ووٹراور اُمیدوار

بدھ 7 اکتوبر 2020

Syed Tansir Hussain

سید تنصیر حسین

ووٹر اور امیدوارایسے ہی لازم وملزوم ہیں جیسے پھول اور کانٹا؛ اس امر کا نحصار حالات پر ہوتا ہے کہ ان دونوں میں سے کون پھول ہے اور کون کانٹا؛عام دنوں میں ماضی کے کسی بھی الیکشن کا اُمیدواراور وقت کا نام نہاد عوامی نمائندہ خود کو پھول ، بلکہ "پُھل گلاب " سمجھتا ہے جبکہ گوناں گوں مسائل کے ہاتھوں پریشان، وقت بے وقت اس کے درِدولت پر دستک دینے کی حماقت کرنے والے ووٹر کو وہ کانٹا سمجھتا ہے بلکہ یوں کہنا چاہیئے کہ اقتدار کے سہانے زمانہ میں اسے اُ سے اُسکے انتخابی وعدے یاد دلانے والااور اُسکے آرام میں خلل ڈالنے والاگستاخ ووٹراُسکی آنکھ میں کا نٹے کی طرح کھٹکتا ہے؛مگر جیسے ہی انتخابات کا بگل بجتا ہے،اور یہ عوامی نمائندہ ایک مرتبہ پھر امیدوارکا رُوپ دھارنے پر مجبور ہوجاتا ہے،تو اسکی طوطا چشمِ تصور بھی "یو ٹرن"لے لیتی ہے اور اقتدار کے دنوں میں شاطر امیدوار کی آنکھ کا نٹا، اُسی ووٹرکا مکروہ چہرہ اسُے " مکھڑا پُھل گلاب دا " دکھائی دینے لگتا ہے۔

(جاری ہے)

ہر کایاں امیدواراپنی لچھے دار تقریروں میں بار ہا اور برملا اس خواہش کا اظہار کرتا ہے کہ براہِ کرم اہلِ قلم ووٹر اور امیدوار کے جوڑ کو ، پھول اور کانٹے، جیسی منفی مشا بہت نہ دیا کریں بلکہ اسے" چن تے چکور"جیسے پر خلوص اور رومانی تعلق کی وساطت سے یاد فرما یا کریں جس میں "چن"کی حیثیت الیکشن کے زمانہ میں بلا شبہ ووٹر کو حاصل ہوجاتی ہے کیونکہ ہمارا ،یعنی نمانے امیدواران،کا وجود اس زمانہ میں ووٹر کے بغیر بلکل اسی طرح بے معنی ہو کر رہ جاتا ہے جس طرح چن کے بغیر چکور کا وجودبے وقعت ہوجاتا ہے؛ مگر جیسے ہی الیکشن کا مرحلہ تمام ہوتا ہے،جیتنے والے امیدواروں کا توزکر ہی کیا، ہارنے والے ا میدوار بھی اس چند روزہ چن کو کالا توا سمجھ کر اُس پر تھوکنا شروع کر دیتے ہیں۔

الیکشن کے دنوں میں اخلاقیات کے عارضی دورہ کے زیرِ اثر، اُن لوگوں کو بھی کسی شناسا کی طرح گُھٹ گُھٹ کر جپھی ڈالنے والا اور خدا نخواستہ اُن لا چاروں میں سے کسی کے کے ہاں مرگ ہو جانے کی صُورت میں فوراً اُسکی ستھر پر پہنچ جانے ولا امیدوار،کہ جنہیں وہ زہنی طور پر کمی کمین اور حقیر سمجھتا ہے اور روزمرہ زندگی میں انکا سامنا ہونے پر انکے جسموں سے اُمنڈتی جراثیم کی تصوراتی یلغار سے بچنے کے لیئے رومال ناک پر رکھ لیتا ہے ، الیکشن کا زمانہ گزرتے ہی پھر سے بے چارے ووٹرز کوپہچاننے سے انکار کر دیتاہے اوران سے ایسا برتاؤ کرنے لگتا ہے کہ۔

۔۔ جیسے جانتے نہیں، پہچانتے نہیں؛ اپنے اس قطعہ میں کسی شاعر نے ان طوطا چشم امیدواران اور نام نہاد راہنماؤں کے اس ابن الوقتی رویہ کی کیا خوب نقشہ کشی کی ہے
الیکشن میں یہ کینڈیڈیٹ نے ووٹر سے فرمایا
اگر تُم ووٹ دو تو یار پھر کہلائیں ہم دونوں
مگر جب ووٹ اُسکا لے لیا تو یہ کہا اُ س سے
چلو اک بار پھر سے اجنبی ہو جائیں ہم دونوں
الیکشن کے بعد، اپنے ووٹ کا پُھل گُلاب اُسکی چکنی چپڑی باتوں سے متاثر ہوکر اپنے محبوب اُمیدوارکے ہاتھ میں دے کر اُسے مسندِ اقتدار تک پہنچانے والا سادہ لوح ووٹر جب اسکے درِ دولت سے دھتکارے جانے اور عبرت کا نشان بنا دیئے جانے کی دھمکیاں سُن کر چھپتا چھپاتا گھر واپس آتا ہے تو اپنے اہلِ خانہ کو اپنا نوحہ کچھ اس طرح سے سُناتاہے؛ ۔

