بجٹ ، اِک آس تھی سو ٹوٹی

پیر 17 جون 2019

Syed Shahid Abbas

سید شاہد عباس

حنانِ اقتدار پہ کوئی دودھ کا دھلا بھی بٹھا دیں تو عوامی اُمیدیں کبھی بھی پوری نہیں ہو سکتیں۔ وجہ یہ نہیں ہے کہ عوامی اُمیدیں انوکھا لاڈلا کھیلن کو مانگے چاند کے برابر ہیں۔ بلکہ ہم ایک ایسی محکوم قوم ہیں جو آزاد ہو کے بھی آزاد نہیں ہیں۔ ہم ریکوڈک، کھلے سمندر میں تیل و گیس کے ذخائر، گلابی نمک، کو سوشل میڈیا پہ لائیکس و شیئر کرنے کے لیے تو استعمال کرتے ہیں۔

لیکن حقیقت سے عاری ان منصوبوں کا قطعاً ملکی معیشت سے کوئی تعلق نہیں ہے۔ بلکہ ہم عالمی استعمار کے پنجوں میں ایسے جکڑے ہوئے ہیں کہ ہم نہ تو کوئی عالمی سطح کا منصوبہ اپنے ہاں شروع کر سکے ہیں نہ ہی اپنی معیشت کی بہتری کے لیے کسی بھی قسم کے انقلابی اقدامات اپنی مرضی سے کر سکتے ہیں۔ ہمیں تو آئی ایم ایف قرض اس شرط پہ دیتا ہے کہ قلیدی عہدوں پہ بندے ان کی مرضی کے ہوں، ملک کی مجموعی معاشی صورت حال کے متعلق فیصلے ان کی منشاء کے مطابق ہوں، اور بجٹ دستاویز میں الفاظ تو سارے پاکستانی ہوں لیکن اعداد و شمار ہر لحاظ سے ان کی خواہش کے مطابق ہوں۔

(جاری ہے)

تو پھر ہم توقع کیسے کر سکتے ہیں کہ بجٹ عوام دوست بنایا جائے گا یا بنایا جا سکتا ہے۔
مزدور کی تنخواہ سترہ ہزار پانچ سو ہو گئی ہے، شاباش بھئی، دیکھا انقلابی حکومت نے کس طرح انقلابی قدم اُٹھایا ہے، اسے کہتے ہیں تبدیلی۔ ارئے جناب جب عرصے سے بحث ہو رہی کہ مزدور کی تنخواہ کو ایک تولہ سونے کی قیمت سے منسلک کر دیا جائے تو پھر یہ سترہ ہزار پانچ سو کی بھبھکی چھوڑنے سے کیا حاصل؟ اور جتنی آپ نے مزدور کی تنخواہ مقرر کی ہے، کیا آپ کے پاس کوئی ایسا نظام موجود ہے کہ جو یہ یقینی بناتا ہو کہ مزدور کو اتنی تنخواہ ملے گی؟ یہاں ادارے مزدور کا جو حق ہے ای او بی آئی کی کٹوتی جو مزدور کے بڑھاپے کا آسرا بن سکتی ہے وہ ادارے میں نہیں بھجواتے تو آپ کم از کم اجرت کو کیسے یقینی بنائیں گے؟ اور ہمارے ہاں تو مزدور کی آج تک باقاعدہ تعریف ہی نہیں ہو سکی کہ مزدور کہتے کسے ہیں۔

آکسفورڈ، کیمبرج، ڈکشنری اور مختلف دیگر حوالوں سے مزدور کی جو بہتر صورت سامنے آتی ہے یہی ہو سکتی ہے کہ ایسا عملی کام کرنے والا جس میں جسمانی مشقت شامل ہو۔ اور پاکستان کے حوالے سے ہم مزدور اکثر اس کو کہتے ہیں جو ہمیں چوراہوں پہ نظر آتے ہیں اپنے اوزاروں کے ساتھ، راج مستری ہوں یا پینٹر، مکینک ہوں یا پھر سینٹری ورکز ہم دیہاڑی دار افراد کو عام فہم میں مزدور تصور کرتے ہیں۔

اور دفاتر میں کام کرنے والے افراد ،جن کو سفید پوش بھی کہا جاتاہے، وہ ہماری نظر میں مزدور کی تعریف پہ پورا نہیں اترتے۔ لیکن دونوں صورتوں میں بجٹ کا یہ حصہ کتنا کارآمد ہے؟ کیا ایک دیہاڑی دار بھی اگر تصور کریں تو ہم اسے پورا مہینہ کام کی ضمانت دے سکتے ہیں؟ اور اگر ہم سفید پوش دفتری کام میں مصروف افراد کو اس تعریف میں شامل کریں تو کیا سترہ ہزار پانچ سو میں ایک متوسط فیملی یعنی پانچ سے چھ افراد کے خاندان کا بجٹ مہینے کا بن سکتا ہے؟ عقل کے تقاضوں کے تحت سوچیں تو نہیں بن سکتا۔

تبدیلی کے نعروں کے مطابق دیکھیں تو اس رقم میں دس خاندان پل سکتے ہیں۔
دس فیصد اضافہ تنخواہوں میں؟ پندرہ فیصد اضافہ؟ آپ تنخواہوں میں بالکل بھی اضافہ نہ کرتے صرف مہنگائی کے طوفان پہ ہی کچھ قابو پا لیتے۔ بیس ہزار تنخواہ لینے والے کے لیے یہ اضافہ دو ہزار روپے بنا۔ اور دوسری جانب چینی، گھی، تیل، دالیں، آٹا اور دیگر ضروریات زندگی کی اشیاء مہنگی کر کے، یہ اضافہ تو الگ، اس اضافے کے علاوہ گھریلو عام صارف کے بجٹ پہ پانچ سے دس ہزار کا ٹیکہ لگا دیا گیا۔

