پنجاب کی ایک اور تقسیم ؟

اتوار 27 مئی 2018

Shahid Sidhu

شاہد سدھو

تحریک انصاف کے سربراہ عمران خان نے پنجاب توڑنے کے لئے بلخ شیر مزاری کی سربراہی میں چھ وڈیروں پر مشتمل کمیٹی قائم کر دی ہے۔ کمیٹی میں شامل دیگر وڈیروں اور جاگیرداروں میں جہانگیر ترین، شاہ محمود قریشی، خسرو بختیار، طاہر بشیراور اسحاق خاکوانی شامل ہیں۔ یہ کمیٹی پنجاب توڑنے کے لئے اپنی تجاویز سو دن میں مکمل کرے گی۔ پاکستان پیپلزپارٹی بھی پنجاب توڑنے کے اس عمل میں تحریک انصاف کی ہمنوا ہے۔

بلاول زرداری بھٹو متعدد بار پنجاب توڑنے کی خواہش کا اظہار کر چکے ہیں۔ تحریک انصاف اور پیپلز پارٹی پنجاب کے عوام سے مطلوبہ ووٹ نہ ملنے اور صوبے میں من مانی کی کھلی چھٹی حاصل نہ ہونے کی وجہ سے جس فرسٹریشن کا شکار ہیں اس کا علاج انہیں پنجاب توڑنا ہی نظر آتا ہے۔

(جاری ہے)

پیپلزپارٹی کے سامنے اگر کوئی سندھ کی تقسیم کی بات کرے تو مرسوں مرسوں کرتے خون کی ندیاں بہانے کی دھمکیاں دی جاتی ہیں۔

سندھ کے وزیر اعلی صوبائی اسمبلی میں سندھ کی تقسیم کی بات کرنے والوں کو لعنتیں دے رہے ہیں کیونکہ سندھ کی دھرتی مقدس ہے۔البتہ پنجاب جوکہ پاکستان کی خاطر پہلے ہی تقسیم ہوچکا ہے اوراپنی پانچ دریاوں کی سرزمین پر برصغیر کی تاریخ کا بدترین قتلِ عام دیکھ چکا ہے، اس کی ”غیر مقدس “ دھرتی کے بدن پرایک بار پھر آرے چلانے سے پاکستان میں سماجی انقلاب آجا ئے گا۔

زرداری صاحبان کی چالاکیوں سے بھرپور سیاست، تقسیم پنجاب کی بوتل سے جو جن نکالنا چاہتی ہے، اس جن کو بے قابو ہو کر سندھ میں ہڑبونگ مچانے میں زیادہ دیر نہیں لگے گی اور اس کا مظاہرہ سندھ اسمبلی کے اجلاس میں نظر بھی آچکا ہے۔ پیپلز پارٹی ، پنجاب توڑنے کے شوشے سے دو فائدے حاصل کر نا چاہتی ہے، اس نعرے کی بنیا د پر جنوبی پنجاب سے چند سیٹیں جیتنے کی کوشش کر نا اور دوسری طرف سندھ کی وحدت کی اکلوتی محافظ کا روپ دھار نا اور گذشتہ دس برس کی ناقص کار کردگی کا حساب دینے کے بجائے سندھی قوم پرستی اور سندھ کی وحدانیت کے نام پر سندھ پر ایک بار پھر مسلط ہونے کی کوشش کرنا۔

عمران خان کو ان کے مشیروں نے یہ بات سمجھائی ہے کہ پنجاب میں مسلم لیگ ن کی پرفارمنس کی وجہ سے تحریک انصاف کا الیکشن جیتنا ناممکن ہے کیونکہ پنجاب میں کوئی بھی خیبر پختونخواہ میں آئی فوٹو شاپ تبدیلی کا خریدار نہیں ہے ۔ جنوبی پنجاب صوبے کا نعرہ لگا کر ’ الیکٹیبل‘ وڈیروں اور جاگیرداروں کی مدد سے جنوبی پنجاب سے سیٹیں جیتی جاسکتی ہیں کیونکہ وسطی اور شمالی پنجاب میں بیچنے کے لئے کوئی نعرہ نہیں ہے۔

