فقیر۔۔۔ !

بدھ 29 اپریل 2020

Syed Tansir Hussain

سید تنصیر حسین

 مشہور صوفی شاعر بابا بلھے شاہ نے اپنے اس شعر میں ایک فقیر کو مخاطب کرتے ہوئے خلقِ خدا کو کامیاب زندگی گُزارنے کا موئثر گر مرحمت فرمایا تھا۔۔۔۔۔۔۔۔
۔۔۔۔۔۔ # دُنیا دے وچ رکھ فقیرا اے جیہ بین کھلون  تُوں ہوویں تے ہسن سارے ،نہ ہوویں تے رون۔۔۔ اُنکے مخاطب وہ فقیر تھے جنکی اس دنیائے فانی میں معتبر سمجھی جانے والی بہت سی مادی اشیاء سے بے نیازی کا زکر علامہ اقبال نے کچھ اس انداز سے کیا ہے :۔

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
 ۔۔۔۔۔۔۔۔۔ # نگاہ، فقر میں شانِ قلندری کیا ہے۔۔۔۔۔ خراج کی جو گدا ہو وہ قیصری کیا ہے؟ ۔۔۔۔یہ اللہ کے وہ بر گزیدہ بندے ہیں جو اپنی حاجات کے لیئے صرف اور صرف خالقِ کا ئنات کی طرف دیکھتے ہیں اور اللہ کے سوا کسی سے نہیں ڈرتے․ انسانوں کے سامنے ہاتھ پھیلانے والو کو بھی ہمارے ہاں فقیر یا گدا کہا جاتا ہے۔

(جاری ہے)

حکیم الاُمت علامہ سر محمد اقبال نے انسانوں سے مانگنے کی روش کو سخت ناپسند فرمایا ہے اور مانگنے کی عادت فقیروں اور سُلطانوں میں یکساں ہونے کی وجہ سے ہر دو اقسام کے لوگوں کو ’ گدا ‘ قرار دیا ہے۔

فرماتے ہیں ۔۔۔ # مانگنے والا گدا ہے صدقہ مانگے یا خراج کوئی مانے یا نہ مانے میر و سُلطاں سب گدا۔۔۔۔۔۔۔ غالباً ’گدا ‘کی اسطلاع اللہ سے مانگنے والے اور انسانوں سے مانگنے والے ہر دو قسم کے فقیروں پر صادق آتی ہے․ مُلتان کے تحفوں کے بارے میں کہا جاتا ہے کہ ’ چہار شے از تحفہء مُلتان ، کرد و گرماں ِگدا و گورستان․ مُلتان میں اولیا اللہ اور بھکاری دونوں ہی بکثرت پائے جاتے ہیں․ شاید ’ گدا ‘ کی اسطلاح اس اکھان میں متعارف کروانے والے کے ذہن میں ہر دوقسم کے فقیر تھے ․ طور واطوار میں ایک دوسرے کی ضد فقیروں کی مزکورہ با لا اقسام کے علاوہ فقیر محمد اور فقیریا جیسے نام کے فقیر اورذات کے فقیر بھی ہوتے ہیں ․ سرِ دست ہمارے مخاطب وہ قابلِ قدر فقیر نہیں جو اگر خلقِ خدا کی بہتری کے لیئے کسی زی روح سے کچھ مانگتے بھی تھے تو انکی شانِ بے نیازی سے دینے والے کی گھگی بندہ جاتی تھی۔

۔۔ # گدائی میں بھی وہ اللہ والے تھے غیور اتنے کہ منعم کو گدا کے ڈر سے بخشش کا نہ تھا یارا۔۔۔۔ نہ ہی ہم فلحال نام کے یا ذات کے فقیرو ں پر خامہ فرسائی کا ارادہ رکھتے ہیں․ ہمارا موضوعِ سُخن وہ پیشہ ور اور ڈھیٹ قسم کے فقیرہیں جنکے غول کے غول ہر شہر ،قصبہ اور گاؤں میں دندناتے پھرتے ہیں ․ جو شہر کی حدود میں داخل ہوتے ہی آپکو یر غمال بنا لیتے ہیں جن میں سے بعض کے بھیک مانگنے کے انداز سے دیکھنے والے کو یہ محسوس ہوتا ہے جیسے وہ مخاطب سے بھیک نہیں قرض مانگ رہا ہے․ شاعر نے اس شعر میں جنم جنم کے بُھو کے ان فقیروں کا ہی زکرِ خیر کیا ہے :۔

