بدقسمت ضلع بٹ گرام ۔خوبصورتی سے مالا مال مگر حکمرانوں کی نظرکرم سے اْوجھل

بدھ 1 اپریل 2020

Sheraz Ahmad Sherazi

شیراز احمد شیرازی

 بٹ گرام ہزارہ ڈویژن کا اہم اور مرکزی ضلع ہے جوجغرافیائی لحاظ سے ایک منفرد مقام رکھتا ہے۔ ضلع کی آبادی تقریباًپونے پانچ لاکھ نفوس پر مشتمل ہے ۔ضلع بٹ گرام قومی اسمبلی کے ایک اور صوبائی اسمبلی کے دو حلقوں میں منقسم ہے ۔جس میں دو تحصلیں بٹ گرام اور الائی اور 20 یونین کونسل ہیں ۔ ضلع بٹگرام قدرتی طور پر سر سبز اور گھنے جنگلات سے لبریز فلک بوس پہاڑوں ، لہلہاتی ہوئی حسین وادیوں اور کھیتوں کلیانوں ، سانپ کی طرح بل کھاتی ہوئی ندی نالوں ، قدرتی چشموں اور آبشاروں کی سر زمین ہے۔

سیاحتی طور پر سوات ،مری ،اور زیارت بلوچستان سے قدرتی حسن میں کم نہیں ۔ پاکستان بننے کے بعد اب تک لوگ چاند اور مریخ کو مسخر کرگئے مگر بٹ گرام کے مکین وہی وقیانوسی زندگیاں بسر کر نے پر مجبور ہیں ۔

(جاری ہے)

تعلیمی ، طبی، مواصلاتی ، سیاسی اور ترقیاتی میدانوں میں بٹ گرام شاید واحد بد قسمت ضلع ہے ۔ جو ا ب تک کسی مسیحا کے انتظار میں ہے۔اور آج تک زندگی کے ہر میدان میں ترقی سے محروم ہے ۔

خدا جانے بٹ گرام اس ترقیافتہ دور میں بھی تمام ضروریات ِ زندگی سے کیوں محروم رہا اور اس پسماندگی کے ذمہ دار کون ہیں جو اب تک ایک سوالیہ نشان ہے ۔ شاید بٹ گرام کی پسماندگی اس ضلعے کی عوام کا مقدر ہے ۔ یا سیاسی شعور کے فقدان کے بدولت یہاں کے سیاسی پنڈت پانچ تن پاک ہیں جو انگریز کے فارمولے (Divide and Rule) کے مطابق عوام کوڈلہ ، جبنوں میں تقسیم کرکے بٹ گرام کے عوام کو سیاسی آزادی اور ترقی دینا نہیں چاہتے ۔

آگرچہ مرحوم ضیاء الحق کے شوری دور سے لیکر اب تک ایوان ِ اقتدار سے ترند گروپ کے قائد الحاج محمد یو سف خا ن ترند اور بیاری گروپ و تیلوس گروپ قومی و صوبائی قائدین مرحوم نواب آف الائی الحاج محمد ایوب خا ن الائی ۔ ان کے فرزندان پرنس محمد نواز خان الائی، الحاج فتح محمد خان اور شاہ حسین باچہ تیلوس منسلک رہے ہیں ۔ جبکہ تھاکوٹ گروپ کے قائد الحاج عالم زیب خان تھاکوٹ اور بٹ گرام گروپ کے الحاج محمد آیاز خان ایڈوکیٹ (مرحوم)جمعیت العلماء اسلام (ف) کے مولنا قاری محمد یوسف خان پر بھی قسمت کی دیوی مہربان ہو کر بٹ گرام کی نمائندگی کر چکے ہیں ۔

اب بٹ گرام کے عوام کے تقدیر بدلنے کے لیے قومی اسمبلی میں پاکستان تحریک انصاف کے پرنس محمد نواز خان ،ترند گروپ کے تاز محمد خان ترند اور بیاری گروپ کے انجینئر زبیر خان صوبائی اسمبلیوں میں براجمان ہیں ۔سیاسی لحاظ سے ضلع بٹ گرام میں سیاسی نظریات اور شعور کا فقدان ہے۔ بٹ گرام کے عوام جدی پشتی گروپوں اور جنبوں میں منقسم ہیں اور وہی ڈلہ جنبوں کے قائدین الیکشن میں کسی سیاسی پارٹی کا لبادہ اڑھ لیتے ہیں ۔

