چندچیدہ چیدہ موزی حشرات القوم

بدھ 16 ستمبر 2020

Syed Tansir Hussain

سید تنصیر حسین

جس طرح بہت سے امراض اور کیڑے ، زندہ چیزوں مثلاً حیوانات ، نباتات اور انسانوں پر حملہ کرکے اُنہیں نقصان پہنچاتے ہیں اِسی طرح سے زندہ اَقوام پر بھی انہیں کیڑوں کے ہمزاد،انسان مجسم بہت سے سیاسی، سفارتی اور منافقتی کیڑے و بیماریاں حملہ آور ہوتے رہتے ہیں ۔بعض دفعہ اِنکا حملہ اتنا شدت اختیار کر جاتا ہے کہ،"ہم زندہ قوم ہیں ، پائندہ قوم ہیں" کے گیت فخریہ انداز میں الاپنے والی زندہ اقوام کو بھی غیرتِ قومی سے عاری قریب المرگ قوم بنا کے رکھ دیتا ہے14 اگست ,1947 کو جنم لینے والی پاکستانی قوم پر بھی بدقسمتی سے اوائل عمری سے ہی ، انواع و اقسام کے ضرر رساں انسان نُما کیڑے اور بیماریاں حملہ آور ہو نا شروع ہو گئیں اور وقت کے ساتھ ساتھ کوانٹیٹی، کوالٹی اور ورائٹی میں بڑھتی ہی چلی گئیں۔

(جاری ہے)

جبکہ تا دمِ تحریر،قوم کے مسیحا ہونے کے دعویدار" نیم حکیم خطرہء جان" کی عملی تفسیر پیش کرنے والے پاکستانی لیڈروں، حکمرانوں اور اِنکے بدیسی گُروؤں کی طرف سے آزمائے گئے نت نئے بے ُتکے نسخے قومی مفاد و یکجہتی کے لئے انتہائی ضرر رساں ان کیڑوں کا شافعی تدارک کر کے پا کستانی قوم کی اجتماعی صحت کو بحال کرنے کی بجائے ،"مرض بڑھتا گیا جوں جوں دوا کی" کی سی صورتِ حال پیدا کرنے کا باعث ہی بنے ہیں;دسمبر1971 میں ان قومی امراض اور نقصان دہ کیڑوں کا حملہ ا نتہائی شدت اختیار کر گیا کہ جسکے نتیجے میں صرف6 برس پہلے بھارت کی بلا اشتعال جارہیت کا منہ توڑ جواب دینے والی متحد اور جذبہء جہاد سے سر شار پاکستانی قوم کی ملی یکجہتی دیکھتے ہی دیکھتی" گینگرین" کے سے مرض کا شکار ہو کر رہ گئی جس کابھر پور فائدہ اُٹھاتے ہوئے اس بدقسمت قوم کے نام نہاد دیسی اور بدیسی مسیحاؤں نے اُس بھیانک وقت کے نحیف وناتواں پاکستان کے وجود پر اپنی نام نہاد مسیحائی کے سازشی نشترز کے پے در پے وار کرکے اُُ سکا مشرقی بازو اُس سے الگ کر ڈالا ۔

ا س سانحہء عظیم کے، باوجود بد قسمت پاکستانی قوم کے نام نہاد لیڈروں اور حکمرانوں نے کوئی سبق حاصل نہ کیا۔اور مابعد بھی پاکستان اور پاکستانی قوم کی یکجہتی کو کٹاؤ کا شکار کر کے رکھ دینے والے اس تکلیف دہ عارضے سے اس بد قسمت قوم کو کو مکمل طور پر نجات نہ مل سکی : صد حیف! ادھورے پاکستان کی نمانی قوم کے بدو بدی کے مسیحا لیڈران اور حکمرانوں کی طرف سے بھی علاج کے نام پر پاکستانی قوم کے لئے ضرر رساں کیڑوں اور انکی ریشہ دوانیوں کی وجہ سے پیدا ہونے والے قومی امراض سے سرے سے ٹپہ نہ کھانے والے ٹونے ٹوٹکوں کا اندھا دُھند استعمال ، اسلامی دنیا کا قلعہ کہلانے والی اس ریاست کے وجود پر حملہ آور اِن موزی کیڑوں میں پرلے درجے کی قوتِ برداشت پیدا کرنے اور اِن مردودوں کی ڈھیٹ قسم کی نئی اقسام جنم دینے میں ممد و معاون ہی ثابت ہونے کا سلسلہ جاری رہا۔