۔۔
 # پُوچھا کسی نے یہ کسی کا مل فقیر سے۔۔۔۔۔۔ یہ مہر و ماہ حق نے بنائے ہیں کس لیئے
 بولا وہ ہم تو چاند نہ ہی سُورج جانتے ۔۔۔۔۔ با با ہمیں تو یہ بھی نظر آتی ہیں روٹیاں
 ایسی ہی خصلت رکھنے والے ایک شخص سے کسی نے پو چھا ، ’ بتاؤ دو جمع دو کتنے ہوتے ہیں ؟ ‘ اُس نے منہ سے رال ٹپکاتے ہوئے جواب دیا ، ’ چار روٹیا ں ‘․ ایسے فقیر ہر اس مقام پر سگِ راہ بن کر بیٹھ جاتے ہیں جہاں سے خلقِ خدا کا گزر ہو․ وہ اپنے پا س سے گزرنے والے والے ہر راہگیر کے سامنے یہ یونیورسل دُعا دیتے ہوئے ا دامن پھیلا دیتے ہیں ، ’جو دے اُسکا بھی بھلا، جو نہ دے اُسکا بھی بھلا ‘ مگر اگر کوئی راہگیر انہیں بھیک دیئے بغیرگُزر جائے تو پھر انکے ما تھے کی شکنیں دیکھنے والی ہوتی ہیں․اور انکی باڈی لینگوئیج سے یہ اندازہ لگانا مشکل نہیں ہوتا کہ وہ زیرِ لب بے چارے راہ گیر کو کچھ اس طرح کی بد دُعائیں دے کر اپنا دل ہولا کرتے ہیں۔

۔۔ ’ جو نہ دے اُسکا پھٹے منہ‘ ان پیشہ ور منگتے فقیر وں نے قابلِ قدر فقیروں یعنی اولیا ء اللہ سے منسوب اس روایت کو کہ ’ دُعا فقیر تے رحم اللہ ‘ کو بھی ہائی جیک کر لیا ہے اور اسے اپنا ا ُلو سیدھا کرنے اور لوگوں کو اپنی نام نہاد دُعاؤں کا دیوانہ بنانے کے لیئے ڈھٹائی سے استعمال کر کرہے ہیں․ خدا کے بر گُزیدہ ہستیوں کے گٹ اپ میں نہایت ہی پہنچی ہوئی ہستی ہونے کے دعویدار یہ منگتے بعض اوقاتِ ضعیف العقیدہ لوگوں کو اپنے غضب اور بد دُعاؤں کا ڈراوا دے کر اُن سے بدو بدی ا نذرانہ کی آڑ میں تاوان وصول کرنے میں کامیاب ہو جاتے ہیں․ ان میں سے کچھ پیشہ ور بھکاری خاندانوں سے تعلق رکھنے کے باوجود بلاشبہ لاغر، معزور، یا بیمار ہوتے ہیں․ انکی مدد کرنا صحیح معنوں میں کارِ ثواب ہے مگر انکی اکثریت اُن لوگوں سے کہیں زیادہ ہٹی کٹی اور صحت مند ہوتی ہے جن کے سامنے انہوں نے دامن پھیلایا ہوتا ہے اور ہر گز مدد کی حق دار نہیں ہوتی ․ بھر پور صحت اور جوانیاں ما ننے کے باوجو د پرلے درجے کی ہٹ دھرمی اور بے شر می سے بھیک مانگتا دیکھ کر اُ نہیں کوئی باوقار کام کرنے کا مشورہ بلکل مفت دینے والوں کو یہ کرا را اور ریڈی میڈ جواب ملتا ہے کہ، ’ میاں ! ہم نے آپ سے بھیک مانگی ہے مشورہ نہیں ما نگا ․‘ ایسے ہی ایک کہنہ مشق فقیر کو جب ایک صاحب نے کوئی کام یا کاروبار کرنے کا مشورہ دینے کو اپنی روٹین ہی بنالیا تو اس غیر مطلوب اور ناپسندیدہ مشورے سے اُکتائے ہوئے تجربہ کار فقیر نے رونی صورت بناتے ہوئے ان حضرت کی خدمت میں عرض کی، ’ باؤ جی ! میں نے آپ کا کوئی نقصان کیا ہے ؟ ‘ وہ صاحب بولے ، نہیں تو ! مگر تم نے یہ کیسے سوچ لیا کہ تم نے میرا کوئی نقصان کیا ہے؟ ’ مائی باپ ایک گدا گر کو گدا گری جیسا منافع بخش کام چھوڑ کر کہ جس میں نہ تو کوئی پیسہ ہی لگا نا پڑتا ہے اور نہ ۔

