چور، چور بازار اور چور بازاری۔۔۔!

جمعہ 23 اکتوبر 2020

Syed Tansir Hussain

سید تنصیر حسین

چور وہ ہوتا ہے جو، تھرا کے، کسی اور کی ملکیت کوئی شے، جس پر اُسکا کوئی قانونی یا اخلاقی حق نہ ہو،ہتھیا لے؛ کامیاب چور بننے کے خواہش مند خواتین و حضرات کے لئے لازم ہے کہ وہ ، لُک لُکا کے، دوسروں کو اُنکی اشیاء سے محروم کرنے کی منفی کاریگری میں یدِ طُولیٰ رکھتے ہوں؛ اگر کوئی شخص، دیدہ دلیری، دھونس دھاندلی اور سینہ زوری سے للکار کر کسی سے کوئی شے چھین لے، تو وہ ڈاکو کہلاتا ہے؛ بقول سرفراز شاہد#ایک سکہ بند ڈاکو جرائم پیشہ ہونے کے باوجود،اپنی دہشت اور دبدبے کے بل بوتے پر سہمے ہوئے نام نہاد شرفاء اور امن پسند شہریوں کو خود کو کچھ اِ س قسم کی وی، آئی ، پی ٹریٹمنٹ دینے پر مجبور کر دیتاہے۔

۔۔۔
 جو چیک لایا ہے وہ تو لے کے ٹوکن
 کھڑا ہے دیر سے چکرا رہا ہے
 جو آیا ہے کلا شنکوف لے کر
 فٹا فٹ کیش لے کر جا رہا ہے
اور اگر کوئی.۔

(جاری ہے)

۔ع۔۔" دیتے ہیں دھوکہ یہ بازی گر کُھلا" کے مصرع کی عملی تفسیر پیش کرتے ہوئے ہیرا پھیری اور چکنی چُپٹی باتوں کے زریعے کسی سادہ لوح سے اُسکی کوئی چیز یا نقدی اینٹھ لے تو وہ "ٹھگ" یا "نوسرباز" کہلاتا ہے؛ ۔

۔ڈاکو بننے کے لئے شیر کے دل مگرموٹی عقل کا مالک ہونا ضروری ہے ؛ ٹھگ یا نو سر باز چالاک اور شاطر ہوتا ہے مگر قدرے کم ہمت ہوتا ہے جبکہ چور پرلے درجے کابزدل مگر کیمو فلاج اور دیواروں میں" سن(شگاف)" لگانے اور نقب زنی کے فن میں یکتا ہوتا ہے؛ لیکن مشن معاشرے کے اِن تینوں گھناؤنے کرداروں کا ایک ہی ہوتا ہے یعنی۔۔ کسی نہ کسی طرح دوسروں کو اُنکی خون پسینے سے کمائی ہوئی دولت ,عزیز اشیاء اور عزت وآبرو سے محروم کرنا ؛ خالد مسعود# کے الفاظ ۔

۔۔موقع ملاتوچوری ووری کر چھڈ ی موڈ ہُوا تو دکھو زوری کر چھڈی۔۔۔معاشرے کے اِن ناسوروں کے طرزِ عمل کی بھر پُور عکاسی کرتے ہیں؛ دوسروں کی جان و مال کے درپے کُچھ ایسے جرائم پیشہ لوگوں کو بجا طور پر" تھری اِن ون" کہا جا سکتا ہے کیونکہ یہ گرگٹ کے رنگ بدلنے کے سے انداز میں حسبِ موقع چور ،ڈاکو، یا ٹھگ کا روپ دھار لینے کی بھر پُوراستطاعت رکھتے ہیں؛ یہ شعرقتیل شفائی# مرحوم نے شاید ایسے ہی ہر فن مولا لُٹیروں کے بارے میں ہی کہا ہے۔

