یہ آئین وائین قانون وانون کیا سب ڈھکوسلے ہیں ۔۔۔؟؟؟

ہفتہ 4 جنوری 2020

Syed Arif Mustafa

سید عارف مصطفیٰ

بہت دلگرفتہ ہوکے یہ کہنے پہ مجبور ہوگیا ہوں کہ شاید ہی کوئی قوم ' اپنوں' ہی کے ہاتھوں یوں یرغمال بنائی گئی ہو کہ جیسا کہ ہماری قوم کا مقدر بنادیا گیا ہے ۔۔ ہے کوئی جو مجھے یہ بتائے کہ اس ملک کے آئین و قانون کی آخر کوئی وقعت ہے کہاں ۔۔۔۔ تف ہے اس 'جمہوری' کہلانے کا شوق پالنے والے معاشرے پہ کہ جب لاپتہ افراد کی وکالت کرنے والا خداترس وکیل خود ہی لاپتہ کردیا جائے اور پورے 16 روز تک جسے اسکے اہلخانہ ہر ہر در کھٹکھٹاتے پھر رہے ہوں کہ آخر اسے کون اور کیوں اٹھالے گیا ہے ۔

۔۔
 جب اس ضابطے پہ عمل ہونا ہی نہیں تو پھر مملکت خداداد کے قانون کی کتاب میں یہ صاف طور پہ لکھا ہی کیوں گیا ہے کہ کہ ہر شہری کو مساوی سمجھا جائے گا اوراگر اسے کسی جرم میں گرفتار کیا جائے گا تو سب قانونی ضابطوں کی پابندی کی جائیگی اور اسے گرفتاری کے چوبیس گھنٹوں کے اندر مجاز مجسٹریٹ کے روبرو پیش کیا جائیگا اور جسے اس زیرحراست شخص کی حراست کی وجوہات سے آگاہ کیا جائے گا اور مزید تفتیش کے لیئے زیرحراست رکھنے کے سلسلے میں مجسٹریٹ کی باضابطہ اجازت لی جانی ضروری ہوگی ۔

(جاری ہے)

۔۔۔ لیکن ہمارے ملک میں عملاً اسکے قطعی برعکس ہورہا ہے ،،،
 قومی سلامتی کےادارے قومی مفاد کے نام پہ جب چاہیں اور جہاں چاہیں چادر اور چاردیواری کو پامال کرڈالتے ہیں اور جسے چاہتے ہیں اپنی گاڑیوں میں مال مویشی کی ماندد ٹھونس کے لے جاتے ہیں اور پھر انکے پیاروں کے پاس یہ سراغ بھی نہیں ہوتا کہ وہ انہیں کہاں تلاش کریں ۔۔۔ پورے 16 روز کے بعد جبکہ یہ بات 99۔

99 نہیں بلکہ مکمل اور سو فیصد کی حد تک عیاں ہوچکی تھی کہ وکیل انعام الرحیم کس کی حراست میں ہیں اور اس بابت بہت ہاہاکار مچ گئی تھی تو اسی لیئے بالآخر یہ نوبت بھی آگئی کہ لاہور ہائیکورٹ کے سامنے وزارت دفاع کی جانب سے اب انکی حراست ظاہر کردی گئی ہے کہ جہاں انکی گمشدگی سے متعلق انکے بیٹے کی طرف سے دائر مقدمہ زیرسماعت ہے واضح رہے کہ یہ وکیل ایک ریٹائرڈ کرنل بھی ہے ۔

۔۔۔کورٹ میں جسٹس مرزا وقاص رؤف نے استفسارکیا کہ کس قانون اور شق کے تحت انعام الرحیم ایڈووکیٹ کو تحویل میں لیا گیاہے لیکن سرکاری وکلاء عدالت کو مطمئن نہ کرسکے۔۔ کرسکتے تو ضرور کرتے لیکن آخر کرتے تو کیسے کہ جب وہ کچھ ہوا جو قانون کی کتاب کے قطعی برعکس ہو ۔۔۔ اور وہ بھلا یہ کیسے بتاتے کہ یہ قانون نامی دستاویز اور یہ آئین نامی کتابچہ بھلا انکی اوقات ہی کیا ہے ملک کے اصلی طاقتوروں کے سامنے ۔

۔۔ جب چاہیں گے پھاڑ ڈالیں گے ، روند ڈالیں گے ۔۔۔۔ چلاتے رہیئے آپ جتنا بھی چلائیں ۔۔۔ مگر یہاں زور تو اسی کا چلے گا کہ جو حقیقی زور آور ہے ۔۔۔ نہیں مانتے تو اٹھائیں یہ مقدس دستاویزات اورتربیلا ڈیم پہ چڑھ کر نیچے چھلانگ لگادیں ۔۔۔۔
 دیکھنا یہ ہے کہ عدالتیں اب اس مملکت کو قانون کی حکمرانی کا مقام ثابت کرپاتی ہیں یا نہیں یا پھر یہاں جنگل کے اس اندھے قانون ہی کا اندھا راج جاری رہے گا کہ جسکا خمیازہ ہم اس ملک کا ایک نصف بازو کھونے کی صورت بھگت چکے ہیں لیکن اب بھی ہماری مقتدرہ کی آنکھیں نہیں کھل سکیں ۔

۔۔۔۔ میں منتظر ہوں کہ وہ دن کب آئے گا کہ جب مملکت کے خداد شہریوں کو جانوروں کی طرح اٹھا لیجانے والے اور قانون کو جوتے کی نوک پہ رکھنے والے یہ بےلگام اور منہ زور اہلکار بھی اسی طرح جیل کی گاڑیوں میں ٹھونسے جاسکیں گے اور اپنی اس قانون شکنی کی سزا پائیں گے اس سے قطع نظر کہ خواہ وہ یہ حکم دینے والے ہوں یا اس پہ عملدرآمد کرنے والے۔۔۔ اور یہی وہ پیمانہ ہے کہ جس سے ملک میں قانون کی حکمرانی کو افسانے سے حقیقت کا پیراہن پہنایا جاسکے گا ۔۔۔

ادارہ اردوپوائنٹ کا کالم نگار کی رائے سے متفق ہونا ضروری نہیں ہے۔

تازہ ترین کالمز :