تاہم تحریک انصاف کو ہزارہ صوبے کے مطالبے کے لئے بھی تیار رہنا چاہئیے۔
ستم ظریفی دیکھیں کہ نئے صوبوں پر با معنی دلائل کے بجائے تقسیم کے حامیوں کا آئیڈیل ۳۴ صوبوں والا افغانستان ہے، سبحان ا لله۔ پنجاب کی گیارہ کروڑ آبادی کو بنیاد بنا کر ایک اور دلیل بھارت کے انتیس صوبوں کی دی جاتی ہے، لیکن اس بات کا قطعاً ذکر نہیں کیا جاتا کہ صرف بھارت کی ریاست ( صوبہ) اتر پر دیش کی آبادی ہی پورے پاکستان سے زائد ہے اور چار ریاستوں کی آبادی پنجاب جتنی یا اس سے زیادہ ہے، بھارت کی اکیس ریاستوں کی آبادی بلوچستان کی آبادی سے زیادہ ہے اور دس ریاستوں کی آبادی پانچ کروڑ سے زائد ہے، اور نہ ہی اِس بات کا ذکر کیا جاتا ہے پندرہ کروڑ آبادی کے ملک بنگلہ دیش میں کوئی صوبہ نہیں ہے۔

اگر گیارہ کروڑ آبادی والے پنجاب کو ایک صوبائی انتظامیہ کنٹرول نہیں کر سکتی تو ایک کروڑ آبادی والے بلوچستان کے بارے میں کیا خیال ہے۔ کیا لاہور شہر سے کم آبادی والے اس صوبے میں انتظامیہ کی کارکردگی پنجاب سے بہتر ہے؟ اگر اس دلیل میں کوئی وزن ہے کہ گیارہ کروڑ آبادی کو ایک صوبائی انتظامیہ کنٹرول نہیں کر سکتی تو پنجاب میں امن و امان کی صورتحال سے لیکر دیگر روز مرہ معاملات میں حکومتی کنٹرول دیگر تمام صوبوں سے بدر جہا بہتر کیوں ہے۔

پنجاب سے کہیں کم آبادی والے دیگر تین صوبے قتل و غارت گری، بھتہ خوری، ٹارگٹ کلنگز، بد عنوانی، حکومتی نا اہلیوں، ملازمتوں کی بندر بانٹ کے سلسے میں پنجاب سے نیچے کیوں ہیں ۔ دیگر تمام صوبے ، صوبائی خود مختاری حاصل کرنے اور پہلے کے مقابلے میں زیادہ مالی وسائل حاصل کرنے باوجود نہ تو مختلف شہروں میں میٹرو بس سروسز شروع کرسکے ، نہ میٹرو ٹرین لا سکے، نہ مختلف شہروں میں سپیڈو بس سروسز شروع کر سکے اور نہ ہی لیپ ٹاپ اسکیم ، دانش اسکول، طلبا کے لئے یورپ کے مطالعاتی دوروں کی اسکیم، یلو کیب، آشیانہ ھاوسنگ ، فری ڈائیلس ، فری کارڈئک میڈیسنز اور کینسر میڈیسنز جیسی سکیمیں لا سکے، نہ ہی پنجاب کے شہروں جیسے بڑے ہاسپٹل قائم کر سکے، نہ ہی پنجاب آئی ٹی بورڈ ، پنجاب فرینزک لیب ، پنجاب فوڈ اتھارٹی، پنجاب ریسکیو ۱۱۲۲ جیسے ادارے بنا سکے، نہ ہی مختلف صوبائی سروسز بشمول زمینوں کے ریکارڈ اور پولیس ڈیٹا کو کمپوٹرائزڈ اور آن لائن کر سکے، نہ ہی پنجاب کے مختلف شہروں میں موجود بڑے بڑے پارکوں جیسے تفریحی مقامات بنا سکے ، نہ ہی پنجاب کے شہروں جیسی صفائی ستھرائی قائم کر سکے اور نہ ہی پنجاب کے شہروں اور قصبوں جیسی سڑکیں بنا سکے۔


صوبوں کی تقسیم کا مسئلہ ہر گز انتظامی معاملہ نہیں ہے بلکہ یہ مکمل طور پر ایک سیاسی اور لسانی مسئلہ ہے جسے مکمل سوچ بچار کے بعد حل کر نا ہوگا۔ مفاد پرست سیاستدانوں کے ایک طبقے نے مختلف علاقوں کے عوام کو اس غلط فہمی کا شکارکر دیا ہے کہ اگر تمام صوبائی ایوانوں اور دفتروں میں انہیں کی زبانوں یا لہجوں میں گفتگو کرنے والے ان کے ہم نسل یا ہم قبیلہ افراد بیٹھے ہونگے تو ان کے مسائل بہتر طور پر حل ہو سکیں گے، یہ مرض کی غلط تشخیص اور غلط علاج کی ایک اعلیٰ مثال ہے۔

