تبدیلی۔۔۔!

بدھ 15 اپریل 2020

Syed Tansir Hussain

سید تنصیر حسین

ہمیشہ سے بدلتے زمانوں میں اگر کسی شے کو ثبات میسر رہا ہے تو وہ بقول شاعر خود" تغیر" المعروف تبدیلی کو رہا ہے ۔۔۔۔۔۔۔ ۔۔۔۔ ۔۔۔۔
 سکوں محال ہے قدرت کے کارخانے میں ہے ثبات ایک " تغیر " کو ہے زمانے میں
 حضرتِ انساں کا المیہ رہاہے کہ وہ زمان و مکان، حالات و واقعات ۔حتیٰ کہ تعلقات تک میں یکسا نیت سے بہت جلد اُکتا جاتا ہے اور نت نئی تبدیلیوں کے لئے اُسکا دل ،دلِ بیتاب بن کر اِ س نمانے کو کہیں اور کبھی ٹکنے ہی نہیں دیتا․ضروری یا غیر ضروری "تبدیلی" کے لئے اُسکی یہ حد سے بڑھی ہوئی ٹھرک بعض اوقات اپنئے تئیں اشرف المخلوقات سمجھنے والی مخلوق سے ، 'بھیڑ کے بدلے بھیڑ وٹانے' کے سے گُناہِ بے لذت کے ہم پلہ کارِ بیکار تک کا ارتکاب تک کرادیتی ہے ․ مگر اس امر سے یکسر انکار کوبھی دانشمندی نہیں سمجھا جاسکتا کہ صحیح وقت اور موقعہ پر دھیرے دھیرے برپا ہونے والی ے تبدیلی زندگی کی علامت ہے۔

(جاری ہے)

۔ ع۔۔ جس میں نہ ہو انقلاب موت ہے وہ زندگی۔۔۔۔۔۔
دُنیا کی بیشتر رنگینیاں اور دلچسپیاں تبدیلی ہی کی مرہونِ منت ہیں․زاویہ ، ترتیب اور ترکیب بدلنے سے کائنات کی ہر بات تازہ افکار سے بھر پور نئی نویلیء بات لگنے لگتی ہے۔جو کہ اکثر پلک جپھکتے میں ہی نئی نویلی دُلھن کیطرح سب کی منظورِنظر ہونے کا اعزاز حاصل کر لیتی ہے بقول سیف الدین سیف#۔

۔۔ ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
 ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ # سیف# اندازِ بیان بات بدل دیتا ہے ورنہ دُنیا کی کوئی بات نئی بات نہیں۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
 زندگی کی گاڑی کو کا میابی کی شاہرا ہ پر گامزن رکھنے کے لئے مشعلِ راہ کے طور ر میاں بیوی کو" گاڑی کے دو پہیئے " سے مماثلت دی جاتی ہے؛ جیسے گاڑی کے کسی پہئے میں بگاڑ ہوجانے سے سار ی کی ساری گاڑی ہی بیکار ہو کر رہ جاتی ہے اسی طرح میاں بیوی میں ہم آہنگی نہ ہو تو گھر کی گاڑی کا گیر بھی بُری طرح سے اڑ کر رہ جاتا ہے ؛ ایسے چبارے ،میں سُکھ کی بجائے دُکھ پڑاؤ ڈال لیتے ہیں مگر اسے حالات کی ستم ظر یفی نہ کہیں تو اور کیا کہیں کہ نت نئی تبدیلی کے لئے حضرتِ ا انسانکی بے لُگام جستجو کا تند وتیز جھکڑ مرد زن کے اِس نا زک رشتے کو بھی اپنی لپیٹ میں لے چُکا ہے بلکہ بیشتر جوڑوں میں تو طرفین میں باہم بیزاری کی اصلی تے وچلی وجہ ہی یہ ہوتی ہے کہ ہمارے سماج میں گھریلو زندگی میں بُھونچال لائے بغیر ازدواجی بانڈز میں ساتھی بدلنے کی گُنجا ئش بہت محدود بلکہ برائے نام ہی ہوا کر تی ہے جبکہ تبدیلی کی تمناء ہے کہ دلوں میں ہر وقت کھلبلی مچائے رکھتی ہے یہی وجہ ہے کہ تبدیلی کی جستجوکے سونامی میں گھر ے ہوئے مرد کی نظر میں ( اُنکی چرب زبانی کے بل بوتے پر) شادی سے پہلے کے زمانے کی حُسینہ عالم کا سامقام و مرتبہ رکھنے والی لڑکی بیوی بننے کے کچھ ہی عرصہ بعد ہی واجبی خدو خال و رنگ وروپ رکھنے والی عام سی عورت بن کے رہ جاتی ہے ؛ بالفاظِ انکل سرگم ،مرد کی بصری تبدیلی کی زد میں آکر دیوانگی کے دنوں کی" حسینہ عالم" فرزانگی کے دنوں میں "حُسین ۔