جو جیت جاتے ہیں ۔ان کی ڈلہ جنبوں کے قائدین کی ہر جگہ،ہرگلی اور ہر قریہ میں ووٹ بینک موجودہیں۔ اگریہی ڈلہ قائدین کام کرے بھی تو اپنے ڈلہ جنبے کی مفاد کو نظر رکھ کر کرتے ہیں ۔
جس کی وجہ سے ضلع بٹ گرام آج تک پسماندہ اور عوام ترقیاتی کاموں سے کما حقہ فائدہ نہیں اْٹھا سکے۔ ضلع بٹ گرام کی پونے پانچ لاکھ کی آبادی کے لیے ایک ہی ڈگری کالج تو ہے ۔

مگر وہاں بھی سٹاف کی کمی ہے۔ اسی طرح ضلع بھر میں لڑ کیوں کے لیے صرف ایک ہی انٹر کالج اور دو ھائی سکول تو ہیں مگر سٹاف پورا نہیں ۔ حالانکہ ہزارہ ڈویژن کے اضلاع مانسہرہ ، ایبٹ آباد اور ہری پور میں یو نیورسٹیاں قائم ہیں اور ایبٹ آباد ، مانسہرہ اور ہری پور میں کالجوں کی بھر مار ہیں ۔مگر بٹ گرام واحد بد قسمت ضلع جہاں یونیورسٹی نہیں۔ ہزارہ یو نیورسٹی کی کیمپس تو خدا خدا کرکے مل گیا مگر اس کی بھی بلڈنگ موجود نہیں ۔

حالانکہ ہزارہ یو نیورسٹی کی حویلیاں اور ہری پور میں حکمرانوں نے کیمپس بنوائے اور بڑے بڑے بلڈنگز بھی فراہم کئے ہیں ۔ مگر بٹ گرام کے عوام کو طفل تسلیاں دی جا رہی ہیں اور صرف سروے پرٹر خا یا جا رہا ہے۔ حالانکہ بٹ گرام میں اگر الگ یو نیورسٹی بنائی جا ئے تو بٹ گرام ، الائی کے طلبہ کے ساتھ ساتھ شانگلہ ۔ کوہستان اور طورغر کے طلبہ با آسانی اعلیٰ تعلیم حاصل کر سکتے ہیں ۔

تعلیمی سہولتوں کے فقدان کے بدولت اور حکمرانوں یا منتخب نمائندوں کی طوطا چشمی سے ضلع بٹ گرام شرح خواندگی کے لحاظ سے صوبے بھر میں 22ویں پوزیشن پر ہے ۔حالانکہ وفاقی حکومت کے اٹھارویں تر میم کے ارٹیکل 25/Aکے مطابق 5سے سولہ سال تک بچوں کو مفت تعلیم دینا ریاست کی ذمہ داری ہے۔ لیکن اس کے باوجود بٹ گرام میں شرح خواندگی تقریباََ 42فیصد ہے ۔

اس کی بڑی وجہ سہولیات اور اساتذہ کی فقدان یا عدم دلچسپی ہے۔ ایک سروے کے مطابق ضلع بھر میں طلبہ کے لیے ایک ہا ئیر سکینڈری سکول ، 34ہائی سکول ،27مڈل سکول اور 418 پرائمری سکول اور 77مسجد سکول ہیں ۔ جس میں اکثر سہولیات کا فقدان ہے۔ ضلع بھر میں ان ھائی سکولوں میں اکثر ہا ئی سکولوں کے سر براہ ہی نہیں ۔ ۔اگر کسی گھر کا سر براہ ہی نہ ہو تو اُ س گھر کا کیا حال ہو گا ۔

اور سا ئنس جیسے لازمی مضامین کے اسا تذہ نہ ہو ۔ تو وہاں کے طلبہ کیسے اپنے اعلیٰ تعلیم کے خواب پورا کر سکیں گے۔ یا والدین کے اپنے بچوں کو ڈاکٹر یا انجنےئر بنانے کے کیسے منصوبہ بندی کر سکیں گے ۔ اسی طرح مڈل سکولوں کی حالات بھی قابل رشک نہیں ۔ مڈل سکولوں میں بھی ماہر اساتذہ کی کمی ہے ۔
جبکہ پر ائمری سکولوں میں بھی حالات نا گفتہ بہہ ہے ۔

وہاں بھی اگر اساتذہ ہیں ۔ تو ڈیوٹی کرنا اکثر اساتذہ کے شان کے خلاف ہیں ۔اور مانیٹرنگ کرنے والے محترم حضرات صرف نام تک ہی محدود ہے۔ جس کی وجہ سے شرح خواندگی میں اضافہ نہیں ہو رہا ہے ۔ ایک اندازے کے مطابق 36فیصد بچے ایسے ہیں جو کلاس 2nd کے ْاردو پڑھ سکتے ہے اور 27فیصد بچے صرف دو ڈویجٹ لیول کی انگریزی پڑھ سکتے ہیں ۔ اس کے علاوہ مساجد سکول سرکاری عمارتوں سے محروم ہیں ۔