اصل مسئلہ قانون کی عملداری میں سقم ہے۔ ہمیں صوبائی یا قومیتی حقوق کی جدوجہد اور لڑائی لڑتے ہوئے سب سے پہلے اِس سوال کا جواب دینا چاہئے کہ کہ بلوچستان اور خیبر پختونخواہ میں سینیٹ کی ایک سیٹ کے لئے کروڑوں روپے کیسے خرچ کر دئے جاتے ہیں، سینیٹ الیکشن میں دو چھوٹے صوبوں میں اتنا پیسہ چلنے کی کیا وجوہات ہیں۔ آخر کیا وجہ ہے کہ گذشتہ دس برسوں میں مختصر آبادی کے حامل بلوچستان کو کئی سو ارب روپے اضافی دینے کے باوجود اس صوبے کی پسماندگی دور نہیں ہوسکی۔

یہ پیسہ بلوچستان کے حکمران طبقوں کو مزید امیر کرتا رہا مگر عوام کے حالات نہ بہتر ہوسکے۔ کیا اتنی بھاری رقوم کبھی پنجاب کے بھی کسی سرکاری اہلکار کے گھر سے بر آمد ہوئی ہیں؟ کیا یہ حقیقت نہیں کہ ان صوبوں کے ترقیاتی بجٹ کا بڑا حصہ صوبے پر لگنے کے بجائے یہاں کے صوبائی حکمرانوں اور افسر شاہوں کی جیبوں میں چلاجاتا ہے۔ کیا وجہ ہے کہ خیبر پختونخواہ میں ہر سال ملک بھر سے لاکھوں سیاحوں کو اپنی طرف کھینچنے والے قدرتی نظاروں سے بھرپور علاقوں میں صوبائی حکومت بنیادی سہولیات تک مہیا نہیں کر سکی۔

کیا وجہ ہے ہر سال خیبر پختونخواہ کے ہزاروں مریض علاج کے لئے پنجاب کے ہسپتالوں کا رخ کرتے ہیں۔ کیا وجہ ہے کہ سندھ کی حکومت ، دارالحکومت کراچی سے کچرہ تک اٹھانے سے قاصر ہے۔ کیا وجہ ہے کہ سندھ کی حکومت نے صوبے کے دوسرے بڑے شہر حیدر آباد میں آبادی میں بے تحاشہ اضافے کے باوجود گذشتہ تیس برس میں ایک بھی سرکاری ہائی اسکول نہیں بنایا اور نہ ہی کوئی سرکاری ہسپتال بنایا؟کیا وجہ ہے کہ سندھ کے سرحدی اضلاع کے ہزاروں مریض سکھر اور لاڑکانہ کے ہسپتالوں سے علاج کروانے کے بجائے پنجاب کے جنوبی اضلاع کے سرکاری ہسپتالوں کا رخ کرتے ہیں۔

چھوٹے صوبوں کو تو بہترین گورنس کا ماڈل ہونا چاہئیے تھا، مگر ایسا نہیں ہے۔ پنجاب توڑنے کی کوشش کے پیچھے وجوہات سیاسی اور لسانی ہیں۔
لسانی بنیادوں پر نئے صوبے کا مطالبہ خیبر پختونخواہ کے ہزارہ میں بھی شدت سے کیا جارہا ہے۔ بلوچستان کے پشتو زبان بولنے والے اضلاع میں بھی علیحدہ صوبے یا خیبر پختونخواہ میں ضم ہونے کے مطالبات موجود ہیں۔

سندھ کے اردو بولنے والے علاقوں بشمول کراچی اور حیدرآباد کو ایک علیحدہ صوبہ بنانے کا مطالبہ بھی اچانک زور پکڑ سکتا ہے ۔ سندھ کی سیاست میں تشدد کے مضبوط عنصر کی موجودگی کی وجہ سے یہ مطالبہ ملک کے لئے تباہ کن نتائج کا باعث ہو سکتا ہے۔ سابق ریاست بہاولپور کی صوبائی حیثیت کی بحالی کا مطالبہ بھی کیا جا رہا ہے۔ موجودہ پاکستان میں تو قلات، چترال، سوات اور خیرپور سمیت چھوٹی بڑی تیرہ ریاستیں ضم ہوئی تھیں ، اس بنیاد پر وہ بھی صوبائی حیثیت کا مطالبہ کر سکتی ہیں۔

