وزیر اعظم پاکستان اور ڈیجیٹل میڈیائی پیادے

جمعہ 7 فروری 2020

Syed Shahid Abbas

سید شاہد عباس

حکومتیں اپنے موقف کی ترویج و اشاعت کے لیے پرنٹ میڈیا کا سہارا لیتی رہی ہیں۔ اور اس مقصد کے لیے اخبارات پہ مہربانیاں کی جانے لگیں تو اخبارات کی ادارتی پالیسی میں بھی اُس کی حمایت واضح نظر آنا شروع ہوئی جو اس پہ مہربان ہوتا تھا۔ اور اس کی مخالفت پورے ادارتی معیار پہ چھائی رہتی تھی جو اس حمایت کرنے والا کا مخالف ہوتا تھا۔
 اسی طرح دور آیا الیکٹرانک میڈیا کا تو کچھ عرصہ تو الیکٹرانک میڈیا نے حقیقی رپورٹنگ کا سہارا لیا۔

بریکنک نیوز کے پھٹے اتنے زیادہ نہیں چلتے تھے لیکن جیسے جیسے وقت خرگوش کی رفتار سے بھاگا تو الیکٹرانک میڈیا نے بھی جان لیا کہ انہیں پرنٹ میڈیا کی ہی روش اپنانا ہو گی۔ لہذا یہاں بھی حمایت و مخالفت کا چلن ایسا چلا کہ میڈیا گروپس واضح گروہ بندی میں بٹے نظر آنے لگے اور آج دور ایسا ہے کہ محدودے چند الیکٹرانک میڈیا چینلز کے علاوہ کم و بیش تمام ہی چینلز کا لوگو یا نام سنتے ہی لوگ اندازہ لگا لیتے ہیں کہ یہ چینل تو فلاں پارٹی کا میڈیائی چہرہ ہے۔

(جاری ہے)

اور پہ فلاں پارٹی کا موقف مثبت انداز میں پیش کیا جاتا ہے اور فلاں پارٹی کا مثبت بیانیہ بھی منفی بنا کے چلایا جاتا ہے۔ اس کو ہم غلط اس لیے بھی نہیں کہہ سکتے کہ پوری دنیا میں ہی الیکڑانک میڈیا اب تو یہ روش اپنا چکا ہے۔ اس میں صحافتی معیارات تو گم ہو گئے لیکن جس کاروباری نقطے کی بنیاد پہ یہ قائم کیے گئے تو اس کو تو بہر حال ملحوظ خاطر رکھنا ہی تھا۔

اب یہاں سے ٹیکنالوجی نے نیا رخ دیکھا اور ڈیجیٹیل میڈیا کی ایسی گیدڑ سنگھی سامنے آئے کہ پرنٹ اور الیکٹرانک میڈیا بھی اس پہ انحصار کرنے لگے۔ 
آج آپ اخبار خریدیں یا نہ خریدیں ویب سائیٹ پہ یہی اخبار آپ اپنے موبائل یا لیپ ٹاپ پہ جب چائیں پڑھ سکتے ہیں۔ آپ کو ٹی وی کے سامنے بیٹھ کر کوئی چینل دیکھنے کی ضرورت ہی نہیں۔ لیپ ٹاپ ہو یا ڈیسک ٹاپ سسٹم، موبائل فون ہو یا کوئی اور الیکٹرانک آلہ، آپ جہاں چائیں، جب چائیں کوئی بھی چینل دیکھ سکتے ہیں۔

پوری دنیا حقیقی معنوں میں انگلیوں کی پوروں میں سمٹ گئی ہے۔ یعنی دنیا اس وقت ففتھ جنریشن ٹیکنالوجی کی پوری طرح گرفت میں آ چکی ہے۔
وزیر اعظم پاکستان جناب عمران احمد خان نیازی صاحب نے ڈیجیٹل دنیا کے گورو نوجوانوں سے کچھ عرصہ قبل ملاقات کی۔ بظاہر تو اس ملاقات میں کوئی اچھنبے کی بات نہیں تھی۔ اور نہ ہی یہ کوئی تنقیدی فعل ہے کہ جس پہ تنقید کی جا سکے۔