ہی گھاٹے کا کھٹکا ہوتا ہے، کسی بھی قسم کا کوئی کا روبار شروع کرنے کا احمقانہ مشورہ وہی بندہ دے سکتا جسکا اس گدا گر نے کوئی نُقصان کیا ہو یا وہ اُس سے کوئی پرانی رڑک رکھتا ہو․ ‘ ایک مصروف چوک میں ایک فقیر اُسکے تئیں ایک شوم بندے سے کافی دیر سے بھیک ما نگ رہا تھا مگر اسکی ہر التجا کے جواب میں موصوف تیوڑی چڑھا کر فقیرِ مزکور کو باآواز بُلند یہ مشورہ دے ڈالتاکہ، ’ ٹماٹر کھا ؤ ‘․ ٹماٹر کے آسمان سے باتیں کرتے نرخ کے زمانے میں جب ا س صاحب نے فقیر کو بھیک دینے کی بجا ئے ۔

’ ٹماٹر کھانے ‘ کا جیب شکن مشورہ ایک تواتر کے ساتھ دیا تو فقیر سے نہ رہا گیا․ اُ س نے نے دست بستہ عرض کی ، ’ باؤ جی ! کُجھ عقل نوں ہتھ مارو :میں غریب نمانا اینے مہنگے اور سودیاں سے بھی نہ لبھنے والے ٹماٹر کھانے کی عیاشی کا کیسے متحمل ہوسکتا ہوں ! ‘ قریب ہی ایک اور صاحب کھڑے کا فی دیر سے مسکراتے ہوئے فقیر اور اس صاحب کی یہ دلچسپ تکرار سُن رہے تھے ․ انہوں نے فقیر کا کندھا پکڑ کر معنی خیز مُسکراہٹ بکھیرتے ہوئے کہا ’ با بیو! یہ صاحب ہمارے ہمسائے ہیں او ر جماندروں توتلے ہیں․ یہ آپ کو ’ٹما ٹر کھانے ‘کا نہیں بلکہ ’ کما کر کھانے ‘ کا مشورہ عنایت فرمارہے رہے ہیں․‘ وقت کے ساتھ ساتھ جیسے دوسرے اقدار اور رسوم ورواج بدل گئے ہیں بلکل اسی طرح فقیروں کے رنگ ڈھنگ اور معیار بھی بدل گئے ہیں․ پرانے زمانے کا لچڑ سے لچڑ فقیر بھی آج کے لسُوڑی ٹائپ ‘ فقیر سے کئی درجہ قْانع نظر آتا ہے․اگلے وقتوں کا فقیر ایک مُٹھی آٹا یا چند ٹکے حاصل کر کے دینے والے کو سخی قرار دے کر اسکے لیئے دُعاؤں کا انبار لگا دیتا تھا مگر آج کا بے صبر ا فقیر پنے چُنگل میں پھنسے ہوئے شخص سے ایک ہی نشست میں متعدد اشیا ء اور ریزگاری بھیک کی آڑ میں تا وا ن وصول کرنے کے باوجود اُسکے جائے وقوعہ سے دُم دبا کر بھاگ جانے تک اپنی ’ہلمن مزید ‘ کی گردان جاری رکھتا ہے․ آج کے فقیر کی ڈیمانڈ ایک مٹھی آٹا اور چند سکوں سے بڑھ کر برگر کھلانے، جوڑا دلوانے اور کم از کم دس کا نوٹ تھمانے تک جا پہنچی ہے․ اطہر شاہ خان جیدی # کو بھی شاید کسی ماڈرن فقیر سے گلو خلاصی کرانے کے لیئے اسے برگر کھلانے پڑے تھے جسکی روئیدا دسُناتے ہوئے وہ فرماتے ہیں :۔