۔۔
 جب بھی چاہیں اِک نئی صورت بنا لیتے ہیں لوگ
 ایک چہرے پر کئی چہرے سجالیتے ہیں لوگ
 گھڑی میں ماشہ ،گھڑی میں تولہ ہوجانے کی صلاحیت سے مالا مال ایسے لوگ شیطان کی طرح ہر وقت ،ہر جگہ اور ہر شُعبہ میں موجود ہوتے ہیں مگر پاکستان جیسے ترقی پزیر ممالک کے سیاسی اکھاڑوں میں تو یہ بدرجہء اُتم پائے جاتے ہیں؛ چور، ٹھگ اور ڈاکو تینوں سے شرفاء کی توجان جاتی ہے؛ قطعیت کے ساتھ یہ کہنا بہت مُشکل ہے کہ سماج کے لئے وبالِ جان اِن ہمزاد خبیث کرداروں میں سے کس کو فنِ خباثت میں برتری حاصل ہے ؛مگر ا افراط اوراُسکے پھسوڑی آموزکرتوتوں کے مُعاشرے پر پڑنے والے پُر پیچ اثرات کے تناظر میں، ہمارے خیال میں "چور کونمبر ون قرار دیا جاسکتا ہے۔

کسی بھی قسم کی ٹھگی کا ہنر سیکھنے کے لئے اُستادوں کی مار اور در در کی ٹھوکریں کھانی پڑتی ہیں جبکہ ڈ اکو بننے کے لئے تو مار کے ساتھ ساتھ گولی بھی کھانی پڑ سکتی ہے ؛لہذا، ٹھگوں اور ڈاکوں کی تعداد اور اِن میں سے بھی بہت سوں کی استعدادِ کار بہت محدود ہوتی ہے؛ لہذا، خلقِ خُدا کے لئے زیادہ ترانواع و اقسام کے،"چور" ہی دردِ سر ہوا کرتے ہیں؛ ویسے تو انبیاء کرام اور اللہ کے خاص بندوں کو چھوڑ کر، چوری کی صفت تھوڑی بہت تو سب میں پائی جاتی ہے؛ یہاں تک کہ جانور بھی اِس "بھیڑی عادت "سے مبریٰ نہیں؛ وہ بھی موقع ملنے پر کسی دوسرے جانور کی کھرلی ، کسی کٹی یاکٹی، وچھے یا وچھی کی ماں بھینس یا گائے وغیرہ وغیرہ کے دودھ سے بھرے تھنوں پر منہ مارنے یا کسی کی رہڑی والی کے سبزیوں کے ڈھیر میں سے کوئی گاجر یا مولی اپنی مُنہ میں ٹھونس لینے سے باز نہیں آتے؛اپنے اِس شعر میں کسی جہاندیدہ شاعر نے کس خوبصورتی سے آج کے سماج کی ا،س تلخ حقیقت کی عکاسی کی ہے؛۔

۔۔ ۔۔۔۔۔ ۔۔۔۔۔ میں چور! ۔۔تُو چور!۔۔ چوروں کا ہے یہ جہاں ہے کام گھاٹے کا ایمانداری یہاں!۔۔۔اِ س طنزیہ شعر ی میزائل کی روایات شکن ضرب نے تو مشہورِ زمانہ ضرب المثل"ایمانداری سب سے اچھی حکمتِ عملی ہے" کا تو دھڑن تختہ ہی کر کے رکھ دیا ہے۔ آج کے زمانے کا اعلانیہ چلن تو یہ ہوچکا ہے کہ جیسے بھی ہو سکے مال بناؤ اور عزت پاؤ؛۔۔۔ نامورمزاحیہ شاعر خالد مسعود #کے ہی الفاظ میں
بے ایمانی سے نوٹ کمائے رب نے عزت بخشی
سب کہتے تھے کاٹو گے تُم جو تھا تُم نے بویا
چوروں کی بھی کئی اقسام ہیں؛کچھ چور مال کی چوری کرتے ہیں،توکچھ جان کی! کچھ کام چور ہوتے ہیں تو کچھ چام چور جبکہ کچھ سنگدل چوروں کا نشانہ معصوم لوگوں کے دِل بنتے ہیں: وہ اِس کمال سے اپنے محبوب پر اپنی اُلفت کا جال پھینکتے ہیں کہ وہ بیچارا شکاری کے دام میں پھنسے کسی پرندے کی طرح پھڑ پھڑاتے ہوئے، زیرِ لب کچھ اِس طرح سے اپنے شاطر محبوب کا گلہ کرتے ہوئے اپنے جسم کا یہ ناگُزیر عُضوء اُِ س ساحر# کے حوالے کر دیتا ہے۔

