دھاندلی کہاں پر ہے۔۔۔؟

بدھ 18 نومبر 2020

Syed Arif Mustafa

سید عارف مصطفیٰ

یہ بات بلاشبہ درست ہے کہ پی ٹی آئی نے 2018 کے الیکشن خلائی مخلوق کی سرپرستی کے سبب جیتے ہیں اور اقتدار تک انکی رسائی اس فراخدلانہ'تعاؤن ' کے بغیر ممکن ہی نہ تھی- لیکن ان دنوں اپوزیشن کی جانب سے گلگت بلتستان کے الیکشنز میں دھاندلی کا جو شور مچایا جارہا ہے بادی النظر میں وہ بھی درست نہیں ۔۔۔ کیونکہ ان الیکشنز کے نتائج میں تحریک انصآف کو سب سے زیادہ نشستیں ملنے کے باوجود اسے سادہ اکثریت بھی نہیں مل سکی ہے جبکہ پچھلے الیکشن میں نون لیگ کو سولہ سیٹیں‌ ملی تھیں‌ اور اس سے قبل پیپلز پارٹی کو چودہ نشستوں پہ کامیابی ملی تھی - ہم تحریک انصاف کی اس کامیابی کی اوقات کو یوں بھی ماپ سکتے ہیں کہ کل 23 میں سے 14 نشستوں کی بڑی اکثریت کو اسکے خلاف کامرانی ملی ہے یعنی سادہ لفظوں میں اسے گلگت بلتسستان کے عوام کی جانب سے پی ٹی آئی پہ بھرپور اعتماد کا مظہر بہرحال نہیں کہا جاسکتا تاہم یہ انتخابی  نتیجہ اس حقیقت کا عکاس ضرور ہے کہ جی بی کے عوام سے دھاندلی تو ان جماعتوں نے کی ہے کہ جو اس سے قبل ان پہ حکومت کرچکی ہیں ۔

(جاری ہے)

۔۔ صاف بات یہ ہے کہ ‌چونکہ جی بی کے رہنے والے ایک بار پیپلز پارٹی اور دوسری مرتبہ نون لیگ کو موقع دینے کے باوجود انکی حکومتوں کے ہاتھوں صوبائی اسٹیٹس پانے میں نکام رہے  چنانچہ انہوں نے ان جماعتوں کو اس بار انکی بدعہدی کی سزا بھی دیدی ہے اوراب آخری آپشن کے طور پہ عوام کی ایک قابل لحاظ تعداد نے تحریک انصاف پہ بھی کچا پکا یقین کرتے ہوئے اسے بھی آزمانے کا نیم دلانہ فیصلہ کیا ہے 
یہ بھی واضح رہے کہ اس بار سخت سردی اور بارش و ژالہ باری کے باوجود گلگت بلتستان کے الیکشن کا ٹرن آؤٹ تقریباً ساٹھ فیصد سے بھی زیادہ رہا ہے جو کہ انکی اس بے پناہ بیچینی و تڑپ کا ثبوت ہے کہ جو وہ اس علاقے کو صؤبائی تشخص دلانے کی دیرینہ آرزو کی صورت اپنے دلوں میں رکھتےہیں - ایک اور سچائی یہ بھی ہے کہ ان الیکشنز میں روایتی اکا دکا واقعات کے سوا دھاندلی کے بہت بڑے بڑے حوالے سامنے نہیں آئے ہیں- اب جبکہ جی بی الیکشن کے تمام نتائج آچکےہیں صورتحال بالکل واضح ہے جنکے مطابق اسمبلی کی 23 نشستوں میں سے تحریک انصاف نے 9 نشستیں جیت کر سب سے زیادہ کامیابی سمیٹی ہے جبکہ آزاد امیدواروں نے 7 نشستیں حاصل کی ہیں- پیپلز پارٹی کے نصیب میں 3 سیٹیں‌آئی ہیں اور کل 2 نشستیں نون لیگ کا مقدر بنی ہیں جب کہ  جے یو آئی ف اور مجلس وحدت المسلمین کو ایک ایک سیٹ ہی مل پائی ہے اور یہ وہ نتائج ہیں کہ جو اس سے قبل دو معتبر گیلپ سروے کے اداروں‌کے سروے کے نتائج میں بھی جھلک رہے تھے ۔

۔ بلکہ ان میں تو پی ٹی آئی کی کامیابی زرا زیادہ بڑی دکھائی دے رہی تھی
گلگت بلتستان کے الیکشن باقی ملک سے خاصے مختلف انداز لئے ہوئے ہوتےہیں کیونکہ یہاں کے اکثر حلقے بالعموم 14-15 ہزار کے لگ بھگ ووٹوں کے حامل ہوتےہیں اور ان میں بھی ووٹنگ کا تناسب نصف کے لگ بھگ ہی رہتا ہے اسی لئے اکثر مقابلے بہت قریب قریب اعداو شمار لئے ہوتے ہیں اور اس بار بھی 23 مجموعی نشستوں کے نتائج میں 9 نشستوں‌کے نتائج میں‌تو کامیاب اور ناکام امیدواروں کے مابین محض 500 کےلگ بھگ ووٹوں‌ہی کا فرق ہے جبکہ 3 نشستوں کے ناکام امیدوار صرف 100 کےلگ بھگ ووٹوں ہی کی دوری سے ناکام ہوئے اور ایک نشست ایسی بھی ہے یعنی گلگت 2 کہ جہاں پہ یہ فرق صرف 2 ووٹوں ہی کا تھا اور یہاں کے انتخابی نتیجے نے پیلپز پارٹی کے جمیل احمد کے 6694 کے مقابل تحریک انصاف کے فتح اللہ کو 6696 ووٹ دلاکے انکے نام کی لاج رکھ لی  - آخر میں راقم یہ کہے بغیر نہیں رہ سکتا کہ گلگت بلتستان اسمبلی کے نتائج  اس سفاک حقیقت کے غماز ہیں اور پیپلز پارٹی و نون لیگ کے لئے یہ کھلا پیغام لئے ہوئے ہیں کہ آپ عوام کو ہمیشہ اور محض وعدوں پہ نہیں ٹرخاسکتے اور اسی لئے اس بار انہوں‌نے پی ٹی آئی کو نسبتاً زیادہ ووٹ دیدیئے ہیں ۔

۔ یہ الگ بات کہ قومی سطح پہ وعدہ خلافیوں کی مد میں عمران خان اور انکی جماعت باقی دو جماعتوں سے بھی بہت آگے ہی  نظر آتے ہیں مگر گلگت بلتستان کے عوام آخر کرتے  ۔
بھی تو کیا کرتے۔۔۔ انکے پاس اور کوئی اچھی آپشن موجود بھی تو نہیں تھی

ادارہ اردوپوائنٹ کا کالم نگار کی رائے سے متفق ہونا ضروری نہیں ہے۔

تازہ ترین کالمز :