نتیجے کے طور پر،آج پاکستان کے با قیماندہ چار یونٹوں کے مابین اُنہیں باہم مربوط رکھنے والے جوڑوں کا سیمنٹنگ الیمنٹ بھی نحیف ہوکر اِ ن قومی جوڑوں کے تشویشناک حد تک ڈھیلے ہونے پر مُنتج ہو رہاہے۔اِن روگی جووڑوں سے وقتاً فوقتاً اُٹھنے والی علیحدگی اور عصبیت جیسے تکلیف دہ دردوں کی ٹیسیں بعض اوقات ناقابلِ برداشت ہوکر تمام محبِ وطن پاکستانیوں کو بے کل کرکے رکھ دیتی ہیں۔

پاکستان اور پاکستانی قوم اور تیسری دُنیا سے تعلق رکھنے والی اِس جیسی دیگر اقوام کے لئے وبالِ جان بن جانے والے یہ موزی کیڑے اور بیماریاں بے شُمار ہیں مگر اس تحریر میں ہم اُ ن میں سے چیدہ چیدہ، اقوام کے لئے کُچھ زیادہ ہی خطرناک کیڑوں کا ز کر ہی کر پائیں گے جنکی بروقت نشاندہی اور فوری قلع قمع کو ہم پاکستانی جیسی اقوام کی توانا اور آبرو مندانہ حیات جاوید کے لئے اشد ضروری سمجھتے ہیں۔

اِ ِنکے ہمزاد ،ہم نام اورہم کام کیڑے نباتات اور حیوانات پر بھی حملہ آور ہوتے ہیں مگر قوموں، بالخصوص پاکستانی قوم ،پر حملہ آور یہ کیڑے، مختلف رنگ ڈھنگ اور طریقہ ہائے واردات اپنانے کے باوجود ، جل پری کی طرح مجموعی طور پر انسانی شبیہ ہی کے حامل ہوتے ہیں دُعاہے کہ ہماری یہ تحریرپاکستان اور پاکستانی قوم کے لئے سُوہانِ روح اِن "بھیڑے" کیڑوں کے وجود اور اُنکی شناخت میں ممد ومعاون ثابت ہونے کے ساتھ ساتھ اس نمانی کلمہ گو قوم کو قائدِ اعظم محمد علی جناح جیسے کسی دیدہ ور مسیحا دلانے کا وسیلہ بنے جواِن ناہنجاروں کا مُکو پوری طرح سے ٹھپ کر کے پاکستانی قوم کی یکجہتی اور اجتماعی مفاد کو اِن بخیلوں کے مضر اثرات سے بچا نے کی بھرپُور صلاحیت اور ہمت رکھتا ہو اور مستقبل قریب میں پھر سے پاکستانی قوم کومتحد اور پاکستان کو صحیح معنوں میں اسلام کا قلعہ بنانے کا کارنامہ انجام د ے سکے جسکا ہر مسلمان ، خاص کر پاکستانی برسوں سے متمنیء ہے۔


