"مال روڈ کا کبوتر اور ہم"

پیر 26 اکتوبر 2020

Sheikh Munim Puri

شیخ منعم پوری

لاہور کا مال روڈ اپنے جاہ وجلال کی وجہ سے اپنی ایک الگ پہچان رکھتا ہے ۔ لاہور کی تاریخی اور مشہور عمارات اِسی روڈ پر ہی واقع ہیں ۔سڑک کے ایک طرف عجائب گھر اور دوسری طرف  گورنمنٹ کالج لاہور واقع ہے۔انار کلی بازار مال روڈ کے بیچوں بیچ واقع ہے۔سڑک کے ایک طرف پرانا انار کلی بازار ہے تو دوسری طرف نیو انار کلی بازار موجود ہے جہاں چوبیس گھنٹے چہل پہل رہتی ہے ۔

شام کے پہر واک کی غرض سے اکثر مال روڈ کا ہی رُخ کرتا ہوں جہاں کی رونق اور زمانے کی رنگینیاں مجھ جیسے بہت سوں پر سحر طاری کر دیتی ہیں۔موسم کی تبدیلی اور سردیوں کی دستک سُن کر خوشگوار سا محسوس ہوتا ہے ۔ایک طرف باغیچے میں سے مہکتے پھولوں کی خوشبو آ رہی ہوتی ہے تو دوسری طرف مال روڈ کے وسط میں واقع استنبول چوک کے ساتھ ہی پرندوں کے آشیانے سے سریلی آوازیں ماحول کو مزید خوشگوار بنا دیتی ہیں ۔

(جاری ہے)

شام کا وقت تھا میں اپنے خیالوں میں گُم مال روڈ پر چہل قدمی کر رہا تھا ۔ابھی کچھ فاصلہ ہی طے کیا تو میری نظر کبوتر پر پڑی جو زخمی حالت میں روڈ پر تڑپ رہا تھا ۔شاہد کسی حادثے کا شکار ہوا ہو جو اُس کی بےبسی سے عیاں تھا۔میں نے اُٹھایا اور ساتھ پڑے بنچ پر بیٹھ گیا۔تھوڑا دور ہی پرندوں کا آشیانہ تھا جہاں اور بھی بہت سے کبوتر موجود تھے ۔اور جہاں اِن کے لیے دانہ پانی کا بھی انتظام تھا ۔

میں نے کبوتر کو وہاں پڑے برتن سے پانی پلایا جب اُس کی حالت کچھ بہتر ہوئی تو اُسے وہیں چھوڑ کر اپنا راستہ لیا جہاں میری منزل تھی۔ کچھ گھنٹوں کے بعد جب میرا گزر واپسی کے وقت دوبارہ اُسی جگہ سے ہوا تو وہاں میں یہ دیکھتا ہوں کہ ایک کبوتر میری طرف لپکتا ہے اور دو سے تین دفعہ میرے آگے پیچھے دائرے میں چکر لگاتا ہے ۔اِس وقت تو میں نے زیادہ غور نہیں کیا لیکن دوسرے ہی دن جب میں واک کے لیے مال روڈ پر نکلتا ہوں تو ایک دفعہ پھر سے وہی منظر دیکھا کہ ایک کبوتر میرے گرد گھوم رہا ہے ۔

میں وہیں رُکا تو کبوتر میرے سے تھوڑے فاصلے پر پڑے بیچ پر آ کر بیٹھ گیا ۔میں نے جب غور سے دیکھا تو یہ وہی کبوتر تھا جس کو میں نے پانی پلایا اور اُس کی جان بچائی آج یہ کبوتر میرا شکر گزار ہے۔ جیسے کہنا چاہ رہا ہو کہ آپ میرے محسن ہو دوست ہو ۔
میں پھر حسبِ روایت اپنی منزل کی طرف چل پڑا اور تھوڑا آگے جا کر ایک بنچ پر بیٹھ گیا ۔ اِس واقعے نے مجھے سوچنے پر مجبور کیا کہ اللہ تعالیٰ نے انسان کو اشرف المخلوقات بنایا ہے لیکن آج کے چرند پرند انسانوں سے کیسے افضل ہو گیے؟ ۔

انسان اپنی حیثیت کیوں بھول بیٹھا؟. ایک انسان جس سے ہم اچھا کرتے ہیں اُس کا خیال رکھتے ہیں، اُس کے دُکھ درد میں اُس کے ساتھ چلتے ہیں یقیناً ہم یہ کام اللہ کی رضا کے لئے کر رہے ہوتے ہیں لیکن جس کے ساتھ بھلائی کرتے ہیں یہ اُس پر منحصر ہے کہ وہ اِن باتوں کو سمجھے اور اپنے محسن کا شکر گزار بنے جس نے اُس کو مشکل وقت میں سہارا دیا اُس کے آنسوؤں کو خوشیوں میں بدلا، اُس کے زخموں پر مرہم رکھا۔

لیکن ایسا نہیں ہوتا ہم بھول جاتے کہ کس طرح کسی نے مشکل وقت میں ہاتھ تھاما لیکن انسان اِن باتوں کو کبھی نہیں سمجھا ۔ہم اُس ذات کو بھول گئے جس نے ہمارا وجود بنایا تو انسان کیا بات ہے.میں کیا کہوں اور کب تک صرف کہتا رہوں؟؟ کہ ہمیں منافقت کا لبادہ اوڑھے ایک عرصہ بیت گیا۔ہم خدا کے گھر جانا بھول گئے، ہمیں یہ بھول گیا کہ مسجد کیا ہے لیکن ہم آج بھی اشتہاروں کی دنیا میں خود کو مسلمان گردانتے ہیں، معلوم نہیں کہ ایسا کب تک رہے گا لیکن یہ کہنا حق بجانب ہے کہ چرند پرند آجکل اشرف المخلوقات سے کہیں زیادہ بہتر ہیں اور اپنے طریقوں سے اپنے محسنوں کی شکر گزاری کرتے ہیں ۔یہ بحثیت انسان ہمارے لئے لمحہ فکریہ ہے۔۔۔

ادارہ اردوپوائنٹ کا کالم نگار کی رائے سے متفق ہونا ضروری نہیں ہے۔

تازہ ترین کالمز :