نا" کے ناگوار مقام کے لائق گردانی جاتی ہے ۔ تبدیلی کی منہ زورخواہش کے آگے سر نگوں ہوتے ہوئے بہت سے ہر جائی مرد تو شریعت کا"اولا "لے کر لُک کر یا سرِ عام بیک وقت کئی شادیاں رچا لیتے ہیں جس کی منظقی سزا کے طور پر اُن میں سے بیشتر جلد ہی سو کنوں کے رقابتی ساکر میچ کا فُٹ بال بنے یہ فر یادکرتے نظر آ تے ہیں ۔۔۔۔۔ # میں سنگِ راہ تو نہیں ہوں مگر تعجب ہے ۔

۔۔۔۔۔ کہ آتے جاتے سبھی ٹھو کریں لگائیں مجھے: جو نمانے بوجہ ایسا نہیں کر پاتے وہ من ہی من میں ، تبدیلی کی علامت اپنی نئی نکور خیالی بیوی کے لئے " میرے سپنوں کی رانی کب آئے گی تُو!" جبکہ پہلے سے موجود گھسی پٹی بیوی کے لئے ،" کیسی شکل ڈراوء نی کب جائے گی تُو " کا راگ الاپ کر دِل پشوری کر تے رہتے ہیں ؛ اگر اور کچھ نئی سوجھتا تو حقیقی ازدواجی تبدیلی کے لئے تڑپتے دلوں کی ترجمان جناب زاہد فخری# کی مشہورِ زمانہ نظم ،" شوہر کا شکوہ" کا یہ بند حسبِ موقع ہولے ہولے اپنی زوجہ محترمہ کے گوش گُزار کرتے ہوئے مُلتجی نگاہوں کے
 ساتھ اِس چٹخارے دار " تبدیلی" کے لئے اُسکے ترلے لینے پر اُتر آتے ہیں․۔

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
 # اپنی مرضی آئیے جائیے
 مُنڈیاں ورگے کپڑے پائیے
 راٹاں نُوں شبرات بنائیے
 کُج دن اسی وی عید منائیے
 بدلے زرا ہوا نی بیگم 
 کدے تے پیکے جانی بیگم ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
 بعض نمانے مرد وچارے د تو ،سید سلمان گیلانی کے پیش کردہ ماڈل کے مطابق تو محض تبدیلی برائے تبدیلی کی کھر ک کے ہاتھوں مجبور ہوکر ہی دوسری شادی کی خاطر پروردگارِ عال سے دن رات گڑ گڑا کر دعائیں کرتے اور آہیں بھرتے رہتے ہیں مگر اُنکے چمن میں یہ دیودہ ور پیدا ہوکے ہی نہیں دیتا۔

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
 ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ # اک اور شادی کا مجھ کو بھی شوق ہے یارب نہ شہزادی کوئی دے فقیرنی دے دے ۔۔۔۔۔۔۔ ۔۔جب کہ پاکستانی حکمرانوں
 اور سیاستدانوں کا سے شا طر دماغ رکھنے اور ایک تیر سے دو شکارکرنے کی ہمہ وقت کوشش کرتے رہنے والے کچھ اصلی تی" وڈے سیانی " دوسری شادی کی صورت میں اپنی
 ازدواجی زندگی میں کچھ اس قسم کی خوش گواراور غر بت توڑر تبدیلی کے لئے اللہ تبارک تعلیٰ کے حضور د ُ عا گو رہتے ہیں؛ ۔

۔۔۔۔ ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
 ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ # جو ایک دم سے مُجھے ایک' دم 'سے مجھے ایک ' دم' بنادے وزیر تو میرے عقد میں اک ایسی پیرنی دے دے۔۔۔۔۔۔ ۔۔۔۔
 اب اللہ ہی جانے کہ لائف پارٹنر کی کسی ایسی ہی تبدیلی کے لئِے ازدواجی گاڑی کے ٹائرِثانی یعنی بیویوں کے دل کی ای․سی․جی․ رپورٹ کیا کہتی ہے ممکن ہے ۔۔ع۔۔۔۔۔۔
 " دونوں طرف ہو آگ برابر لگی ہوئی"۔