۔ع۔۔ ۔سامنے بیٹھ کے یُوں دِل کو چُراتے کیوں ہو!،۔۔۔دِ ل ساڈا چوری ہوگیا کی کر یے کی کر یے ۔۔۔ ۔ کر نا کیا ہے؟ ایسے پُر کار دِل کھوس محبوب کے لئے اللہ کے حضور ،اپرو اُپری دستِ دُعا دراز کیجئے ،مگر دِل ہی دِ ل میں دِلوں کے اِ یسے ڈاہڈے شکاری کا کُونڈا کروانے کے لئے اِ س بد دُعایہ شعر کا ورد کرتے رہئے۔۔۔ دِل کی چوری کے الزام میں پُولس کا چھاپہ پڑ جائے "ٹبر" جائے پھڑیا سارا ،تیرا ککھ نہ رئے۔


 کچھ زیادہ ہی کٹھور دِل ،دل چور جب اپنی نظر کے پے در پے ڈرون حملوں سے بھی اپنی من پسند ہستی کے دِل کوگھائل کرنے میں کامیاب نہیں ہوتے تو دِ ل کے ڈاکو ں کا روپ دھارتے ہوئے سینہ زوری پر اُتر آتے ہیں اور زورا زوری، اپنے محبوب المعروف" ماہی "کواپنی زُلفوں کا قیدی بناکر چھج پتاسے ونڈنا شروع کر دیتے ہیں؛ ایسے سرقہء قلب بالجبر کرنے والے چور یا ڈاکوخود ساختہ محرم کا روپ دھار کر اپنے محبوب پر قانونِ عشق کی ایسی دفعہ فِٹ کرکے اُنہیں عمر قید کی سزاکا حُکم سُنانے کی شدید خواہش دِ ل میں لئے ہوتے ہیں جسکے روبہءِ عمل ہونے کے بعد ہمیشہ ہمیشہ کے لئے اُنکا محبوب اُنکے گھڑے کی مچھلی بن کر رہ جائے؛ اسکے برعکس بعض سنگدل دِل چور اپنے پُر خلوص چاہنے والوں سے کچھ اِس طرح سے دبے پاؤں خلاصی کرا کے پردیس پدھار جاتے ہیں کہ اُن بیچارے ہجر کے ماروں کی ساری عُمر اِ ن سجن بے پرواہوں کے انتظار میں کچھ اِس قسم کے دُکھڑے گاتے،سُنتے اورسُناتے گُزر جاتی ہے۔

۔ "چوری چوری کنڈ چا ولایایو وے پر دیسیا"۔۔۔ عشق اور محبت کا تو آغاز تو ہوتا ہی چوری سے ہے؛ دِل کی چوریوں کا گراف دیگر اقسام کی چوریوں کے مقابلے میں ہمیشہ ہی بُلند رہا ہے؛ بھلے وقتوں میں بیچارے سادہ لوح عاشق مدتوں دوسروں سے اکھیاں چُرانے اور باہم اکھیاں ملانے کے لئے مُدتوں ترلے لیا کرتے تھے تب کہیں جاکر اُنکی لائن مل پاتی تھی ؛شاید ماضی کی اِسی عشقیہ سُست رویی کے پیش نظرکرسید ضمیر جعفری # مرحوم نے کن انکھیوں کی وکٹ پر کھیلی جانے والی دلوں کی چوریِ کی اِیسی طویل ٹیسٹ سیریز کو " چور بازاری" کے ہم پلہ قرار دیا تھا؛۔