۔۔۔ # میں جسکے ہاتھ میں دے کر گُلاب آیا تھا اب اسُکے ہاتھ کا پتھر میری تلاش میں ہے : ۔۔۔اگر یہ بے بس ووٹر اپنی فریاد کوزیادہ حسبِ حال بنانے کے لیئے اس شعر کی کچھ اس طرح سے ری ماڈلنگ کرلیتا تو یہ کہیں زیادہ بر محل ہوجاتا؛۔۔۔ # وہ جس کے ہاتھ میں بیلٹ میں دے کے آیا تھا اب اُسکے چائس کا ایس۔ایچ ۔او۔ میری تلاش میں ہے جبکہ خوفناک آوازیں نکالتے ہوئے، جنابِ عوامی نمائندہ صاحب کے ہر قسم کے پالتوکُتے خوف زدہ ووٹر کاپیچھا کرتے ہوئے اسے یہ باور کراتے جاتے ہیں:۔

۔۔
بچ کے جاؤ گے کس جگہ ووٹر کس جگہ ہمارا ڈر نہیں ہوتا۔۔۔۔شہروں اور مقابلتاً شعور رکھنے والے علاقوں کا ووٹراس عبرت نا ک حشرسے پالا عمومی طور پرالیکشن کے بعد پڑتا ہے مگر پسماندہ علاقوں اور "نام نہاد نو گو ایریاز رکھنے والے شہروں "کے ووٹرز کوتو یہ والے سہانے اور اپنی ناز برداری والے لمحات بھی میسر نہیں ؛انہیں تو ہر حال میں بلکل اسی طرح کسی ظالم وڈیرے،جاگیردار یا شہر کے کسی بھتہ خورکو اپنے ووٹ کا صحیح حقدار تسلیم کرتے ہوئے اسے اپنا مسیحا قرار ثابت کرنا پڑتا ہے جس طرح جناب ساغر صدیقی # کوزخم لگانے والوں کو غم خوار سمجھنا پڑا تھا:۔

۔۔
یہاں زخم لگانے والوں کو غم خوار سمجھنا پڑتا ہے
کچھ اونچی نیچی راہوں کو ہموار سمجھنا پڑتاہے
انکے لیئے الیکشن سے پہلے اور الیکشن کے بعد کے زمانے میں کوئی خاص فرق نہیں ہوتا؛ جمہوری ہوں یا آمرانہ ،آتی جاتی حکومتیں انکی کانٹوں بھری زندگی میں کوئی مثبت تبدیلی نہیں
 لاتیں اور وہ زبانِ حال سے اپنی بپتا کچھ اس اندازِسے سناتے ہوئے محسوس ہوتے ہیں:
کیا قیامت ہے کہ خاطر# کُشتہء شب بھی تھے ہم
صبح بھی آئی تو مجرم ہم ہی گردانے گئے
اسے پسماندہ اور غلامانہ زہنیت رکھنے والے ووٹرز کا الیکشنز اور حکومت سازی کے بارے میں رویہ اُ س بیل کا سا ہوتا ہے جسے کوئی چور چوری کر کے لے جارہا تھا؛ اتفاق سے راستہ میں انکا سامنا ایک ایسے شخص سے ہوا جو بیل اور اسکے اصل مالک کو پہچانتا تھا؛اس شخص نے بیل کو مخاطب کرتے ہوئے کہا ، "میاں بیل ! یہ شخص تمھیں چوری کر کے لے جارہا ہے؛ اسکے چُنگل سے بھاگ نکلنے کی کوئی سبیل کرو۱ "بیل نے لاپرواہی سے قدم آگے بڑھا تے ہوئے کہا ، "میری بلا سے! مجھے تو ہل ہی چلانا ہیں : چور کے پاس بھی اور ساد کے پاس بھی !"ڈنگر نما ان ووٹرز کو اگر کوئی انکا خیر خواہ اپنی اور اپنے وطن کی تقدیر بدلنے کے لیئے ووٹ کا استعمال سوچ سمجھ کر نے کا مشورہ دے بیٹھے تو اسے اِس مسروقہ بیل کے جواب سے ملتا جلتا جواب ہی ملتا ہے؛اب بے زبان بیلوں کی سی زہنیت رکھنے والے ایسے شوہدے ووٹرز کو کون سمجھائے کہ بھولے بادشا ہ او! اس غلط فہمی میں نہ مارے جانا! ہل بھی طرح طرح کے ہوتے ہیں؛اگر موذی چور کی سی سوچ رکھنے والے کسی عوامی نمائندے نے انکے اسی استدلال کا فائدہ اٹھاتے ہوئے ا ُ نہیں مہنگائی ، بد امنی ، اور انانصافی کے چیزل ہل یا سب سائیلر، کہ جنہیں کھنچتے ہوئے درمیانی طاقت کے ٹریکٹر بھی اکثرجواب دے جاتے ہیں "کے آگے جوت دیااور اُسے نہ کھینچ سکنے پر اُنکی تواضع نوک دار کیل والے چکوں کے پے در پے وار ں سے کر ڈالی تو اُنکا کیسا حشر نشر ہو گا؛ محنت کی کمائی سے مال بنانے والا اور بیل جیسے کار آمدجانورر خریدنے والا حقیقی مالک ہی ان کی قدر جانتا ہے؛ یقین نہیں آتا تو کسی کو اپنی گاڑی،۔

