آئین عوام کے لیے

ہفتہ 4 ستمبر 2021

Syed Sardar Ahmed Pirzada

سید سردار احمد پیرزادہ

آج سے ساڑھے چار ہزار برس پہلے کا زمانہ تھا جب موجودہ عراق کے علاقے میں لاگاش کے سمیری بادشاہ یوروکجینا نے اپنی حکومت کے لیے ایک قانونی دستاویز تیار کی۔ اسے دنیا کا پہلا آئین کہا جاسکتا ہے۔ اس آئین کی سب سے بڑی خصوصیت یہ تھی کہ بیوہ عورتوں اور یتیم بچوں کی ذمہ داری ریاست کو سونپی گئی تھی۔ نیز غریب لوگوں کو مالدار سودخوروں سے تحفظ بھی فراہم کیا گیا تھا۔

اُس وقت سے لے کر اب تک دنیا بھر میں ہر طرح کے آئین بنتے، بگڑتے اور چلتے آرہے ہیں۔ اِن میں امریکہ کا آئین دنیا کا سب سے پرانا مکمل تحریری آئین ہے۔ دنیا کا سب سے ضخیم آئین ہندوستان اور سب سے مختصر آئین فرانس کے ہمسائے مناکو کا ہے جبکہ برطانیہ کا آئین غیرتحریر شدہ ہے۔ پاکستان کے قیام سے تین روز قبل ہی بانی پاکستان قائداعظم محمد علی جناح نے 11اگست 1947ء کو قائدین کے ذمے جو کام لگایا وہ نئے ملک پاکستان کے لیے آئین سازی ہی تھی۔

(جاری ہے)

یہ بدقسمتی تھی کہ وہ آئین ساز اسمبلی بانی پاکستان کی زندگی میں کوئی آئینی خاکہ اُن سے منظور نہ کراسکی۔ آئین کی تیاری کی بدقسمتی کا یہ سلسلہ قائداعظم کی وفات کے بعد بھی عرصہ دراز تک جاری رہا۔ آئین ریاست کو چلانے کے لیے ملک کے حالات، ثقافت اور زمینی حقائق کے پس منظر میں تیار کیے جانے والے قوانین کا نام ہوتا ہے۔ پاکستان میں آئین سازی کے حوالے سے جو تجربات کیے گئے اُنہیں اس سادہ سی مثال سے سمجھا جاسکتا ہے کہ اگر ایک نوزائیدہ بچے کی مستقبل کی صحت کے لیے دائیاں، ڈسپنسر، حکیم، سنیاسی بابے، نقلی پیر اور ڈاکٹر وغیرہ سب اپنے پیشے اور علم ودانش کے مطابق ہدایات دے رہے ہوں اور ان سب کا دعویٰ بھی ہوکہ صرف اُنہی کی دوائی یا ٹوٹکہ بچے کی مستقبل کی صحت کا ضامن ہوگا تو اندازہ لگایا جاسکتا ہے کہ مختلف قسم کی دوائیوں اور ٹوٹکوں کے سائڈ ایفکٹ سے معصوم بچے کو وہ جسمانی اور نفسیاتی جان لیوا بیماریاں بھی لگ سکتی ہیں جو اِن دوائیوں کے نہ کھانے سے ہرگز نہ لگتیں۔

پاکستان کے ابتدائی 26 برسوں میں آئین سازی کی جوبھی کوشش ہوئی اُسے ذاتی پسند کے نظریات کی چھاپ یا مارشل لاء ڈکٹیٹر کی خواہشات کی تکمیل سمجھا گیا۔ اس دوران مغربی تعلیم یافتہ نوجوان وڈیرے ذوالفقار علی بھٹو سرمایہ داروں اور جاگیرداروں کے ہاتھوں پسے ہوئے عوام کے سامنے طبقاتی کشمکش ختم کرنے والے سوشلسٹ لیڈر کے طور پر نمودار ہوئے۔ ذوالفقار علی بھٹو نے اپنی ابتدائی تقریروں میں بارہا کہا کہ وہ پاکستان میں سوشلزم کا انقلاب لائیں گے جس سے غریب اور امیر کا فرق ختم ہو جائے گا لیکن اقتدار میں آنے کے بعد انہوں نے ایسا نہیں کیا۔

تحقیق کرنے سے یہ ثابت ہوتا ہے کہ ذوالفقار علی بھٹو نے سوشلزم کا نعرہ لگاکر سوشلزم کے نظریئے کو بھی دھوکا دیا کیونکہ اس نعرے سے وہ خود اور ان کی جماعت تو مقبول ہوگئی لیکن طبقاتی فرق ختم کرنے والی کوئی تبدیلی نہ آئی۔ ذوالفقار علی بھٹو نے ہی اپنی حکومت کے دور میں 1973ء کا آئین منظور کروایا جو اَب تک پاکستان میں نافذ ہے۔ اس آئین کے بارے میں ذوالفقار علی بھٹو کی جماعت پیپلزپارٹی نے زمینی حقائق سے مختلف کچھ باتیں پھیلا رکھی ہیں۔