 مدتوں دز دیدہ ، دز دیدہ ہ نظر سے دیکھنا
 عشق بھی ہے اِک طرح کی چور بازاری کا نام
 پہلے تو ٹیلیفوں کی ایجاد نے اکھیوں کے اِس عشقیہ مُلا کھڑے کی شیطان کی آنت کی سی طوالت میں خاطر خواہ تخفیف کا باعث بنی ؛ دورِ جدید میں، موبائل فون کی ایجاد نے جہاں محکمہ ٹیلیفون کے اہلکاروں، خصوصاً آپریٹروں کی غرور سے اکڑی گردنوں میں لگے آہنی سریوں کو موم سیرت بنا کے رکھ دیا، و ہاں محبوب کی گلی کے چکر لگانے والے دِ ل والوں کے لئے بھی اپنے من کے راجہ یا رانی سے لائن ملا نے کو بی خالہ جی کا باڑ ا بنا کے رکھ دیا؛ مگر اِس نا ہنجار کی فراوانی نے ایک محبوب سے لُک لُکا کر متعدد دوسرے دِلرُباؤں یا شھزادوں سے لائن ملانے و الی دِلوں کی چوری کی ایک اور قسم "ہر جائیت" کی بیماری کو وباء شکل دینے میں بھی کلیدی کردار ادا کیا ہے ؛ مال و متاع کی چوری ، دلِ کی چوری اورچور بازاری کے ساتھ ساتھ ہمارے شہر خانیوال کی طرح کئی شہروں میں "چور" بازار بھی موجود ہیں ؛ اب یہ اللہ ہی جانے، اُنکا یہ نام وہاں اعلیٰ کوالٹی کے چوروں کے لین دین یا فراوانی کی وجہ سے پڑا یا پھر درپردہ چوروں کے سرپرست بااثرعناصر کی طرف سے قانُون کی آنکھ میں دُھول جھونک کر دھیرے دھیرے اِ یسے بازار قائم کردینے کی وجہ سے یہ وکھری ٹائپ کے بازار " چور بازار"کے نام سے مشہور ہوگئے؛ بحر حال مختلف شہروں میں " چور بازار"کی موجودگی نے کسی شاعرکے چوروں جیسے جرائم پیشہ عناصر کے ترجمان مصرع... " بد نام جو ہونگے تو کیا نام نہ ہوگا" کی حقانیت پر مہرِ تصدیق ثبت کر دی ہے ؛ اب چور بھی بڑے فخر سے یہ دعویٰ کر سکتے ہیں کہ اگر اُ اچھے کاموں کی وجہ سے نامور ہونے والوں کو خراجِ تحسین پیش کرنے کے لئے مختلف شہروں میں سڑکیں ، گلیاں مارکیٹیں اور بازار اُ نکے نام سے موسوم کئے گئے ہیں ، تو چور بازار نامی بازاروں کی کئی شہروں میں موجودگی کو مُعاشرے کی طرف سے چوری جیسے بُرے کسب میں چور برادری کے کمالِ فن کابلواسطہ اعتراف کے مُترادف تسلیم کر نا پڑے گا۔


چوروں کی ایک اور ورائٹی معاشرے کے اُن نام نہاد کیمو فلاجڈ، فنکار شرفاء پر بھی مُشتمل ہوتی ہے جو چوری کی ٹھرک پُوری کر تے ہی کمال پُرکاری کے ساتھ اپنے شکار ، حواس باختہ" ساد" کی معیت میں،،"چور مچائے شور" کے محاورے کا عملی مُظا ہرہ پیش کرنا شروع کر دیتے ہیں؛ یہ اپنی لچھے دار باتوں اور کامل اداکاری سے ساد، اُسکے طلب کردہ کھوجیوں اور جائے واردات کے ارد گرد کے وسیب مُسلمہ سیانوں کو کُچھ اِس طرح سے مُطمئن کر دیتے ہیں، کہ پے در پے وار یاں (Missions) مکمل کرلینے پر بھی مطلوبہ چور کاکھرا پکڑنے میں ناکامی اور پینتروں کی طرح گویڑ پر گویڑ بدلنے کے باوجود ،، ہرواری پر اپنے ہم رِ کاب معاونین اور تماش بینوں کی منڈلی میں ،آستین کے سانپوں کے مصداق گُھسے اِن چالبازوں کی چال، ڈھال ، پاؤں اور پاپوش پر بھی ایک نظر ڈال لینے کا سوچتے تک نہیں؛ ایسے میں ، بسا اوقات جھنجھلاہٹ کے شکار ، لال بُجھکڑ ٹائپ کھوجی،" اے ضرور کسے چور دا کم اے"۔