۔ مگر وہ بیچاریاں اپنی صنفی مجبوریوں کی وجہ سے یہ کہتے ہوئے دل میں طوفاں چُھپائے بیٹھی رہتی ہوں ِ ۔" اوئی اللہ!۔۔ ہم تو کُچھ کہ
 بھی نہیں سکتے!" مگر باوثوق ذرائع سے اُنکے بارے میں بھی کچھ اس قسم کی خبریں آرتی رہتی ہیں:۔۔۔۔۔۔۔۔۔
 نہ وہ گورے پے مرتی ہیں ہیں نہ وہ کالے پہ مرتی ہیں 
وہ جو بنگلے میں رہتا ہے ، اُسی' سالے' پہ مرتی ہیں
 ہمارا دیکھنا کیسا ! ، تمہار ا دیکھنا کیسا !
 کہ وہ تو کا ر میں سے دیکھنے والے پہ مرتی ہیں۔

۔۔۔
 سیاسی اکھاڑے میں بھی تبدیلی کے لئے " طرزِ کُہن " اور آئینِ نو" کیدرمیان نورا کُشتی سدا جاری و ساری رہتی ہے․ تاریخ بھی اسکی شاہد ہے․ جب انارکلی کے عشق میں گرفتار شہزادہ سلیم ولد" مغلِ اعظم" اکبر بادشاہ نے اپنے والد کی تبدیلی کی خواہش ساتھ" شُغلِ اعظم "کرتے ہوئے پرلے درجے کے مریضِ محبت ہونے کے دعویدار ہونے کی بنا پر جب انتہائی ڈحٹائی اور بے شرمی سے ابا جی کے رو بر اپنے 'مُغلیہ بھیجے' کے 'عا شقانہ سوفٹ وئیر' میں کسی قسم کی تبدیلی کو خارج از امکان قرار دیا تو شہنشاہ نے لرزتی ہوئی آواز میں با آواز بلند' نعرہء تبدیلی 'لگاتے ہوئے عاشقِ نامراد شہزادے اور خود سر بر خُودار کو کو باور کرایا کہ،" مگر تُجھے بدلنا ہوگا ۔

۔ سلیم ! ۔۔ تُجھے بدلنا ہوگا۔۔" حالانکہ اگر وہ اسرویت شکن بدیلی کی طرف خود پہلا قدم اُٹھاتے ہوئے مغل حکمرانوں کی عاشقی معشوقی کی کی دیرینہ روایت کو بدل کر رکھدینے کی زحمت گوارا کرلیتے اور متعدد حسیناؤں کی زُلفوں کے اسیر ہونے سے خود کوبچا لیتے تو شاید۔۔۔ اُنہیں یہ دن نہ دیکھنا پڑتا․ ہمارے بے وردی اور باوردی حکمران بھی ہمیشہ سے ہی " تبدیلی" کا ڈھنڈورا پیٹتے ہوئے آتے ہیں اور اُس وقت تک یہ ڈھنڈورا پیٹتے ہوئے ہی رہتے ہیں جب تک بے رحم وقت کی ستم ظریفی کے ہاتھوں پِٹ کر وہ خود تبدیلی کا شکار نہیں ہوجاتے یعنی حکمران سے عوام نہیں بن جاتے․ تبدیلی کے نام پر اپنے بینک بیلنس میں نمایاں مثبت تبدیلی لانے کے لئے ہمہ وقت کمر بستہ وطنِ عزیز کے قیام سے پہلے عشرے کے راہنماؤں نے نہایت بھونڈے انداز سے تبدیلی کے جھکڑ کو کُچھ اِس زور سے چلایا کہ بیچارے نوزائیدہ اسلامی جمہوریہ پاکستان کی سیاسی اکھاڑے کو تبدیلی کے بے ہنگم سیلاب میں ڈُبکیاں کھاتے" سائربین" میں تبدیل کرکے رکھ دیا اور حکومتیں کی اُکھاڑ پچھاڑ کُچھ اس برق رفتاری سے ہوئی کہ روزِ اول سے پاکستان کو ایک ناکام ریاست کے طور پر دیکھنے کے آرزومند ہندوستان کے اُس وقت کے وزیرِ اعظم " نہرو" کو وطنِ عزیز پر یہ طنز کے زہر سے لبریز یہ دل شکن پھبتی کسنے کا موقع مل گیا کہ،" اتنی تو میں ایک دن میں دھوتیاں تبدیل نہیں کر پاتا جتنی کہ پاکستان میں حکومتیں تبدیل ہوتی ہیں" جسے سُن کرپر بے بس مُحبِ وطن پاکستانی اپنے نام نہاد راہنماؤں اور لیڈران کی طرف معنی خیز نظروں سے یہ کہتے ہوئے خون کے گھونٹ پی کر رہ گئے:۔