لیکن معاملہ غور طلب اس لیے ہے کہ وزیر اعظم پاکستان بھی مختلف مواقع پر اس ملاقات میں لفظ وائرل پہ زور دیتے رہے۔ وہ یقینی طور پر جانتے ہیں کہ وائرل کر کے ان کی پارٹی و حکومت کی مقبولیت برقرار رکھی جا سکتی ہے۔ لیکن سوچنے کا مقام یہ ہے کہ وزیر اعظم مین سٹریم میڈیا سے ہٹ کر کہ جہاں وہ اپنی کارکردگی کی بنیاد پہ اپنا وجود برقرار رکھ سکتے ہیں، ان کا سارا زور سوشل میڈائی گھوڑوں کی طرف منتقل ہو چکا ہے۔

چینی 35 روپے سے 70 روپے کلو ہو گئی، آٹا 40 روپے سے 80 روپے کلو بکنے لگا۔ دالیں عام آدمی کی پہنچ سے دور ہوتی جا رہی ہیں۔ گیس فراہمی کے معاملات دگرگوں ہو رہے ہیں۔ پچاس لاکھ گھر، ایک کروڑ نوکریاں، سرکاری عمارات میں نوکریاں جیسے ہزاروں وعدوں کی تکمیل کے بجائے وزیر اعظم پوری طرح پراپیگینڈا مہم کا حصہ بنتے جا رہے ہیں۔
 وہ اس بات کی طر ف توجہ دینے کے بجائے کہ وہ اپنی کارکردگی عوامی جلسوں، اخبارات کے ایڈیٹرز سے ملاقاتوں، ٹی وی بیوروچیفس، نمائندگان، اینکرز کے ساتھ مباحثے کی صورت میں ایسے سامنے رکھیں کہ وہ اپنے متعلقہ فورمز پہ ان کا دفاع کریں اور عوام تک ان کی آواز پہنچانے کا سبب بنیں کہ ملک آگے بڑھ رہا ہے، ہمارے وزیر اعظم ان کے بارے میں فکر مند ہیں، مشکل دور ہے لیکن یہ دور کم رہ گیا ہے کہ برعکس ہمارے وزیر اعظم پورا زور پراپیگینڈا ماہرین پہ لگا رہے ہیں۔

انہوں نے ارسلان کو ڈاکٹر مہاتیر محمد کا آرٹیکل وائرل کرنے کا تو کہہ دیا لیکن گذارش اتنی سی ہے کہ یہ آرٹیکل اگر بیس کروڑ لوگ بھی دیکھ لیں وائرل ہونے کے بعد تو کیا عوام کو آٹا میسر آ جائے گا سستے داموں؟ کیا شوگر مل مافیا کو اس آرٹیکل کے وائرل ہونے سے لگام ڈالی جانا ممکن ہو سکے گا؟ 
وزیر اعظم پاکستان نے بہت اچھا کیا کہ ڈیجیٹیل میڈیا کے سرخیلوں کو اپنے ہاں مدعو کیا اور ملکِ پاکستان میں تو سوشل میڈیا پہ ہی انہوں نے کامیابی کے جھنڈے بھی گاڑھے۔

لیکن کیا ہی اچھا ہوتا تو کہ اپنی حکومت کی وہ کارکردگی جو نظر بھی نہیں آ پا رہی کو وائرل کروانے کے بجائے، سوشل میڈیا و ڈیجیٹل میڈیا کے نمائندوں سے کہتے کہ ہمیں ہماری غلطیوں کی نشاندہی کرنے میں مدد فراہم کریں۔ پاکستان میں موجود مسائل کو ڈیجیٹل میڈیا کے توسط سے سامنے لائیں۔ لیکن ہم یقینی طور پر اتنی اخلاقی جرات نہیں رکھتے کہ ایسا کر پائیں۔

