قُربانی کے بکرے۔۔۔ !

جمعہ 31 جولائی 2020

Syed Tansir Hussain

سید تنصیر حسین

عیدِ قربان پر مسلمان اُونٹ، گائے ا ور کٹا کٹی سمیت ہر قسم کے حلال جانوروں کی قُربانی دیتے ہیں مگر قربانی کے مخصوص جانور کے طور پرچھاپ صرف" بکرے"ہی کے حصے میںآ ئی ہے․ یہاں تک کہ اشرف المخلوقات میں سے کوئی شخص اگراپنے ہمزادزمیں سے کسی کو بے وقوف بنا کر اپنے مفادا ت کی بھینٹ چڑھاتا ہوا پا یا جائے تو فوراً اسپر یہ لیبل چسپاں کر دیا جاتا ہے کہ موصوف ایک بھلے مانس کو قربانی کا بکرا بنا رہے ہیں؛کسی کو یہ کہتے ہوئے نہیں سنا کہ کوئی کسی کو قربانی کی بھیڑ ،گائے، اُونٹ کٹی یا کٹا بنا رہا ہے ، حا لانکہ یہ جانور بھی بڑی تعداد میں عیدِ قربان اور دیگر مواقعہ پر قربانی کیئے جاتے ہیں․ لہذا قربانی کے بکروں کو ہم دو اقسام میں تقسیم کرسکتے ہیں؛ لغوی یا حقیقی قربانی کے بکرے اور اصطلاحی یا انسانی قربانی کے بکرے ؛حقیقی قربانی کے بکروں کو عیدِ قربان پر اور دیگر غم و خوشی کے مواقعہ پر قربان ہوتے ہوئے ہم سب دیکھتے ہی رہتے ہیں؛انکی خوش قسمتی ہے کہ انکی قر بانی کرنے والے مسلمان انکی قربانی اعلانیہ اور فخریہ طور پر کرتے ہیں اور اسے تسلیم بھی کرتے ہیں مگر بیچارے اصطلاحی یا انسانی قربانی کے بکرے اس سعادت اور فخر سے بھی محروم رکھے جاتے ہیں؛ان کو اپنے مفادات کی بھینٹ چڑھانے والے اُنکے مکار اور زور آور ہمزاد انہیں زبح بھی کرتے ہیں اور باں باں بھی نہیں کرنے دیتے یعنی ان ظالموں کی طرف سے اُنہیں " مارتے بھی ہیں اور رونے بھی نہیں دیتے " کے سے برتاؤ کا سا منا کرنا پڑتا ہے؛ہمارے معاشرے میں ایسے بد بخت قر بانی کے بکروں کے ریوڑ کے ریوڑ موجود ہیں: حکمران اور نام نہاد لیڈران انہیں دل لگی کے طور پر " عوام" کہ کر پکارتے ہیں؛ان کی کئی ا قسام ہیں مگر سب سے مظلوم اور بار بار چھری کے نیچے آنے والی قسم خود کُش حملوں اور منہ زور دہشت گردی کے اس دور میں دہشت گردوں کی ہٹ لسٹ میں شامل لیڈران یا حکمرا نوں کے جعلی جلسوں میں بھیڑ بکریوں کی طرح تڑے حاکم یا افسرِ اعلیٰ کی حکم عدولی کی صورت میں عبرت بنا دیئے جانے کی دہشت میں مبتلا وہ سرکاری ملازم تے ہیں جو مرتا کیا نہ کرتا کی عملی تفسیر بنے ہوئے زبان سے اس لیڈر یا حاکم کے حق میں فلک شگاف نعرے لگا رہے ہوتے ہیں مگر اُنکے چہرے کے تاثرات اور باڈی لینگو ئیج اُنکے دلوں سے اِن لیڈران اور حکمرانوں کے لیئے 50,50 پونڈ کی گالییوں کی بوجھاڑ ِ رواں کی چغلی کھارہے ہوتے ہیں اکیسویں صدی کے دوسے عشرے میں ایک کھلاڑی نے وطنِ عزیز میں ایسے قربانی کے بکروں کو اس بدوبدی کی قربانی سے نجات دلاکر رکھ دینے والی تبدیلی برپا کرنے کی بُلند بانگ․ بڑھکوں سے ان نمانوں کی توجہ اور وٹ حاصل کئے مگر مسندِ اقتدار پر بیٹھتے ہی نہایت ڈھٹائی کے ساتھ اس شا طرانہ تلقین کے ساتھ کہ ، "سب سے پہلے آپ نے گھبرانانہیں ہے " پہلے ہی سے باں باں کرتے ان اصطلاحی قربانی کے بکروں سے پورے شد ومد کے ساتھ پھر سے قربانی کا تقاضہ شروع کردیا․ تا حال ایسے قربانی کے بکروں کو کوئی ایسا مسیحا نہیں مل سکا جو انہیں اشرفالمخلوقات ہونے کا شرف لوٹا دے․
اصلی بکرے پالنے سے اُکتائے ہوئیکسی دانشور کا قول ہے کہ اگر آپ کو کوئی غم لاحق نہیں ہے تو بکری پال لیں؛ دراصل یہ حضرت اپنے سابقہ تجر بات و مشاہدات کی روشنی میں ہم سب کواُن بے شمارمُشکلات اور اُلجھنوں سے خبردا ر کرناچاہتے ہیں جو ایک عدد بکری پالنے کی حماقت کے ارتکاب کی صورت میں ہمیں پیش آسکتی ہیں؛ یوں تو شرارتیں اور زچ کرنے میں "بکرے میاں "بھی کسی بکری سے کم نہیں ہوتے ہیں ؛ خود ہمارے کئی لاڈلے قربانی کے بکرے زمانہء طالب علمی میں متعدد بار ہمارے محنت سے تیار کیئے گئے کلاس جبکہ والدِ محترم کی جیب سے کرنسی نوٹس پرشکم پروری کرکے ہمیں علم اور والدصاحب کو اپنے خون پسینہ سے کمائی گئی دولت سے محروم کرنے کا کارنامہ انجام چکے ہیں․ مگر بوجہ یہ دانشور صاحب اس سلسلہ میں موصوف کا زکر گول کر گئے ہیں․ عیدِقربان پر بلا شبہ بڑی تعداد میں بکرے زبح یا قربان کیئے جاتے ہیں؛، ہر سال اتنی بڑی تعداد میں بکروں کو اپنی ہمزاد بکریوں کو داغِ مفارقت دیتے دیکھ کر ہمارے دل پر بکروں کی نسل کی بقا کے بارے میں وسوسوں نے کچھ اس طرح سے غلبہ پالیا ہے کہ ہم اس سے ملتے جُلتے وسوسوں پر مبنی چچا غالب# کے ایک شعر کی کچھ اس طرح سے ری مکسنگ کر نے پر مجبور ہو گئے ہیں #۔

