کیا قائداعظم رحمہ اللہ مسلم لیگ قائم رکھنا چاہتے تھے؟

پیر 15 فروری 2021

Syed Sardar Ahmed Pirzada

سید سردار احمد پیرزادہ

متحدہ ہندوستان کے آخری وائسرائے لارڈ ماؤنٹ بیٹن جب اپنی ذمے داریاں سنبھالنے کے لیے ہندوستان آئے تو انہوں نے معاملات کو سمجھنے کے لیے نامور سیاسی رہنماؤں سے ملاقاتوں کا سلسلہ شروع کیا۔ جب جواہر لعل نہرو ان سے ملے تو گفتگو کے دوران ماؤنٹ بیٹن نے پوچھا کہ ”آپ کے خیال میں جناح کیسے شخص ہیں؟“ نہرو نے بغیر رکے جواب دیا کہ "He is one of the most extraordinary men in history" ۔

ماؤنٹ بیٹن نے چونکتے ہوئے سوال کیا "In history?" ۔ نہرو نے پھر اُسی اعتماد سے جواب دیا ”Yes، وہ اس لیے کہ پوری تاریخ میں مسلمان کبھی متحد نہیں ہوئے لیکن جناح نے انہیں مسلم لیگ کے ایک پلیٹ فارم پر اکٹھا کردیا۔ ایسا کام کرنے والا Extraordinary Man ہی ہوگا“۔ یہ واقعہ ہندوستان کی آزادی کے حوالے سے برطانوی حکومت کی طرف سے مرتب کی جانے والی 12جلدوں پر مشتمل کتاب ”ٹرانسفر آف پاور“ میں درج ہے لیکن برصغیر کے مسلمانوں کو مسلم لیگ کے تحت اکٹھا کرنے والی اُس تاریخ ساز ہستی نے پاکستان بننے کے بعد مسلم لیگ کے بارے میں شائد مختلف انداز سے سوچنا شروع کردیا تھا۔

(جاری ہے)

حکومتِ پاکستان کے تحقیقی ادارے ”قومی ادارہ برائے تحقیق تاریخ و ثقافت“ کی طرف سے معروف مئورخ پروفیسر سید ذوالقرنین زیدی کی شائع کردہ کتاب ”قائداعظم کے رفقاء سے ملاقاتیں“ میں لکھا ہے کہ ”جناح ریاست قلات کے سرکاری وکیل تھے اور خان آف قلات احمد یارخان سے اُن کی ذاتی دوستی بھی تھی۔ پاکستان بننے کے بعد اُنہوں نے خان آف قلات کو اپنے ذاتی مہمان کی حیثیت سے کراچی بُلا بھیجا۔

خان آف قلات اس دعوت پر 21روز تک بانی پاکستان کے مہمان رہے۔ مہمان نوازی کے دوران قائداعظم رحمہ اللہ نے خان آف قلات سے بہت سی باتیں ذاتی حیثیت میں کیں۔ خان آف قلات نے بتایا کہ پاکستان بننے کے بعد قائداعظم رحمہ اللہ کا نظریہ مسلم لیگ کے بارے میں بدل گیا تھا، وہ مسلم لیگ کو برقرار رکھنے کے حق میں نہیں تھے، وہ اس کو خداحافظ کہنا چاہتے تھے۔

میں اُن کے اس خیال سے متفق نہیں تھا۔ میں نے کہا کہ آپ کانگریس کی طرف دیکھیں ہندوؤں نے اس کو پکڑا ہوا ہے، لیکن اگر آپ نے مسلم لیگ کو چھوڑ دیا تو ہمارے پاس اور کوئی سیاسی جماعت نہیں ہے۔ میں نے برطانیہ کی لیبر پارٹی اور کنزرویٹو پارٹی کی مثالیں بھی دیں۔ اس پر قائداعظم رحمہ اللہ نے فرمایا کہ مسلم لیگ جس مقصد کے لیے بنی تھی وہ مقصد حاصل ہوچکا ہے۔

اب نئی سیاسی جماعتیں میدان میں آئیں، مسلم لیگ کو آزاد چھوڑ دینا چاہیے“۔ محمد ایوب کھوڑو سندھ سے تحریکِ پاکستان کے نمایاں کارکن، آل انڈیا مسلم لیگ کی ورکنگ کمیٹی کے رکن اور قائداعظم رحمہ اللہ کے قریبی ساتھی تھے۔ قیامِ پاکستان کے بعدوہ تین مرتبہ سندھ کے وزیراعلیٰ بنے اور وزیراعظم فیروز خان نون کی کابینہ میں مرکزی وزیر دفاع بھی رہے۔

