
چور، چور بازار اور چور بازاری۔۔۔!
جمعہ 23 اکتوبر 2020

سید تنصیر حسین
کھڑا ہے دیر سے چکرا رہا ہے
جو آیا ہے کلا شنکوف لے کر
فٹا فٹ کیش لے کر جا رہا ہے
(جاری ہے)
۔ع۔۔" دیتے ہیں دھوکہ یہ بازی گر کُھلا" کے مصرع کی عملی تفسیر پیش کرتے ہوئے ہیرا پھیری اور چکنی چُپٹی باتوں کے زریعے کسی سادہ لوح سے اُسکی کوئی چیز یا نقدی اینٹھ لے تو وہ "ٹھگ" یا "نوسرباز" کہلاتا ہے؛ ۔
۔ڈاکو بننے کے لئے شیر کے دل مگرموٹی عقل کا مالک ہونا ضروری ہے ؛ ٹھگ یا نو سر باز چالاک اور شاطر ہوتا ہے مگر قدرے کم ہمت ہوتا ہے جبکہ چور پرلے درجے کابزدل مگر کیمو فلاج اور دیواروں میں" سن(شگاف)" لگانے اور نقب زنی کے فن میں یکتا ہوتا ہے؛ لیکن مشن معاشرے کے اِن تینوں گھناؤنے کرداروں کا ایک ہی ہوتا ہے یعنی۔۔ کسی نہ کسی طرح دوسروں کو اُنکی خون پسینے سے کمائی ہوئی دولت ,عزیز اشیاء اور عزت وآبرو سے محروم کرنا ؛ خالد مسعود# کے الفاظ ۔ ۔۔موقع ملاتوچوری ووری کر چھڈ ی موڈ ہُوا تو دکھو زوری کر چھڈی۔۔۔معاشرے کے اِن ناسوروں کے طرزِ عمل کی بھر پُور عکاسی کرتے ہیں؛ دوسروں کی جان و مال کے درپے کُچھ ایسے جرائم پیشہ لوگوں کو بجا طور پر" تھری اِن ون" کہا جا سکتا ہے کیونکہ یہ گرگٹ کے رنگ بدلنے کے سے انداز میں حسبِ موقع چور ،ڈاکو، یا ٹھگ کا روپ دھار لینے کی بھر پُوراستطاعت رکھتے ہیں؛ یہ شعرقتیل شفائی# مرحوم نے شاید ایسے ہی ہر فن مولا لُٹیروں کے بارے میں ہی کہا ہے۔۔۔ایک چہرے پر کئی چہرے سجالیتے ہیں لوگ
سب کہتے تھے کاٹو گے تُم جو تھا تُم نے بویا
کچھ زیادہ ہی کٹھور دِل ،دل چور جب اپنی نظر کے پے در پے ڈرون حملوں سے بھی اپنی من پسند ہستی کے دِل کوگھائل کرنے میں کامیاب نہیں ہوتے تو دِ ل کے ڈاکو ں کا روپ دھارتے ہوئے سینہ زوری پر اُتر آتے ہیں اور زورا زوری، اپنے محبوب المعروف" ماہی "کواپنی زُلفوں کا قیدی بناکر چھج پتاسے ونڈنا شروع کر دیتے ہیں؛ ایسے سرقہء قلب بالجبر کرنے والے چور یا ڈاکوخود ساختہ محرم کا روپ دھار کر اپنے محبوب پر قانونِ عشق کی ایسی دفعہ فِٹ کرکے اُنہیں عمر قید کی سزاکا حُکم سُنانے کی شدید خواہش دِ ل میں لئے ہوتے ہیں جسکے روبہءِ عمل ہونے کے بعد ہمیشہ ہمیشہ کے لئے اُنکا محبوب اُنکے گھڑے کی مچھلی بن کر رہ جائے؛ اسکے برعکس بعض سنگدل دِل چور اپنے پُر خلوص چاہنے والوں سے کچھ اِس طرح سے دبے پاؤں خلاصی کرا کے پردیس پدھار جاتے ہیں کہ اُن بیچارے ہجر کے ماروں کی ساری عُمر اِ ن سجن بے پرواہوں کے انتظار میں کچھ اِس قسم کے دُکھڑے گاتے،سُنتے اورسُناتے گُزر جاتی ہے۔۔ "چوری چوری کنڈ چا ولایایو وے پر دیسیا"۔۔۔ عشق اور محبت کا تو آغاز تو ہوتا ہی چوری سے ہے؛ دِل کی چوریوں کا گراف دیگر اقسام کی چوریوں کے مقابلے میں ہمیشہ ہی بُلند رہا ہے؛ بھلے وقتوں میں بیچارے سادہ لوح عاشق مدتوں دوسروں سے اکھیاں چُرانے اور باہم اکھیاں ملانے کے لئے مُدتوں ترلے لیا کرتے تھے تب کہیں جاکر اُنکی لائن مل پاتی تھی ؛شاید ماضی کی اِسی عشقیہ سُست رویی کے پیش نظرکرسید ضمیر جعفری # مرحوم نے کن انکھیوں کی وکٹ پر کھیلی جانے والی دلوں کی چوریِ کی اِیسی طویل ٹیسٹ سیریز کو " چور بازاری" کے ہم پلہ قرار دیا تھا؛۔
