کلر بلا ئنڈ۔۔۔۔۔!

منگل 18 اگست 2020

Syed Tansir Hussain

سید تنصیر حسین

ساون کے اندھے کو ہمیشہ ہرا ہی سوجھتا ہے جبکہ کمیونزم المعروف اشتراکیت کے زمانے میں سرخوں کو سارا ایشیا ہی سُرخ نظر آتا تھا جبکہ ماہرینِ طب کے نزدیک کلر بلائنڈ کے مریضوں کو سب رنگ نظر آتے ہیں مگر سبز اورسُرخ نظر نہیں آتا:بصارت کے اس عارضے کی تشخیص کے لیئے ماہرینِ امراضِ چشم گرگٹ کی طرح رنگ بدلتا ، مختلف رنگوں کو گردش دیتاہوا ایک چکر نما بینڈ استعمال کرتے ہیں؛مسلح افواج ، پولیس ا ور ایسے ہی دیگر اداروں میں بھرتی کے خواہش مند امیدواروں کا یہ کلر بلائنڈ نیس ٹیسٹ ضرور کیا جاتاہے کیونکہ ایسے اداروں کے اہلکاروں کو اپنے فرائضِ منصبی احسن طریقے سے ادا کرنے کے لیئے رنگوں، بالخصوس سبز اور سُرخ رنگوں میں امتیاز ، کی صلاحیت ضروری سمجھی جاتی ہے؛یہ بات سمجھ سے بالاتر ہے کہ کلر بلائنڈ نیس کے مرض کی وجہ سے بہت سے افرادکے سبز اور سُرخ رنگوں میں امتیاز نہ کر سکنے کی معزوری کا علم ہونے کے باوجود، صاحبانِ اختیار نے بڑے شہروں کے مصروف چوراہوں پر ٹریفک کو ریگولیٹ کرنے کے لیئے سبز اورسُرخ رنگ کا ہی انتخاب کیوں کیا؟ ٹریفک ریگولیٹنگ لائٹس میں استعمال کیا جانے والا تیسرا رنگ زرد یا پیلا ہوتا ہے جسکے بارے میں بھی انگریزی کا مقولہ ہے کہ "It looks all pale to a juandiced eye " یعنی یرقان زدہ آنکھ کو ہر شے پیلی یا زرد دکھائی دیتی ہے۔

(جاری ہے)

یہ تو ٓ آپکے علم میں ہوگا کہ ٹریفک لائٹس میں پیلے ر نگ و الی لائٹ جلنے کا مطلب ہوتا ہے کہ اس کے سامنے والی سڑک پر رُکی ہوئی ٹریفک چلنے یا چوک کراس کرنے کے لیئے تیار ہوجائے۔اب اِس محاورے کے مُطابق تو اگر کوئی پیلئے (یرقان )، جو کہ آج کل عام ہے ،کا مریض ڈرائیونگ کررہا ہو تو اُسے تو ہر بتی ہی پیلی نظر آئے گی جسکی وجہ سے وہ دوسری گاڑیوں کی دیکھا دیکھی ایک بار ٹریفک اشاروں پر رُکنے کے بعد ہمہ وقت چلنے کے لیئے تیار ہی رہے گا: اس حساب سے ٹریفک کے اشا روں ( لائٹس ) میں استعمال ہونے والے رنگ کلر بلائنڈ نیس یایرقان کے مریضوں کے لئے بھٹکنے کا سبب بن سکتے ہیں جس سے ٹریفک کے مہلک حادثے رونما ہوسکتے ہیں۔

اِس تناظر میں کیا یہ مناسب نہیں ہوگا کہ ٹریفک کے اشاروں میں استعمال ہونے والے رنگوں پر ماہرینِ امراضِ چشم کی مشاورت سے نظرِ ثانی کر کے سبز،سرخ اور پیلے رنگوں کی جگہ 9 عدد دیگر رنگوں اور انکے متعدد شیڈز میں سے ایسے رنگوں کا انتخاب کرلیا جائے جس میں کلر بلائنڈنیس سمیت بصارت کے کسی بھی عارضے کی وجہ سے کوئی مسلئہ درپیش نہ ہو۔
سبز رنگ اسلام کا رنگ گردانا جا تا ہے۔