(جاری ہے)

۔
یوں ہی گر کٹتے رہے بکرے تو اے اہلِ جہاں
دیکھنا لا کھوں بکریوں کو تُم جو بیوہ ہوگئیں
 عمومی طور پر لوگ قربانی کے جانور کے طور پر بکری پر بکرے کو تر جیح دیتے ہیں؛اس ترجیح کی وہ یہ وجہ بتاتے ہیں کہ بکرے کا گوشت بکری کے گوشت سے کہیں زیادہ لذیز ہوتا ہے مگر ہماری رائے میں اس امتیا زی رویہ کی سب سے بڑی وجہ یہ ہے کہ بڑے سے بڑا ماہر اینیمل گائناکالوجسٹ بھی قربانی کے خواہش مند کسی مسلمان کو سو فیصدیقین کے ساتھ یہ نہیں بتا سکتا کہ جو بکری وہ قر بانی کے لیئے خریدنا چاہ رہا ہے وہ امید سے یا نہیں؛ قربانی کے خواہش مند بہت سے حضرات کوماضی میں اپنے تئیں ماہرِ اینیمل گائنا کالوجسٹ ہونے کے دعویدار لال بجھکڑوں کے مطلوبہ بکری کے اُمید سے نہ ہونے کی یقین دہانی کا خمیا زہ اُسوقت اپنی قربانی کے ضائع ہونے کے تکلیف دہ احساس کی صورت میں بھگتنا پڑا جب ایسی بکری کو زبح کرنے کے بعد، ا ُسکا پیٹ میں سے ایک یا ایک سے زیادہ صاحب زادہ یا صاحب زاد ی ۔

