"زمینی حقائق اور کارکردگی"

پیر 25 جنوری 2021

Sheikh Munim Puri

شیخ منعم پوری

ہمارا المیہ یہ رہا ہے کہ ہم دو میٹھے بول سُن کر خوش ہو جاتے ہیں لیکن بدقسمتی سے ہم آجبھی سچ یا جھوٹ میں فرق تلاش نہیں کر سکتے۔ ہمیں ہر بار سنایا کچھ جاتا ہے لیکن ہمارے ساتھ ہوتا اِس کے برعکس ہی ہے، شائد یہ بھی وجہ ہو سکتی ہے کہ ہماری برین واشنگ اِس طرح سے کر دی جاتی ہے کہ ہم جانتے ہوئے بھی انجان بنے رہتے ہیں، یہ بھی ہمارے معاشرے کی پسماندگی کی ایک بہت بڑی وجہ ہے، پاکستان میں کئی الیکشنز ہوئے، ہر الیکشن سے پہلے حکمرانوں کی طرف سے بلند وبالا دعووں کے پہاڑ کھڑے کیے گئے ،ہر بار یہی امید لگائی گئی کہ اب کی بار شاید تقدیر بدل جائے، کبھی روٹی کپڑا مکان کا نعرہ لگایا گیا تو کبھی اصلاحات کی باتیں کی گئیں تو آج ہم تبدیلی کی آندھی میں خوار ہو رہے ہیں، یعنی کہ قیامِ پاکستان سے لے کر آجتک ہر حکمران نے عوام کو خوب چونا لگایا، اگر کسی حکمران نے بہتر کام کرنے کی کوشش کی بھی تو اُس کی حکومت کا تسلسل برقرار نہ رہ سکا اور کبھی ایسا حکمران بھی آیا جو کچھ نہ کرنے کے باوجود بھی مضبوط رہا ،ایسا ہونے کے پیچھے بھی تلخ حقائق موجود ہیں جو ہر باشعور پاکستانی جانتا ہے، عمران خان سے پاکستان کی عوام کو بہت زیادہ اُمیدیں وابستہ تھیں کیونکہ الیکشن 2018 سے پہلے خان صاحب کی طرف سے جس طرح سنہری خواب دکھائے گئے، بلند و بالا دعوے کیے گئے تو عوام کی ایک بڑی تعداد خاص طور پر نوجوان اِن کو مسیحا سمجھ بیٹھے، الیکشن سے پہلے کے دعووں اور آجکے زمینی حقائق میں زمین آسمان کا فرق ہے، الیکشن سے پہلے تبدیلی اور احتساب کا نعرہ لگایا گیا آج اڑھائی سال سے زائد عرصہ گزرنے کے بعد وہ وعدے اور دعوے زمین بوس ہو چکے ہیں، معیشت سے لے کر صحافت تک، انفراسٹرکچر سے لے کر روزگار تک ہر جگہ منفی اشارے ہیں، سوشل میڈیا اور حکومت کے مختلف چینلز کی طرف سے یہ تاثر دیا جاتا ہے کہ حالات بہتر ہو رہے ہیں، ترقی کی راہیں ہموار ہو چکی ہیں لیکن یقین دہانی کے لئے تو یہ سب ممکن ہے لیکن حقیقت میں حالات بتدریج خراب ہو رہے ہیں اور حکومتی دعوے اور وعدے جوں کے توں موجود ہیں، یہیں سے اندازہ لگائیے کہ اِس اڑھائی سال سے زائد عرصے میں عمران خان اپنی کابینہ میں ناجانے کتنی بار ردوبدل کر چکے ہیں اور یہ سب تسلسل کے ساتھ اب بھی جاری ہے یقیناً یہ سب حکومتی وزراء کی بری کارکردگی کی بدولت ہی ممکن ہوا کہ عمران خان کو بار بار اپنی وزارتوں میں تبدیلی کرنا پڑتی ہے اگر اِن وزراء کی کارکردگی اچھی ہوتی یا بہتری آ رہی ہوتی تو اِن کو تبدیل کرنے کی نوبت ہی نہ آتی، یعنی کہ عمران خان ویسے تو تبدیلی لانے میں ابھی تک ناکام ہی ہوئے ہیں لیکن وہ اپنی ٹیم میں تبدیلی لا کر یہ ضرور باور کرواتے ہیں کہ تبدیلی آ چکی ہے، اور بار بار وزیراعظم بشمول حکومتی وزراء کی طرف سے یہ تاثر دیا جاتا ہے کہ اِن مسائل کے پیچھے ماضی کی حکومتوں کا ہاتھ ہے یقیناً ماضی کی حکومتیں دودھ کی دھلی ہوئی نہیں تھیں لیکن اِس حکومت کو اقتدار میں آئے تقریباً تین سال ہو چکے ہیں اور خیبر پختونخواہ میں پی ٹی آئی کی حکومت کو آٹھواں سال ہے لیکن حکومتی کارکردگی اِس طرح سے ہے کہ بجائے حکومتی کارکردگی کے اشارے مثبت ہونے کے بتدریج منفی کی طرف جا رہے ہیں، ملکی انفراسٹرکچر تباہ ہو چکا ہے، بےروزگاری میں خطرناک حد تک اضافہ ہو چکا ہے، معیشت کے زیادہ تر اشارے ابھی تک منفی میں ہیں یعنی کہ یہ حکومت کارکردگی دکھانے میں بری طرح ناکام ہو چکی ہے، ماضی کی حکومت نے ایک خطیر رقم ملک کے انفراسٹرکچر کو بہتر بنانے پر لگائی لیکن عمران خان الیکشن سے پہلے اپنی تقریروں میں یہ کہا کرتے تھے کہ قومیں سڑکیں بنانے سے نہیں بلکہ تعلیم اور صحت کی صورتحال بہتر بنانے سے ترقی کرتی ہیں، اب جب حکومت میں آئے تقریباً تین سال ہو چکے ہیں، تعلیم اور صحت کا حال ماضی سے بھی بدتر ہو چکا ہے، نہ تعلیمی ایمرجنسی کا اعلان کیا، نہ تعلیم و صحت کے بجٹ میں اضافہ کیا نہ ہی اِن اداروں میں اصلاحات کی گئیں بلکہ ماضی کی حکومتوں کا بنایا ہوا انفراسٹرکچر بھی تباہ ہو چکا ہے، ملک کے بیشتر علاقوں کی سڑکیں  ٹوٹ پھوٹ کا شکار ہیں، ترقیاتی بجٹ نہ ملنے کی بدولت عوامی نمائندے بھی مایوسی کا شکار ہو چکے ہیں، احتساب کا نعرہ لگانے والوں نے احتساب کے عمل کو بھی داغ دار کر دیا ہے،رپورٹ کے مطابق نیب نے ابھی تک صرف 33 کروڑ 6 لاکھ روپے کی ریکوری کی ہے اور نیب کو برطانوی کورٹ کی طرف سے کیس ہارنے پر6 ارب روپے کا جرمانہ ہو چکا ہے۔