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
 کو ئی کافر میری تذلیل نہ کرسکتا تھا
 مرحمت کی ہے یہ سوغات مسلمان نے مجھے۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
 بلکہ پاکستان کے اُس وقت کے حالات کے تناظرمیں اِس شعر کے دوسرے مصرع کی کچھ اِس طرح کی ری ماڈلڈ شکل میں ڈھا لنا زیادہ بر محل دکھائی دیتا ہے کہ۔۔۔۔۔ ع ۔۔ ۔ ، " مرحمت کی ہے یہ سو غات حکمران نے مجھے!" ۔۔۔ تبدیلی کی یہ خو پاکستان کے حکمرانوں اور سیاستدانوں میں وقت گُزرنے کے ساتھ ساتھ کُچھ اس درجہ تک سرایت کر گئی کہ اُن نادانوں نے گرگٹ کی طرح رنگ بدلتی اپنی پالیسیوں کے بُرش کے پے در پے اٹکل پچو سٹروکس سے پاکستان کے قیام کی سلور جوبلی سال کاسورج طلوع ہونے سے پہلے ہی اُسکا( 1971 میں) نقشہ ہی تبدیل کر ڈالاجس سے" بنگلہ دیش " کے عالمی اُفق پر نمُودار ہونے کی وجہ سے دُنیا کے نقشہ بھی تبدیی کا شکار ہو گیا․۔

۔۔۔۔۔
ہمارے نام نہاد لیڈران اور جس شاخ پہ وہ بیٹھے ہیں اُسی پر آرا چلانے والے نادان حُکمرانوں کو بدلنے کو اور کچھ نہ ملے تو نمانہ آئینَ اسلامی جمہوریہ پاکستان تو اُنکے رحم و کرم پر ہوتا ہی ہے؛ پاکستان کے دو آئینز کو تو اُنہوں نے تبدیلی کے ہتھو ڑے کے وار ِ مُسلسل کر کرکے اُنکے جنم کے چند سالوں کے اندر اندر ہی تتر بتر کر ڈالا؛ تیسرا1973 کا آئین بھی ہر آنے والے حکمران کے ہاتھوں پے در پے ترامیم کی صورت میں "تبدیلی" کے کچوکے کھا کھاکراپنی اصل شکل کوپہچا ننے ہی سے معذور ہو چُکا ہے۔

۔۔ اُسے تیتر کہا جاسکتا ہے نہ ہی بٹیر۔۔ وہ بیچارا تو رہ گیا ہے فقط الفاظ کا ہیر پھیر۔۔۔ نہیں بدلتے تو ہمارے حکمران، لیڈران اور سیاستدان جوخود بدلتے ہیں اور نہ ہی اپنی خود غرضانہ روش۔۔ بدلتے ہیں․ اُن کے ہاں تبدیلی آتی بھی ہے توزیادہ زیا دہ سے زیادہ قومی مفاد کے لبادے میں ذاتی مفاد کے حصول کی خاطر سیاسی وفاداری بدلنے کی صورت میں؛ وہ ہر بار اپنے زاتی مفادات کے زہریلے سانپ پر چڑھی" کینچلی " بدل عوام کر یہ تائثر دینے کا ٹرک کھیلتے ہیں کہ وہ تو تازہ دودھ کی طرح صاف اورشفاف ہیں؛ وہ بڑی ڈھٹائی سے عوام کی تقدیر بدل کے رکھ دینے کے بُلند و بانگ دعوے کرتے ہیں جبکہ ایسا شاطرانہ طرزِ عمل ایسا اپناتے ہیں کہ ہر بار اُن میں سے اکثر کی تقدیر بدل بلکہ کایا پلٹ کے رہ جاتی ہے․(․بے پناہ دولت کے حصول کی صورت میں) ۔