ع،" حسرت ان غُنچوں پہ ہے جو بن کھلے مُرجھا گئے "، کی مجسم تصویر بنے بر آمد ہواہوئی یا ہوئے : مگر پھر بھی ،محدود تعداد میں ہی صحیح، بکریاں بھی عید پر قربان یا دیگر مواقعہ پر زبح ضرور کی جاتی ہیں مگر ہم نے کبھی "قربانی کی بکری "نامی کسی جنس کا نام نہیں سُنا جس پر عورتوں کے نام نہاد استحصال کے خلاف بر سرِ پیکار ٹیڈی مزاج عورتوں کے اِس پراپگنڈہ کو تقویت ملتی ہے کہ ،" دیکھا ہم نہ کہتے تھے کہ ظالم مردوں کے غلبے وا لے اس معاشرے میں بے زبان جانوروں سمیت ہر جنس کی صنفِ نازک کو امتیاز کا نشانہ بنایا جا رہا ہے" مستورات کی طرح ان نمانی بکریوں کی قربانی کو بھی تسلیم نہیں کیا جاتا؛قہر خدا کا!
 عیدِ قر بان" بکرا بکری "عیدکی بجائے صرف "بکر عید ٹہری " کیا قیامت ہے کہ عید پر قربان کیئے جانے والے بکروں اوراُنگلی کٹوا کر شہیدوں میں نام کروانے کے خواہشمند موئے مر دوں کو تو "قربانی کے بکرے " تسلیم کیا جاتا ہے مگراسی تجربہ سے گُزرنے والی بیچاری بکریوں اور مردوں کے استحصال کا شکار بے شمار نمانی عورتوں کواس اعزاز ۔

۔ بالکل اسی طرح یکسر محروم کردیا جاتا ہے جسطرح خونِ خاک نشیناں کو رزقِ خاک کر دیا جاتا ہے! # نہ مُدعی، نہ مقد مہ حساب پاک ہوا یہ خو نِ خاک نشیناں تھا رزقِ خاک ہوا ۔۔۔ ان موئے نروں ، خصوصاً مردوں، کی صنفِ نازک سے روا رکھے جانے والی نا انصافی اورتعصب کی اِس سے بڑی نظیر اور بھلا کیا ہوگی؛ لہذا بلا امتیاز رنگ و نسل وجنس ہر قسم کی قربانی کی بکریوں نے الگ سے اپنا "اے پی ڈی ایم "تشکیل دے کر اصلی تے نسلی بکریوں سمیت ہمہ قسم کی مادیوں اور زنانیوں کے حقوق اور قربانیوں کو ٹکے ٹوکری کرنے کی اس روش کے خلاف اور خوابیدہ مادیوں کو اس خوابِ غفلت سے بیدار کرنے کا نعرہء مستانہ بلند کرتے ہوئے زور دارتحریک چلانے کا تاریخی فیصلہ کرلیا ہے جس میں اجتماعی طور بے حس نروں ، بالخصوص مردوں اور بکروں کے کا کانوں سے اپنی تھوتھنیاں ملاکر فلک شگاف " باں باں" ،ہو ہکار اور ٹاں ٹاں کی جائے گی اور یہ تحریک ظالم نروں کے کانوں کے پردے پھٹنے کے ساتھ ساتھ اور بھی بہت کچھ( سنسر کے ڈر سے انکی تفصیل نہیں دی جارہی۔