اب بھلا بتائیے دو ہزار اضافے پہ خوشی منائیں یا پھر پانچ ہزار روپے ماہانہ بجٹ کے بڑھ جانے والے خرچے پہ؟ ذرا سنیے کہ کابینہ اراکین کی تنخواہوں میں کمی کر دی گئی ہے۔ پاکستان جیسے ملک میں جہاں سیاستدان عوام کا استحصال کر کے ووٹ چھینتے ہیں وہاں ان اراکین کو بھلا تنخواہوں سے غرض بھی کیا ہے؟ آپ کابینہ اراکین کی تنخواہیں بے شک پچاس فیصد بڑھا دیجیے۔

صرف ان کو حاصل مراعات آدھی کر دیجیے۔ آپ ملاحظہ کیجیے گا کتنی بچت ہو پائے گی۔ اور دس فیصد تنخواہوں میں اضافے کے بڑے فیصلے کی دھول میں جو وزراء، وزرائے مملکت، پارلیمانی سیکرٹری، ایڈیشنل سیکرٹری، جائنٹ سیکرٹری، کے ساتھ کام کرنے والے سپیشل پرائیویٹ سیکرٹری، پرائیویٹ سیکرٹری، اور اسسٹنٹ پرائیویٹ سیکرٹری کی تنخواہوں میں پچیس فیصد اضافہ کیا گیا ہے اس پہ کوئی بات نہیں کرئے گا اور شنید یہ ہے کہ یہ حضرات بیوروکریٹ بھی نہیں ہیں بلکہ پارٹی کے وہ ورکرز ہیں جو برے بھلے وقت میں دفاع کرتے رہے۔


پاکستان کے جو مجموعی حالات ہیں ان حالات میں تو پچاس ہزار تنخواہ لینے والا شخص امارت کی کسی تعریف میں نہیں آتا۔ ہاں اسے ہم متوسط طبقے میں ضرور شمار کر سکتے ہیں۔ لیکن اس سے آپ ٹیکس لیں گے۔ یہ سوچے بناء کہ آپ اس سے پہلے ہی گھر میں استعمال ہونے والے نمک پہ بھی ٹیکس لے رہے ہیں۔ آڑھتیوں، ڈیلرز، کمیشن ایجنٹس پہ آپ نے ایڈوانس ٹیکس لگا دیا۔

بہت اچھا کیا۔ لیکن ایک لمحہ سوچیے، وہ کیا یہ ٹیکس اپنی جیب سے ادا کریں گے یا عام عوام کی جیب سے نکالیں گے؟ منڈی میں ایک آڑھتی ہے، وہ پہلے ایک ٹرک کا مالایک لاکھ میں خریدتا تھا اب سے ڈیڑھ لاکھ میں خریدتا ہے تو کیا وہ عام صارف یا دوکاندار سے پیسے وصول کرئے گا یا یہ فرق خود دے گا؟ آپ اس سے جو ٹیکس بھی وصول کریں گے وہ ٹیکس بھی آڑھتی ریٹ میں شامل کر کے آگے فروخت کرئے گا مال، تو پھر اس ٹیکس کابوجھ بھی آپ نے بلا واسطہ طور پہ عوام پہ ہی ڈالا ۔

اسٹامپ پیپرز مہنگے کر دیے گئے۔ کوئی عقلمند بتا دے کہ ان کا مہنگا ہونا اسٹامپ فروش پہ فرق ڈالے گا یا اس عام آدمی پہ جو اسٹامپ پیپر لے گا؟ اس بجٹ نے پچاس لاکھ گھروں کے نعرے کو بریک لگا دی کہ سیمنٹ و سریا تو آپ نے مہنگا کر دیا۔
بجٹ سے حقیقی معنوں میں کوئی خاص امید نہیں تھی کہ محکوم قوموں کا بجٹ بھی محکوم ہوتا ہے۔ اور یہ محکومیت ضروری نہیں کہ کسی ملک کے زیر تسلط ہی ہو۔

جدید دور میں عالمی معاشی ادارے قوموں کو محکوم بناتے ہیں اور ہمارے ساتھ بھی ایسا ہی ہو رہا ہے۔ ہم انقلابی اقدامات کے بجائے عالمی ادروں کے کہنے پہ اپنی عوام کو پانچ سوبارہ اربے کے نئے ٹیکس کے بوجھ تلے دبانے کو ہی شاید ترقی سمجھتے ہیں۔ ہم صحت، تعلیم، انفراسٹکچر کی ترقی کو شاید ترقی شمار ہی نہیں کرتے۔ امیدیں بے شک اس بجٹ سے نہیں تھیں۔ لیکن بہرحال ایک آس ضرور تھی وہ بھی شکر ہے ٹوٹ گئی کہ اپنے نعروں کو ہی جب بجٹ میں جگہ نہیں دے پائے تو اور کیا اہداف حاصل ہو پائیں گے۔

ادارہ اردوپوائنٹ کا کالم نگار کی رائے سے متفق ہونا ضروری نہیں ہے۔

تازہ ترین کالمز :