نادان دوست سے دانا دشمن بہترہے

منگل 22 دسمبر 2020

Sheikh Jawad Hussain

شیخ جواد حسین

پرانے زمانے کی کہاوت ہے … ایک بادشاہ نے بندر پال رکھا تھا، اسے اس بندر سے بے حد محبت تھی، اس کو ہمیشہ سا تھ رکھتا تھا، یہاں تک کہ اس کی آؤ بھگت پر کئی خدمت گار بھی متعین تھے اور اس کو سرکاری بندر کا درجہ دے رکھا تھا۔ بادشاہ بندر سے اس قدر انس رکھتا تھا کہ اس نے کئی دوستوں سے لاتعلقی صرف اس لئے اختیار کر رکھی تھی کہ وہ اس کے بندر کو ساتھ رکھنے پر بہت تنقید کرتے تھے، حتیٰ کہ باد شاہ نے سب دوستوں سے قطع تعلق کرلیا۔

اس کو اگر دوستوں میں سے کسی کی پروا تھی تو وہ صرف بندر تھا جو اس کی نظر میں اس کا سب سے ذ ہین اور مخلص دوست تھا۔ اس کی وجہ کیا تھی؟ اس کا کسی کو علم نہیں تھا، سوائے اس کے کہ بادشاہ اس کو اس لئے پسند کرتا تھاکہ بندر بادشاہ پر بیٹھنے والی ایک مکھی سے بھی کئی کئی گھنٹے تک جنگ کرتا تھا کہ وہ بادشاہ کو تنگ نہ کرے۔

(جاری ہے)

اس کا شبہ شا ید بندر کو بھی تھا کہ بادشاہ اس کے مکھی سے جنگ کرنے پر بہت خوش ہوتا ہے۔

یہی وجہ تھی کہ جیسے ہی کوئی مکھی بادشاہ کے قریب آتی تو اس پر جھپٹ پڑتا تھا۔ وہ بادشاہ کو خوش کرنے کا کوئی موقع ہاتھ سے جانے نہیں دیتا تھا۔ ایک روز بندر بہت اداس تھا، کیونکہ بادشاہ جنگل میں شکار کے لئے اکیلا جا رہا تھا۔ اس کا حفاظتی عملہ حسب معمول بادشاہ کے حکم کا منتظر تھا، مگر بادشاہ نے ان سب کو بھی ساتھ لے جانے سے انکار کر دیا تھا۔

اچانک بادشاہ کی خدمت میں ایک قاصد حا ضر ہو ا اور کچھ عرض کرنے ہی والا تھا کہ بادشاہ اپنی نشست سے کھڑا ہو گیا اور جلدی سے کہنے لگا کہ کیا ہوا جلدی بتاؤ، تم اتنے گھبرائے ہوئے کیوں ہو؟
درباریوں کو اس خدمت گار کی اہمیت کا بخوبی اندازہ تھا، کیو نکہ بقول بادشاہ وہ اس کے سب سے مخلص اور ذہین دوست کی خدمت پر مامور تھا۔ خد مت گار نے ایک لمحہ ضا ئع کیے بغیر عرض کیا کہ اس کے دوست بندر نے اس وقت سے کھانا پینا چھوڑ رکھا ہے، جب سے آپ نے اکیلے شکار پر جانے کا اعلان کیا ہے۔

بادشاہ نے یہ سن کر حکم دیا کہ میرے دوست کو بھی میرے ساتھ جانے کے لئے تیار کر دیا جائے۔ ساتھ جانے کی تیاری کا سن کر بندر خوش ہو گیا۔ بادشاہ نے اس کی رہائش پر جا کر اس کو اپنے ہاتھ سے کھانا کھلایا۔ بادشاہ اور بندر سفر پر روانہ ہوئے۔ جنگل میں پہنچتے ہی سارے دن کی تھکن کے بعد بادشاہ کو نیند آ گئی اور اس نے اپنی تلوار اپنے وفادار دوست بندر کے حوالے کی اور خیمے میں جا کر خواب خرگوش کے مزے لینے لگا۔