عشق بھی ہے اِک طرح کی چور بازاری کا نام
چوروں کی ایک اور ورائٹی معاشرے کے اُن نام نہاد کیمو فلاجڈ، فنکار شرفاء پر بھی مُشتمل ہوتی ہے جو چوری کی ٹھرک پُوری کر تے ہی کمال پُرکاری کے ساتھ اپنے شکار ، حواس باختہ" ساد" کی معیت میں،،"چور مچائے شور" کے محاورے کا عملی مُظا ہرہ پیش کرنا شروع کر دیتے ہیں؛ یہ اپنی لچھے دار باتوں اور کامل اداکاری سے ساد، اُسکے طلب کردہ کھوجیوں اور جائے واردات کے ارد گرد کے وسیب مُسلمہ سیانوں کو کُچھ اِس طرح سے مُطمئن کر دیتے ہیں، کہ پے در پے وار یاں (Missions) مکمل کرلینے پر بھی مطلوبہ چور کاکھرا پکڑنے میں ناکامی اور پینتروں کی طرح گویڑ پر گویڑ بدلنے کے باوجود ،، ہرواری پر اپنے ہم رِ کاب معاونین اور تماش بینوں کی منڈلی میں ،آستین کے سانپوں کے مصداق گُھسے اِن چالبازوں کی چال، ڈھال ، پاؤں اور پاپوش پر بھی ایک نظر ڈال لینے کا سوچتے تک نہیں؛ ایسے میں ، بسا اوقات جھنجھلاہٹ کے شکار ، لال بُجھکڑ ٹائپ کھوجی،" اے ضرور کسے چور دا کم اے"۔۔ٹائپ کوئی مخولیہ سا فتویٰ صادر کرکے معاملے سے اپنی گُلو خلاصی کروالیتے ہیں یا پھر اپنی فنِ سُراغ رسانی کی ساکھ کو بچانے کے لئے سراسر مُغالطے پر مبنی اُنکے فیصلے کا خمیازہ سنگدل پو یس کے ہاتھوں ہونے والی چھترول یا پنچایت کی طرف سے ڈالی جانے والے جُرمانے (چَٹی )کی مُدعیوں کوادائیگی کی صُورت میں کسی بیگُناہ کو بُھگتنا پڑتا ہے؛ یوں، وہ بیچارا،مالی اور جسمانی اذیت اٹھانے کے ساتھ ساتھ، وسیب اور پولیس کی نظر میں راندہء درگاہ ٹہرنے کی وجہ سے،" بد اچھا، بدنام بُرا" کی مُجسم تصویر ا بھی بن کے رہ جاتا ہے؛ ایسے ہی ایک چور کو جب خانیوال کے ایک میجسٹریٹ کی عدالت میں پیش کیا گیا تو وہ بے چُون و چُرا ہر اُس جُرم کے ارتکاب کا اقبال کرتا گیا ، جسکاالزام پولیس نے اُسکے سرتھوپا تھا؛ اِس وکھری ٹائپ کے اقراری چور کے انوکھے رویہ پر میجسٹریٹ صاحب سمیت سب حاضرینِ عدالت انگشت بدنداں تھے؛ جب اُسے سب فرد ہائے جُرم سُنائی جا چُکیں ، تو چور موصوف نے میجسٹریٹ صاحب کو مُخاطب کرتے ہوئے دست بستہ عرض کی،"صا حب ہک منٹ!، پولس آلے وچارے، اک الزام میرے گُناواں دی فہرست چے شامل کرن تُوں چُوک گئے ہن؛اے خانیوال دے ریلوے چھیڈ Railway Shed))وچوں پَرہک انجن چوی گیا ہائی، او ای میں چا یا ہائی!" بھاری بھرکم انجن اُٹھا لینے کے اس طنزیہ اقرارِ جُرم کے نتیجے میں جہاں عدالت میں گُونجتے فلک شگاف قہقہوں نے اپنی نام نہاد اعلیٰ کارکردگی پر احسا سِ تفاخر کے شکار ، میڈلز اور تعریفی اسناد کے طلب گارعدالت میں موجود لتریشن سپیشلسٹ پولس والوں کو شرم سے بغلیں جھا نکنے پر مجبور کر نے کے علاوہ تما فرد ہائے جُرم کو بُھک سے اُڑا کے رکھ دیا۔ ایسے واقعات، بعض اوقات کُچھ ضمیر فروش کھوجیوں اور فنکارچوروں کے مابین خُفیہ گٹھ جوڑ یا معاشرے کے رسہ گیر بااثر افراد کی طرف سے اصل چوروں کی پُشت پناہی کی وجہ سے بھی پیش آتے ہیں۔ اِیسے ہی مُنافقانہ گٹھ جوڑوں کے بارے میں ہی پنجاب کے دیہاتوں میں کہا جاتا ہے کہ،" کُتی چوروں نال مِل گئی اے!" ایسے چوروں کا دا اگر تواتر سے لگتا رہے، اور اپنی کوتاہ بینی یا کم کوشی کی وجہ سے وسیب کے نام نہادسیانے اور سُراغ رساں اُنکا کھوج لگانے میں یُوں ہی ناکام ہوتے رہیں، تو رفتہ رفتہ یہ چور بلا کی طاقت حاصل کرکے ایک مافیا کی شکل اختیار کر جاتے ہیں؛ پھر تو خوف کے مارے کھوجی اِن اَتھرے چوروں کی ہیبت کی وجہ سے کُھرا پہچان لینے کے باوجود بھی ، بر سرِ الزام انکا کا نام لینے کی جُرائت نہیں کرتے ؛ دانشمند" ساد" بھی اِن کی طرف اُنگلی اُٹھا کر اُنکے یا ُانکے چیلے چانٹوں کے ہاتھوں اپنی کُھمب ٹھپوالینے سے مسروقہ مال کو ہی ،" پِھٹا" سمجھنے میں ہی عافیت جانتے ہیں؛ ایک وقت ا یسا آتا ہے ،کہ اندروں اندری ،اُنہیں چور اور جرائم پیشہ گرداننے کے باوجود، شُرفاء ،دافع شر کے طور،اپنے دِل کی بات اپنی زبان پر لانے کو خلافِ دانش سمجھنے لگتے ہیں اور مصلحتوں کا شکار ہو کر رہ جاتے ہیں ؛ ِاسی وقت کا تو اِن ناہنجاروں کو انتظار ہوتا ہے جسکا بھر پور فائدہ اُٹھاتے ہوئے یہ معاشرے کو آکٹوپس کی طرح اپنے چُنگل میں جکڑ لیتے ہیں اور شریف شہریوں کو اپنے اشاروں پر نا چننے پر مَجبُور کر دیتے ہیں؛ اِن ناسوروں کی معاشرے پر گرفت جب حد سے زیادہ مضبوط ہو جاتی ہے تو نام نہاد مُعززین کے لئے اُ نکی شان میں قصیدے پڑھنے کے ساتھ ساتھ پگڑی اُچھالے جانے سے بچنے کے لئے کچھ اِ س طرح سے اُن مُٹھی بھر افراد کی مذمت کرنے کی ادا کاری کے علاوہ اور کوئی چارہء کار نہیں رہتاجو " اصلی تے وڈے" چوروں لبریز معاشرے کے اِس ڈاہڈے طبقے کے خلاف زبان درازی کی جُرائت کرتے ہیں؛
جو اِسے چور کہے گا وہ کمینہ ہوگا
مور کو مور کہیں تو وہ بُرا مانتے ہیں
مان لیں ہم جو لُٹیروں کو جو لیڈر تو وہ خُوش
چور کو چور کہیں تو وہ بُرا مانتے ہیں
کون کس کا کا کفن چُرا لے جائے؟۔۔
ہر عادل رشوت خور ہوئے،
ڈس مُلک ترقی کر سکدا اے ،
جس مُلک دا حاکم چو ہووے
ادارہ اردوپوائنٹ کا کالم نگار کی رائے سے متفق ہونا ضروری نہیں ہے۔
تازہ ترین کالمز :
سید تنصیر حسین کے کالمز
-
آمریت کے بلے کی گردن میں آئین کی گھنٹی۔۔۔!
جمعرات 3 دسمبر 2020
-
چور، چور بازار اور چور بازاری۔۔۔!
جمعہ 23 اکتوبر 2020
-
ووٹراور اُمیدوار
بدھ 7 اکتوبر 2020
-
چندچیدہ چیدہ موزی حشرات القوم
بدھ 16 ستمبر 2020
-
کلر بلا ئنڈ۔۔۔۔۔!
منگل 18 اگست 2020
-
قُربانی کے بکرے۔۔۔ !
جمعہ 31 جولائی 2020
-
فقیر۔۔۔ !
بدھ 29 اپریل 2020
-
تبدیلی۔۔۔!
بدھ 15 اپریل 2020
سید تنصیر حسین کے مزید کالمز
کالم نگار
مزید عنوان
UrduPoint Network is the largest independent digital media house from Pakistan, catering the needs of its users since year 1997. We provide breaking news, Pakistani news, International news, Business news, Sports news, Urdu news and Live Urdu News
© 1997-2025, UrduPoint Network
All rights of the publication are reserved by UrduPoint.com. Reproduction without proper consent is not allowed.