
اب نہیں تو کبھی نہیں۔۔۔
پیر 10 اگست 2020

سید عارف مصطفیٰ
کیونکہ پہلے ہی بہت تاخیر ہوچکی ۔۔۔ اور اب انتہائی بڑے اقدامات کے سوا کوئی چارہ نہیں ۔۔۔ اگر اب بھی کراچی کو لوٹ مار تعصب اور بدعنوانی کی موجودہ دلدل یعنی یپلز پارٹی کی صؤبائی حکومت کے چنگل سے نہ نکالا گیا تو پھر معاملات اس حد تک بگڑسکتے ہیں کہ اپنے ملکی فیصلہ سازوں کے ہاتھوں ہی سے نہ نکل جائیں اور یوں اب مزید تاخیر سے سدھار اور بحالی کی باتیں خیال و خواب ہو کر رہ جائیں گی کیونکہ قوی خدشہ ہے کہ بغاوت کے دہانے تک پہنچادیا گیا یہ شہر تنگ آمد بجنگ آمد کے نظریئے کے تحت خاکم بدہن ایک بار پھر پرانے سیاسی نما دہشتگردوں کے چنگل میں آجائے گا اور اس بار انکے سرخیل الطاف حسین کا ایجنڈہ بہت واضح ہے کیونکہ ابکے اس نے اپنا نقاب خود ہی اتار کے رکھ دیا ہے اورصاف صاف اعلان کردیا ہے کہ وہ بھارت اور مغربی طاقتوں کی مدد سے کراچی کو پاکستان سے الگ کرنے اور سندھو دیش بنانے کا ہدف پانا چاہتا ہے اور اس ضمن میں وہ یوٹیوب پہ لندن سے آئے روز زہریلی تقریریں کررہا ہے اور بالکل کھل کر اپنے مذموم مقاصد اورمنفی عزائم کا اظہار کررہا ہے- یہ سب یونہی نہیںہے دراصل کشمیر کے معاملے میں بھارت کی تاحال ناکامی نے اب اسے بھارت کی حکمت عملی کا وہ مہرہ بنادیا ہے کہ بھارت کے نزدیک اب اس کے استعمال کا صحیح وقت آن پہنچا ہے اور اس سیاسی ٹٹو پہ ہوئی خطیر سرمایہ کاری سے فائدہ پہ مبنی نتائج سمیٹنے ضروری ہوگئے ہیں - یہاں یہ واضح کردوں کہ گزشتہ کئی برسوں کی غلط پالیسیوں کے نتیجے جس طرح یہ شہر بدترین پسماندگی کا شکار بناڈالا گیا ہے اسکے بعد الطاف حسین کے بھوت میں پھر سے جان پڑتی محسوس ہورہی ہے اور کراچی کے گی کوچوں میں اور چوک چوباروں اور تھڑوں پہ اس کا نظریاتی چورن بہت دھڑلے سے بکتا دکھائی دے رہا ہے
اب آتے ہیں کراچی کے معاملات کے حل طرف تو گو کہ یہ بات بالکل صاف ہے کہ کراچی اب آئندہ مزید صوبہ سندھ کے ساتھ چلنے کو تیار نظر نہیں آتا لیکن اس سلسلے میں کوئی بھی یکطرفہ قدم اٹھانا نہیں چاہیئے کیونکہ اس طرح کے کسی یکطرفہ اقدام سے منفی قؤتوں کو شرپسندانہ پروپیگینڈا کرنے کا موقع ہاتھ لگ جائے گا اور قوم پرستوں کو بھی ایک ایسا جھنجنا ہاتھ لگ جائے گا کہ جسے وہ تادیر بجاتے پھریں گے عین مناسب بلکہ لازمی ہے کہ آئین میں دیئے گئے خصوصی اختیار کے تحت یہاں ایک خصوصی ریفرنڈم کروایا جائے جس میں کراچی والوں کے سامنے 4 مختلف آپشن رکھے جائیں جن مں پہلا تو یہی ہو کہ کیا آیا کراچی کو جوں کا توں صوبہ سندھ کا حصہ ہی رہنے دیا جائے جبکہ دوسرا آپشن اس شہر کو وفاق کے تحت کرنے کا ہو اور اس سلسلے میں تیسرا آپشن الگ صوبہ بنانے کا دیا جائے اور چوتھے آپشن میں یہ رکھا جائے کہ کیا سندھ کو شہری اور دیہی حصوں میں تقسیم کرکے دو صوبے بناکےکراچی کو اس شہری صوبے میں شامل کردیا جائے
یہ جو چوتھا آپشن ہے تو یہ زیادہ مؤثر معلوم ہوتا ہے کیونکہ اؤل تو اس آپشن کی وجہ سے دونوں حصوں میں سندھ کا نام عین اسی طرح شامل رہے گا کہ جیسے صوبہ پنجاب میں سے ایک اور صوبہ ' جنوبی پنجاب ' بنانے کی تجویز۔
(جاری ہے)
