ڈسٹرکٹ ہسپتال ڈیرہ ‘موت کی وادی میں تبدیل

بدھ 30 جون 2021

Sheikh Touqeer Akram

شیخ توقیر اکرم

جیالوں اور پٹواریوں کی حکومتیں آتی رہیں ، باریاں تبدیل ہوتی رہیں، لیکن تبدیلی سرکار جو کہ پاکستان کے دیگر صوبوں اور قومی اسمبلی میں تو 2018ء کو پنجے جمائے لیکن خیبرپختونخوا واحد صوبہ ہے جو 2013ء سے تبدیلی سرکارکے زیر عتاب ہے ۔پی ٹی آئی حکومت نے بہت سے اچھے کام کئے اور کئی اصلاحات لائیں لیکن کہیں کہیں تجربے کرتے کرتے عام لوگوں کی چیخیں نکل گئیں اور ایسے تجربوں میں سے ایک تجربہ ہسپتالوں میں ایم ٹی آئی نظام متعارف کرانا بھی شامل ہے۔

ایم ٹی آئی سے پہلے ہسپتال میں صرف ایک ایم ایس اور ایک ڈی ایم ایس ہوا کرتے تھے ۔ جو کہ اپنی نارمل تنخواہ میں یہ اضافی ذمہ داریاں سر انجام دیا کرتے تھے۔ لیکن ایم ٹی آئی نظام کے آنے سے ایک ہسپتال میں ایک میڈیکل ڈائریکٹر ، ایک ہسپتال ڈائریکٹر، ایک نرسنگ ڈائریکٹر، ایک پیرا میڈیکل ڈائریکٹر، ایک ڈائریکٹر فنانس، اور سات سے آٹھ بورڈ آف گورننس کے ممبر کام کررہے ہیں۔

(جاری ہے)

ان میں سے ڈائریکٹر صاحبان لاکھوں روپے تنخواہ لیتے ہیں۔ جبکہ کام وہی صرف ایک ایم ایس والا ہی کرتے ہیں ۔ جبکہ دوسری جانب یہ بھی قابل غور بات ہے کہ انگریز کے قانون کے مطابق 60سال عمر پوری ہونے پر سرکاری ملازمت سے ریٹائرڈ کر دیئے جاتے ہیں کیونکہ 60سال کے بعد وہ انرجی ، وہ طاقت نہیں رہتی۔ اس لئے سرکاری ملازمین کو 60سال پر محکمہ کو الوداع کہنا ہی پڑتا ہے۔

لیکن ایم ٹی آئی میں نظام الٹ ہو جاتا ہے۔ کہ جو سرکاری ملازمین 60سال پر ریٹائرڈ ہوتے ہیں مطلب ”Expirty Date not for Sale“(ختم ہونے کی تاریخ فروخت کیلئے نہیں)یہ میں نہیں کہہ رہا انگریزکا قانون کہتا ہے۔ جو کہ آج تک پاکستان میں سرکاری عمارات پر سرخ رنگ کے ساتھ ساتھ ہم پر مسلط ہے۔ میں خود خان کے ویژن کا حامی ہوں۔ گزشتہ روز 27جون 2021کو تھوڑی تکلیف ہوئی تو تسلی کیلئے بلڈ پریشر چیک کرانے اور دل کی ٹونیں چیک کرنے کیلئے ECGکرانے بھاگا بھاگا ڈسٹرکٹ ٹیچنگ ہسپتال ڈیرہ کے ٹراما سنٹر یہ سوچ کر پہنچا کہ ہم پاکستان کے دیگر صوبوں سے بہت اچھے اور بہتر ہیں کیونکہ تبدیلی سرکارنے یہیں مطلب ہمارے صوبے خیبرپختونخوا سے جنم لیا اور یہاں پر 2013ء سے انصاف کی حکومت ہے ۔