۔ٹائپ کوئی مخولیہ سا فتویٰ صادر کرکے معاملے سے اپنی گُلو خلاصی کروالیتے ہیں یا پھر اپنی فنِ سُراغ رسانی کی ساکھ کو بچانے کے لئے سراسر مُغالطے پر مبنی اُنکے فیصلے کا خمیازہ سنگدل پو یس کے ہاتھوں ہونے والی چھترول یا پنچایت کی طرف سے ڈالی جانے والے جُرمانے (چَٹی )کی مُدعیوں کوادائیگی کی صُورت میں کسی بیگُناہ کو بُھگتنا پڑتا ہے؛ یوں، وہ بیچارا،مالی اور جسمانی اذیت اٹھانے کے ساتھ ساتھ، وسیب اور پولیس کی نظر میں راندہء درگاہ ٹہرنے کی وجہ سے،" بد اچھا، بدنام بُرا" کی مُجسم تصویر ا بھی بن کے رہ جاتا ہے؛ ایسے ہی ایک چور کو جب خانیوال کے ایک میجسٹریٹ کی عدالت میں پیش کیا گیا تو وہ بے چُون و چُرا ہر اُس جُرم کے ارتکاب کا اقبال کرتا گیا ، جسکاالزام پولیس نے اُسکے سرتھوپا تھا؛ اِس وکھری ٹائپ کے اقراری چور کے انوکھے رویہ پر میجسٹریٹ صاحب سمیت سب حاضرینِ عدالت انگشت بدنداں تھے؛ جب اُسے سب فرد ہائے جُرم سُنائی جا چُکیں ، تو چور موصوف نے میجسٹریٹ صاحب کو مُخاطب کرتے ہوئے دست بستہ عرض کی،"صا حب ہک منٹ!، پولس آلے وچارے، اک الزام میرے گُناواں دی فہرست چے شامل کرن تُوں چُوک گئے ہن؛اے خانیوال دے ریلوے چھیڈ Railway Shed))وچوں پَرہک انجن چوی گیا ہائی، او ای میں چا یا ہائی!" بھاری بھرکم انجن اُٹھا لینے کے اس طنزیہ اقرارِ جُرم کے نتیجے میں جہاں عدالت میں گُونجتے فلک شگاف قہقہوں نے اپنی نام نہاد اعلیٰ کارکردگی پر احسا سِ تفاخر کے شکار ، میڈلز اور تعریفی اسناد کے طلب گارعدالت میں موجود لتریشن سپیشلسٹ پولس والوں کو شرم سے بغلیں جھا نکنے پر مجبور کر نے کے علاوہ تما فرد ہائے جُرم کو بُھک سے اُڑا کے رکھ دیا۔

ایسے واقعات، بعض اوقات کُچھ ضمیر فروش کھوجیوں اور فنکارچوروں کے مابین خُفیہ گٹھ جوڑ یا معاشرے کے رسہ گیر بااثر افراد کی طرف سے اصل چوروں کی پُشت پناہی کی وجہ سے بھی پیش آتے ہیں۔ اِیسے ہی مُنافقانہ گٹھ جوڑوں کے بارے میں ہی پنجاب کے دیہاتوں میں کہا جاتا ہے کہ،" کُتی چوروں نال مِل گئی اے!" ایسے چوروں کا دا اگر تواتر سے لگتا رہے، اور اپنی کوتاہ بینی یا کم کوشی کی وجہ سے وسیب کے نام نہادسیانے اور سُراغ رساں اُنکا کھوج لگانے میں یُوں ہی ناکام ہوتے رہیں، تو رفتہ رفتہ یہ چور بلا کی طاقت حاصل کرکے ایک مافیا کی شکل اختیار کر جاتے ہیں؛ پھر تو خوف کے مارے کھوجی اِن اَتھرے چوروں کی ہیبت کی وجہ سے کُھرا پہچان لینے کے باوجود بھی ، بر سرِ الزام انکا کا نام لینے کی جُرائت نہیں کرتے ؛ دانشمند" ساد" بھی اِن کی طرف اُنگلی اُٹھا کر اُنکے یا ُانکے چیلے چانٹوں کے ہاتھوں اپنی کُھمب ٹھپوالینے سے مسروقہ مال کو ہی ،" پِھٹا" سمجھنے میں ہی عافیت جانتے ہیں؛ ایک وقت ا یسا آتا ہے ،کہ اندروں اندری ،اُنہیں چور اور جرائم پیشہ گرداننے کے باوجود، شُرفاء ،دافع شر کے طور،اپنے دِل کی بات اپنی زبان پر لانے کو خلافِ دانش سمجھنے لگتے ہیں اور مصلحتوں کا شکار ہو کر رہ جاتے ہیں ؛ ِاسی وقت کا تو اِن ناہنجاروں کو انتظار ہوتا ہے جسکا بھر پور فائدہ اُٹھاتے ہوئے یہ معاشرے کو آکٹوپس کی طرح اپنے چُنگل میں جکڑ لیتے ہیں اور شریف شہریوں کو اپنے اشاروں پر نا چننے پر مَجبُور کر دیتے ہیں؛ اِن ناسوروں کی معاشرے پر گرفت جب حد سے زیادہ مضبوط ہو جاتی ہے تو نام نہاد مُعززین کے لئے اُ نکی شان میں قصیدے پڑھنے کے ساتھ ساتھ پگڑی اُچھالے جانے سے بچنے کے لئے کچھ اِ س طرح سے اُن مُٹھی بھر افراد کی مذمت کرنے کی ادا کاری کے علاوہ اور کوئی چارہء کار نہیں رہتاجو " اصلی تے وڈے" چوروں لبریز معاشرے کے اِس ڈاہڈے طبقے کے خلاف زبان درازی کی جُرائت کرتے ہیں؛
چور اِک شخص مُکرم ہے میری بستی کا
جو اِسے چور کہے گا وہ کمینہ ہوگا
 میرے عزیز پاکستانی ہم وطنوں کو بھی کُچھ ایسی ہی صورتِ حال کا سا منا رہاہے؛ اِن نمانوں کے اربابِ اختیار ب اور نام نہاد راہُنمادھڑلے سے چوری بھی کرتے ہیں، چور بازاری بھی کرتے ہیں، سینہ زوری سے بھی بعض نہیں آتے ، نت نئی کہ مکرنیاں( U ٹرنز) کا ارتکاب کرتے بھی انہیں رتی بھر شرم بھی نئی آتی۔