اُنہوں نے مسلم لیگ کے بارے میں قائداعظم رحمہ اللہ کی ذاتی رائے بتاتے ہوئے کہا کہ ”جناح صاحب نے مجھ سے خود فرمایا کہ مسلم لیگ پارٹی ایک مقصد کے حصول کا ذریعہ تھی نہ کہ خود ایک مقصد تھا۔ مسلم لیگ کا مقصد حصولِ پاکستان تھا اور اب جبکہ پاکستان بن گیا ہے تو مسلم لیگ کی کوئی ضرورت نہیں“۔ اُترپردیش قانون ساز اسمبلی کے رکن، آل انڈیا مسلم لیگ کے جوائنٹ سیکرٹری اور تحریکِ خلافت کے ممتاز رہنما مولانا عبدالباری فرنگی محلی کے صاحبزادے مولانا جمال میاں فرنگی محلی نے بتایا کہ ”11اگست 1947ء کی تقریر کے حوالے سے قائداعظم رحمہ اللہ کے خیالات بھانپتے ہوئے حُسین شہید سہروردی صاحب نے یہ تجویز دی کہ مسلم لیگ کا نام نیشنل لیگ رکھ دیا جائے“۔

ہم اگر غور کریں تو پتا چلتا ہے کہ دوراندیش قائداعظم رحمہ اللہ مسلم لیگ کے مستقبل کے بارے میں دور تک بہت کچھ دیکھ رہے تھے جس کا علم ہمیں بعد کے حالات سے ہوتا ہے۔ قائد رحمہ اللہ کے انتقال کے بعد بیشتر سیاسی رہنما اپنی سازشوں پر مسلم لیگ کی چادر تانے رہے اور ہر ڈکٹیٹر کے لیے مسلم لیگ گھریلو لونڈی ثابت ہوئی۔ قائداعظم رحمہ اللہ کے بعد گزشتہ 73برسوں میں صرف نوازشریف نے مسلم لیگ کو کسی حد تک عوام کی سیاسی جماعت بنایا لیکن وہ بھی مسلم لیگ ن بن کر سامنے آئی جبکہ مسلم لیگ کے لیے خوشامدی مزاج پسند کرنے والے علیحدہ ہوکر اپنی اپنی مسلم لیگیں بناتے گئے۔

سَرسُریندر ناتھ بینرجی پہلے ہندوستانی تھے جنہوں نے 1876ء میں ہندوستانیوں کی پہلی سیاسی جماعت انڈین نیشنل ایسوسی ایشن بنائی جو بعد ازاں انڈین نیشنل کانگریس میں ضم ہوگئی۔ بینرجی اپنی آٹوبایوگرافی میں لکھتے ہیں کہ ”ہندوستانیوں کی پہلی سیاسی جماعت کا اجلاس 1876ء میں منعقد ہوا جس میں پورے ہندوستان سے لوگ شریک ہوئے۔ سارا دن خوب بحث مباحثے ہوتے رہے۔

قراردادیں منظور اور نامنظور ہوتی رہیں۔ میں پوری کاروائی میں موجود تھا۔ شام کو جب اجلاس ختم ہوگیا تب میں نے حاضرین سے فوراً گھر جانے کی اجازت مانگی۔ انہوں نے میری اچانک رخصتی کی وجہ جاننا چاہی تو میں نے بتایا کہ آج صبح میرے بیٹے کا انتقال ہوگیا تھا۔ میں اجلاس چھوڑکر نہیں جانا چاہتا تھا کیونکہ یہ ہندوستانیوں کے مفاد کا معاملہ تھا۔

لہٰذا سارے دن سے میرے بیٹے کی لاش گھر میں میری منتظر ہے۔ اب اجلاس ختم ہوچکا ہے اور میں گھر جاکر اپنے بیٹے کی آخری رسومات ادا کرنا چاہتا ہوں“۔ آل انڈیا مسلم لیگ پاکستان کی خالق جماعت تھی۔ قائداعظم رحمہ اللہ کے ذاتی خیال میں اس کا کام مکمل ہوگیا تھا۔ لہٰذا اب کوئی بھی سیاسی جماعت کسی بھی نام سے ملک کے ماتھے کا جھومر بن سکتی ہے۔ بس اُس سیاسی جماعت کو قائداعظم رحمہ اللہ محمد علی جناح کے سیاسی افکار کو عملی جامہ پہنانے والا لیڈر چاہیے۔

ادارہ اردوپوائنٹ کا کالم نگار کی رائے سے متفق ہونا ضروری نہیں ہے۔

تازہ ترین کالمز :