پٹواریوں، جیالوں کے بعد اب ہسپتال میں کافی بہتری آئی ہو گی۔ ٹراما سنٹر کے ایمرجنسی روم میں پہنچا تو ڈاکٹر صاحب نے مجھے ECGکرانے کیلئے ٹراما سنٹر کے ECGروم بھیج دیا ECGپر ایک جاننے والے حاجی صاحب کی ڈیوٹی تھی ۔ حاجی صاحب نے بڑی لگن سے میرے ہاتھوں ‘پاؤں سمیت سینے پر لیڈیں چپکائیں اور ECGکرنے کا پراسسز شروع کیا۔ اس کے بعد ECGانہوں نے بغیر کسی دیر کیے مجھے تھما دی میں بھا گا بھاگا دوبارہ ٹراما سنٹر کے ایمرجنسی روم میں پہنچا تو وہاں پر موجود ڈاکٹر صاحب کی ڈیوٹی تبدیل ہو چکی تھی۔

کوئی نئے ڈاکٹر صاحب اپنی ڈیوٹی پر تعینات تھے میں نے پرچی اور اپنی ECGدکھائی تو ECGدیکھتے ہی ڈاکٹر صاحب نے کہا کہ میریض کو اندر لانے کی ضرورت نہیں ۔ اللہ کو یہی منظور ہو گا۔ میرے پاؤں کے نیچے سے زمین نکل گئی۔ میں نے ڈاکٹر کو پریشانی کے عالم میں کہا کہ مریض میں خود ہوں اور یہ ECGمیری ہے ۔ تو انہیں بھی میری بات فاسٹ بالر کے باؤنسر کی طرح لگی ۔

اور وہ چونک کر بولے کہ پھر ECGمشین خراب ہے اگر آپ زندہ ہیں تو مجھے دوبارہ ECGکرانے کیلئے CCUوارڈ بھیجا اور یہ بھی کہا کہ وہاں سے بلڈ پریشر بھی چیک کراتے آنا میں نے وہاں سے ECGکرائی تو اللہ کے شکرسے ECGکا رزلٹ ٹھیک تھا ۔ دل کی تاریں صحیح طرح سے کام کررہی تھیں۔ اس کے بعد جب CCUوارڈ میں ڈیوٹی پر موجود ڈاکٹر کو بلڈ پریشر چیک کرنے کیلئے کہا تو انہیں میری بات جیسے بجلی گری ہو ایسے لگی تو انہوں نے کہا کہ بلڈ پریشر چیک کرنے کیلئے آپ کو CCUوارڈ میں ایڈمٹ ہونا پڑیگا اس کے بعد ہم مانیٹر کے ذریعے بلڈ پریشر چیک کریں گے ۔

میں نے کہا پہلے تو بی پی آپریٹس سے بلڈ پریشر چیک ہوا کرتا تھا۔ اب ایسا کیوں نہیں ہوتا توآگے سے جواب ملا کہ دل کے وارڈ میں صرف ایک بی پی آپریٹس موجود ہے اس سے آج ہم نہیں کر سکتے کیونکہ آج ایک مریض Covid19پازیٹو تھا اور اس کا بلڈ پریشر اسی سیٹ سے چیک کیا گیا ۔ کل صبح مذکورہ بی پی آپریٹس کو سینیٹائز کیا جائے گا اور دوبارہ کام میں لایا جائے گا۔

میں ECGاٹھائے دوبارہ بھاگتا بھاگتا ٹراما سنٹر کے ایمرجنسی روم میں پہنچا اور ڈاکٹر صاحب سے درخواست کی کہ آپ ہی مجھے بلڈ پریشر چیک کرکے بتا دیں۔ تو جب ایک مرکری والے بی پی آپریٹس کو اٹھایا گیا تو وہ ٹوٹا ہوا تھا اورجب دوسرے سیٹ سے بلڈپریشر چیک کرنا چاہا گیا تو اس کی حالت بھی غیر تھی بالآخر ڈاکٹر صاحب نے میز پر پڑے بڑے بی پی آپریٹس سے بلڈیریشر چیک کرنے کا حکم نامہ جاری کیا پھر میڈیکل ٹیکنیشن نے میرا بلڈ پریشر چیک کیا توبلڈ پریشر کا رزلٹ کچھ یوں بتایا کہ آپ کا اس وقت بلڈپریشر 180/140ہے۔

