پاکستانی سیاست پر اثر انداز ہونے والے پانچ حکمران

جمعرات 25 اپریل 2019

Syed Sardar Ahmed Pirzada

سید سردار احمد پیرزادہ

پاکستانی سیاست کی سڑک بہت ناہموار رہی ہے۔ بظاہر چھوٹے بڑے کئی سیاسی نظریات کے تحت بننے والی بے شمار حکومتیں کچی عمروں میں ہی دم توڑ گئیں۔ یوں لگتا ہے کہ پاکستانی سیاست میں کوئی بھی نظریہ اپنی جگہ نہیں بنا سکا لیکن اگر پاکستانی سیاست کے گدلے پانیوں میں اتریں تو اوپر کی سطح پر موجود شور کے برعکس تہہ میں پانچ سیاسی نظریات خاموشی سے کام کرتے نظر آتے ہیں اور اب تک یہاں آنے جانے والی تمام حکومتیں اور سربراہان انہی کے گرد گھومتے ہیں۔

آئیے! ان کا علیحدہ علیحدہ مختصر سا جائزہ لیتے ہیں۔
 قائداعظم محمد علی جناح نے 11 اگست 1947ء کو نئے ملک پاکستان کے آئین کے لیے ایک روڈمیپ دیا تھا۔ تاہم ان کی زندگی میں کوئی آئین سامنے نہ آسکا۔ ان کی وفات کے تقریباً چھ ماہ بعد 12 مارچ 1949ء کو لیاقت علی خان نے پاکستان کے آئین کی تیاری کے لیے قرارداد مقاصد کے ذریعے ایک گائیڈ لائن دی۔

(جاری ہے)

یہاں سے مستقبل کی پاکستانی سیاست کے رخ کا آغاز ہوتا ہے اور یہیں سے پاکستان کے اسلامی ریاست کے طور پر پہچانے جانے کی ابتداء بھی ہوتی ہے۔ اس نظرےئے کی تقویت کے لیے ضروری تھا کہ سیاست میں مذہب کا عمل دخل ہو۔ اس طرح مذہبی جماعتوں نے پاکستانی سیاست پر اثرات مرتب کرنا شروع کردیے کیونکہ جب وزیراعظم چوہدری محمد علی 1956ء میں پاکستان کا پہلا آئین سامنے لائے تو اس میں قرارداد مقاصد کو آئین کے دیباچے کے طور پر شامل کیا گیا تھا اور ملک کو اسلامی ریاست کہا گیا تھا۔

 اس وقت تک مذہب کی پاکستان کے سیاسی ڈھانچے میں جڑیں پیدا ہوچکی تھیں جن کا پتہ صدر ایوب خان کے پیش کردہ آئین میں پہلی ترمیم سے ملتا ہے۔ ایوب خان نے جو آئین 1962ء میں دیا تھا اس میں پاکستان کے نام کے ساتھ صرف ریپبلک لکھا گیا، اسلامی کا لفظ نہیں تھا جبکہ چند ماہ کے اندر اس آئین میں ترمیم کرکے پاکستان کے ساتھ اسلامی کا لفظ لگا دیا گیا۔

یہ اس آئین میں سب سے پہلی ترمیم تھی۔ ذوالفقار علی بھٹو کے دور میں بھی مذہبی جماعتوں نے اپنا کام موٴثر انداز سے جاری رکھا۔ یہ اس بات کی گواہی ہے کہ سوشلسٹ خیالات کے علمبردار اور مقبول ترین لیڈر ذوالفقار علی بھٹو نے بھی 1973ء کے آئین میں پاکستان کا نام ”اسلامی جمہوریہ پاکستان“ ہی رکھا۔
 ضیاء الحق کا عہد مذہبی جماعتوں خاص طور پر جماعت اسلامی کے لیے بہت زرخیز تھا۔

ان کے بارے میں کہا جاسکتا ہے کہ جس طرح تاریخ میں ”اشوک“ بدھ مت کا نمائندہ بادشاہ تھا اسی طرح ضیاء الحق جماعت اسلامی کے ”اشوک“ تھے۔ انہوں نے آئین میں ایسی ترامیم کیں کہ قرارداد مقاصد آئین کا حصہ بن گئی۔ ان کے بعد بننے والی تمام چھوٹی بڑی حکومتیں، اپوزیشن اتحاد یا تحریکوں میں مذہب اور سیاست ساتھ ساتھ رہے۔ اس طرح پاکستان کو عام لوگوں میں اسلامی ریاست کے طور پر متعارف کروانے میں قرارداد مقاصد کا بہت عمل دخل ہے۔

یہ اس بات کا ثبوت ہے کہ موجودہ دور میں لوگ مذہبی انتہاپسندی کو ناپسند کرتے ہیں مگر پاکستان کی ریاست کو اسلام سے علیحدہ نہیں کرنا چاہتے۔
 اس جائزے کے بعد یہ کہنا درست ہوگا کہ قرارداد مقاصد پیش کرنے کے باعث پاکستانی سیاست پر شروع سے اب تک اثرانداز ہونے والے پہلے حکمران لیاقت علی خان تھے۔ دنیا کے تمام ترقی یافتہ ملکوں کی ترقی صنعتی انقلاب کی مرہون منت ہے۔

پاکستان میں صنعتوں کے جادو کو متعارف کروانے اور پانی کے ذخائر کے لیے بڑے ڈیم بنانے کی ابتداء 60ء کی دہائی میں ایوب خان کے دور سے ہی ہوتی ہے۔ اسی طرح دفاعی نکتہ نگاہ سے ایک موزوں ترین جگہ پر ملک کا نیا دارالخلافہ قائم کرنا اور اسے کسی ایک صوبے کا حصہ بنانے کی بجائے فیڈرل ایریا قرار دینا سیاسی دور اندیشی تھی۔ اس لیے جب بھی پاکستان کی ترقی کو صنعتی انقلاب سے جوڑنے، پانی کے ذخائر کے لیے ڈیم بنانے اور کیپٹل کو صوبائیت سے دور رکھنے کی بات کی جائے گی تو ایوب خان کا نام سرفہرست آئے گا۔