اُلٹا ان کہ مکرنیوں کے اولین شکار نمانے عوام کے زخموں پہ یہ کہ کر نمک چھڑکتے رہتے ہیں کہ، " آپ نے بطور عظیم لیڈرز کے لیئے گئے ہمارے u ٹرنز سے گھبرانا نئی ہے ․ جیسے ہم ڈ ھیٹوں نے اپنی گندی کارکردگی و کارگزاری پہ شرمانا نئی ہے۔"۔۔مگر کوئی دبے لفظوں میں بھی اُنہیں چور یا بے مرشدا لٹو کہ بیٹھے تو فوراً مائنڈ کر جاتے ہیں اور اپنی پہلی فُرصت میں اقتدار کے کسی ایوان میں ایسی جسارت کرنے والے کے خلاف ایک عدد تحریکِ استحقاق پیش کرڈالتے ہیں ؛ جسکے منطقی انجام کے طور پر اربابِ اقتدار کے سرکاری اور غیر سرکاری چیلے چانٹوں کے ہاتھوں اپنے کھنے سنکوا لینے والا ایسا گُستاخ ر زُبانِ حال سے پُکار اُٹھتا ہے۔

۔۔ ۔۔
 ظالموں کو کہیں ہمدرد تو شاباش ملے
 مور کو مور کہیں تو وہ بُرا مانتے ہیں
مان لیں ہم جو لُٹیروں کو جو لیڈر تو وہ خُوش
 چور کو چور کہیں تو وہ بُرا مانتے ہیں
صد حیف، وطنِ عزیز میں بیشتر اہم عُہدوں پر تعینات لوگ اپنی زمہ داریوں کے ساتھ وہی سلوک کر رہے ہیں جو دودھ کی راکھی پر بٹھائی گئی بلی دودھ کے ساتھ کیا کرتی ہے؛ نیچے سے اوپر تک کرپشن روکنے کے لئے جو عملہ تعینات کیا جاتا ہے وہ اپنے فرائض منصبی کچھ اِس طرح سے ادا کر رہے ہیں جس طرح سے خالص دودھ کا گلاس پینے کے خواہش میں ایک نوکر کی بے ایمانی پکڑے جانے پر اُس پر ایک نگران بٹھانے اور پے در پے نگرانوں پہ نگران بٹھاتے جانے والے اُس مالک کے" مُک مُکا "کے ماہر نوکروں نے ادا کئے تھے جسے بالآخر سوتے میں اُنکے ہاتھوں دودھ کے مکمل گلاس سے محروم ہونے کے بعد، اُن ناہنجاروں کی طرف سے اُسکے ہونٹوں پر لگائی جانے والی دودھ کی دُبلی پتلی لکیر پر ہی اکتفا کرنا پڑا تھا؛ پاکستان کا ریاستی، سماجی اور معاشی ڈھانچہ کُچھ اِ سی قسم کے شیطانی چکر کا سا منظر پیش کر رہاہے۔