تو مجھے جھٹکا سا لگا کہ اتنا بلڈ پریشر ہونے کے باوجود میری رگیں کیوں نہیں ٹوٹیں۔ مجھے ہیمرج کیوں نہیں ہوا۔ اور اب تک مجھے سٹوک کیوں نہیں لگا۔ تو ڈاکٹر صاحب کو جب بلڈ پریشر بتایا گیا تو انہوں نے کہا کہ یہ بی پی آپریٹس بھی خراب ہے۔ پھر بھاگا بھاگا جب ٹراما سنٹر کے وارڈ میں پہنچا تو وہاں پر نوجوان میڈیکل آفیسر ز کو اپنا بلڈپشر چیک کرنے کی درخواست کی تو انہوں نے بھی یہی بتایا کہ ہمیں بی پی آپریٹس نہیں ملتے ۔

ہمیں صرف 70ہزار روپے تنخواہ ملتی ہے۔ اور اس میں سے ہم اپنی جیب سے بی پی آپریٹس ہسپتال لے آتے ہیں جو ہر دوسرے دن چوری ہو جاتا ہے۔ الماری سے ڈاکٹر صاحبان نے اپنا پرسنل بی پی آپریٹس نکالا اور میرا بلڈ پریشر چیک کیا تو 130/85تھا۔ یہ تووہ احوال ہے۔ جو مجھ جیسے شہری کے ساتھ پیش آیا۔ جو تھوڑا بہت ہیلتھ کے ساتھ جانکاری رکھتا ہے ۔ اس کے بعد میں نے اس تمام صورت حال سے ڈی ایچ او آفس سے 60سالہ مدت ملازمت پوری کرنے کے بعد ریٹائرڈ ہونے والے ڈاکٹر فرخ جمیل جو آج کل ڈسٹرکٹ ٹیچنگ ہسپتال ڈیرہ ایم ٹی آئی میں ہسپتال ڈائریکٹر کے عہدے پر تعینات ہیں سے موبائل پر بات کی اور انہیں اس تمام صورت حال سے آگاہ کیا۔

تو انہوں نے ٹراما سنٹر کی تمام تر کمی کوتاہیوں کا ذمہ دار ٹراما سنٹر کے انچارج ڈاکٹر طاہر گنڈہ پور اور سی سی یو وارڈ کی تمام تر کمی کوتاہیوں کی ذمہ داری انچارج ڈاکٹر امجد ابرار پر تھونپ دی ۔ انہوں نے کہا کہ پاکستان کی ہر کل الٹی ہے ۔میں کون کون سی چیز کو سیدھا کروں ۔ میں خود اس وقت بی او جی کی میٹنگ کے لئے پشاور موجود ہوں۔ یہ تو بات قابل توجہ ہے کہ تمام ترقیاتی ممالک سے پاکستان سو سال پیچھے رہ چکا ہے۔

لیکن یہاں یہ بات بھی کہنا بہت ضروری سمجھتا ہوں کہ پنجاب کی نسبت خیبرپختونخوا اور خیبرپختونخوا کے دوسرے اضلاع کی نسبت ڈیرہ اسماعیل خان بہت پیچھے رہ چکا ہے۔اللہ پاک تمام اعلیٰ حکام کوتوفیق دیں کہ وہ ڈیرہ کے ہسپتالوں پر نظر ثانی کریں اور اللہ ہمارے اور آپ کے حال پر رحم فرمائیں ۔اور اس میں بھی کوئی شک نہیں کہ ڈاکٹرز پیرا میڈیکل سٹاف اور نرسنگ سٹاف اپنی ڈیوٹیاں احسن طریقے سے سرانجام دے رہے ہیں ۔ لیکن اگر ECGمشین خراب ہے یا پھر BPآ پریٹس خراب ہے تو اس کی زمہ داری ہسپتال انتظامیہ پر عائد ہوتی ہے ، کسی اور پر نہیں ۔” باقی سب خیریت ہے“۔

ادارہ اردوپوائنٹ کا کالم نگار کی رائے سے متفق ہونا ضروری نہیں ہے۔

تازہ ترین کالمز :