پیارے کپتان، قول و فعل میں تضاد کیوں؟

جمعہ 12 اپریل 2019

Syed Shahid Abbas

سید شاہد عباس

بھارت میں پاکستان مخالفت کارڈ کھیلتے ہوئے جس طرح عوام کو بے وقوف بنایا جاتا ہے۔ اس کا عملی مظاہرہ موجودہ انتخابی مہم میں دیکھا جا سکتا ہے۔ صورت حال یہ ہے کہ موجودہ وزیر اعظم مودی کے پاس کچھ بھی نہیں ہے۔ نہ وہ اپنے بے روزگار نوجوانوں کو ملازمتیں دے پائے ہیں۔ نہ عوام کا معیار زندگی بلند کرنے کے جو دعوے وہ پچھلے انتخابات سے پہلے کرتے تھے وہ کر پائے ہیں۔

ٹوائلٹ ایشو تو اب ایک مذاق بن کے رہ گیا ہے۔ غربت کا شکار افراد کی تعداد بھی ہر نئے دن کے ساتھ وہاں بڑھتی جا رہی ہے۔ بھارت کی مختلف ریاستوں میں علیحدگی پسند تحریکیں بھی زوروں پہ ہیں، ان سے نمٹنا بھی خام خیالی ہی ثابت ہوا ہے۔ ملک کی معیشت نے بھی مودی کے دور میں کوئی حیران کن جست نہیں لگائی۔

(جاری ہے)

ڈیزل و پیٹرول کی قیمتیں بھی مودی دور حکومت میں بلندی کی طرف رہیں۔

کسانوں میں بڑھتا ہوا خود کشیوں کا رجحان مودی حکومت پہ ایک دھبے کی صورت ہے۔ دنیا کی سب سے بڑی جمہوریت ہونے کا دعویٰ ہر گزرتے دن کے ساتھ جھوٹ ثابت ہوتا گیا۔ ہندواتہ کی ترویج مودی حکومت کا سب سے بڑا کارنامہ بنا رہا ہے، جس کی وجہ سے بھارت کے سب سے بڑی جمہوریت ہونے کے دعوے کی قلعی کھل گئی۔ مودی سرکار میں اقلیتوں پہ حالات زندگی تنگ کیے جاتے رہے ہیں۔

بالخصوص مسلمانوں پہ عرصہ حیات نہ صرف تنگ کیا جاتا رہا ہے بلکہ پرتشدد کاروائیوں میں کئی مسلمان شہید بھی کر دیے گئے۔ ان سب مسائل کے بعد مودی سرکار کے پاس کیا بچ جاتا ہے جس کی بنیاد پہ وہ انتخابات میں جائیں اور کامیاب بھی ہو جائیں۔ پاکستان دشمنی، جی ہاں پاکستان دشمنی ایک ایسا انتخابی نعرہ ہے جس سے کچھ بعید نہیں کہ مودی دوبارہ جیت سکتے ہیں۔

اور ایسا ہونا ناممکن اس لیے بھی نہیں ہے کہ حکومتی سطح کے علاوہ مودی دور حکومت میں عوام میں بھی ہندواتہ کی ایسے ترویج کی گئی ہے کہ اولاً وہ مسلمانوں کو دیکھنا گوارا نہیں کرتے (اپنے ملک میں بھی)، ثانیاً پاکستان کے خلاف ان کے جذبات کو ایسے ابھارا گیا ہے کہ پاکستان کے حق میں کوئی بیان دینے کی جرات تو کرئے اس کا تیا پائنچہ کر دیا جاتا ہے۔

ان حالات میں مودی بالاکوٹ کی فرضی سرجیکل اسٹرائیک پہ انتخابی مہم پلان کیے بیٹھے تھے کہ دو طیارے گنوا بیٹھے۔ اب اندازہ لگائیے کہ دو طیارے گنوا بیٹھنے کے بعد بھی وہ خاموش نہیں ہوئے۔ پاکستان کے ایف سولہ گرانے کا قضیہ گھڑا گیا، جھوٹ ثابت ہونے پہ بھی وہ اس دعوے پہ قائم ہیں (عالمی سطح پر یہ دعویٰ جھوٹ ثابت ہو رہا ہے)۔ اس کے علاوہ وہ مزید محاذ آرائی کا منصوبہ بھی بنائے بیٹھے ہیں۔