 سفیدمکھی
انتہائی شاطر اور پھر تیلایہ کیڑا قوموں پر حملہ آور ہوکر اُنکاخون چوستا ہے او ر اپنے جسم سے ایسا لیس دار مادہ خارج کرتا ہے جو اقوام کے افراد، خصوصاً حکمرانوں ،کے دل و دماغ پر چپک کر ا نُکی سوچنے سمجھنے کی صلاحیت کو مفلوج کرکے رکھ دیتا ہے اور اُن میں غداری، اقربا پروری، بڑی طاقتوں کی حاشیہ نشینی، خود غرضی اور بے حسی جیسے سیاسی ، معا شی اور معاشرتی امراض پیدا کرنے کا با عث بنتا ہے۔

یہ نا ہنجار مکھی اعلیٰ تہذیبی اقدار رکھنے والی مشرقی ا قوام کی نوجوان نسل میں بے راہ روی ، فحاشی اور اپنے اسلاف کی اقدار سے دوری کے وائرسز کے پھیلانے میں بھی ملوث ہے۔تیسری دُنیا ، بالخصوص اِسلامی اقوام کے لئے انتہائی ضرر اس کیڑے کے پر اور چمڑی سفید اور ہاتھ نما ٹانگیں بہت ہی دراز ہوتی ہیں ۔اسے " گوری یا فرنگی مکھی " بھی کہا جاتا ہے ۔

برِ صغیر میں پہلے پہل اسکا حملہ مغل بادشا ہوں کے دور میں دیکھنے میں آیا۔ ابتدا میں اِسکی فرانسیسی اور ولندیزی اقسام برِ صغیر پاک و ہند پر حملہ آور ہوئیں ۔بعد میں برطانوی قسم حیلے بہانے سے ہندوستان میں گھس آئی۔کم فہم مغل حکمرانوں نے اِس مکھی نما کیڑے کے جسم سے خارج ہونے والے نقصان دہ لیسدار مادے کو نئی اور وکھری ٹائپ کا شہد جبکہ اِسکی ریشہ دوانیوں کو ریشم جیسا کوئی ا مفید ریشہ گردان کر اس مردود کا مُکو بروقت ٹھپنے کے بجائے اُسے ہندوستان کے مختلف حصوں میں پھیلنے اور اُن سے مضبوطی سے چپک جانے کی اجازت دینے کی حماقت کر ڈالی جسکے نتیجے میں اس شیطان کیڑے کو برِ صغیر میں پھلنے پُھولنے کے سنہری مواقع میسر آئے جن سے بھر پور استفادہ کرتے ہوئے اس اِحسان فراموش کیڑے نے دیکھتے ہی دیکھتے اپنے محسن کشی کے ڈنک کو بروئے کار لاتے ہوئے نادان مغل حکمرانوں کی ہی چیخیں نکلوا ڈالیں۔

انجامِ کار، اس سازشی کیڑے کی کارستاینوں اور ریشہ دوانیوں کی بدولت پوری مغل سلطنت ہی پھپھوند اور انواع و اقسام کے وائرسز کا شکار ہوکر1858 میں اللہ کو پیاری ہوگئی۔ڈنک میں پہلے جیسی کاٹ نہ رکھنے کے باوجود، اس موزی کیڑے کی حشر سامانیاں آج بھی پاکستان سمیت بہت سے اقوامِ عالم کے لئے جان اور مان کاروگ بنی ہوئی ہیں ۔اس کمبخت کا فوری اور موئثر تدارک پاکستان جیسی ترقی پزیر اقوام کے قومی مفادات کے تحفظ اور اُ نہیں پھر سے ہمیشہ کے لئے اِس عیارکیڑے کی مکمل غلامی کے لپیٹ میں جانے سے بچانے کے لئے اشد ضروری ہے۔

ورنہ یہ تو ہم سب کو پتہ ہی ہے ۔ع۔ ۔غُلامی میں کام آتی ہیں تقدیریں نہ تد بیریں۔اللہ سب اقوام کو اِ س عفریت سے بچائے۔اٰ مین!
امریکن سُنڈی
بیسویں صدی کے وسط میں دنیا کی فضا عموماً اور برِ صغیر کی فضا خصوصاً سفید مکھی کے لئے قدرے ناخوشگوار ہونے پر اقوم پر اس جابر اور شاطرکیڑے کی گرفت وقت گُزرنے کے ساتھ ساتھ کمزور پڑ تی گئی ۔