سب سے پہلی بات یہ کہ پیپلز پارٹی کے مطابق 1973ء کا آئین متفقہ آئین ہے جبکہ یہ بات ریکارڈ کے مطابق درست نہیں ہے۔ اب یہ بات مکمل ریکارڈ یافتہ ہے کہ اُس وقت کی ریاست بہاولپور، بلوچستان، سندھ، سرحد اور پنجاب وغیرہ کے بعض اراکین اسمبلی نے اِس آئین پر دستخط نہیں کیے تھے۔ پیپلز پارٹی کی جانب سے آئین کی منظوری کے ایشو کو گلیمرائز کرنے کے لیے 1973ء کے آئین کو متفقہ آئین کہا گیا۔

حالانکہ اگر وہ اِس آئین کو کثرت رائے سے منظور ہونے والا اکثریتی آئین کہتے تب بھی کیا حرج تھا کیونکہ اکثریتی ووٹوں کے باعث منظور ہوکر یہی آئین نافذ ہوتا۔ اس آئین کو مقدس بنانے کے لیے یہ بھی کہا جاتا ہے کہ اُس وقت کے تمام بڑے سیاسی لیڈروں نے اس آئین کی منظوری کی تحریک کے آگے سرتسلیم خم کر دیئے تھے۔ اگر یہ بات واقعی درست ہے تو اس کی دو ممکنہ وجوہات ہوسکتی ہیں۔

پہلی یہ کہ وہ تمام سیاسی رہنما دانشمندی کا ثبوت دیتے ہوئے اُس وقت کے زخم خوردہ پاکستان کو خود اعتمادی دے کر آگے بڑھانا چاہتے تھے۔ اسی لیے وہ سب سیاسی رہنما بہت کم اور ناکافی پر بھی راضی ہوگئے۔ دوسرا یہ کہ ذوالفقار علی بھٹو کی کرشماتی شخصیت کے پیچھے چھپے ہوئے ضدی شخص سے شاید سب اپنا دامن بچانا چاہتے تھے۔ سوال یہ ہے کہ وہ تمام بڑے سیاسی رہنما جنہوں نے 19اپریل 1973ء کو آئین کی توثیق میں ذوالفقار علی بھٹو کا اگر دل سے ساتھ دیا تھا تو اُن پر ساڑھے تین سال بعد مارچ 1977ء میں اُسی بھٹو کے خلاف سازش میں شریک ہونے کا الزام کیوں ہے؟ اگر وہ سیاسی لیڈر کسی خوف یا مفاد کے باعث بھٹو کے خلاف سازش میں شریک ہوسکتے تھے تو آئین کی منظوری کے وقت کسی خوف یا مصلحت کا شکار بھی کیا نہیں ہوسکتے تھے؟ لہٰذا پیپلز پارٹی کے پاس اس منطقی دلیل کا کیا جواب ہے؟ جیسا کہ بتایا گیا کہ دنیا کا سب سے پہلا مبینہ آئین عوام کی فلاح وبہبو د کے حوالے سے تھا اور آئین کامقصد بھی یہی ہونا چاہئے لیکن 1973ء کا آئین طرز حکمرانی پر ہی زیادہ مبنی ہے۔

شاید یہی وجہ ہے کہ موجودہ آئین عوام کی فلاح و بہبود کی ضروریات پوری کرنے میں زیادہ معاون ثابت نہیں ہو پارہا۔ 1973ء کا آئین قائم رکھنا زیادہ تر پیپلز پارٹی اور چند دوسری سیاسی جماعتوں کی بقا کا مسئلہ ہوسکتا ہے جبکہ عوام نئے تقاضوں کو پورا کرنے والا آئین چاہتی ہے۔ آئین کوئی آسمانی صحیفہ نہیں ہوتا کہ جس میں ردوبدل یا ترمیم نہ کی جاسکے۔

1973ء کے آئین سے مفادات حاصل کرنے والی سیاسی جماعتیں یہ کہہ کر ڈراتی ہیں کہ اگر اس آئین کی بعض شقوں میں ردوبدل کیا گیا تو ملک میں بڑے فساد کا خطرہ ہے۔ اگر پارلیمنٹ کے اراکین اکیسویں ترمیم سمیت دوسری کئی اہم ترامیم متفقہ طور پر منظور کرسکتے ہیں تو وہ طرز حکمرانی میں گڈگورننس کے لیے اہم ترامیم بھی منظور کرسکتے ہیں۔ عوام آئین کے لیے نہیں ہوتے بلکہ آئین عوام کے لیے ہوتا ہے۔

ادارہ اردوپوائنٹ کا کالم نگار کی رائے سے متفق ہونا ضروری نہیں ہے۔

تازہ ترین کالمز :