جبکہ پر ائمری سکولوں میں 10 فیصد بجلی ، 57 فیصد میں ٹوائلیٹ ،34 فیصد سکولوں میں پانی اور40 فیصد سکولوں میں باؤ نڈری وال کی سہولیتں موجو د ہیں ۔ اکتوبر 2005ءء کے زلزلے کے بعد اب تک اکثر سکولوں کی عمارتیں مکمل نہیں کےئے جا سکے اور اب تک اکثر سکول تعمیر کی مراحل سے گزر رہے ہیں ۔ یہاں تک گرلز مڈل سکول شنگلی پائیں کی عمارت زلزلے کے بعد وجود سے غائب ہو گئی۔

مگر گیارہ سال تک استا نیاں اور چوکیدار افسران بلا کی ملی بھگت سے ماہوار تین لاکھ روپے قومی خزانے سے بٹورتے رہے۔ضلع بھر میں گرلز ہائی سکول اور مڈل سکول اگر ہیں بھی تو استاینوں کی کمی ہے۔ اسی طرح اکثر گرلز پرائمری سکولوں میں تدریس کا کما حقہ رواج نہیں۔ اکثر استاینوں گھر بیھٹے اپنے نام پر اِ ن ٹرنیڈ میٹرک لڑ کیوں کو نصف تنخواہ پر رکھے ہوئے ہیں ۔

جو وقت گزاری کے لیے سکول آتی ہیں ۔ گرلز سکول بھی سیاسی بنیادوں پرتعمیر کئے گئے ہیں جو درسگاہ کم اور حجرے زیادہ استعمال ہو رہے ہیں ، ضلع بٹ گرام میں سرکاری سکولوں کی قابل رحم حالت زارکے بدولت گلی کوچوں میں غیر سرکاری سکولوں کا بھر مار ہے ۔چند ایک پرائیوٹ سکولو ں کو چھوڑ کر باقی پرائیوٹ سکولز صرف نام کی حد تک ہے۔قرآن ، اسلام اور دین کے نسبت سے نام رکھ کر بھاری فیسوں کے عوض قوم کے نو نہالوں کے مستقبل سے کھیل رہے ہیں ۔

نہ ان پر ائیوٹ سکولوں کے عمارتیں ہیں اور نہ ہی ان سکولوں میں ٹر ینڈ اور حکومتی پالیسی کے مطابق اساتذہ موجود ہیں ۔ بلکہ ان پر محکمہ تعلیم کی طرف سے کو ئی چیک اینڈ بیلنس تک نہیں ۔ ہر گاوٴں میں پر ائیوٹ سکول موجود ہے ۔ مگر تدریس کا عمل نہیں ۔ بلکہ بورڈ حکام سے ملی بھگت سے میٹرک کے امتحان میں ہالوں کے ہال بک کئے جاتے ہیں ۔ جس سے پر ائیوٹ سکولوں کے طلبہ بوری بھر نمبر تو لے لیتے ہیں مگر انھیں الف ، ب کا پتہ نہیں ہوتا ۔

یہ پرائیوٹ سکول والے اتنے با اثر ہیں کہ میٹرک کے امتحان میں اس وقت موجودہ ڈپٹی کمشنر بٹ گرام کو بچوں سے بوری بھر نقل لینے کے پاداش میں تبدیل کر بھیٹے ہیں ۔ اسی طرح اونٹ ر ے اونٹ تیرا کو رہنا کھل سیدھی کے مطابق ضلع بھر میں صحت اور حفظان صحت کا کوئی مناسب بندوبست نہیں۔ ضلع بھر میں ایک ڈسٹرکٹ ہیڈ کوارٹر ہسپتال ، ایک تحصیل ہیڈ کوارٹر ہسپتال الائی ، دو رل ہیلتھ سنٹر، 28 بنیادی مراکز صحت ،اور 9ڈسپنسریاں سمیت ایک ٹی بی کنٹرول سنٹر اور ایک ماور اینڈ چائلڈرن کئیر سنٹر ہیں ۔

مگر شومئے قسمت ضلعی ہیڈ کواٹر ہسپتال بٹگرام جو زلزلہ 2005ءء کے بعد حکومت جاپان نے کروڑوں روپے کی لاگت سے پْر شکوہ عمارت توبنوائی ۔ مگر ڈاکٹر حکومت تعینات کرنا اپنی ذمہ داریوں میں شامل نہیں کرتے ۔ ضلعی ہیڈ کواٹر ہسپتال میں 55ڈاکٹروں کی اسامیاں پر صرف چند ہی ڈاکٹر موجود ہیں ۔ ۔اسی طرح نیوروسرجن ، ارتھوپیڈک ، ہارٹ ، چسٹ اور دیگر ا مراض کے سسپلشسٹ ڈاکٹر تک نہیں ۔