مگر شومئی قسمت سے ،دُنیا کی دیگر کمزور اقوام کی طرح نومولود پاکستانی قوم بھی تیزی سے طاقت پکڑتے امریکن سُنڈی نامی اِس نئے منہ زورکیڑے کے شدید حملے کی لپیٹ میں آ گئی۔دورِ رواں، میں اقوام،عالم پر اس کیڑے کا اس قدر غلبہ ہو گیا ہے کہ اُن نمانیوں کو اس مردود کے زخم خوردہ ہونے کے باوجود ساغر صدیقی# کی طرح اس ظالم کو اپنا غم خوار کہنا اور سمجھنا پڑ تاہے۔

بالغ امریکن سُنڈی کا رنگ زیادہ تر گورا ہوتا ہے۔کُچھ امریکن سُنڈیاں سیاہ فام بھی ہوتی ہیں، مگر سب کی سب امریکن سُنڈیاں بزبانِ شاعر۔۔" تن تو چٹا ہے سام کا لیکن من کا کالا دکھائی دیتا ہے"۔۔اپنے گرو"سام" کی طرح من کی کالی ہوتی ہیں ; کسب اورکرتُوت بھی سب امریکن سُنڈیوں کے ملتے جُلتے ہیں۔2008میں ایک سیاہ فام امریکن سُنڈی یا سُنڈاخلافِ معمول،اپنے وقت کی اکثریتی گوری سنڈیوں کو نیچا دکھاتے ہوئے تمام امریکن سُنڈیوں کا چیف بننے میں بھی کامیاب ہوگئی یا ہو گی یا ہوگیا تھی/ تھا۔

اِن سُنڈیوں کے سر پر ٹوپی نما دھاری دار خول ہوتا ہے جس سے انہیں اپنا اصل چہرہ چُھپاکر بھلے مانس قوموں کے بُدھو لیڈروں کو اپنے دام میں پھنسانے میں بُہت مدد ملتی ہے ۔اقوام کے لئے اِ س کایاں اور جابرسُنڈی کی دوستی بھی بُری ہے اور دُشمنی بھی۔کپاس پر حملہ آور امریکن سُنڈی تو اپنا سر اور آدھا دھڑ مُتاثرہ ٹینڈے میں داخل کرکے اُسے اندرواندری کھوکھلا کرتی ہے جبکہ پاکستانی جیسی ماڑی اقوام پر حملہ آوار ہیومن ا مریکن سُُنڈی اُن بیچاریوں کے وجود پر حسبِ منشاکبھی اپنا مُنہ مارتی ہے تو کبھی اُنکے اندرونی معا ملات میں ٹانگ اڑادیتی ہے۔

ستم تو یہ ہے کہ اس بے رحم سُنڈی کے پہنچائے ہوئے نقصان کا ازالہ کرنے کے لئے متاثرہ اقوام کے حُکمران کُچھ اپنی نادانی اور کُچھ اپنی بیچارگی کی وجہ سے اسی سُنڈی اور اِسکے کے دُم چھلہ اداروں اور اقوم سے اُسی طرح ایڈ کے لئے رجوع کرنے پر مجبور پائے جاتے ہیں جس طرح میر# صاحب اپنی سادگی کی وجہ سے جس حکیم کے سبب بیمار ہوتے تھے اُسی کے لونڈوں سے دوا لینے پر مجبور ہوا کرتے تھے۔

