ترقّی کی راہ پر گامزن حکومت‘ ایک افسانہ یا ایک حقیقت

بدھ 26 اگست 2020

Syed Shakeel Anwer

سید شکیل انور

ہمارے پیٹ خالی ہیں اور تن پر سے کپڑے اترتے جارہے ہیں اور حکمرانوں کا دعویٰ ہے کہ ہم ترقّی کی راہ پر گامزن ہیں۔یہ بات بظاہر تومضحکہ خیز معلومہوتی ہے لیکن آزماکر اگر دیکھ لیا جائے تو شاید میرا خیال درست ثابت ہوجائے کہ خالی پیٹ شخص کے کندھے پر چار چھ کلاشنکوف اگر رکھ دیا جائے تو وہ بے چارہ آگے بڑھنے کے بجائے اُنہی کلاشنکوفوں کے بوجھ سے ہی دب کر مرجائے گا یا اُسے حوصلے اور ہمّت نے راہ دِکھادی تو وہ اُس جانب اپنا رخ کرلے گا جدھر مال رکھا ہوگا۔


ہم ایٹمی ملک ہیں اور پانی ہماری دسترس سے اتنا دُور ہے جتنا زمین سے آسمان دُور ہے۔بجلی واقعئی بجلی ہونے کا ثبوت فراہم کر رہی ہے کہ کوند کر نکل جاتی ہے۔شہر وں کی سڑکیں اور گلیاں مضافات کا رنگ اختیار کرچکی ہیں۔

(جاری ہے)

مہنگائی فزوں تر ہوتی چلی جارہی ہے۔ یہ بے مہار ہاتھی کسی کا گھر اُجاڑ رہا ہے اور کسی کے کھیت روند رہا ہے۔حکومت کے متعین کردہ کمشنر اور سکریٹری اِس ہاتھی کو قابو کرنے سے بے زار نظر آتے ہیں۔


حکومت کے حامیوں کا کہنا ہے کہ دُنیا کی اِقتصادیات پٹرول کی رہینِ مُنّت ہے ‘ جُوں جُوں پٹرول کی قیمت بڑھتی رہے گی تمام اَشیاء کی قیمتوں میں اِضافہ ہوتا چلا جائے گاکیونکہ جِن گاڑیوں میں ڈال کر اَجناس اَور پھل منڈی یا بازاروں میں پہنچائے جاتے ہیں وہ گاڑیاں پٹرول سے ہی چلتی ہیں۔اُن کی یہ بات اگر درست بھی تسلیم کرلی جائے کہ چیزوں کی قیمتوں کا اِنحصار پٹرول پر ہی ہے تومہینہ بھر نہ سہی کم اَز کم پندرہ دِنوں کے لیے ہی قیمتیں برقرار رہنی چاہییں۔

یہاں تو اِسٹاک ایکسچنج سے بھی اُوپر کا معاملہ ہے ‘ وہاں حصص کی قیمتیں اَگر کبھی بڑھ جاتی ہیں تو کسی روز گھٹ بھی جاتی ہیں لیکن کھانے پینے کی اَشیاء کی قیمتیں روزبروز بڑھتی ہی چلی جارہی ہیں۔ایک زمانہ تھا جب ہم بازار جانے سے پہلے فہرست میں اَناج اَور سبزیوں کے بھاؤ لکھ لیا کرتے تھے اَور اُسی حساب سے پیسے دے کر اپنے بچّوں کو بازار بھیجا کرتے تھے۔

ترقّی کی راہ پر گامزن رہنے والی حکومت اگر ہمیں یہ بتلا دیا کرے کہ ہم کتنے پیسے لے کر بازار جائیں گے اَور وہاں سے واپسی پر کیا کچھ سامان اَپنے ساتھ لے کر آئینگے۔دَوا دارو ہو یا اناج اور پھل یا میوے حتّیٰ کہ چائے اور پاپے بھی عام لوگوں کو بڑی مشکل سے دستیاب ہوتے ہیں۔
اِن دنوں کسی گھر میں اگر کوئی شخص بیمار پڑ جاتا ہے تو سارے گھر والوں پر مُردنی چھاجاتی ہے۔

ڈاکٹروں کی فیس‘ لیبارٹری ٹیسٹ کی ہوش ربا اُجرت اور پہلے سے سے دوگنی قیمت کی دوائیوں کا بوجھ عام لوگوں کی کمریں توڑنے لگا ہے اور حکمرانوں کا دعویٰ ہے کہ وہ ترقّی کے راستے پر چل پڑے ہیں۔
اَناج اَور دالیں شاید ہم بیرونِ مُلک سے دَرآمد کرتے ہیں اِس لیے اُن کی قیمتیں عدم توازن کا شکار رہتی ہیں لیکن پھل تو ہماری اَپنی پیداوار ہیں پھِر اِن کی قیمتوں میں توازن کیوں نہیں ہے؟کافی غور و فِکر کرنے کے بعد مَیں اِس نتیجے پر پہنچا ہُوں کہ پھلوں کو ہماری دَسترس سے دُور کرنے کا بُنیادی سبب کولڈ اِسٹوریج کا قیام ہے۔

اِس ٹھنڈے گھر کے باعث کچھ لوگ تو سالہا سال پھل کھاتے رہتے ہیں لیکن غریب بے چاروں کو مَوسم کے پھل چکھنے کو بھی میسّر نہیں ہوتے ہیں۔
میرے خیال میں اِس بات کی اَشد ضرورت ہے کہ کولڈ اِسٹوریج کے قیام کا اَزسرِنو جائزہ لیا جانا چاہیے اَور اُس کے فوائد و نقصانات کا تعیّن کرنا چاہیے۔کولڈاِسٹوریج سے مُستفید ہونے والے مُٹھّی بھر لوگ صاف ظاہر ہے کہ اُس کے قیام کے حق میں ہی دلائل دینگے جبکہ مَیں بِن مَوسم کے پھل کھانے والوں کی خدمت میں یہ عرض کرنا چاہونگا کہ دَرختوں کو بارآور کرنے والااَلله سُبحانہُ و تعالیٰ اَگر چاہتا کہ تمام پھلوں کے دَرخت مُستقل طور پر لدے پھندے رہیں تو کیا اُس ذاتِ باری تعالیٰ کے لیے یہ کام نامُمکن تھا؟
 آپ یہ بھی غور فرمائیے کہ کولڈ اِسٹوریج سے نکلے ہُوے پھلوں کا ذائقہ اُترجانے کے باعث اُس کی لذّت جاتی رہتی ہے اَور کھانے والوں کو وہ مزا نہیں ملتا ہے جو مَوسم کے پھلوں میں ہوتا ہے۔

اِس حوالے سے ہم یہ کہنے میں حق بجانب ہیں کہ کولڈ اِسٹوریج میں رکھے ہُوے پھلوں کی ظاہری شکل اَور صُورت میں اَگرچہ کوئی تبدیلی رُونما نہیں ہوتی ہے لیکن اُس کی اَندرونی سطح میں کوئی اَیسی بات ضرور پیدا ہوجاتی ہے جو اُس کا ذائقہ خراب کرنے کا سبب بنتی ہے۔
قارئین سے گزارش ہے کولڈاِسٹوریج کا پھل نہ کھاکر اَپنی صحت بھی بحال رکھیے اَور غریبوں کا اِستحقاق بھی محفوظ رکھنے کی کوشش کیجیے۔

ادارہ اردوپوائنٹ کا کالم نگار کی رائے سے متفق ہونا ضروری نہیں ہے۔

تازہ ترین کالمز :