
سیاست میں انٹرنیشنل بروکرز
منگل 7 ستمبر 2021

سید سردار احمد پیرزادہ
(جاری ہے)
انہیں اپنی بات کو سیاسی ٹوئسٹ دینا آتا تھا۔
ان کی بنگالی پرست تحریک کو بھارت اور کچھ دوسرے ممالک کی حمایت حاصل تھی۔ اسی بیرونی امداد کے باعث شیخ مجیب الرحمان بنگلہ دیش کے سربراہ مقرر کیے گئے۔ اقتدار حاصل کرنے کے باوجود ان کا انجام قاتل کی گولی سے ہوا۔ نوجوان ذوالفقار علی بھٹو پاکستانی سیاست میں آئے تو چند برسوں میں ہی وہ اس محاورے کی عملی مثال بن گئے کہ ”وہ آیا، اس نے دیکھااور فتح کیا“۔ ذوالفقار علی بھٹو بھی شعلہ بیان مقرر تھے۔ انہیں بھی سیاسی باتوں کو ٹوئسٹ کرنے پر کمال قدرت حاصل تھی۔ وہ مقامی ایجنسیوں کی عمدہ پراڈکٹ کے طور پر حکومتی ایوانوں میں داخل ہوئے لیکن جلد ہی انٹرنیشنل ایجنسیوں کے ڈارلنگ بن گئے۔ اس کی ایک وجہ اُن کا مغربی تعلیم یافتہ ہونا بھی تھا جو انٹرنیشنل بروکرز کے لیے بہت قابل قبول تھا۔ جونہی انہوں نے بہت زیادہ انٹرنیشنل خوداعتمادی حاصل کی مقامی ایجنسیاں ان سے مشکوک ہونا شروع ہو گئیں۔ ان کے ہاتھ سے اقتدار جاتا رہا پھر زندگی بھی چھین لی گئی۔ الطاف حسین طالب علمی کے زمانے میں بظاہر کراچی کے ایک لسانی طبقے کی فلاح و بہبود کے لیے سامنے لائے گئے جبکہ ان کی تخلیق کار مقامی ایجنسیوں کا مقصد کراچی میں پیپلز پارٹی کا زور توڑنا تھا۔ الطاف حسین مقامی ایجنسیوں کے ہاتھ سے نکل کر جلد ہی مبینہ طور پر ملک دشمن ایجنسیوں کے اختیار میں چلے گئے۔ اس وقت تک وہ کراچی کے لسانی طبقے کی مکمل حمایت کے بعد اتنے مضبوط ہو چکے تھے کہ دشمن ایجنسیوں کے اختیار میں رہنے کے باوجود اُس وقت کی حکومتیں جن میں پرویز مشرف کا مارشل لاء بھی شامل تھا، نے اپنے اقتدار بچانے کے لیے الطاف حسین کی براہِ راست ناراضگی مول نہ لی۔ تاہم چند سال پہلے الطاف حسین کے بارے میں حتمی فیصلہ کرلیا گیا اور انہیں ان کی معذور صحت کے حال پر چھوڑ کر ان کی جماعت ایم کیو ایم کو بظاہر پاش پاش کردیا گیا یا بانجھ کردیا گیا۔ بینظیر بھٹو اپنے قیدی والد ذوالفقار علی بھٹو کے مصیبتوں کے دنوں میں سیاسی افق پر ظاہر ہوئیں۔ مقامی اور انٹرنیشنل سطح پر بینظیر بھٹو کو توجہ ملنے کی کچھ اہم وجوہات یہ تھیں کہ وہ ایک نوجوان خاتون سیاسی لیڈر تھیں، وہ لبرل اور ماڈرن اِزم کی پہچان بن رہی تھیں، وہ اپنے مقتول والد ذوالفقار علی بھٹو کی مظلومیت کی سیاسی ہمدردیاں حاصل کرچکی تھیں، وہ اپنے والد ذوالفقار علی بھٹو کی طرح زرخیز سیاسی ذہن کی مالک تھیں اور سب سے اہم یہ کہ وہ اپنے والد ذوالفقار علی بھٹو کی طرح مغربی تعلیم یافتہ تھیں۔ جب بینظیر بھٹو سیاست میں سرگرم ہوئیں تو اُس وقت پاکستان کی سیاست میں ضیاء الحق کا مارشل لاء اپنا عروج دیکھ چکا تھا اور واپسی کے سفر کا سامان باندھنے والا تھا۔ اس موقع پر منطقی تقاضوں کے مطابق کسی سیاسی لیڈر کو مارشل لاء کی جگہ سیاسی خلاء پُر کرنا تھا۔ مقامی ایجنسیوں کے نزدیک بینظیر بھٹو اس معیار پر پورا اترتی تھیں جبکہ انٹرنیشنل ایجنسیاں بھی خاموشی سے بینظیر بھٹو کے حق میں شادیانے بجا رہی تھیں کیونکہ اپنے والد ذوالفقار علی بھٹو کی طرح وہ بھی لبرل اور ذہین ہونے کے ساتھ ساتھ مغربی تعلیم یافتہ تھیں جو انٹرنیشنل بروکرز کو بہت سوٹ کرتا تھا۔ بینظیر بھٹو بھی اپنے والد کی طرح مقامی ایجنسیوں کے ہاتھ سے نکل کر انٹرنیشنل بروکرز کی محفل میں زیادہ اٹھنے بیٹھنے لگیں۔ انہیں وارننگ کے طور پر دو مرتبہ حکومت سے فارغ کیا گیا لیکن بینظیربھٹو کا انٹرنیشنل بروکرز کے ساتھ اوور کانفیڈنس انہیں زندگی سے دور کرگیا۔ ذوالفقار علی بھٹو اور بینظیر بھٹو اس نکتے کو اوورلُک کرگئے کہ انٹرنیشنل بروکرز اپنے مفادات کے لیے ہمیشہ بہتر سے بہتر اور ایک سے دوسرے کی تلاش میں رہتے ہیں۔ نواز شریف بھی جوانی میں ہی مقامی ایجنسیوں کی محبوبہ بن گئے اور وہ تمام لاڈ پیار حاصل کیے جو عاشق معشوقوں کے لیے فراہم کرسکتے ہیں۔ نواز شریف کی انٹرنیشنل بروکرز کے میرٹ پر کم پورا اترنے کی سب سے بڑی ڈس کوالی فکیشن یہ تھی کہ وہ مغربی تعلیم یافتہ نہیں تھے۔ نواز شریف انٹرنیشنل بروکرز کے لسانی و تعلیمی تعصب کا آسانی سے نشانہ بنے رہے۔ نواز شریف نے جب سِول سپریمیسی کو سپر کرنے کی کوشش کی تو وہ مقامی ریڈلائن کراس کرگئے۔ انہیں نُکّرے لگانا زیادہ مشکل نہ تھا کیونکہ انٹرنیشنل بروکرز نواز شریف کی چین اور روس کی طرف شفٹ ہونے والی پالیسیوں سے پہلے ہی نالاں تھے۔ دوسرا یہ کہ وہ مغربی تعلیم یافتہ نہ ہونے کے باعث ذوالفقار علی بھٹو اور بینظیر بھٹو کی طرح انٹرنیشنل بروکرز کے کلچر فیلو نہ تھے۔ نواز شریف کا انجام بھی اب اکیلے بیٹھ کر یادوں کے خونی منظر دیکھنے جیسا ہی لگتا ہے۔ ہم نے یہ جملہ اکثر سنا ہے کہ تاریخ اپنے آپ کو دہراتی ہے۔ پاکستانی سیاست میں تاریخ بہت جلدی جلدی اپنے آپ کو دہراتی ہے۔ نوجوان بلاول بھٹو کو جس طرح سیاست میں اتارا گیا وہ کسی سے پوشیدہ نہیں ہے۔ البتہ انہیں جس طرح میڈیا پر مشہور کیا جارہا ہے اور انہیں ایک دانشور سیاست دان کے طور پر پیش کیا جارہا ہے وہ فی الحال پوشیدہ ہے اور کچھ سوال لیے ہوئے ہے۔ مثلاً یہ کہ ہماری سیاست میں مقامی طاقتوروں کے بغیر کوئی مشہور نہیں ہو سکتا۔ بظاہر پیپلز پارٹی نیب اور عمران خان کے ریڈار پر سرخ نکتے کی مانند ہے لیکن بلاول بھٹو کا بڑھ چڑھ کر میڈیا پر چڑھے رہنا کیا کسی خاص نُکّر کی مستقبل کی منصوبہ بندی کا پارٹ ہے؟ بلاول بھٹو بھی اپنے نانا ذوالفقار علی بھٹو اور والدہ بینظیر بھٹو کی طرح مغربی تعلیم یافتہ ہیں۔ یہ کوالی فکیشن انٹرنیشنل بروکرز کو بہت سوٹ کرتی ہے۔ کیا انٹرنیشنل بروکرز بھی مستقبل میں بلاول بھٹو کے حق میں اپنا وزن ڈالنے کے لیے تیار ہورہے ہیں؟ اگر بلاول بھٹو کے حوالے سے یہ سب کچھ درست ہوا تو 2013ء کے بعد عوام کو اتنی سیاسی ذہنی اذیت دینے اور اتنے اکھاڑ پچھاڑ کرنے کی کیا ضرورت تھی؟ اور اگر بلاول بھٹو کے حوالے سے یہ سب کچھ درست ہوا تو کیا پاکستان سیاست کے اعتبار سے واپس پچاس کی دہائی میں جاکھڑا نہیں ہوگا؟ ۔ادارہ اردوپوائنٹ کا کالم نگار کی رائے سے متفق ہونا ضروری نہیں ہے۔
تازہ ترین کالمز :
سید سردار احمد پیرزادہ کے کالمز
-
آزاد خارجہ پالیسی کی خواہش
ہفتہ 19 فروری 2022
-
نیشنل سکلز یونیورسٹی میں یوم تعلیم پر سیمینار
منگل 8 فروری 2022
-
اُن کے گریبان اور عوام کے ہاتھ
بدھ 2 فروری 2022
-
وفاقی محتسب کے ادارے کو 39ویں سالگرہ مبارک
جمعہ 28 جنوری 2022
-
جماعت اسلامی کا کراچی میں دھرنا۔ کیوں؟
پیر 24 جنوری 2022
-
شارک مچھلی کے حملے اور سانحہ مری کے بعد فرق
ہفتہ 15 جنوری 2022
-
نئے سال کے لیے یہ دعا کیسی ہے؟
بدھ 12 جنوری 2022
-
قاضی حسین احمد آئے، دیکھا اور لوگوں کے دل فتح کیے
ہفتہ 8 جنوری 2022
سید سردار احمد پیرزادہ کے مزید کالمز
کالم نگار
مزید عنوان
UrduPoint Network is the largest independent digital media house from Pakistan, catering the needs of its users since year 1997. We provide breaking news, Pakistani news, International news, Business news, Sports news, Urdu news and Live Urdu News
© 1997-2025, UrduPoint Network
All rights of the publication are reserved by UrduPoint.com. Reproduction without proper consent is not allowed.