۔بس سمجھ جاؤ!)پھٹنے تک جاری رہے گی۔۔۔ مادیو!۔۔۔ #
اٹھو وگرنہ حشر ہوگا نہ پھر کبھی
دوڑو زمانہ چال قیامت کی چل گیا
 اصلی قربانی کے بکروں یعنی عیدِ الاضحی ٰ پر قربان کیئے جانے بکروں کے انتخاب میں بہت احتیاط برتی جاتی ہے؛ وڈی عید پر قربانی کے بکروں کی منڈی میں ایسے لوگوں کو بھی فروخت کے لیئے لائے گئے بکروں پرشرعی قوانین اور تقا ضے اِس باریک بینی سے لاگو کرتے ہوئے دیکھا گیاہے کہ جنہوں نے خوداپنی زات شریف پر شریعت نافذ کرنے کا کبھی سوچا تک نہیں ہوتا․مالِ حرام سے قر بانی کے جانور خریدنے پر تُلے ہوئے یہ آدھے تیتر آدھے بٹیر ٹائپ کے مسلمان بیچارے بکروں و دیگر جانور ہائے قربانی میں وہ عیب بھی ڈھونڈ نکالتے ہیں جو ادنیٰ درجہ کا فرشتہ بھی نہیں نکال سکتا؛ قربانی کے جانور، خصوصاً بکرے، فروخت کرنے والے بھی اس موقعہ پر اپنی مسلمانی کے ہنر دکھانے میں خریداروں سے ماڑا سا بھی پیچھے رہنا اپنی توہین سمجھتے ہیں؛وہ قربانی کے معیار پر پورا اتارنے کے لیئے جانوروں کی کچھ اس فنکاری سے خفیہ قطع برید اور ظاہری نوک پلک درست کرتے ہیں کہ بسا اوقات اعلیٰ سے اعلیٰ چشمِ بینا بھی دھوکہ کھا جاتی ہے․بعض ناعاقبت اندیش بکرا فروش قربانی کے بکروں کو مصنوئی طور پر دوندا ظاہر کر نے لیئے انتہائی بے رحمی سے انکے سامنے کے دودانت توڑ دیتے ہیں․شاطر قصابوں کے بارے میں مشہورہے کہ وہ سادہ لوح گاہکوں کو جھانسہ دینے کیلئے مینڈھوں، چھتروں، کم عمر کے کٹی کٹوں یا دیگر بڑے گوشت والے جانوروں کو زبح کرنے کے بعد نہایت فنکاری سے انکی اپنی دُم مقامِ ِ مخصوصہ سے غائب کر کے اسکی جگہ الفی یا کسی اور چپکنے والی چیز کی مدد سے کسی بکرے کی دم ٹِچ کر کے بڑا گوشت چھوٹے گوشت کی قیمت میں فروخت کرکے مال بنانے میں کامیاب ہوجاتے ہیں ․ان میں سے کچھ تو قربانی کے جانورخریدنے والے مومنین کے ساتھ بھی اس قسم کی واردات کرنے سے نہیں چوکتے : شہر لاہور کے باسی ہمارے ایک دو ست سے بھی ایک مرتبہ اسی قسم کا ہاتھ ہوگیا؛ وہ فرماتے ہیں کہ ایک مرتبہ عید، قربان کے موقعہ پر ہم نے فیصلہ کیا کہ بکرے کی حشر سامانیوں سے بچنے اور آخری روز ( بروز عرفہ ) مارکیٹ کے متوقع فال سے فائدہ اٹھا نے کے لیئے ِاس مرتبہ بکراعید کی رات ہی خریدیں گے: مگر ہائے ری قسمت ، عام سالوں کے برعکس اُس سال بکرے حج والے دن کی شام تک ہی نہ صرف نایاب ہوگئے بلکہ مہنگے بھی ہوگئے ؛ رہی سہی کسر بجلی کی لوڈ شیدنگ نے پوری کر دی؛ جیسے تیسے کرکے رات گئے ہم دو عد بکرے خریدنے میں کامیاب ہو ہی گئے مگر اندھیرے ، مارکیٹ سے نمایاں کم قیمت پر ملنے اور قربانی سے محروم رہ جانے کے خدشہ کے پیش نظر ہم یہ کٹھن کام قربانی کے جانوروں پر لاگو ہونے والے کئی شرعی تقاضوں کو بالکل ایسے ہی غیر فعال سمجھ کر ہی سرانجام دے سکے جسطرح وطنِ عزیز کے بدو بدی دے پرو ہنے حکمران آئین کی ان شقوں کو غیرفعال کرکے اپنا کام چلاتے ہیں جو انکی ڈنگ ٹپاؤ ُ پالیسیوں کی راہ میں رُکاوٹ بن سکتی ہیں․مگر بروز عید قربانی کے لیئے ان بکروں کو زمین پر لٹانے کی تگ و دو کے دوران ہمارے دوست سمیت موقعہ پر موجود حاضرین کی نگاہیں اس وقت پھٹی کی پھٹی رہ گئیں جب اُنہوں نے متواتر جھٹکے لگنے کی وجہ سے انتہائی فنکاری سے کسی لیسدار مادے سے چپکائے گئے اُن جعلی بکروں کے مصنوئی نرانہ ( جیسے مرادنہ ) اعضائے تناصل کو ریت کی دیوارکی طر ح د فعتا زمیں بوس ہوتے دیکھا!اسپر جہاں دوسرے حاضرین نے بیوپاریوں کی فنکاری اور ہمارے دوست کی حماقت پر فلک شگاف قہقہے لگا ئے وہاں ہمارے دوست بھی اپنی جلدبازی اور حماقت پر پشیمانی محسوس کرنے کے ساتھ ساتھ فنکار بیوپاریوں کی فن کی داد دیئے بغیر نہ رہ سکے․ مثل مشہور ہے کہ " لینے کے دینے پڑگئے "ایسی فنکاری اور ڈکے بازی سب کو راس نہیں آتی․ بعض اناڑی بکرا فروش اپنے بکروں کو موٹا دکھانے کے خبط میں انہیں پانی پلا پلا کر اپھارے کا شکار کرکے راہیء ملکِ عدم کر بیٹھتے ہیں یا پھر اُن کے معدے میں پمپ سے کسی مناسب پیمانے یا سائنسی طریقہ کارکو بروئے کار لائے بغیر ہوا بھرنے کا احمقانہ عمل کرتے ہوئے اُ نکے معدے کا ہی پٹاخہ چلوا بیٹھتے ہیں؛ یوں وہ مصنوعی موٹے تازے بکرے کے دام وصول کرتے کرتے اصلی" لسے" بکرے کی رقم سے بھی ہاتھ دھو بیٹھتے ہیں. اسی طرح عیدِ قربان پر جانوروں، بالخصوص بکروں ، کو پالنے والے سارا سال جبکہ عید کے نزدیک آتے ہی اپنے تئیں بعض کچھ زیادہ ہی سیانے بیوپاری ،ایسے جانوروں کی خصوصی آ ؤ بھگت کرتے ہیں تاکہ وہ اس نادر موقعہ سے فائدہ اُٹھا کر اپنے جانوروں کی کئی گناہ قیمت وصول کرسکیں ؛ان میں سے کئی ایک توعید سے قبل معقول معا وضے کہ پیشکش بھی حقارت سے ٹھکرا دیتے ہیں اور کسی طور پر بھی قربانی کے لیئے شرعی طور پر فٹ قرار دیئے جانے والے جانور کو عید سے قبل فروخت کرنے پرراضی نہیں ہوتے؛ اُنکے اس رویہ کو کسی شاعرنے کیا خوب قلمبند کیا ہے:۔