(شاہ محمود قریشی خدشے کا اظہار کر چکے ہیں)۔ اور جائزے بھی بتاتے ہیں کہ مودی جتنا پاکستان دشمنی میں بولتے ہیں اتنا ان کی مقبولیت کا گراف بڑھتا ہے۔
اب یہاں ایک لمحہ رکیے، اور رک کے صرف ایک لمحہ ہی سوچیے کہ ان خیالات کا حامل ملک، ان خیالات کو پروان چڑھانے والا مودی، کیا پاکستان کے لیے بہتر ہو سکتے ہیں؟ کیا آپ امید ایسی رکھ سکتے ہیں کہ مودی کسی بھی صورت پاکستان کے ساتھ دوستانہ تعلقات چاہے گا؟ اگر حقیقت پسندانہ طور پہ حالات و واقعات پہ غور کرتے ہوئے اس سوال کا جواب تلاش کیا جائے تو پھر شاید ہی کوئی فرد ہو جو اس پہ مودی کے حق میں جواب اثبات میں دے گا۔

محدودے چند بہت پر امید اور ہمیشہ مثبت انداز سے سوچنے والے چند افراد شاید ایسے سر پھرے ہوں بھی جو مودی کو پاکستان کا دوست بنتے دیکھنے سے اب بھی انکاری نہ ہوں۔ دوسری جانب کانگریس، جو بی جے پی کے برعکس بھارت کی قدرے سیکولر جماعت ہے۔ کانگریس کے راہنما ہوں یا ان کے ووٹرز وہ شدت پسندانہ جذبات کو ترجیح دیتے نظر نہیں آتے۔ پاکستان دشمنی کا کارڈ اگر ان کی طرف سے استعمال بھی کیا جاتا ہے تو اس کی شدت شاید وہ نہ ہو جو ہندواتہ کی بنیاد پہ ہی چلنے والی بی جے پی کی ہے۔

بابری مسجد کی شہادت ہو یا پھر گجرات میں مسلم کش فسادات، بی جے پی نے تو آج تک اپنے ہندو شدت پسند رجحانات کو چھپانا تک گوارا نہیں کیا اور علی الاعلان اس کا پرچار کیا۔ بابری مسجد کے بعد رام مندر کی تعمیر کے مطالبات اور اقدات آپ کے سامنے ہیں۔ اس کے برعکس کانگریس کا بطور مجوعی رویہ ترقی پسند، لبرل ازم، سیکولرزم لیے ہوئے رہا ہے (بے شک بظاہر ہی، مگر رہا ہے)۔

اور وہ انتخابات میں بھی مذہبی شدت پسندی کو ہتھیار بناتے کم ہی دیکھے گئے ہیں۔
ان تمام حالات کو سامنے رکھیے۔ اور اب وزیر اعظم پاکستان کے بیان کا جائزہ لیجیے۔ کوئی معقول وجہ؟ کوئی مثبت رویہ؟ کوئی تعمیری حوالہ؟ کوئی مسکراتا بیان؟ کوئی روشن امید؟ جو ہمیں مودی کے حوالے سے نظر آتی ہو؟ جو وزیر اعظم کے اس بیان کی وجہ بنی ہو؟ سوال کا جواب اپنے دل و دماغ دونوں سے پوچھیے۔

دل کہتا ہے جو مسلم دشمنی میں اپنا ثانی نہ رکھتا ہوں، جو پاکستان دشمنی کا کارڈ کھیلنے کا ماہر ہو ،وہ ہمارا مخلص کیسے ہو سکتا ہے۔ دماغ تانے بانے ملاتا ہے مگر اسے بھی کوئی وجہ نظر نہیں آتی کہ وہ کشمیر میں ہر نئے گزرتے دن کے ساتھ بڑھتے ہوئے ظلم، کالے قوانین وادی میں نافذ کرنے والے شخص سے بہتری کی امید باندھ لے۔ لیکن ہمارے وزیر اعظم بھی بہت دور اندیش ہیں، ہو سکتا ہے انہیں شمعء اُمید کی کوئی پھڑپھڑاتی لو نظر آ گئی ہو جو وہ مودی سے مثبت سوچ کی توقع کیے بیٹھے ہیں کہ شاید مودی کشمیر جیسے دیرینہ مسلے کو حل کرنے کا سبب بن جائیں۔