وارڈوں اور دیگر ایمرجنسی کے لیے ڈاکٹر کی موجودگی شاید ہی قسمت کی بات ہو ۔ضلع بھر کے دیگر ہسپتالوں بالخصوص تحصیل ہیڈ کواٹر ہسپتال بنہ الائی میں صرف ایک ہی ڈاکٹر نے محکمہ صحت کا سر بلند کئے رکھا ہے ۔تحصیل الائی کے عوام کے لئے خاتون ڈاکٹر شاید خواب ہی ہے ۔ وہاں 9 اسامیاں خالی پڑی ہیں ۔اسی طرح 28بنیادی مراکز صحت میڈ یکل ٹیکینشیوں کی رحم وکرم پر ہے ۔

چند مراکز میں ایم بی بی ایس ڈا کٹر موجود ہیں ۔ باقی تعلیم کی طرح محکمہ صحت بھی قابل رحم ہے۔ بٹ گرام کے عوام اِ س دور میں بھی یا تو ایڑ ھیاں رگڑ رگڑ مرنے یا پرائیویٹ ڈاکٹر وں کے اْلٹے سیدھے نسخوں کے عوض مالی وجانی نقصانات اْٹھارہے ہیں ۔ ضلع بھر میں پرائیویٹ سکولوں کی طرح پر ائیویٹ ہسپتالوں کا بھر مار ہے اور ایف آر سی پی پارٹ 1والے بھی سپلیشٹ ڈاکٹر بن بیٹھے ہیں ۔

سرکاری ہسپتال میں ایم او کی پوسٹ پر تعینات ڈاکٹر بھی پرائیویٹ ہسپتالوں میں سرجن کا کردار نبھارہے ہیں ۔ خاص کر اتوار کو میلہ لگارہتا ہے ۔ پشاور اور ایبٹ آباد کے ڈاکٹروہاں کامیاب ہی نہ ہو بٹ گرام میں ان کو سر کجھانے کی فر صت نہیں ملتی ۔ اس کے علاوہ بٹ گرام پر شعبہ ہائے زندگی میں دیگر اضلاع سے پسماندہ ہے ۔ ضلع بھر میں لنک سڑکوں کا جال بچھا ہوا ہے ۔

مگر ٹھوٹ پھوٹ کا شکار ہیں اور اتنے تنگ ہیں کہ اس پر سڑ ک کی نہیں پکڈنڈ یوں کا گمان ہوتا ہے ۔ضلع بھر جنگلات جو بٹ گرام کے حسن کو دوبالا کر رہی تھی ، ٹمبر مافیا کے ہا تھوں چٹیل میدانوں میں تبدیل ہو رہے ہیں ۔ سالانہ پلانٹیشن کے لئے محکمہ جنگلات کی طرف سے بھی کوئی خاطر خواہ انتظام نہیں ۔ بٹ گرام میں زلزلہ 2005ء ء سے متاثرہ اکثر سکو ل سرکاری عمارتیں تا حال تعمیر کی مراحل سے گزار رہے ہیں ۔

اس طرف اب خاطر خواہ توجہ نہیں دی جا رہی ہے۔ بٹ گرام میں ایسے علاقے بھی ہیں جو صحت افزاء ہیں مثلاًکو پراسر ، چیل ، خاپیروڈ ھری ، راشنگ گنگوال اور وادی چوڑ مگر حکومتی توجہ سے اْوجھل ہے ۔قصہ مختصر حکمرانوں کی چشم پوشی اور یہاں کے ممبران ِاسمبلی کی عدم دلچسپی کے بدولت بٹ گرام کے عوام آج بھی وقیانوسی زندگیاں بسر کرنے پر مجبور ہیں ۔یہاں تک تحریک انصاف کی حکومت بھی بٹ گرام کے عوام کے توقعات پر پوری نہ اْتر سکی ۔ پی ٹی آئی کے حکومت نے بھی بٹ گرام میں کوئی قابل ِ ذکر کام نہ کیا اور نہ ہی وزیر اعلیٰ نے بٹ گرام کاسرکاری دورہ کرناگوارہ کیا ۔ خدا ہی ہمارا حافظ ہے ۔

ادارہ اردوپوائنٹ کا کالم نگار کی رائے سے متفق ہونا ضروری نہیں ہے۔

تازہ ترین کالمز :