(جاری ہے)

آپ اندازہ لگائیں کہ یہ لوگ ملک کے ساتھ کس قدر کھلواڑ کر رہے ہیں ۔آج بھی حکمران جماعت کا سوشل میڈیا سب اچھا ہے کی رٹ لگائے بیٹھا ہے لیکن زمینی حقائق اِس سے یکسر مختلف ہیں کیونکہ پاکستان کی عوام کی اکثریت موجودہ حکومت سے مایوس ہو چکی ہے ،اِس کی سب سے بڑی وجہ وہ خواب ہیں جو الیکشنز سے پہلے عمران خان کی طرف سے دکھائے گئے کہ ہم نوے روز کے اندر تبدیلی لے آئیں گے لیکن آج اڑھائی سال سے زیادہ کا عرصہ بیت چکا ہے لیکن بہتری کے آثار نظر نہیں آ رہے، اب ایک بار پھر فیصلہ پاکستان کی عوام کو ہی کرنا ہے کہ ہر بار کی طرح جھانسے میں رہنا ہے یا اپنے بہتر مستقبل کے لئے حقیقی معنوں میں کوششوں پر عمل درآمد بھی کروانا ہے ۔۔

ادارہ اردوپوائنٹ کا کالم نگار کی رائے سے متفق ہونا ضروری نہیں ہے۔

تازہ ترین کالمز :