ہر دفعہ الیکشنز وغیرہ کے موقعہ پر ہر لیڈر حقیقی تبدیلی برپا کر کے رکھ دینے کے بُلند وبانگ دعوؤں کے شور وغوغا میں سیاسی سٹیج پر رونما ہوتا ہے مگر ہائے رے عام آدمی بے چارے کی قسمت۔۔ اول تو تبدیلی نام کی چڑیا کبھی رونمائی کروانے کی زحمت ہی گوارا نہیں کرتی؛ اور اگر کبھی تھوڑ ی بہت تبدیلی رونما ہو بھی پاتی ہے تو دل و دماغ کو تروتازہ کر دینے والی خوشبودار ہواکی بجائے عوام کے لئے سانس بھی لینا دُشوار کرکے رکھ دینے والی بدعنوانی اور بے ایمانی میں لپٹی بدبودار ہوا چلنے کی صورت میں یا پہلے کی دھیمی بدبوداردار ہوا کو اور تُند خو اور تعفن زدہ کر دینے کی صورت میں۔

۔۔ اور نگہ بُلند رکھنے والے حقیقی راہنماء کو ترستے بیچارے " عوام" ہربار اُنکی شعبدہ بازی کے جھانسے میں آکر اپنی تقدیر اُنکے بے رحم ہاتھوں میں تھما بیٹھتے ہیں؛ اس پر یہ سنگ دل فلک شُگاف قہقہے کے ساتھ، دوسرے کے ہاتھ پر ہاتھ مارتے ہوئے ٓنکھوں ہی آنکھوں میں ایک دوسرے کویہ باور کراتے ہیں کہ ،" یار!․․ جب تک اِس قوم کے حافظے کی یہ حالت ہے ہمارے اقتدار کو کوئی خطرہ نہیں" جب اِ ن شاطروں نے دیکھاکہ صرف تبدیلی کے لفظ والا انکا برسوں پُرانا نعرہ عوام کی نگاہ میں بے وُقعت ہوتا جا رہا ہے تو انہوں نے ایک اور شاطرانہ چال چلتے ہوئے لفظ ،" تبدیلی" کے ساتھ," حقیقی" کے لاحقے کو ٹانکتے ہوئے اس بزُرگ نعرے کی ری کنڈیشننگ کرڈالی؛ جس سے یہ بات روزِ روشن کی طرح عیاں ہوگئی کہ محض " تبدیلی" والا اُنکا عمر رسیدہ نعرہ ،" نُورا نعرہ" تھا۔

۔ دیکھیں" حقیقی تبدیلی "ولا پیارے راہنماؤں کا نعرہ کب،" نُورا نعرہ " ثابت ہوتا ہے؛ اسکے لچھن بھی اچھے دکھائی نہیں دیتے؛اکیسویں صدی کے دوسرے عشرے میں حقیقی تبدیلی کے نعرے نے کُچھ اتنی تیزی سے زور پکڑا کہ جلد ہی وہ " تبدیلی کے سونامی" کا روپ دھار گیا؛دل لگتی بات تو یہ ہے کہ کچھ عرصہ کے لئے تو اپس وقت کی تحریکِ انصاف حقیقی تبدیلی کی نقیب اور اُسکے لیڈر عمران خاں حقیقی تبدیلی کے سب سے بڑے علم بردار نظرآنے لگے؛
کبھی مکھیوں کو بھی اُڈیکتی تحریکِ انصاف کی جلسہ گاہیں عوام سے کھچا کھچ بھری دکھائی دینے لگیں۔

۔۔ ہر طرف " سونامی۔۔ سونامی۔۔۔ سونامی۔۔" کی فلک شگاف صدائیں
 بُلند ہونے لگیں جن کی ہیبت سے بڑے بڑے سیاسی جُگادریوں کو "کنبنی "چڑھ گئی۔۔۔ مثبت حقیقی تبدیلی کے لئے بیقرار عوام کو یقین ہوگیا کہ ۔۔" ہن تے تبدیلی
 آوے ای آوے!" مگر ہائے ری قسمت!۔۔۔ یہ حقیقی تبدیلی کی تمنا کی لہروں پر اُٹھنے والا یہ سونامی قلیل عرصے میں ہی پانی کی جھاگ کی طرح بیٹھ گیا۔

