامیابی کا حصول ممکن نہیں ہے۔انسداد وبا کے عالمی تعاون کو آگے بڑھانے کے لیے ڈبلیو ایچ او نے ایک واضح فریم ورک ترتیب دیا جس کا ایک کلیدی نکتہ یہی ہے کہ جس بہتر طور پر دنیا تعاون کی بدولت آگے بڑھے گی ، اُسی قدر وائرس کے اثرات کو محدود کیا جا سکے گا۔ چین کے ماڈل کو اپناتے ہوئے متعدد ممالک نے "سوشل ڈسٹنسنگ" اور لاک ڈاون جیسے اقدامات اپنائے جس کے خاطر خواہ نتائج بھی برآمد ہوئے لیکن جونہی معاشی مجبوریوں یا سماجی دباو کے تحت پابندیوں میں نرمی لائی گئی تو صورتحال تشویشناک رخ اختیار کر گئی۔
گزشتہ چھ ماہ کے دوران دنیا بھر میں سیاسی فیصلہ ساز ،صحت عامہ کے ماہرین ،سائنسدان اور عام عوام بھی وبا کی پہلی لہر سے لازمی طور پر یہ جان چکے ہیں کہ ویکسین کی دستیابی کی صورت میں ہی نوول کورونا وائرس سے بچاو ممکن ہے ۔لیکن جب تک ویکسین میسر نہیں آتی اُس وقت تک تو نظام زندگی کو احتیاطی تدابیر کے تحت رواں رکھنا ہی ہے، یہاں ایک جانب اگر مختلف ممالک کی قیادت کا امتحان ہے تو دوسری جانب دانشمندانہ فیصلہ سازی وقت کا تقاضا بھی ہے۔وبائی بحران کے معیشت اور سماج پر پڑنے والے دوررس اثرات سے تو انکار نہیں کیا جا سکتا ہے مگر مفاد عامہ اور انسانی جانوں کے تحفظ کو فوقیت دیتے ہوئے بروقت اور مضبوط فیصلے ہی طویل المیعاد بنیاد پر فتح کے حصول کی ضمانت ہوں گے۔اس وقت سب سے اہم بات یہی ہے کہ ہم نے وبا کی پہلی لہر سے کیا سیکھا ہے اور ویکسین کی عدم دستیابی تک مستقبل میں ہماری منصوبہ بندی کیا ہو گی۔۔
ادارہ اردوپوائنٹ کا کالم نگار کی رائے سے متفق ہونا ضروری نہیں ہے۔
تازہ ترین کالمز :
شاہد افراز خان کے کالمز
-
چین کا معاشی آوٹ لُک 2022
پیر 10 جنوری 2022
-
افغانستان میں چین کے انسان دوست اقدامات
جمعہ 17 دسمبر 2021
-
چین کا عوامی حاکمیت کا تصور
منگل 7 دسمبر 2021
-
اقتصادی تعاون کا نیا ماڈل
ہفتہ 27 نومبر 2021
-
جدوجہد سے عبارت 100 سال
جمعہ 19 نومبر 2021
-
حقیقی وژنری قیادت
ہفتہ 13 نومبر 2021
-
عالمی سطح پر"میڈ اِن چائنا" کی اہمیت
ہفتہ 6 نومبر 2021
-
علاقائی انضمام سے مشترکہ ترقی کا خواب
جمعہ 29 اکتوبر 2021
شاہد افراز خان کے مزید کالمز
کالم نگار
مزید عنوان
UrduPoint Network is the largest independent digital media house from Pakistan, catering the needs of its users since year 1997. We provide breaking news, Pakistani news, International news, Business news, Sports news, Urdu news and Live Urdu News
© 1997-2025, UrduPoint Network
All rights of the publication are reserved by UrduPoint.com. Reproduction without proper consent is not allowed.