اس سُپر پاور سُنڈی کا تاحال کوئی موئثر توڑ موجود نہیں ہے۔اُمید ِ واثق ہے کہ فرعون صفت اِس سر کش سُنڈی کا علاج فرعون کی طرح بلآخر اللہ ہی کرے گااور جلد یا بدیر اس سُنڈی کے گھر میں بھی موسیٰ پیدا ہوکر ہی رہے گا۔
 لشکری سُنڈی
امریکن سُنڈی سے مکمل گٹھ جوڑ رکھنے والی اس یاجوج ما جوج صفت سُنڈی کا حملہ تیسری دُنیا کے اکثر ممالک، بالخصوص اِسلامی ممالک میں دیکھنے میں آتا ہے۔

پاکستانی قوم تو بار باراس پیٹو سُنڈی کے حملوں کا شکار ہوتی رہتی ہے۔پا کستان کے عمرِ عزیز کے63 برسوں میں35 برس یہ سُنڈی قوم کے سیاسی اور انتظامی افق پر چھائی رہی ہے۔باقی ماندہ برسوں میں بھی اس سُنڈی کا حملہ ختم نہیں ہواتھا البتہ کچھ دب ضرور گیا تھا۔یہ سُنڈی جتھوں کی صورت میں حملہ کرتی ہے اور اِسکا نشانہ اکثرملک وقوم کے جمہوری، سیاسی، اور معا شی اعصاب بنتے ہیں۔

یہ ا س سُنڈی کی ریشہ دوانیوں کا ہی نتیجہ ہے کہ وطنِ عزیر سمیت بیشتر ترقی پزیر ملکوں میں جمہوریت پھل پُھول نہیں سکی ہے۔یہ سُنڈی اپنی شکار ہرقوم کے جمہوری برگ وبار پر اپنا جال پھیلا کر اِسکے نیچے محلاتی سازشوں کے انڈے دیتی ہے۔حالات موافق ہونے یاچیف امریکن سُنڈ ی کا خُفیہ سگنل موصول ہونے پر فوراً ان انڈوں سے جوق در جوق سُنڈیاں نکل کر متاثرہ قوم کے جمہوری کلچر اور نظامِ حکومت کو تہ و بالا کر کے رکھ دیتی ہیں۔

اِس سُنڈی کا حملہ اگر ایک بار شروع ہوجائے تو پھر لمبے عرصے تک ختم ہونے کا نام نہیں لیتا۔ بالغ لشکری سُنڈیوں کی پہچان یہ ہے کہ اُنکے جسم کا رنگ خاکی یا خاکستری ہوتا ہے۔سر پر مختلف رنگوں کے ٹوپی نُما خول ہوتا ہے۔کچھ سنڈیوں کے خول پر مختلف رنگوں کے طُرے بھی ہوتے ہیں۔بدو بدی گُھس جانے کی عادتِ قبیحہ رکھنے والی اس جابر سُنڈی کا کنٹرول صرف اسی صورت میں ممکن ہے جب متاثرہ قوم کی صفوں میں بلی کی گردن میں گھنٹی باندھنے کی جُرائتِ رندانہ رکھنے والے لیڈران اور حکمران پائے جاتے ہوں۔

سرِ دست تو اِس زور آور سُنڈی یا سُنڈے کے نرغے میں آئے ہوئے پاکستان جیسے ممالک کی اقوام کو ایسے دید ہ وروں کی جلد بعثت کی دُعا کے لئے ہاتھ اُٹھا نے کے ساتھ شجر سے پیوستہ ر ہ کر امیدِ بہارِ جمہوریت ہی رکھنے پر اکتفا کرنا پڑرہا ہے۔
ایکزیوا
یہ سُنڈی امریکن سُنڈی اور اس پر صدقے واری جانے والی دیسی سُنڈیوں، خصوصاً لشکری سُنڈی کے باہمی اختلاط سے وجود میں آئی ہے۔