لہٰذا پاکستانی سیاست پر اثرانداز ہونے والے دوسرے حکمران ایوب خان تھے۔
 اب وہ دور آتا ہے جب عوام کو زبان لگ گئی۔ لوگ اپنے حقوق کے لیے چلنے لگے اور بولنے لگے۔ اس ننگے پاؤں قافلے کی قیادت ذوالفقار علی بھٹو نے کی۔ وہ پاکستان میں پہلے سیاسی لیڈر تھے جنہوں نے عام لوگوں کے گھروں اور دلوں پر دستک دی۔ پہلی مرتبہ لوگوں نے جمہوریت کی ٹھنڈک کو محسوس کیا۔

پہلی مرتبہ ملک کو کسی حد تک عملی پارلیمانی آئین دیا۔ لہٰذا جب تک پاکستان میں پارلیمانی آئین اور جمہوریت کی روشنی سے فائدہ اٹھانے کی باتیں ہوتی رہیں گی، ذوالفقار علی بھٹو کا نام باقی رہے گا۔ 
اس طرح پاکستان میں جمہوریت کو متعارف کروانے کے حوالے سے پاکستانی سیاست پر اثرانداز ہونے والے تیسرے حکمران ذوالفقار علی بھٹو تھے۔ پاکستان کی سیاست میں بارود کی بو جنرل محمد ضیاء الحق کے دور سے آنی شروع ہوتی ہے جب سیاست میں بندوق اور گولی کا استعمال عام ہونا شروع ہوا۔

عمومی خیال ہے کہ اُنہی کے دور میں ہیروئن کا پیسہ سیاست میں داخل ہوا۔ لہٰذا جب بھی پاکستان کی سیاست میں کلاشنکوف اور ہیروئن کی بات کی جائے گی تو جنرل محمد ضیاء الحق کا نام لیا جائے گا۔ یوں وہ پاکستانی سیاست پر اثرانداز ہونے والے چوتھے حکمران ٹھہرے۔ 
دنیا میں صدی بدلنے کے ساتھ ہی پاکستان میں ایک بڑی فکری تبدیلی آئی۔ جنرل پرویز مشرف کے دور کو ایک ڈکٹیٹر کے طور پر یاد کیا جاتا ہے لیکن اگر غور کریں تو ان کے عہد حکومت میں پاکستانی معاشرے کے اندر بنیادی تبدیلیاں آئیں جوکہ غیرروایتی تھیں۔

اب تک پاکستان میں مُلا سے ٹکر لینا اپنے آپ کو برباد کرنے کے مترادف تھا۔ اس کی بڑی مثال ذوالفقار علی بھٹو ہیں جو تیسری دنیا، اسلامی دنیا اور عام پاکستانی لوگوں کی مقبول ترین شخصیت ہونے کے باوجود مُلا کی بھینٹ چڑھ گئے مگر پرویز مشرف نے پہلی مرتبہ پاکستان میں مُلا کو للکارا، پہلی مرتبہ پاکستانی لوگوں کو ریپبلک پاکستان کا تعارف کرایا گیا۔

اس فلسفے کو مشہور کرنے کے لیے پرویز مشرف نے سوفٹ فیس، روشن خیال اور اعتدال پسندی جیسی اصطلاحیں استعمال کیں۔ الیکٹرانک میڈیا کی بھرپور آمد ہوئی۔ الیکٹرانک میڈیا اور روشن خیالی کی رنگینیوں نے پاکستانی معاشرے کو تیزی سے متاثر کیا۔
 آج کل مذہبی انتہاپسندی کو جس طرح ناپسند کیا جارہا ہے یا دوسرے مذاہب کے لوگوں کو بھی پاکستان میں برابر کا شہری ماننے کی باتیں ہورہی ہیں، اس کی شروعات کا سہرا پرویز مشرف کے ہی سر ہے۔

یہاں یہ بات قابل ذکر ہے کہ بین الاقوامی برادری میں پاکستان ایک اعتدال پسند ریاست کے طور پر ہی قابل قبول ہے جو اصل میں پرویز مشرف کا برین چائلڈ تھا۔ لہٰذا شروع سے سیاست کو اپنے کنٹرول میں رکھنے والے نظرےئے کو چیلنج کرنے کے باعث پرویز مشرف پاکستانی سیاست پر اثرانداز ہونے والے پانچویں حکمران تھے۔ اب اگر پاکستانی سیاست کی پانچ بنیادی باتوں کا ذکر کریں تو وہ اسلامی جمہوریہ پاکستان، پاکستان میں صنعتی انقلاب، پاکستان میں پارلیمانی جمہوریت، پاکستانی سیاست میں کلاشنکوف و ہیروئن اور پاکستان ایک اعتدال پسند ریاست کے ہیں جن کی لیڈ لیاقت علی خان، ایوب خان، ذوالفقار علی بھٹو، جنرل محمد ضیاء الحق اور پرویز مشرف سے جاملتی ہے۔

لہٰذا جب بھی سیاسی مؤرخ اب تک کی پاکستانی سیاست کے بارے میں لکھے گا تو پاکستان کی سیاست کو متاثر کرنے والے انہی پانچ کا ذکر کرے گا۔ 

ادارہ اردوپوائنٹ کا کالم نگار کی رائے سے متفق ہونا ضروری نہیں ہے۔

تازہ ترین کالمز :