مشترکہ مستقبل کا حامل سماج

جمعہ 25 ستمبر 2020

Shahid Afraz

شاہد افراز خان

عالمی سطح پر اس وقت ایک جانب جہاں اقوام متحدہ کے قیام کی 75ویں سالگرہ کی مناسبت سےمختلف تقریبات کا انعقاد کیا جا رہا ہے تو وہاں دوسری جانب انسانیت کو کووڈ۔19کا سنگین چیلنج درپیش ہے۔عالمی وبا کے باعث دنیا بھر میں اموات کی تعداد دس لاکھ کی حدوں کو چھو رہی ہے جبکہ تشویشناک بات یہ ہے کہ ابھی تک وبا کی مکمل روک تھام و کنٹرول کی کوئی صورت نظر نہیں آ رہی ہے۔

کووڈ۔19کے باعث عالمی سطح پر اقتصادی سماجی شعبہ بری طرح متاثر ہوا ہے اور  دنیا کو 1930کی دہائی کے "گریٹ ڈپریشن"کے بعد سے اس وقت بدترین معاشی بحران کا سامنا ہے۔ کووڈ۔19کے ساتھ ساتھ حالیہ عرصے میں پاکستان اور چین سمیت دنیا کے اکثر ممالک کو سیلاب اور  دیگر غیر معمولی قدرتی آفات  کا سامنا بھی کرنا پڑا ہے جس سے معیشت پر مزید دباو بڑھاہے۔

(جاری ہے)


اس تمام تر صورتحال میں اقوام متحدہ کے مزید فعال کردار سے ممالک کے درمیان اتحاد و تعاون اور مشترکہ اقدامات کی ضرورت شدت سے محسوس کی گئی ہے۔اگر اقوام متحدہ کے کردار کی بات کی جائے تو  اس کی عمارت تین بنیادی استونوں پر کھڑی ہے امن کا فروغ ، انسانی حقوق کا تحفظ اور  مشترکہ ترقی کی جستجو ،لیکن ان مقاصد کا حصول صرف اُسی صورت میں ممکن ہے جب بڑے ممالک اقوام متحدہ کی مرکزی حیثیت کو تسلیم کریں گے اور  اسے مضبوط کرتے ہوئے دنیا کو درپیش مسائل کے حل کے لیے مشترکہ کوششیں کریں گے۔


بڑے ممالک کی بات کی جائے تو اس میں چین اور امریکہ سرفہرست ہیں۔چین دنیا کی دوسری بڑی معاشی قوت ہے اور سلامتی کونسل کے مستقل رکن کی حیثیت سے اہم عالمی و علاقائی امور میں چین کی رائے انتہائی اہم تصور کی جاتی ہے۔چینی صدر شی جن پھنگ نے حال ہی میں اقوام متحدہ کی جنرل اسمبلی سے خطاب کرتے ہوئے ایک مرتبہ پھر مشترکہ مستقبل کے حامل انسانی سماج کو فروغ دینے کی بات کی ہے۔

اُن کی جانب سے تقریباً سات برس قبل یہ تصور پیش کیا گیا تھا کہ عالمگیر مسائل سےموئثر طور پر نمٹنے کے لیے مشترکہ مستقبل کا حامل انسانی معاشرہ تشکیل دیا جائے۔
اس معاشرے کے بنیادی اوصاف میں کھلا پن ،اشتراکیت ،شفافیت ،دیرپا امن ،عالمگیر سلامتی اور مشترکہ خوشحالی شامل ہیں۔حقائق کے تناطر میں دیکھا جائے تو  آج دنیا کو درپیش مسائل کے حل کی کلید یہی عوامل ہیں۔

چاہے کووڈ۔19جیسے صحت عامہ سے متعلق مسائل ہوں یا پھر  عدم مساوات ، غیر متوازن اقتصادی ترقی ،بڑھتے ہوئے تنازعات،موسمیاتی تبدیلی کا چیلنج ، ان سب سے کوئی بھی ملک تنہا نہیں نمٹ سکتا ہے اور نہ ہی کوئی قوم یا ملک دیگر ممالک سے کٹ کر پائیدار ترقی و خوشحالی پر گامزن رہ سکتا ہے۔  
کووڈ۔19کے ساتھ ساتھ دنیا میں تحفظ پسندی ،یکطرفہ پسندی اور بالادست نظریات بھی پروان چڑھ رہے ہیں۔