ایک اسلامی ملک ہونے کے ناطے سے پاکستان کے جھنڈے اور اسی مناسبت سے کرکٹ اور ہاکی سمیت اُسکی تقریباً تمام کھیلوں کی قومی ٹیموں کی یونیفارمز یا کٹس میں نمایاں رنگ سبز ہی ہوتا ہے۔ ایسے میں کلر بلائنڈ نیس کے مریضوں کو پاکستانی کرکٹ ٹیم کا رنگین ون ڈے میچ بھی سفید وردی والا ٹیسٹ میچ ہی نظر آتا ہوگا: جبکہ پاکستانی جھنڈے یا پاکستانی ہاکی ٹیم کے کٹ میں ملبوس کسی کھلاڑی کو دیکھ کر شاید وہ یہ سوچتے ہوں کہ" چاچو دی چالاکیوں کیوجہ سے" پاکستان میں اقلیتیں اور انکارنگ غلبہ حاصل کر چکا ہے۔

یہ بات بھی غور کرنے کی ہے کہ ساون میں بصارت کی نعمت سے محروم ہونے والے عام اندھوں کی طرح ساون کے کلر بلائنڈ اندھوں کو بھی ہرا ہی سوجھتا ہے؟ لگتا ہے کہ کلر بلائنڈ نیس کا عارضہ گھاس کھانے والے جانوروں میں نہیں پا یا جاتا کیونکہ ہم نے آج تک ایسے جانوروں کو ہری ہری گھاس پر ٹوٹتے ہی دیکھاہے۔اگر ایسا ہوتا تو سامنے گھاس کے انبار یا سبزہ زار ہونے کے باوجود کسی جانور کا منہ بند دیکھ کر دیکھنے والے کے دل میں یقینا یہ خیال آتا کہ اِس جانور کی عقل کیا گھاس چرنے گئی ہوئی ہے جو موقع چنگا ہونے کے باوجود اس سے فائدہ نہیں اُٹھا رہا۔

سُرخوں المعروف "کیمونسٹوں "کی تحریک شاید اسی لئے زیادہ کامیاب نہیں ہوسکی، کہ اسکے علمبردارکلر بلائنڈ افراد کے دماغ میں کمیونزم تحریک کے علامتی نشان یعنی سُرخ رنگ کا تصو اسی طرح سے اُجاگر کرنے میں ناکا م رہے ہیں کہ جسطرح سے ایک نابینا حافظ صاحب کی سیوا کھیر سے کرنے کے خواہش مند انکے ایک عقیدت مند کھیر کے خدو خال حافظ صاحب کے زہن میں اجاگر کرنے میں ناکام رہے تھے: ایک نابیناحافظ صاحب کے ایک عقیدت مندکھیر کی پلیٹ ہاتھ میں تھامے حافظ صاحب کی خدمت میں حاضر ہوئے اور اُن سے کھیرنوشِ جاں کرنے کی استدعا کی؛حافظ صاحب موصوف شاید ان لوگوں میں سے تھے جو آم کھانے سے زیادہ پیڑ گننے میں دلچسپی رکھتے ہیں؛ لہذا انہوں نے عام حافظوں کے برعکس انھے واہ کھیر پر ٹُوٹ پڑنے کی بجائے کھیر لانے والے صاحب سے استفسار کیا کہ کھیر کیسی ہوتی ہے؟عقیدت مند نے نہایت ادب سے جواب دیاکہ کھیر سفید رنگ کی ہوتی ہے۔

جماندروں نابینا حافظ صاحب کے زہن میں سفید رنگ کا بھی کوئی تصور نہ تھا لہذا انہوں نے دوسرا سوال داغتے ہوئے پُوچھا،"یہ سفید رنگ کیسا ہوتا ہے؟ " ,"بگلے جیسا " اور بگلا کیسا ہوتا ہے؟ حافظ صاحب نے مُکالمے کو آگے بڑھاتے ہوئے کہا؛ اسپرحافظ صاحب کے پے در پے سوالوں سے بے زارعقیدت مند نے حافظ صاحب کو زورِ بازو دسے سمجھانے کا فیصلہ کرلیا۔

اُ س نے حافظ صاحب کا ہاتھ اپنے دائیں ہاتھ میں لیکر اسے بگلے کی سی شکل میں ڈھلے اپنے دائیں بازو پر پھیرتے ہوئے حافظ صاحب کو بتایا کہ بگلہ ایسا ہوتا ہے:اس پر حافظ صاحب نے اُن صاحب کی گرفت سے اپنا ہاتھ چُھڑاتے ہوئے کہا ِ "معاف کیجئے! .میں ایسی ٹیڑھی کھیر نہیں کھا سکتا۔کیمونسٹوں ،المعروف سُرخوں نے بھی،شاید اپنی تحریک کے علامتی سرخ رنگ کا تصور کلر بلائنڈ حضرات کے ا زہان میں اُجاگرکرنے کے لیئے "خون جیسا " کی سی تشبیہوں سے کام چلانے کی کوشش کی ہوگی جسکی خون آشامی سے ڈر کر ایسے کلر بلائنڈ حضرات نے کیمونسٹ تحریک میں شامل ہونے سے معزرت کرلی ہوگی جو کسی کے خون سے ہولی کھیلنے کو ناپسند کرتے تھے یا ہیں۔