۔۔ ۔۔۔۔۔ #
 دے کے بیما ر سا بکرا وہ مجھے کہتے ہیں
ہے نہیں ا ور اسے کر لو حلا ل اچھا ہے
ہم کو معلوم ہے بڑی عید پہ بیچیں گے ُاسے
وہ الگ باندھ کے رکھا ہے جو مال اچھا ہے
بزریعہ بکرا ہائے قربانی راتوں رات امیر بننے کے خواہش مند ہمارے ایک عزیز نے کچھ سال پہلے ا ُس وقت ایسی حماقت کو دہرانے سے ہمیشہ کے لیئے توبہ کرلی جب اُنہیں کلے پرہی تیس ہزار فی بکرا کی پیشکش ٹھکرانے کا خمیازہ،ملتان اور خانیوا ل کی منڈیوں میں کئی دن تک خاک چھاننے کے بعد، بالآخر عرفہ کی شب گرتی ہوئی منڈی کے روح فرسا  تناظر میں،اُنہیں بکروں کو پندرہ ہزار روپے فی نگ فروخت کر نے پر مجبور ہوکر بُھگتنا پڑا؛ اس حتمی معا شی جھٹکے سے پہلے بھی وہ اِن بکروں کی پرورش کے مراحل میں، بوجہ بیماری یا حادثہ اپنے کئے چہیتے ا ور قیمتی بکروں کی رحلت یا چوٹ لگنے کیوجہ سے اُنکے میڈکلی اور شرعی طور پر قربانی کے لیئے ان فٹ ہونے کے متعدد معاشی جھٹکے برداشت کر چُکے تھے․عیدِ قربان پر خصوصی مال بنانے کی نیت سے قربانی کے جا نوروں پرحد سے زیا دہ سرمایہ کاری بہت بڑے رسک اور جوئے کے مترادف ہے؛یہ بات تو ہم سب کے مشاہدے میں ہے کہ عید گزر جانے پر بکر منڈی قربانی کے جا نوروں کی قیمتوں کو ثریا سے زمیں پر دے مارتی ہے ؛لالچ ، طمع اور ہلمن مذید کی روش پر چلنے والے عید پر بک نہ سکنے وا لے جانوروں کے مایوس مالکان اور بیوپاریوں کی تو عید کے بعد دنیا ہی اندھیرہوجاتی ہی․ نامو شاعر بشیر بدر# نے اپنے اِس شعر میں غالباً ایسے ہی کسی لالچی کو درپیش صورتِ احوال کی طرف اشارہ کیا ہے:۔