 مودی کا رویہ پاکستان مخالف تو رہا ہے لیکن کشمیر کے حوالے سے ان کی پالیسیوں میں بھی کسی حوالے سے کبھی یہ عندیہ نہیں دیا گیا کہ وہ کشمیر کا مسلہ حل کرنا تو درکنار، اسے متنازعہ خطہ تک ماننے پہ تیار ہوں۔ اس کے باوجود مودی سے بہتری کی امید رکھنا یا بی جے پی جیسی شدت پسندی کی جانب مائل جماعت سے یہ توقع رکھنا کے اس کے دور اقتدار میں مسلہ کشمیر حل ہو گا، سمجھ سے بالا تر ہے۔

کل تک جب سرحدوں پہ تناو بھی نہیں تھا، اس کے باوجود مودی کے دورہ لاہور پہ عمران خان" مودی کا یار" کا طعنہ اپنے سیاسی مخالف کو دیا کرتے تھے۔ اور آج جب کہ سرحدی جھڑپ میں بھارت دو جنگی طیارے گنوا چکا ہے، پاکستان دشمنی انتخابی مہم کا اہم ہتھیار ہے، اور ہمارے وزیر خارجہ بھارت کی جانب سے مہم جوئی کے دن تک اندازً بتا چکے ہیں، تو ایسے حالات میں مودی سے یا بی جے پی سے کیسے یہ امید رکھی جا سکتی ہے کہ وہ مسلہ کشمیر کے حل میں مثبت کردار ادا کریں گے۔


کپتان کے بیان سے بی جے پی کا رویہ بدلے گا یا نہیں اس خیال پہ بھی امید رکھنا فی الحال معروضی حالات میں ممکن نہیں ہے۔ اس کے برعکس اس بیان سے بھارت میں موجود ایسے حلقے جو مودی حکومت کے شدت پسندانہ رویوں کے مخالف رہے ہیں، کے دل میں بھی خدشات جنم لے سکتے ہیں۔ بھارت کے روشن خیال قلوب و اذہان جو کسی نہ کسی حوالے سے پاکستان کو دشمن گرداننے کے بجائے دوستی پہ زور دیتے آئے ہیں، وہ ہمارے اس بیان سے غیر یقینی صورت حال کا ضرور شکار ہوسکتے ہیں۔

اس کے علاوہ پاکستان میں بسنے والے بھی اپنے کپتان کے اس بیان پہ اختلاف تو نہیں مگر کم از کم وجوہات ضرور جاننا چاہ رہے ہیں کہ اگر کوئی بنیاد ایسی امید کی ہے کہ بی جے پی جیسی شدت پسند جماعت سے بہتری کی توقع رکھ لی گئی ہے تو ان کے علم میں آ جائے تو حرج کوئی نہیں۔ اور ایسی وجوہات یقینی طور پر سامنے آنی بھی چاہیے کہ کل تک آپ کا قول جسے دشمن مانتا تھا، اور آج نامساعد اور سرحدی کشیدگی کے باوجود، جب کہ آپ با اختیار بھی ہیں، تو آپ کا فعل اس کے برعکس کیوں ہو گیا۔ اور دل سے دعا ہے کہ کپتان کا یہ بیان بی جے پی کا رویہ بھی بدل ڈالے۔ اور اگر بی جے پی مسلہ کشمیر حل کرنے میں سنجیدہ ہو گئی تو پاکستان کا ہر فرد اس جماعت کو سراہے گا۔

ادارہ اردوپوائنٹ کا کالم نگار کی رائے سے متفق ہونا ضروری نہیں ہے۔

تازہ ترین کالمز :