۔۔ جلد ہی چشمِ
 فلک کو حقیقی تبدیلی کی نقیب تحریکِ انصاف میں بھی وہی چہرے ہر طرف براجمان نظر آنے لگے جنہیں تبدیل کرنے کے لئے عوام بیتابی سے حقیقی تبدیلی کی راہ تک رہے
 تھے ۔۔۔ جب تحریک کے میر ِ کاروان، عمران خان کی توجہ اِس امر طرف دلائی گئی تو انہوں نے یہ کہتے ہوئے حقیقی تبدیلی کے غُبارے سے ساری ہو ہی ا خارج کرکے رکھ دی
 کہ،" فرشتے کہاں سے لاؤں!"۔

۔۔ ی یعنی خانِ اعظم کی عظیم قیادت میں بھی سیاست کی ،" وہی ہے چال بے ڈھنگی جو پہلے تھی سو اب بھی ہے ." چشمِ تماشہ
 برسوں سے یہ طرفہ تماشہ دیکھ رہی ہے کی خان صاحب کے حواری بھی اور در باری بھی اپنی ناقص کارکردگی اور لوٹ مار پر اپنے سے پہلے بے وردی حکمرانوں کی ایسی ہ کار
 گزارای کے حوالے کی ترپال ڈال کر چھپانے کی نہ ختم ہونے والی روش پہ گامزن نظر آتے ہیں․ سابقہ حکمرانوں کے بہت سے ساتھیوں کو اپنی صفوں میں کوشی خوشی شامل
 کرکے اُنہوں نے کبھی نوجونوں کی امیدوں کے مرکز ،" تحریکِ انصاف " کو سیاسی لانڈری میں تیبدیل کرکے رکھ دیا ہے۔

۔ع۔"۔ تھا انتظار وہ جسکا یہ وہ صحر تو نہیں " ۔۔
 حقیقی تبدیلی بچے کھچے دعویداروں سے دست بستہ گُزارش ہے کہ وہ اپنے کسی غلط قدم یا فعل کا جواز کے طور پر کسی بھی سابقہ حکمران کے حوالے دینے سے پہلے ' حقیقی تبدیلی
 ' مرحومہ ، متوفی 2011 ' کی روح کے ایصال ِ ثواب کے لئے فاتحہ پڑھ لیا کریں کہ' حْقیقی تبدیلی' کا نعرہ تو آپ نے لگایا تھا سابقہ حکمرانوں نے نہیں؛ اِس صورتِ
 حال پر کسی دل جلے نے اِن ا لفاظ میں کیا خوب تبصرہ کیا ہے ،" میرے ہم وطنو !۔

۔ دل چھوٹا نہ کرو ۔۔ حقیقی تبدیلی تو آچکی ہے۔۔ مگر حالات یا مفاد پرستوں کی روش میں نہیں
 نہیں۔ بلکہ آج کے خانِ اعظم کی سوچ میں۔۔ جسکی سیاست سے رومانس اور حقیقی تبدیلی بربا کر کے رکھ دینے کے شوق میں کرکٹ میں سُنہری کارناموں کے بل بوتے پر
 کمائی ہوئی عزتِ سادات بھی گئی"۔۔ ایک مرتبہ پھر وطنِ عزیز میں سیاست کی حالت کے بارے میں کسی شاعر کے اس شعر میں کہی گئی بات من و عن صحیح ثابت ہو رہی ہے۔

۔۔
 ۔۔۔ # میرے وطن کی سیاست کا حال مت پوچھو گھری ہوئی ہے طوائف تماش بینوں میں۔۔۔ فلحال تواِس بے بس و بے زباں سیاسی طوائف کا سیاسی تماش بینوں
 کے گھیرے سے بچ نکلنے کادور دور تک کوئی امکان نظر نہیں آتا؛ ایسے میں حققیقی مگر مثبت تبدیلی کے لئے دن گنتے نمانے عوام کے لئے اسی تنخواہ پر گُزارا کر نے کے علاوہ اور کوئی
 چارہء کار نہیں۔۔ وہ شجر سے پیوستہ رہ کر اُمیدِ بہار رکھنے کے سوا اور کر بھی کیا سکتے ہیں․ ۔ اللہ پاکستان کو اپنی حفظ و امان میں رکھے! آمین․

ادارہ اردوپوائنٹ کا کالم نگار کی رائے سے متفق ہونا ضروری نہیں ہے۔

تازہ ترین کالمز :