اِسکا رنگ و روپ دیسی سُنڈیوں کی طرح گندمی، ڈب کھڑبا یا سانولا جبکہ رویہ ان لوگوں کی طرح ہوتا ہے جنہیں پاکستانی کرکٹ ٹیم کے سابق کپتان اور نامورسیاست دان اور پاکستان کے بیسویں وزیرِ اعظم عمران خان نے " براؤن صاحب" کا لقب عطا کیا کرتے تھے ۔(مگر اُ نکے سیاسی مُخا لفین خان صاحب پر یہ الزام دھرتے رہے کہ انکا اس عہدہ جلیلہ پر براجمان ہونا بی ایسی ہی سازشی سنڈیوں کی کارستانیوں سے ممکن ہوا تھا)۔

آستین کا سانپ ،یہ دوغلی سُنڈیاں، ہمیشہ امریکن سُنڈی اور اسکی چمچی دیگر سُنڈیوں سے وفا داری کا دم ہی بھرتی رہتی ہیں اور صحیح معنوں میں اپنی آقا اور جدِ امجد، امریکن سُنڈی کے ایجنٹ کا کردار ادا کرنے میں فخر محسوس کرتی ہیں۔یہ اپنی شکار ا قوام کے اندر کی خبریں اپنی آقا سُنڈی تک پہنچانے کی خفیہ خدمت بھی انجام دیتی ہیں یہ اقوام کے پتوں کو کھاتی ہیں اوراُنکے اوہلے میں لُکتی ہیں مگر نمک حراموں کی طرح اُنہیں میں چھید کر نے سے باز نہیں آتیں۔

یہ گھرکی بھیدی ہوتی ہیں او پاکستانی جیسی ا اقوم کا لنکا ڈھانے میں اہم کردار اداکرتی ہیں۔ ان گرگٹ نما سُنڈیوں کا تدارک جیسے کو تیسا کی ضرب المثل پر عمل کرتے ہوئے اِ نہی سجی دکھا کے کھبی مارنے سے ہی ممکن ہے۔نت نئے رنگ اور ڈھنگ بدلتے رہنے کی وجہ سے انکی بروقت شناخت بہت مشکل ہے۔ اِسکے لئے قوم کے ہر فرد کو اپنی منجی تھلے ڈانگ پھیرنے کا نا گوار عمل سے گُزرنا ہوگا اورقوم کی صفوں پر کڑی نظر رکھنے کا فریضہ انتہائی جانفشانی سے ادا کرنا ہوگا۔

اللہ تعا لیٰ " کیموفلاج "کے فن میں یکتا اس شاطر سُنڈی کے شر سے ہر قوم کو محفوظ فرمائے!
چتکبری سُنڈی
یہ سُنڈی دراصل لشکری سُنڈی یا آرمی ورم کی ہی ایک وکھری ٹا ئپ ہوتی ہے۔قوم کو نقصان پہنچانے میں اعلیٰ پیشہ ورانہ مہارت اور ڈب کھڑبا جسم رکھنے کی وجہ سے اِس سُنڈی کو چتکبری یا سپاٹڈ نیشنل ورم کا نام دیا گیا ہے۔

اس کی غیر معمولی آکڑ کی وجہ سے بعض لوگ اسے "کمانڈو" سُنڈی کہ کر بھی پُکارتے ہیں۔کُچھ چتکبری سُنڈیاں بعض اوقات اتنی طاقت ور ہو جاتی ہیں کہ تعداد میں قلیل ہونے کے باوجود تمام لشکری سُنڈیوں کی سردار"یا چیف بن بیٹھتی ہیں۔امریکن سُنڈی کا لاڈ لا ایک ایسا ہی ایک نر" چتکبری سُنڈا "جو ۱کیسویں صدی کے اوائل میں اُسوقت کی تما م لشکری اور چتکبری سُنڈیوں کا چیف بن کر پاکستانی قوم کے سر پر بدو بدی سوار ہوگیا تھا ،اپنی سیاہ کاریوں اور کرتوتوں سے نالاں محبِ وطن افراد کوٹرخانے کے لئے بسا اوقات اپنا داغدار سینہ پُھلا کر،" کسی سے نی ڈرتا اُوں !۔