۔۔۔۔ ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ # کیا بھلے وقت تھے وہ اگلے زمانے کہ فقیر مل گیا آٹا تو خوش ہو کے پکڑ لیتا تھا
 اب یہ نوبت ہے کہ کل ایک بھکاری نے کہا دس روپے دے یا نہ دے ، بر گر ہی کھلا دے با با۱
 گویا عام لوگوں کی طرح فقیروں میں بھی برگر فیمیلیاں اپنی جگہ بنا چُکی ہیں جن سے تعلق رکھنے والے فقیر کھانے کو روٹی کی بجائے برگر اور ہنڈانے کو پرانے کپڑوں اور اُترن کی بجائے نئے سُوٹ مانگتے ہیں․ گزشتہ ماہِ رمضان کے آخری عشرے میں ایک روز میں نے شہر خانیوال کے اکبر بازار میں ایک بظاہر نابینا فقیر کو دیکھا جو اپنے ساتھی کے شانوں پر ہاتھ ٹکائے مسلسل یہی راگ الاپے جائے رہا تھا ، ’ ہے کوئی سخی جو اس انھے مُورے کو نیا سُوٹ سلوا کر دے ! ‘ کہنے والے تو کہتے ہیں کہ ’ فقیروں اور بھکاریوں کو انتخاب کا حق حاصل نہیں ہوتا ‘ مگر اس قسم کے فقیر ان ا قدار اور اقوال کا بھی وہی حشر کر نے پر تُلے ہوئے ہیں جو ہمارے اکثر حُکمران ، بلخصوص بدو بدی دے پروہنے ‘ ، ہمارے ملک کے بد قسمت آئین کی بیشتر دفعات کا کرتے رہتے ہیں․ ان ٹیڈی مزاج فقیروں کے تقاضے اگر اسی طرح بڑھتے رہے تو یقیناً آنے والے وقت کا فقیر کھانے کو عام برگر کی جگہ میکڈونلڈ برگر اور واش اینڈ ویئر کے حقیر مگر نئے سُوٹ کی بجائے ’اصلی تے مہنگی کرنڈی اور بیش قیمت تھری پیس سُوٹ سے کم خیرات میں لینے سے پہلے آپ کا پیچھا نہیں چھوڑ ے گا․
جیسے مشہور شاعر انور مسعود# خوشامد بھی بذریعہ چُھری بڑے رعب سے کرنے کے دعویدار ہیں اسی طرح دورِ حاضر کے ہٹ دھرم بھکاریوں میں سے بعض تو بھیک بھی بڑے رُعب سے اور ڈنڈے کے زور پرلیتے ہیں․ کچھ جلالی فقیر اچھی ٹپ ٹاپ کے ساتھ بسوں، ویگنوں اور ٹرینوں میں سوار ہوجاتے ہیں اور گرجدار آواز میں اعلان کرتے ہیں کہ وہ کوئی فقیر نہیں․․․ اس پر تمام مسافر اطمینان کا سانس لیتے ہیں اور تجسس کے ساتھ اُنکا منہ تکنے لگتے ہیں کہ دیکھیں کہ اعلیٰ حضرت اب کوئی سیاسی تقریر فرمانے والے ہیں یا کسی کمپنی کے مال کی کمپنی کی مشہوری کے لیئے ارزاں نرخو ں پر لُوٹ سیل لگانے والے ہیں․ مگر صد حیف ! ایک توقف کے بعد وہ حضرات اپنے کسی عزیز کے حادثے، بیماری، آپریشن یا کسی ایسے ہی سانحہ کی رٹی رٹائی رام کہانی سُناکر انتہائی بُھونڈے طریقے سے بھیک مانگنا شروع کردیتے ہیں․ بعض بھکاری صدا لگانے کی بجائے کسی گھر کا دروازہ کھٹکھٹا تے ہیں یا کال بیل جاتے ہیں․ اسپر گھر کا کوئی فرد سب کام چھوڑ کر جب دروزہ کھولتا ہے تو سامنے کسی ملنے والے کی بجائے کشکول تھامے کسی بھکاری یا ایک کاپی تھامے مدرسے کا چندہ مانگنے والے سے مُڈ بھیڑ ہونے پر اسکا خون کھولنے لگتا ہے اور اسکا جی کرتا ہے کہ وہ اس وکھری ٹائپ کے فقیر کو خیرات دینے کی بجائے اس سے سے وہی سلوک کرے جو کئی منزلہ بلڈنگ کی دسویں منزل پر رہنے والے ایک صاحب نے کیا تھا جنکے فلیٹ پر ایک مرتبہ وقفے وقفے سے بج اُٹھنے والی گھنٹی نے انہیں مجبور کردیا کہ وہ بزریعہ زینہ گراؤنڈ فلور پر جاکر معلوم کریں کہ ناگزیر ملاقات کا خواہش مند کون انکے فلیٹ کی بیل بجائے جارہا تھا مگر ہانپتے کانپتے جب وہ صاحب گراؤنڈ فلور پر پہنچے تو وہاں ایک فقیر کو کشکول ہاتھ میں تھامے اپنا مُنتطر پا یا․ اُسے غصہ تو بہت آیا مگر اُس نے اِسکا اظہار نہ ہونے دیا․ چہرے پر مُسکراہٹ بکھیرتے ہوئے اس نے فقیر مذکور کو اپنے پیچھے آنے کا کہا․ فلک بوس توقعات ذہن میں لیئے فقیر ان صا حب کے پیچھے پیچھے سیڑھیاں چڑھنے لگا ․ جب وہ صاحب دسویں منزل پر اپنے فلیٹ کے دروازے پر پہنچے تو ایک لمبی سانس لیتے ہوئے پیچھے مُڑے اور بری طرح سے ہانپتے فقیر کو عاجزی سے کہا ، ’ معاف کرو بابا ! ‘ اسے کہتے ہیں جیسے کو تیسا ․‘۔