۔۔ #
ہمیں معلوم ہے اسکا ٹھکا نہ پھر کہاں ہوگا؟
پرندہ آسماں چھونے میں جب ناکام ہوجائے
 قربانی کے بکر وں کو عید کے نزدیک آتے ہی جس جوش وخروش اور اہتمام کے ساتھ سجا یا جاتا ہے وہ ہمیں اصطلاحی قربانی کے بکروں کی ایک اور قسم کی یاد دلاتا ہے؛ قربانی کے بکروں کی یہ وہی قسم ہے جسے خوشیوں بھری نئی زندگی شروع ہونے کے جھانسہ میں آکر ایک با ر واصلِ قربان گاہ ِ شادی ہونے کے بعد آنے والی زندگی میں بار بار قربانی کی بھینٹ چڑھ کر۔

۔۔ع،" مجھے کیا برا تھا مرنا اگر ایک بار ہوتا"،کی عملی تفسیربن کر زندگی کے دن پُورے کرنے پڑتے ہیں او ر جن میں سے کسی ایک کو اُسکے شفیق اور خیر خواہ والدنے ،اپنے تجربے کی روشنی میں ایسی پُر سُراب ازدواجی زندگی کی نذر ہوکر قربانی کا بکرا بن کے رہ جانے کی ازیت سے بچ جانے کی پیشگی تنبیہ کچھ اس انداز سے کی تھی؛۔۔۔۔۔۔۔
# سیانے باپ نے اپنے کنوارے پتر کو سمجھایا
 جس دن تُو بنے گا " لاڑا" مارا جائے گا
او اور جن میں سے کسی ایک کے انگ انگ سے بروزِ عقد، شادی حال، "صل میں موصوف کی آزادی کی قربان گاہ" ،کی طرف جاتے ہوئے مسرت کے لڈو مگر اُسکی آنے والی ازدواجی زندگی میں، رفتہ رفتہ ،انہیں لڈوؤں کو کوڑھ تمبے کی شکل اختیار کرتے ہوئے دیکھ کر جناب پروفیسر عنایت علی خان مرحوم نے بجا طور پراُسے اُسکے مستقبل کی حالتِ زار کو منعکس کرنے والا آئینہ کچھ اس طرح سے دکھا یاتھا ۔