بندر اس کی حفاظت کے لئے کبھی اس درخت اور کبھی اس درخت پر چکر لگاتا رہا، اس خوشی میں کہ اس پر بادشاہ کو بے حد اعتماد اور یقین ہے۔ کچھ وقت گزرا تو بندر کو بادشاہ کی یاد ستانے لگی، وہ فوراً خیمے کی طرف لپکا، شاید اس خیال سے کہ گرمی بہت ہے، بادشاہ کو ہوا دی جائے تاکہ اس کی نیند میں خلل نہ آئے۔ خیمے میں آنے کی دیر تھی کہ اس کی نظر ایک مکھی پر پڑی، اس نے جھٹ سے تلوار نکالی اور کھٹاک سے مکھی پر حملہ کر دیا۔

بد قسمتی سے مکھی بادشاہ سلامت کے سر پر بیٹھی ہوئی تھی۔
کچھ اسی طرح کی غلطی نواز شریف نے بھی کی تھی، اب یہی غلطی عمران خان بھی کر رہے ہیں۔ ان لوگوں کو طاقت ور بنا بیٹھے ہیں، جن کو طاقت کا نشہ بہت جلد ہو جاتا ہے۔ عمران خان کے اردگرد بھی چند ایسے افراد کا ہجوم ہے جو بادشاہ سے زیادہ بادشاہ کے خیر خواہ ہیں۔ ان کی نادانیوں سے عمران خان کو خطرات لاحق ہو سکتے ہیں، جبکہ اس کے اثرات حکومت اور آنے والے الیکشن میں تحر یک انصاف پر بھی ہو سکتے ہیں۔

فواد چودھری جو ہمیشہ سے ذاتی طور پر مجھے بہت پسند رہے ہیں، مگر تنقید اور اختلاف اپنی جگہ …نہایت ادب سے ایک سوال پوچھوں، مارو گے تو نہیں؟ یہ آپ نے مارنا کہاں سے سیکھا ہے؟ … فواد چودھری کا سمیع ابراہیم اور مبشر لقمان پر تشدد اور قانون و انصاف کو اپنے ہاتھ میں لینا انتہا ئی افسوس ناک ہے، اگر ان کو کسی بات پر شکوہ یا اختلاف تھا تو میڈیا کے سامنے اس کو واضح کرتے، پیمرا یا عدالت کا دروازاہ کھٹکھٹا تے۔

بہرحال ذاتی زندگی پر الزامات اگر قابل مذمت ہیں تو ”خود ہی مدعی اور خود ہی منصف بننا“بھی درست نہیں … نہ اس ملک میں جنگل کا قانون رائج ہے کہ آپ کسی بھی فورم پر اپنی آواز بلند نہیں کر سکتے … پھر فیصل واؤڈا کا کا شف عباسی کے پروگرام میں جوتا لے کر آنا … دونوں عمل ہی قابل مذ مت،شرم ناک اور غیر اخلاقی ہیں، جن پر ان کو پوری صحافی برادری اور قوم سے معا فی ما نگنا چاہئے۔

سیاست کرنے کے لئے دانائی، صبراور تدبر کی ضرورت ہوتی ہے، جس کی موجودہ حکومت میں شدید کمی نظر آ رہی ہے۔ یہ جب اپوزیشن میں تھے تو اُس وقت ان کو مسلم لیگ(ن) کے وزیروں کی اخلاقیات پر شدید غصہ آتا تھا۔کہتے تھے کہ اْن کے وزیروں کی زبا نیں شائستہ نہیں اور اب اپنا بھی وہی رویہ اور عمل، سب کچھ ویسا ہی ہے، مگر اب ان کو سب کچھ اچھا لگ رہا ہے۔ بات وہی ہے کہ ”ہا تھی کے دانت کھا نے کے اور دکھانے کے اور“… لیکن اگر دیکھا جائے تو وہ ان کے چند وزیر وں سے ہزار گنا بہتر تھے کہ ان کو کفن بھی چوری کرنا ہے اور قبر پر قبضہ بھی کرنا ہے۔