اور آج نہیں تو کل ڈیجیٹل میڈیا ماہرین کو بلانے کا واضح مقصد بھی سامنے آ جائے گا کہ مدعا تھا کیا۔ کیوں کہ یہ اب اوپن سیکرٹ ہے کہ حکومت وقت عملی میدان کے بجائے انحصار ڈیجیٹل و سوشل میڈیا پہ کر رہی ہے۔ اقدامات کرنے کے بجائے نا کافی اقدامات کو وائرل کرنے کے حوالے سے فکر مند ہے۔ 
اگر وطن عزیز کے حکمران ملک سے مخلص ہوں تو وہ اتنا غور تو کر ہی سکتے تھے کہ جب معلوم ہے ملک میں غذائی ضروریات پوری کرنا ایک مشکل مرحلہ ہے تو پھر 2019 کے اواخر میں گندم ایکسپورٹ کرنے کے احکامات کیوں دیے گئے۔

اور جو جو اس میں شامل تھا اس سے پوچھا نہیں جانا چاہیے کہ ملک کو مشکل میں کیوں ڈالا؟ کیا یہ جاننا ضروری نہیں کہ اس ایکسپورٹ سے کس نے کتنی سبسڈی لی اور کس نے کتنا منافع حاصل کیا؟ اور اب جب کہ دوبارہ سے امپورٹ کی ضرورت پیش آ گئی تو جنہوں نے ایکسپورٹ کی ان سے سوال نہیں ہو گا تو پھر ہم یہ توقع کیسے کر سکتے ہیں کہ امپورٹ کرنے والوں کو ترچھی نظر سے کون دیکھے گا کہ کہیں اس وقت ایکسپورٹ کرنے والے ہی اب امپورٹر تو نہیں بن رہے؟ کس کا کتنا فائدہ ہوا باہر بھیجنے میں گندم؟ کس کا کتنا فاہدہ ہو رہا ہے ملک میں واپس لانے میں گندم؟ لیکن ہمیں تو ڈیجیٹل میڈیا پہ اپنے موقف کی ترویج کروانی ہے۔

اور ہم ایسا کر کے رہیں گے۔ باقی ملک میں آٹا، چین، گھی، دالوں کے نرخ کیا ہیں، یہ عوام جانیں کہ ہم نے تو کبھی ان چیزوں کو استعمال کرتے ہوئے دام پوچھے ہی نہیں۔
بات تو شیخ صاحب کی بھی سچ ہے کہ جناب اکتوبر نومبر میں کیوں زیادہ روٹی کھاتے ہیں، قصور تو عوام کا ہی ہے۔ اور اپنے شوکت شوفزئی صاحب کا بیانیہ بھلا کیسے غلط ہو سکتا ہے کہ بھئی ہمارے پیارے نان بائی حضرات آپ روٹی کی قیمت نہیں بڑھا سکتے، ہاں مگر آپ کا جیسے دل چاہے تھوڑی ڈنڈی پیڑے کے وزن میں مار لیجیے کہ ہم آپ کو خود چوری کی اجازت جو دے رہے ہیں۔

بھلا ہو کہ ہمیں یاد یہ بھی آ گیا کہ کشمیر پہ او آئی سی کچھ نہیں کر رہی اور ہم نے اگلے سال پھر سے کوالالمپور سمٹ کانفرنس میں شرکت کی حامی بھی بھر لی ہے۔ ترک صدر بھی آ رہے ہیں۔ لیکن کاش کہ اگلے سال تک ہم اپنے وعدے پہ قائم رہیں اور کانفرنس شروع ہونے سے کچھ قبل آزمائے ہوؤں کے کہنے پہ دوبارہ سے کانفرنس میں شرکت سے انکار نہ کر دیں۔
 یہ"زُبانِ اہلِ زمیں"ہے۔قارئین اپنی تجاویز اور آراء کے لئے رابطہ کر سکتے ہیں۔

ادارہ اردوپوائنٹ کا کالم نگار کی رائے سے متفق ہونا ضروری نہیں ہے۔

تازہ ترین کالمز :