۔ کسی سے نی ڈرتا اُوں!"کی مُکرر بڑھک لگاتا رہتا تھا۔ا مگر اپنے سے تگڑوں سے معا ملات طے کرتے ہوئے اِس بڑ بولی سُنڈی/ س ُنڈے کی حالت زار اور سکے عقبی حصے سے جاری، پیشاب نما مائع کا سیلِ رواں اس بُزدل کے دل کے اندر کی حالت کی چُغلی کھا رہا ہوتا تھا:اِ ن خود سر اور بد تمیزکمانڈو سُنڈیوں کا علاج عوام کی طرف سے بھر پُورجمہوری کمانڈو ایکشن سے ہی ممکن ہے ․
گُلابی سُنڈی
یہ انسان نماسُنڈی اقوام کی کی رگوں سے خُون چوستی ہے جسکی وجہ سے اُنکا رنگ سرخ و سپید دکھائی دیتا ہے ۔

اِسکی سُرخ و سپید رنگت کی وجہ سے ہی اسے گُلا بی یا پنکی سُنڈی کا نام دیا گیا ہے۔اس قومی سُنڈی کی نمایاں اقسام میں سابقہ جرنیلی، ججی، جرنلسٹی اور جا گیر داری سُنڈیاں یعنی" فور جیمز" شامل ہیں۔ان میں سے بیشتر سُنڈیاں قومی،سیاسی اور بین الاقوامی موسم ناموافق ہونے پر اکثر مغرب یا مشرق وُسطیٰ کی طرف ہجرت کر جاتی ہیں۔۔حالات موافق ہونے پر یہ پھر سے پاکستان اور اس جیسی دیگر اقوام کے سروں پر مُسلط ہوجاتی ہیں۔

اور اِنکی صفوں میں لُک لُکا کر اور دیگر ضررساں قومی کیڑوں کے ساتھ بھر پور تعاون کرکے اپنا قومی اور ملکی مفاد کو ضعف پہنچانے کا لُچ تلتی رہتی ہیں۔اپنا بیشتر وقت دیارِ غیر میں گُزارنے کی وجہ سے ان سُنڈیوں کی اکثریت اپنے رنگ کی طرح اُردو بھی گُلابی بولتی ہیں۔ امریکن اور لشکری سُنڈیوں کو دیکھ تے ہی اس سُنڈی کا ساں سُک جاتا ہے۔اقوام کے جسم میں صحت مند اور توانا خون جاری وساری کرنے کے لئے جتنا جلد ہوسکے پاکستانی جیسی اقوام کو ان موزی سُرخ و سپیدسُنڈیوں کے جسموں سے قوم کا چوسا ہوامقدس خون نچوڑ نے کے لئے بھر پُورانتظامات کرنے ہونگے اور ان موزی سنڈیوں کی بیخ کُنی کے لئے انتہائی فعال شکنجہ متعارف کرانا ہوگا۔

۔
ترنگا تیلا
پاکستان جیسی اقوام کے قومی اقتدار کی شاہ رگ کو دبوچ کر رکھنے والی پسِ پردہ تکون یا ٹرائیکا کی بغل میں پروان چڑھنے والے اس تیلے کو اِسی ٹرائیکا کی نسبت اور سہ رنگی جسم کا حامل ہونے کی وجہ سے" ترنگاتیلہ" یعنی "تین والا" کا نام دیا گیا ہے ۔اس کیڑے کارنگ زیادہ تر خاکی ہوتا ہے جسپر سفید اور آسمانی رنگ کی نمایاں دھاریا ہوتی ہیں۔

یہ انتہائی باریک اور" نکا" کیڑا ہوتا ہے جسکی کارستا نیوں کو بر وقت تاڑنے کے لئے انتہائی باریک بینی اور دیدہ ہ ور آنکھ کی ضرورت ہوتی ہے ۔یہ دیگر قوم دُشمن کیڑوں کے تعاون سے پسِ پردہ رہ کر اپنا لُچ تلتا ہے ۔اِ س تیلے کی موجودگی کی وجہ سے اقتدار کے شوقین لیڈروں کی کھال پر کھُجلی اور اُن کے من میں لھلبلی مچی رہتی ہے جسکے لئے وہ ایک دوسے کو موردِ الزام ٹہراتے ہیں اور یوں اُن میں باہم سر پھٹول جاری وساری رہتی ہے ۔