عام لوگوں کو تو خون اسی وقت سفید دکھائی دیتا ہے جب انکے خونی رشتے( Blood relations) مصیبت میں ان سے سرد مُہری سے پیش آتے ہیں مگر کلر بلائنڈ افراد کو اُن خون چھڑکنے والے عزیز واقارب اور بلا امتیازِ وفاداری سب سنگی ساتھیوں کا خون ، حتیٰ کہ خود اپنا خون بھی سفید دکھائی دیتا ہے نامور شاعر جناب انور مسعود#کے بقول ۔ ضعفِ بصات کی وجہ سے انہیں کچھ کا کچھ نظرآتا ہے؛۔

۔۔
اب ضعفِ بصارت سے کچھ فرق نہیں واضح
حلوہ ہے پلیٹوں میں یا گُوند کتیرا ہے
تصویر سی دکھتی ہے معلوم نہیں ہوتا
ریشم ہے کہ ریمبو ہے، ریما ہے کہ میرا ہے
جبکہ سُرخ اور سبز کے کلر بلائنڈ افراد کے اس سے ملتے جُلتے مخمصے کی حقیقی تصویر کشی کے لیئے جنابِ انور مسعود# کے درج بالاقطعہ کی کچھ اس طرح سے ری ماڈلنگ کرنی پڑے گی؛
 اب کلر بلائنڈ نیس سے کچھ فرق نہیں واضح
ہے ساگ پلیٹوں میں یا بکرے کا قیمہ ہے؟
 تصویر سی دکھتی ہے، معلوم نہیں ہوتا
قلی ہے یا ٹاہلی ہے، قالیں ہے یا سبزہ ہے؟
 اپنی بیگم صاحبہ کی تعریف میں زمین وآسمان کے قلابے ملانے والی ایک شوہر کی بیوی نے ایک ڈاکٹر سے گلہ کرتے ہوئے کہا،" ڈاکٹر صاحب پتہ نہیں آپ نے میرے شوہر کو کیسی نشیلی دوائی کھلادی ہے؟ اب وہ میرے حُسن کی تعریف کرنا ہی بھول گئے ہیں!"ڈاکٹر صاحب نے کچھ سوچتے ہوئے کہا، " میں نے یاداشت کو متاثرکرنے والی کوئی دوا توکبھی آپکے شوہر کو استعمال نہیں کروائی؛ البتہ چند ماہ پیشتر میں نے انہیں اپنی بینائی چیک کروانے کا مشورہ ضرور دیا تھا ؛ شا ید انہوں نے اس مشورے پر عمل کرلیا ہے؟" مگر بیگم کے حسن کے فین جس شوہر کا زکرِ خیر جناب سرفراز شاہد صاحب #کر رہے ہیں ، انکی بیگم صاحبہ کو تو ڈاکٹروں سمیت کسی بھی شخص کے کسی بھی قسم کے مشورے کی وجہ سے جنابِ شو ہر نامدار کی شیریں زبان سے موصوفہ کی کرخت طبیعت کے باوجود ، ہر پل اُمڈتے قصیدوں کے بند ہونے کا قطعاً کوئی اندیشہ ہی نہیں لگتا؛
بیوی بہت غصیلی، شوہر بہت ہی کائنڈ
 و ہ جو بھی رنگ پہنے ، کرتا نہیں وہ مائنڈ
 اور اصل بات کیا ہے ، ہم کر چُکے ہیں فائنڈ
بیوی تو ہے کلرفل ، شوہر ، کلر بلائنڈ
ایسے شوہر کو توشادی والے دن بھی اپنی دُلہن کا مشرقی روایات کے مطابق سُرخ عروسی جوڑا لیڈی ڈیا نا کا سفید ویسٹرن ویڈنگ ڈریس ہی دکھائی دیاگا۔

شوہر کی کلر بلائنڈ نیس تو اُسے بیوی کے رنگ ورُوپ سے بے نیاز کر دیتی ہے لیکن اگر بیوی اسی عارضے کا شکار ہو تو اسکے شوہر کی صھت اور جیب پر کیا اثرات ہوتے ہیں؟، ہمیں تو بیوی کی کلر بلائنڈ نیس کے شوہر کیلیئے اتنے فوائد نظر آتے ہیں کہ اگراُن سب کو آشکارا کردیا جائے ، تو مُجھے اندیشہ ہے کہ شادی کے لیئے کلر بلائنڈ لڑکیوں کی ڈیمانڈ آسمان کی بلندیوں کو چھونے لگے گی۔