۔۔ ۔۔ ...
 بعض فقیر بے سُرے ہونے کے باوجود گا کر مانگتے ہیں․ ہوسکتا ہے کہ وہ یہ سوچ کر ایسا کرتے ہوں کہ اگر کوئی شوق سے خیرات نہیں دے گا تو پھر ہمارے گانے سے اپنے کانوں کو بچانے کے لیئے تو ضرور با ضرور جیب ہلکی کرنے پر مجبور ہوجائے گا․اپنے تئیں تان سین ایسا ہی ایک فقیر ایک باعزت گھرانے کے دروازے پر یہ گانا گا گا کر بھیک مانگے جارہا تھا ،’ دس میں کی پیار وچوں کھٹیا کول رہ کے جدائیاں مار سُٹیا ‘ صاحبِ خانہ ہائی بلڈ پریشر کے مریض تھے ․ اپنے دروازے پر اُس فقیر کو نغمہ سرا دیکھ کر انکا تو پارا ہی چڑھ گیا ․ اس نے فقیر کو خیرات دینے کی بجائے اُسکی دُھنائی کرکے وہاں سے بھگا دیا․ مگر فقیر مزکور بھی دھن اور گن دونوں کا پکا تھا․ اس نے چند قدم کا فاصلہ طے کرنے کے بعد ہی باآواز بُلند تان وہیں اٹھائی جہاں سے ٹوٹی تھی ، ’ عاشقاں دا کم ہوندا ہمتاں نہ ہارناہو! ہواواو۔