یہاں نہ چور کا پتہ چلتا ہے نہ ساد کا؛ چور پکڑے جائیں تو بعد میں پتہ چلتا ہے کہ وہ تو سادہ لِباس میں پولیس والے تھے جبکہ ایسی خبریں بھی میڈیا کی زینت بنتی رہتی ہیں کہ اصلی چور پولیس کی نقلی وردی پہن کر کسی گھر کا صفایا کر گئے ہیں؛ اخلاقی گراوٹ کچھ اِس درجہ کو پہنچ چُکی کہ۔ ۔۔
اب تو یہ بھی خبر نہیں اے شاد
 کون کس کا کا کفن چُرا لے جائے؟۔

۔
 نمانی پا کستانی قوم نے اپنی تاریخ کا وہ پُر آشوب دور بھی دیکھا ہے کہ ایک کامیاب قومی تحریک کے بعد بحال ہونے والی اُنکے وطن کی عدالتِ عُظمیٰ ِ جُرم ثابت ہونے پربڑی بڑی قومی چوریوں اور چور بازاریوں میں ملوث با اثر ملزموں کو جب بھی سزا سناتی تھی، تو بزریعہ این۔آر ۔او مجریہ 2007) (اقتدار کے ایوا نوں تک رسائی حاصل کرنے والے نیب زدہ ،پاکستانی حُکام قانون کا بازو اور آئین کی ناک موڑ توڑ کر فیصلے کے سیاہی خُشک ہونے سے پہلے اُنہیں رہا کرکے کر کسی اعلیٰ منصب پر فائز فر ما دیا کرتے تھے ؛ اکیسویں صد ی کی دوسری دہائی کے اختتامی سالوں میں حقیقی تبدیلی بربا کرنے کے دلفریب نعروں کے زور پر برسرِ اقتدار آنے والی انصافی حکومت کے دور میں بھی یہ چور بازاری نہ صرف جاری رہی بلکہ اور مہمیز ہوتی گئی؛ اس نام نہاد انصافی دور میں بھی پہلی حکومتوں کے دور میں قومی وسائل پر جی بھر ہاتھ صاف کرنے والا جو بد عنوان بھی حکومتی صفوں میں شامل ہو جاتا ، فوراً پوتر اور دودھ کا دُھلا قرار دے دیدیا جاتا اور اُس کے سب سیاہ کاریاں یکسر فراموش کر دی جاتیں؛ اس طرح ایسے صاحبانِ اختیار اپنے عمل سے قانون کا مُنہ چڑانے کے علاوہ، چھوٹے چوروں کو ترقی کرکے بڑے اور وائٹ کالر کلاس کے چور بننے کی کُھلے عام ترغیب دیتے تھے اور دیتے ہیں۔

۔اللہ پا کستان پر اور اِس جیسے دیگر ملکوں کی حالتِ زار پر رحم فرمائے جہاں مگر مچھ سائز کے کنگ سائز چور مکرمین کی حیثیت اختیار کر چُکے ہیں؛ ایسی افسو سناک صورتِ حال کا مُکرر نظارہ کر تے رہنے والے ہر صاحبِ بصیرت کا ِدل اپنے وطن کی تعمیر وترقی کے بارے بارے میں طرح طرح کے وسوسوں کا شکا ہوکر رہ جاتا ہے؛ ایک مُحبِ وطن سرائیکی شاعر کے بقول۔

۔۔
قانُون جتھا ں کمزور ہوئے ،
 ہر عادل رشوت خور ہوئے،
 ڈس مُلک ترقی کر سکدا اے ،
 جس مُلک دا حاکم چو ہووے
 پا کستان جیسے ممالک میں،"اندھیر نگری چوپٹ راج" کی سی صورتِ حال ضرور رہی ہے مگر اللہ کے ہاں دیر ہوتی ہے مگر اندھیر نہیں۔۔ ایک نہ ایک دِن چھوٹے اور بڑے سب چور گرفت میںآ کر ہی رہینگے کیونکہ یہ ایک مسلمہ امر ہے کہ،" سو دن چور کے اور ایک دِن ساد کا "

ادارہ اردوپوائنٹ کا کالم نگار کی رائے سے متفق ہونا ضروری نہیں ہے۔

تازہ ترین کالمز :