۔۔ #
پہن کر ہاروہ پھولا تھا کیسا
وہی پھانسی کا پھندا ہوگیا نا!
اس قربانی کے بکرے کی نظر اگرخالد مسعود # خان صاحب کے اس شعر پرپڑ جاتی تو شاید وہ شادی کے جال میں پھنسنے کی حماقت کے ارتکاب سے بچ جاتا ۔۔۔۔ #
 شادی والی رات وہ لڑکی آخری بار تھی روئی
بعد میں لڑکا کل حیاتی کوکیں مار کے رویا
چند برس پہلے کا زکر ہے، حسین دلھن کی قربت کے قریب آتے لمحوں کی خوشگوارسوچوں میں گم ایک دولھے کی بارات جب ٹریفک سگنلز کے عدم تعاون کی وجہ سے ایک شہر کے
 مصروف چوک پر رُکی، تودُولھا میاں کی گاڑی کے ساتھ ر ُکی ایک اور گاڑی کے پائیلٹ گیٹ کے شیشے سے ہاتھ باہر نکال کر ایک اُدھیڑ عمر کے اجنبی نے دولھا میاں کو 1000 روپیہ کا ایک عدد کڑ کڑاتا نوٹ بطور سلامی پیش کرتے ہوئے راز دارانہ انداز میں مستقبل کے اس ممکنہ قربانی کے بکرے کو مت دیتے ہوئے کہا ! نس جا پُتر!ہُن و ی ویلااے، دُلھا۔

۔ میرا مطلب ہے" قربانی کا بکرا" بننے کی حماقت کے ارتکاب سے بچ جا!۔پھس جائینگا" ۔۔,پھر زرا توقف کے بعد، گاڑی کی پچھلی سیٹ پر براجمان اپنی بیگم صاحبہ کی طرف معنی خیزانداز میں اشارہ کرتے ہوئے کہا , " مُنڈیا! میری حالتِ زار سے ہی کُچھ سبق حاصل کرویکھ!۔۔میں کس بری طرح سے تمہاری ِاس آنٹی کے چنگل میں پھنس کر قربانی کے بکرے کی طرح باں باں کر نے پر مجبور ہوچُکا ہوں ․ " مابعد اُنکی سڑیل مزاج بیگم صاحبہ کی طرف سے ہونے والا جوابی حملہ، آخری خبریں آنے تک، سبز بتی جلنے پراُ س اُس اُدھیڑ عُمرجوڑے کی گاڑی کے اُس چوک سے روانگی کے بعد بھی زور و شور سے جاری تھا․
اللہ تعا لیٰ سب مسلما نوں کو اسلامی تعلیمات کے عین مطابق محض اللہ تعا لیٰ کی خوشنودی، نہ کہ دنیاوی جاہ وجلال کی، خاطر جانور قربان کرکے سنتِ ابراھیمی  ادا کرنے کی توفیق عطا فرمائے جبکہ سب حلال جانورروں کو قربانی کا بکرا یا بکری، کٹا یا کٹی کائے یا بیل وغیرہ بننے کی سعادت عظمیٰ سے سرفراز فرمائے؛ ان جانوروں کی جانی جبکہ مسلمانوں کی مالی قربانی کو اپنی بارگاہ میں قبول و منظور فرمائے مگر بلا امتیازِ رنگ ونسل بھولے بھالے انسانوں کو اپنے ہی ہم جنس شاطر انسانوں کے مفادات کی بھینٹ چڑھ کر اصطلاحی معنوں میں" قربانی کا بکرا "بننے کے کی ازیت جھینلے سے بچائے ؛ نیز ایسے شاطر انسانوں کواپنے سادہ لوح بھائیوں کو اپنی چکنی چپڑی باتوں کی کڑکی میں پھنسا کر "قربانی کا بکرا" بنانے کی عادتِ قبیحہ اپنانے سے بازرہنے کی توفیق عطا فرمائے ؛جبکہ شادی کی صورت میں نئی زندگی شروع کرنے کا رسک لینے والے تمام" کاکے ،مُنڈوں" کو بھی ازدواجی زندگی میں اپنی اپنی بیگمات کے مطالبات کی کھنڈی چھری تلے آکر قربانی کا بکرا کہلوانے اور یوں دوسروں کے لئے درسِ عبرت بن کے رہ جانے کے المیہ سے اپنے حفظ و امان میں رکھے۔

آمین

ادارہ اردوپوائنٹ کا کالم نگار کی رائے سے متفق ہونا ضروری نہیں ہے۔

تازہ ترین کالمز :