جہاں تک کراچی کو وفاق کے تحت کرنے کا آپشن ہے تو یہ محض عبوری حل کے طور پہ ہی چل سکے گا اور جلد یا بدیر اسے ترک کرنا پڑے گا کیونکہ اس کا انتظام بھان متی کے کنبے کے مثل ہوجائے گا جس کی وجہ یہ ہوگی کہ پھر اس مد میں لگنے والے الزامات کی نوعیت کثیراللسانی ہوجائے گی اور یہ معاملہ مزید الجھ جائے گا بلکہ بہت خراب ہورہے گا- یہ سب کچھ اپنی جگہ مگر کسی بھی قدم کے اٹھانے میں جبھی کامیابی ہوگی کہ جب سےپہلے تو حکومت اور اداروں کی سطح پہ یہ اعتراف کرلیا جانا چاہیئے کہ گزشتہ 2 ڈھائی دہائیوں میں ماضی کا یہ عروس البلاد جو اب بھی ملک کا سب سے بڑا شہر ہے اب کئی اعتبار سے ملک کے ہر بڑے شہر سے پیچھے رہ گیا ہے اوراس درجہ بری حالت کو پہنچ چکا ہے کہ اب مکمل طور پہ مسائلستان بن چکا ہے لہٰذا اسے اب بہرصورت اس ابتری سے نکالا جانا چاہیئے ورنہ اس خرابی کا خمیازہ سارے ملک اور اداروں کو بھگتنا یقینی ہے کیونکہ پوری ملکی معیشت کا بڑی حد تک مدار اس شہر پہ ہے اور ملکی و غیرملکی سرمایہ کاری کا بھی یہ ایک بڑا مرکز ہے دوسرا اعتراف یہ بھی کرلینا ضروری ہے کہ اس ضمن میں بہتری کے کئی ممکنہ حل تو تلاش کئے بغیر بھی سامنے دھرے پڑے تھے مگر انہیں مجرمانہ طور پہ نظرانداز کئے رکھا گیا اور معاملات کو بگڑتے چلے جانے دیا گیا اور بڑے معاملات کے حل کرنے کے لئے جس جرآت اور عزم کی ضرور ہوتی ہے وہ یکسر ناپید تھا اس لیئے مؤثر حکمت عملی بناپانے کی ہمت ہی موجود نہ تھی- ضروری نہیں کہ یہ بنیادی اعترافات علی اعلان ڈھول بجاکے کیئے جائیں بلکہ اس کی عملی صورت یہ ہے کہ اب اصلاح احوال کے لئے ایسے مؤثر اور واضح و ٹھوس اقدامات کئے جائیں کے کہ جنکے اندر سے ہی یہ اعتراف جھلک رہا ہو- اگر خلوص دل سے یہ سب اقدامات کئے جائیں تو کوئی وجہ نہیں کہ کراچی ایک نئے اور بہتر چہرے کے ساتھ نمودار نہ ہو اور وفاق اور سلامتی کے اداروں کا پشتیبان ثابت ہو - لیکن یہ سب کرنے کے لیئے اب وقت بہت کم رہ گیا ہے اور جو بھی کرنا ہے جلدی کرنا ہوگا ورنہ تو یہاں عالمی بدمعاش ویسا ہی اک نیا رمنا ریس کورس ایونٹ سجانے کی تیاری کررہے ہیں کہ جیسا انہوں نے 1971 میں خلیج بنگال کے کنارے سجایا تھا۔
ادارہ اردوپوائنٹ کا کالم نگار کی رائے سے متفق ہونا ضروری نہیں ہے۔
تازہ ترین کالمز :
سید عارف مصطفیٰ کے کالمز
-
بعضے کتے تو بہت ہی کتے ہوتے ہیں
ہفتہ 12 فروری 2022
-
ان کی مرتی سیاست کو پھر لاشوں اور تماشوںکی ضروت ہے۔۔۔
جمعہ 28 جنوری 2022
-
تازہ تمسخر آمیز صورتحال اور شرمیلا فاروقی کے شکوے۔۔۔
ہفتہ 22 جنوری 2022
-
تازہ تمسخر آمیز صورتحال اور شرمیلا فاروقی کے شکوے۔۔۔
ہفتہ 22 جنوری 2022
-
عدالت نے کیا پہلے درگزر نہیں دکھائی جو اب نہیں دکھاسکتی ۔۔۔؟؟
پیر 10 جنوری 2022
-
بجی ہیں خطرے کی گھنٹیاں نون لیگ سے زیادہ پی ٹی آئی کے لئے
بدھ 8 دسمبر 2021
-
لؤ جہاد بمقابلہ لؤ کرکٹ جہاد ۔۔۔۔
جمعہ 5 نومبر 2021
-
عمر شریف چلے گئے، جائے استاد خالی است
منگل 5 اکتوبر 2021
سید عارف مصطفیٰ کے مزید کالمز
کالم نگار
مزید عنوان
UrduPoint Network is the largest independent digital media house from Pakistan, catering the needs of its users since year 1997. We provide breaking news, Pakistani news, International news, Business news, Sports news, Urdu news and Live Urdu News
© 1997-2025, UrduPoint Network
All rights of the publication are reserved by UrduPoint.com. Reproduction without proper consent is not allowed.