موٹر سائیکل یا روز مرہ استعمال کی کوئی اور شے ونگار پر دے کردیکھ لو؛ گھڑے کی مچھلی کی طرح آسانی سے ھاتھ لگنے والے مال اور اپنی انا کو ایک طرف رکھتے ہوئے ووٹر کے ناز نخرے اٹھائے بغیر ملنے والے ووٹ کی کوئی بھی قدر نہیں کرتا :تجربہ بتا تاہے کہ اکثر زور آور لوگ آسانی سے کسی کمزو رکی اہمیت ، خدما ت ا ور خُوبیوں کا اعترف کرنا اپنی کسرِ شان سمجھتے ہیں ؛ لاچار اور کمزور لوگوں کا ستحصال کر کے ان سے مشقت لینے اور انہیں اُلو بنا نے کو اپنا پیدائشی حق سمجھنے والے ان جابر لوگوں سے اپنی اہمیت منوانے ا کا ہنرجانناہرووٹر کے لیئے امیدواران کے اوچھے ہتھکنڈوں سے محفوظ رہنے کے لیئے ناگزیرہے: بقول حفیظ#:
حفیظ# اہلِ زبان کب مانتے تھے
بڑے زوروں سے منوایا گیا ہوں
لہذا ایسے ووٹرز، کہ جنہیں تصویر بنا آتی ہے ،الیکشن کے دنوں میں ایسے طوطا چشم امیدواروں کی دورانِ عرصہء اقتدار اُن سے روارکھی جانے والی بے رُخی کا بدلہ لینے ا اور انکی اکڑی گرد ن کو جھکنے پر مجبور کرنے کے لیئے، ویسے ہی اپنے مطالبات کے پہاڑ پر چڑھ کر امیدواروں کے لیئے نا قابلِ رسائی بن جاتے ہیں کہ جیسے بعد ازاں عوام کے منتخب نمائندے ہونے کے دعویدار یہی سابق امیدواران اقتدار کے سنگھا سن پر چڑھ کر عوام کیلئے خود تک رسائی کو جوئے شیر لانے کے مترادف بنا ڈالتے ہیں۔

"جیسے کو تیسا"کے محا ورے کو عملی جامہ پہناتے ہوئے یہ ووٹرزبھی امیدواران کی طرف سے خالی خولی وعدوں کی اصلیت کو بھانپتے ہوئے ہر امیدوار کو اپنا ووٹ دینے کا لارا کچھ اس ا نداز سے لگاتے ہیں کہ انتخابی اکھاڑے میں موجود ہر اُمیدوار اپنے آپ کو یقینی فاتح سمجھتے ہوئے الیکشن سے پہلے ہی اپنے سپورٹرز کو مبارک بادیں دینااور لینا شُروع کر دیتا ہے اور اُسے دن کو بھی جیت کے سہانے خواب دکھائی دینے لگتے ہیں " جیتے گا بھئی جیتے گا ، کوئی نہ کوئی نہ کوئی تو جیتے گا "کا نعرہء چالاکا نہ لگاتے ہوئے ایسے شاطر ووٹر ہر امیدوار کے کیمپ سے پرچی بنوالیتے ہیں جسکی وجہ سے ہر امیدوار اُنہیں اپنے کھاتے میں شمار کر کے کچھ اس تیقن سے اپنی جیت کو اٹل سمجھنے لگتا ہے کہ انتخاب کی شام نتائج آنے سے پہلے تک وہ ہر اس شخص کا منہ نوچنے پر تل جاتاہے جو اسکے کیمپ سے پرچی حاصل کرنے والے کسی ایسے ووٹر کے ووٹ کے بارے میں اُسے شبہ میں ڈالنے کی جسارت کرتا ہے مگر انتخابی دنگل میں بری طرح چِت ہوجانے کے بعد جب اُسکی آنکھیں کھلتی ہیں تو اُسکے پاس انتخابی بازی میں ایسے ووٹرز کے کمالِ فن کوکچھ اس طرح سے خراجِ تحسین پیش کرنے کے علاوہ اور کوئی چارہ کار نہیں رہتا؛
ووٹر اس کمال سے کھیلا تھا الیکشن کی بازی
میں اپنی فتح سمجھتا تھا مات ہونے تک
1985 کے غیر جماعتی الیکشن میں خانیوال سے صو بائی اسمبلی کے ایک ایسے امیدوار کو کہ جسکی اُس الیکشن میں ضمانت بھی ضبط ہوگئی تھی کواِس قُماش کے مکار ، مُنافق اور بے رحم ووٹرز نے اپنا ووٹ دینے کی کچھ ایسی پتھر پر لکیر ٹائپ کی پُھوک اتنی وافر مقدار میں دی جسکے نتیجے میں پیدا ہونے والی خُوش فہمی کا شکار ہوکر وہ بیچارا جاگتے میں بھی نہ صرف ایم۔