بڑے اور ذمہ دار ممالک کی جانب سے دیگر ممالک سے معاشی طور پر علیحدگی کی باتیں سامنے آ رہی ہیں ، ایک دوسرے پر الزام تراشی کی جا رہی ہے ،اہم طاقتوں کے مابین تجارتی تناو میں اضافہ دیکھنے میں آیا ہے جبکہ امریکہ جیسا اہم ملک کئی عالمی معاہدوں اور تنظیموں سے بھی دستبردار ہو چکا ہے۔ایسے رویے کسی بھی اعتبار سے عالمی امن ،استحکام ،مشترکہ ترقی اور عالمگیریت کے فروغ کے لیے سودمند نہیں ہیں۔

دنیا کی اہم طاقتوں کو تو اپنے سیاسی اور اقتصادی مفادات سے بالاتر ہو کر سوچنے کی ضرورت ہے اور ایسی اجتماعی فکر اپنانے کی ضرورت ہے جس میں پسماندہ اور ترقی پزیر ممالک کے عوام کی فلاح اور اُن کو درپیش مسائل کا ادراک کیا جا سکے۔
بلاشبہ کووڈ۔19اقوام متحدہ کی تاریخ میں صحت عامہ کا سب سے بڑا چیلنج ہے ۔کووڈ۔19نے دنیا کو باور کروایا ہے کہ تمام ممالک کے مفادات ایک دوسرے سے جڑے ہوئے ہیں ،دنیا بھر کے عوام ایک برادری کی مانند ہیں جن کے دکھ  سکھ سانجھے ہیں۔

دنیا اس وقت کووڈ۔19کو شکست دینے کے لیے ویکسین کی تیاری کے اہم ترین مرحلے سے گزررہی ہے، چین پہلے ہی واضح کر چکا ہے کہ ویکسین کی تیاری کے بعد اسے عالمی سطح پر  عوامی مصنوعات کا درجہ حاصل ہو گا۔یہاں اقوام متحدہ اور اس کی زیلی تنظیموں کا کردار انتہائی اہم ہو گا بالخصوص ڈبلیو ایچ او کی مزید مضبوطی اور بھرپور حمایت کی فراہمی سے اتحاد ، باہمی احترام اور تعاون کی حقیقی روح پر عمل پیرا رہتے ہوئے انسانیت کو کووڈ۔

19جیسے خطرات سے بچانے میں مدد مل سکے گی۔
 
مشترکہ مستقبل کے حامل سماج کی جستجو میں تعاون اور باہمی مفاد کی سوچ کے تحت ہی آگے بڑھا جا سکتا ہے۔اس ضمن میں ہر ملک کو اپنی انفرادی اور اجتماعی ذمہ داریاں نبھانا ہوں گی تاکہ اس وبا کو شکست دیتے ہوئے دوبارہ سے ایک محفوظ دنیا کی تشکیل کی جا سکے۔اس وقت دنیا کے پاس باہمی سودمند تعاون ہی آگے بڑھنے کا واحد موزوں انتخاب ہے لیکن اس کے لیے بڑے ممالک کو  بالادست نظریات ترک کرنے ہوں گے ،انہیں کسی بھی دوسرے ملک کے داخلی معاملات میں مداخلت یا پھر اسے دباو میں لانے کا کوئی حق نہیں ہے۔

دنیا میں مستحکم اور دیرپا قیام امن کی یہ لازمی شرط ہے کہ ہر ملک کی خودمختاری اور جغرافیائی سالمیت کا احترام کرتے ہوئے  سردجنگ کے فرسودہ تصور اور سیاسی طاقت کے مظاہرے کو ترک کیا جائے۔عالمی اور علاقائی تنازعات کو مشاورت اور مذاکرات کے ذریعے حل کیا جائے ، دنیا میں تجارت اور سرمایہ کاری کے لیے سہولیات پیدا کی جائیں ،معاشی عالمگیریت کو مزید وسعت دی جائے اور ایک ایسی اشتراکی ترقی و خوشحالی کے لیے جدوجہد کی جائے جو سارے عالم کے مفاد میں ہو۔ 

ادارہ اردوپوائنٹ کا کالم نگار کی رائے سے متفق ہونا ضروری نہیں ہے۔

تازہ ترین کالمز :