مزید اتھل پتھل سرائیکی بولنے والے علاقے ڈی آئی خان کو خیبر پختونخواہ سے علیحدہ کرنے اور ہندکو بولنے والے پشاور کو خود مختار وفاقی علاقہ قرار دینے کے بھی سامنے آسکتے ہیں۔
اس معاملے پر تحمل مزاجی سے کام لینے کی ضرورت ہے۔ اگر ہمارے سیاستدان اور مقتدر حلقے اس معاملے کے مختلف پہلووں پر غور کرنا چاہیں تو مندرجہ ذیل مثال حاضر ہے۔


بھارت میں لسانی بنیادوں پر علیحدہ صوبوں کے لئے ہونے والے ملک گیر مظاہروں کے بعد جوکہ پر تشدد شکل اختیار کرتے جارہے تھے، ۱۹۵۳ میں صوبوں( States) کی تنظیمِ نو کا کمیشن بنایا گیا۔ اِس کمیشن نے دو سال تک غوروخوض کے بعد ۱۹۵۵ میں اپنی رپورٹ میں لسانی بنیادوں پر سولہ صوبوں اور تین وفاقی علاقوں کی تشکیلِ نو کی تجاویز پیش کیں۔ ان میں سے زیادہ تر تجاویز کو ۱۹۵۶ میں قانون کی شکل دے دی گئی۔

قابلِ غور بات یہ ہے کہ لسانی بنیادوں پر شروع ہونے والا صوبوں کی تشکیل کا یہ سلسلہ رک نہ سکا اور آج تقسیم در تقسیم بھارت میں انتیس ریاستیں اور سات وفاقی علاقے ہو چکے ہیں۔آج بھی بھارت کے مختلف صوبوں میں کل ملا کر چودہ نئے صوبوں کی تحریکیں مختلف مراحل پر ہیں۔بھارت میں سیاستدانوں کے تقسیم کرو ، لڑاو اور حکومت کرو کے فارمولے کی وجہ سے اب حالات یہاں تک پہنچ چکے ہیں کہ لہجوں کے معمولی فرق پر بھی علیحدہ صوبوں کے مطالبے کئے جارہے ہیں۔

واضح رہے کہ ایک درجن کے قریب علیحدگی پسند تحریکیں جوکہ آزاد وطن کے حصول کی جدوجہد کر رہی ہیں اس کے علاوہ ہیں۔ اسی تقسیم کرنے والی، ووٹوں کی سیاست کے لئے بھارت میں مختلف پچھڑے ہوئے طبقات کے لئے تعلیمی ا داروں اور ملازمتوں میں اسپیشل کوٹہ بھی رکھا گیا ہے۔ تقسیم در تقسیم کا یہ عمل اس نہج پر پہنچ چکا ہے کہ بھارتی صوبوں اتر پردیش، ہریانہ او ر راجستھان میں جاٹ اور گجر بھی اپنے لئے علیحدہ کوٹے کی تحریک چلا رہے ہیں۔

کیا ہم اپنے ہمسائے کے تجربات سے کوئی سبق سیکھ سکتے ہیں؟ مجھے خدشہ یہ ہے کہ اگر ہم نے اس معاملے میں سمجھ داری سے کام نہ لیا تو کہیں اس سے بھی آگے نکل کر بریلوی، دیوبندی، شیعہ اور اہلِ حدیث کے صوبوں کے مطالبے بھی سامنے نہ آجائیں۔ جٹ ، آرائیں، اعوان، خٹک، یوسف زئی، سومرو، چانڈیو، تالپور، مری، بگٹی صوبوں کے مطالبے بھی خارج از امکان نہیں ہیں۔


نئے صوبوں کے نام پر حکمران طبقوں کے لئے گورنروں، وزراء اعلیٰ، صوبائی وزراء ، مشیروں، اعلیٰ اور ادنیٰ سرکاری افسروں اور اہلکاروں کی ہزاروں غیر پیداواری آسامیوں اور اسمبلیوں اور سیکریٹیریٹوں کی صورت میں پہلے سے بدحال قومی خزانے پر مزید غیر پیداواری بوجھ ڈالنے کے بجائے ہمیں میرٹ پر مبنی نظام قائم کرنے کی کوشش کرنی چاہئیے۔

ادارہ اردوپوائنٹ کا کالم نگار کی رائے سے متفق ہونا ضروری نہیں ہے۔

تازہ ترین کالمز :