پی ۔ اے بلکہ وزیرِ اعلیٰ پنجاب بننے کے خواب دیکھنے لگا؛
 نوبت یہاں تک پہنچی کہ موصوف نے الیکشن سے پہلے ہی ایک دن اپنے سرگرم سپورٹرز کو ایک پُرتکلف ضیافت پر بُلا کر انہیں گُزشتہ رات دیکھا جانے والا اپنا وہ شیریں خواب خُوب لہک لہک کر سُنایا جس میں و ہ خو کود زیرِ اعلیٰ پنجاب کا حلف اُٹھانے کے بعد اپنی کابینہ کا اعلان کرتے ہوئے دیکھتا ہے؛ پھر اپنے متعدد سپورٹرز کی طرف انگشتِ شہادت سے اشارہ کرتے ہُوئے اُنہیں یہ نویدِ جانفزا سُناتا ہے کہ آپ بھی مجھے حلف اُٹھانے والی اپنی کابینہ میں نظر آرہے تھے لہذا آپ سب وزارت کی پیشگی مبارک باد قبول فرمائیں؟ اسپر کٹھ میں موجود اُسکے کُچھ مکار اور منافق سپورٹرز نے ایک دوسرے کے ساتھ کچھ اس قسم کی کانا پُھوسی شُروع کردی ؛۔

۔ بلی کو چھچڑوں کے خواب! ۔ # جیسے گھر ریت پہ تعمیر نہیں ہو سکتے۔ خواب تو خواب ہیں تعبیر نہیں ہوسکتے۔۔ صد حیف! انتخابی نتائج سامنے آنے کے بعد ا اس قسم کے دیگر احمق امیدواروں کی طرح موصوف کوبھی دن میں خواب کی بجائے تارے دکھائی دینے لگے اور ا ُسکے یہی سہانے خواب بد ترین شکست کے ڈرؤنے خواب میں بدل کر رہ گئے ۔ علامہ اقبال #نے سچ ہی کہا ہے
جو شاکِ نازک پہ آشیانہ بنے گا ناپائیدار ہوگا
بلکل امیدواروں کے دورِ الیکشن میں کیئے گئے وعدوں کی طرح اور انکی طرف سے اپنی لچھے دار تقریروں میں ظاہر کئے گئے عوام کی تقدیر بدلنے کے ارادوں کی طرح جن میں بقول خالد مسعود# دراصل اُنکے ُانکی اپنی تقدیربدلنے کے ارادے ملفوف ہوتے ہیں ۔

۔ ۔ # ساڈے جو ارادے تھے۔۔، کڈے سدھے سادھے تھے؟۔۔ہم نے سوچ رکھاتھا۔۔ ،بن کے ایک دن ممبر۔۔ اکو کا م کرنا ہے!۔۔2,1، پلازوں کو۔۔4 ، ,6 پلاٹوں کو۔۔، 30,25مربعوں کواپنے نام کرنا ہے!۔۔۔ اللہ پاک قوم کو مخلص امیدوار اور عوامی نمائندے جبکہ امیدواران اور عوا می نمائندو ں کو قومی ،اجتماعی اورتعمیری سوچ رکھنے والے ووٹر نصیب فرمائے؛ آمین!

ادارہ اردوپوائنٹ کا کالم نگار کی رائے سے متفق ہونا ضروری نہیں ہے۔

تازہ ترین کالمز :