۔۔ ‘ اسپر وہ صاحب سٹپٹا کر رہ گئے․ ہمارے لڑکپن میں ہمارے محلے میں اسطرح کے کئی گُلوکار فقیر بھیک مانگنے آیا کر تے تھے․ ان میں مرد فقیروں کا ایک جو ڑا بھی شامل تھا جن میں سے ایک سُر کے ساتھ ایک کے بعد دوسری دعا دیتا جا تا جب کہ اسکا جونیئر ساتھی اسکا ساتھ دیتے ہوئے ہر دعا یہ فقرے کے بعد محض ، ’ اللہ ہی دے گا ‘ کہتا رہتا․ ہم اس فقیر جوڑے کو نغمہ سرا دیکھنے کے بڑے شوقین تھے․ اسکے ہر فقرے کے بعد ہمیں یہ تجسس گھیر لیتا کہ اب سینئر فقیر کیا کہے گا ! تجسس کے ہاتھوں مجبور ہوکر ایک دن ہم نے اس فقیر جوڑے کے راگ میں ٹانگ اڑا ہی دی اور جونیئر فقیر سے پوچھا ، ’ کیا تمیں معلوم ہے تمہارا ساتھی اب کونسی دعا دے گا ؟ ‘ جونیئر فقیر نے لا پروائی سے کہا ، یہ میرا سر درد نہیں ! اپن کو تو صرف ، ’ اللہ ہی دے گا ‘ کہنے کا طے شُدہ حصہ ملتا ہے․ جن دنو ں ہم دسویں کلاس میں زیرِ تعلیم تھے ، ہمارے سکول کے راستے میں ایک بوڑھے فقیر نے ڈیرے جمائے ہوئے تھے․ جب بھی ہمارے ہم جماعتوں کی ٹولی اس بابے فقیر کے پاس سے گزرتی وہ با آواز ِ بلند ایک ہی دعا دہرا دیتا ، ’ اللہ توانوں پاس کرے پترو ! ‘ کافی عرصے تک یہ سلسلہ جاری رہا ․ ایک دن جب ہماری ٹولی اس عمر رسیدہ فقیر کے پاس سے گُزری تو بابے نے پھر سے وہی رٹی رٹائی دُعا دہرادی۔

ا بھی ہم تھوڑی دور ہی گئے تھے کہ ہمیں احساس ہوا کہ ہما را ایک ’جولی‘ ساتھی ’ افضل ‘ہمارے ساتھ نہیں ہے․ پلٹ کر دیکھا تو افضل کو بابے فقیر سے کچھ اس طرح سے محوِ گُفتگو پا یا ، ’ بابا ہکو دُعا روز دی دے دے کے، نہ ساڈا سر کھا تے نہ اپنے سیل مُکا۔۔۔ روز دا ہک ہک پیسہ ساڈے کھاتے وچ لکھی رکھ۔۔۔ جس دیں پاس ہوگئے تیرا حساب چُکا دے ساں ․ ‘
 شاطر فقیروں نے اپنا اُلو سیدھا کر نے کے لیئے ہر دن کے ساتھ کو ئی نہ کوئی تقدس مختص کر رکھا ہے مثلاً :۔