لہذا ایسی لڑکیوں کی متوقع بد دماغی کے ڈراور آپکے علم میں اضافے کیلئے فلحال ہم ان میں سے چند ایک کے زکر پر ہی اکتفا کرینگے۔تو جناب کلر بلائنڈ بیگمات ایسے تمام نوٹوں کہ جن کا رنگ سُرخ یا سُرخی مائل یا پھر سبز یا سبزی مائل ہوتا ہے محض کاغذ کے ٹُکڑے سمجھ کر انہیں شوہروں کی جیب سے کھسکانے یا فضول خرچ کرنے سے باز رہیں گیں جس سے شوہروں کے ہتھے اپنی بیگمات کی زد سے اپنی خون پسیینے کی کمائی وبچانے کا ایک ایسا سنہرا اور سو فیصد کار گرنُسخہ چڑھ جائے گا ؛ اسکے علاوہ دوسری خواتین اور وڈے لوگوں کی بیگمات کے زرق برق لباس بھی دلکش سبز اورسرخ رنگوں میں امتیاز نہ کر سکنے کی وجہ سے اُنہیں بے رونق اور پھیکے نظر آئینگے جسکی بدولت دوسروں کی ہمسری کے جزبہ کے زیرِ اثر اکثر بیگمات کی طرف سے کر مسلط کیئے جانے والے اخراجات میں خاطر خواہ کمی آنے کا قوی امکان ہے۔

طبی ماہرین کی طرف سے کی جانے والی تحقیقات کے مطابق کلر بلائنڈ افراد کو کچھ مخصوص رنگ نظر نہیں آتے مگر جو کلر بلائنڈ نیس دورحاضر میں انسان کی بقا اور عالمی امن کے لیئے سب سے بڑاخطرہ ثابنتی جارہی ہے وہ"ڈپلومیٹک کلر بلائنڈ نیس "ہے ؛اس قسم کی کلر بلائنڈ نیس زیادتر حکمرانوں ، بالخصوص امریکہ اور یورپ کے طاقتور ملکوں کے حکمرانوں میں پائی جاتی ہے؛ یہ خود اختیاری قسم کی کلر بلائنڈ نیس ہوتی ہے ؛کلر بلائنڈ نیس کی اس قسم سے متاثرہ فرد حسبِ خواہش وزاتی یا گروہی مفاد جس رنگ کو بھی چاہیں تعصب کی عینک لگا کر غیر فعال کر کے اسے دیکھنا بند کر سکتے ہیں؛ اسی قسم کی کلر بلائنڈنیس کی وجہ سے ، جمہوریت کاعا لمی چمپیئن ہونے کا دعویدار ہونے کے باوجود ،چاچو یعنی " انکل سام" کواسلامی ممالک میں شاہی اور آمرانہ حکمرانوں کے لباس اور وردیوں کے رنگ، مثلاًپا کستان میں بدو بدی کے حاکموں کے کے لباس کا "خاکی رنگ"نظر نہیں آتے ۔

اسی طرح اسلام کا نمائندہ اور امن کا پیامبر سبز رنگ اُنہیں اِسی خود اختیار کردہ وکھری ٹائپ کی کلر بلائنڈنیس کی وجہ سے سُرخ دکھائی دیتا ہے جسکی وجہ سے وہ مسلمانوں کو خونی اور دہشت گرد قرار دیتا رہتاہے جبکہ ُاسکے اور اسکے عالمی گُماشتوں کے مفادات کے حصول کے لیئے دنیا بھر میں اپنی شاخیں ایک عفریت کی طرح پھیلائے، اس عالمی ٹھیکیدار کی خون آشام سازشوں کے نتیجے میں وجود میں آنیوالے درخت کے سرخ خون آلو د برگ وباراُسے دُنیا میں امن کی ضامن او لیو (olive یعنی زیتون) کی شاخیں نظر آتی ہیں،اللہ تعلیٰ ہر قسم کی کلر بلائنڈ نیس ور اسکے اثرات سے ہمیں اپنے حفظ و امان میں رکھے۔ آمین!

ادارہ اردوپوائنٹ کا کالم نگار کی رائے سے متفق ہونا ضروری نہیں ہے۔

تازہ ترین کالمز :