ویسے بھی ا نہیں تو پناہ گاہیں تعمیر کرنے کے بعد اب جناز گا ہیں تعمیر کرنا ہیں، کیو نکہ سکون تو صرف قبر میں ہے، ملک میں تو یہ کسی کو سکون سے جینے نہیں دیں گئے۔آوازوں کو دبانا اور ظلم کو رواج دینا دونوں ہی عمران خان کے شعار میں سے نہیں ہیں۔ کم از کم اپنے لیڈر سے ہی کچھ سیکھ لیں۔ حکو مت اور طاقت سدا نہیں رہتی۔ میں داد دیتا ہوں جاوید عباسی اور قمر زما ں کائرہ کو کہ انہوں نے انتہائی تحمل اور برد باری کا مظاہرہ کیا اور کو ئی انتہائی قدم نہیں اْٹھایا، وگرنہ؟ …”بات تو سچ ہے، مگر بات ہے رسوائی کی“… ان کے لئے جو جوتا اْٹھائے پروگرام میں تشریف لے آئے۔


ذرا سا شکوہ کاشف عباسی سے بھی ہے کہ اس درجے کی بد تہذ یبی کو انہوں نے کیوں برداشت کیا؟ ان کو اس بد تہذیبی پر احتجاج کرنا چا ہئے تھا۔ اپنے پروگرام میں اس بد اخلاقی کی اجازت نہیں دینی چاہئے تھی۔ اپنے مہمانوں کی عزت کروانا میزبان کی ذمہ داری ہوتی ہے، ان کو بھی اپنی ذمہ داری نبھانی چاہئے تھی۔
 اب محترم حال ہی میں عظمیٰ بخاری کے گھر آٹے کا ٹرک لے کر پہنچ گئے، انہیں اس بات پر شرمندہ کرنے کی کوشش کی گئی کہ انہوں نے ایک ٹاک شو میں مارکیٹ میں آٹے کی کمی کا شکوہ کیا تھا۔

ان حکو متی وزیروں پر ذرا سی تنقید کی جائے تو ان کا بلڈ پر یشر ہا ئی ہو جاتا ہے۔ سمجھ میں نہیں آتا کہ انہوں نے ایسا کون سا انو کھا معرکہ مار لیا ہے جو یہ گزشتہ ادوار پر تنقید کر تے ہیں۔ کیا وزیر اعظم اور گورنر ہاؤس یو نیور سٹیو ں میں تبدیل ہو گئے، کیا پچاس لاکھ گھر بن گئے، کیا ایک کروڑ نوکریوں کے لئے درخواست گزار نہیں مل رہے؟ پھر کس بات کی اکڑ ہے۔

میری سمجھ سے تو با ہر ہے۔ ا ن حالات میں تو حکومت کو اپوزیشن کا شکر گزار ہونا چا ہئے تھا کہ ملک کو کسی بحران سے دو چار نہیں ہونے دیا۔
اپوزیشن نے حکومت کے لئے کسی قسم کی نئی مصیبت کھڑی نہیں کی، نہ ہی ملک کو کسی اندرونی یا بیرونی خلفشار میں ڈالا۔ حکومت کو ملک کے اندرونی اور بیرونی حالات پر توجہ دینی چاہئے اور مہنگائی کی شرح کم کرنے اور عوامی مسا ئل کے حل کے لئے اپوزیشن کے ساتھ مل کر کام کرنا چاہئے کہ اس نے ملکی وقار کو تباہ ہونے سے بچا لیا اور وزیر اعظم کی کرسی کو طاقت بخشی، جو در حقیقت جمہوریت کا حسن ہونا چاہئے تھا، مگر سب کچھ اس کے بر عکس ہے۔

عمران خان کو اپنے اردگرد کا جا ئزہ لینا چاہیے اور سمجھ دار افراد کو مسند اقتدار پر براجمان کرنا چا ہئے اور سمجھنا چاہئے کہ کون ان کے لئے مدد گار ہے اور کون ان کی حکومت کے لئے خطرہ ہے؟ اس بات کا ادراک کرنا چاہئے۔آپ ان سمجھدار افراد کو اپنی پارٹی سے کھو دیں گے۔

ادارہ اردوپوائنٹ کا کالم نگار کی رائے سے متفق ہونا ضروری نہیں ہے۔

تازہ ترین کالمز :