۔ جُمعرات ، بھری بارات ‘․․․․ دے جا سخیا آج پیر یعنی پیراں دا دیہاڑا اے‘ ․․․ جمعہ کا مبارک دن ہے․․․ دل کھول کر خیرات دو ! اس طرح وہ لوگوں کے جزبات کو کیش کراکے ڈھیروں بھیک سمیٹنے میں کا میاب ہو جا تے ہیں․ اسی طرح انہوں نے ان محلوں کا بھی بھر پور سروے کر رکھا ہوتا ہے جہاں وہ بھیک مانگنے جاتے ہیں اور مختلف اقوام اور طبقات سے تعلق رکھنے والے لوگوں کے گھروں کے دروازوں پر بھیک مانگتے ہوئے انہیں خوشامدی فقروں کی پھوک دے کر بے وقوف بنانے میں کا میاب ہو جاتے ہیں․ شہروں کے مصروف چوکوں میں ایسے فقیر تو آپ نے اکثر دیکھے ہونگے جو اپنی ناک صاف کرنے کی تو ذحمت گوارا نہیں کرتے مگر بغیر کہے آپکی گا ڑی کی ونڈ سکرین صاف کرنے کی خدمت انجام دینا شروع کر دیتے ہیں․اور اس زبردستی کی خدمت کا معاوضہ نہ دینے والوں کو زیرِ لب اور باڈی لینگوئیج کے زریعے ’ پلوتے ‘نکالتے ہیں․ بعض پیشہ ور فقیر قبیلے اپنی خواتین کے زریعے شر فاء کے گھروں کی ریکی کرواتے ہیں اور پھر اسکی روشنی میں انکے مرد چوری، ڈکیتی اور اغوا جیسی گھناؤنی وارداتیں کرتے ہیں․ اللہ تعالیٰ سب کو ان پیشہ ور فقیروں اور انکی چا لوں سے محفوظ رکھے اور انسانیت کا نام پر دھبہ ان نام نہاد فقیروں کو ہدایت دے کہ وہ بھیک مانگنے جیسا رسوائے زمانہ پیشہ اختیار کر نے کی بجا ئے باعزت روزی کمانے کا کوئی حیلہ کریں․اللہ کوئی نہ کوئی وسیلہ پیدا کردے گا․ مالدار لوگوں کے محض عادتاً بھیک مانگنے کی وجہ سے خلقِ خُدا کو صحیح اور جائز ضرورت مندوں کو پہچاننے میں سخت دُشواری پیش آتی ہے․پہچان نہ ہوسکنے کی وجہ سے اگر کسی حاجت مند کی امدادنہ ہوسکی تو اسکی وجہ سے خُدا کی پھٹکار بھی ان عادی بھکاریوں کے حصے میں آئے گی․ ہمیں خیرات دینے کے تیر بہدف اصول ، ’ اول خویش، بعد درویش ‘ کو مشعلِ راہ بناتے ہوئے خیرات، صدقات اور زکواة دیتے وقت پہلے اپنے اعزاء واقارب، ہمسایوں، محلے داروں اور دیگر جاننے والوں میں سے اس مدد کے حقیقی حق دار تلاش کر کے انہیں انکا حق دے کر اللہ کی خوشنودی حاصل کرنی چاہیئے اور یوں پیشہ ور بھکاریوں کی حوصلہ شکنی کرکے اس سماجی بُرائی کی بیخ کُنی کرنے میں سماج کی مدد کر نی چاہیئے․ حکومت کو بھی چاہیئے کہ وہ بھکاریوں اور پیشہ ور فقیروں کی بڑھتی ہوئی تعداد کے کم کر نے کے لیئے ہرممکن اقداما ت اُٹھائے ا ور ایسی پالیسیاں اپنا ئے جس سے عوام کو روزگار کے زیادہ سے زیادہ مواقع میسر آسکیں نہ کہ انکو وظیفہ خوری کی لت میں مبتلا کر کے بھیک مانگنے کی راہ دکھائی جائے․ اللہ ہمارا حامی و ناصر ہواٰ مین !

ادارہ اردوپوائنٹ کا کالم نگار کی رائے سے متفق ہونا ضروری نہیں ہے۔

تازہ ترین کالمز :