ایسے میں یہ کیڑا بھی اپنا" دا" لگاتا رہتا ہے۔دیگر کیڑوں، خصوصا لشکری اور امریکن سُنڈی کے دل دماغ میں اقتدار کی خواہش اُٹھنے کا سبب بھی اکثر یہی کیڑا ہوتا ہے۔اس موزی کیڑے کی بروقت شناخت کرکے اس کے لمبے خفیہ انٹینا نما ہاتھوں کو کاٹنے تک کوئی قوم سُکھ کا سانس نہیں لے سکتی۔
چور کیڑے یا ڈرونز
لُک لُکا کے قوموں کے اجتماعی مفاد کو اپنے زاتی مفاد کی بھینٹ چڑھا دینے والے اس شاطر کیڑے کا حملہ حال ہی میں پاکستان اور کُچھ دیگر بدقسمت ممالک میں تواتر سے دیکھنے میں آرہاہے۔

۔قومی آستین کے سانپوں کے تعاون سے ،کچھ چور کیڑے یا ڈرونز سرزمین پاک کے کونے کھدروں میں چھپنے میں کامیاب ہوچکے ہیں جہاں سے وہ وقتاً فوقتاً پا کستان کے قومی مفادات کو نشانہ بناتے رہتے ہیں مگر ظاہر یہ کرتے ہیں کہ وہ پاکستانی قوم کے دُشمن کچھ سرکش کیڑوں کو نشانہ بنانے کے اُڑان بھرتے ہیں ۔لہذا ہمارے ایسے حملوں کی زد میں میں آنے والی پاکستانی اور دیگر ممالک کی عوام کو غیرتِ قومی سے زمین میں گڑنے کی بجائے اپنے لیڈروں اور نام نہاد راہنماؤں کی طرح ہمارے ان خفیہ حملوں کو فرینڈلی فائر سمجھ کر صبر شکر کر نے کی دانشمندانہ پالیسی پر عمل پیرا ہوناچاہیئے․
پناہی یا پنائی دَل
پاکستان اور پاکستانی قوم کو اس ٹَڈی دَل صفت کیڑے کا اپنے قیام کے وقت سے ہی سامنا کرنا پڑرہا ہے۔

معیشت کے لئے انتہائی نقصان دہ کیڑے کا اولین شدید حملہ ٰقیامِ پاکستان کے وقت دیکھنے میں آیا تھا جس نے پاکستان کی معیشت کی بنیادوں کو بُری طرح سے ہلا کے رکھ دیا تھا۔۔بعد میں بھی مختلف ادوار میں جھنڈوں کی صورت کے حملہ کرنے والے اس کیڑے حملہ جاری رہا ۔ا اِسی کی دہائی میں اس کیڑے کی افغان قسم نے پاکستان کو اپنی لپیٹ میں لے لیا جس سے تاحال وطنِ عزیز کی جان نہیں چُھوٹی ہے۔

اکیسویں صدی کی پہلی دہائی میں پاکستان کے بعض علاقوں میں امریکن، لشکری اور چتکبری سُنڈیوں کے علاوہ چور کیڑے اور ڈرونز کے شدید حملے کے زیلی ٓثرات کی وجہ سے اس کیڑے کی سواتی اور قبائلی دیسی اقسام بھی دیکھنے میں آئیں ۔ بعض دیگر شورش زدہ ممالک میں بھی اس کیڑے کی بین االاقوا می اور دیسی اقسام کا شدید حملہ مشاہدے میں آتا رہتا ہے۔اس بار بار اور طویل دورانیئے کے لئے حملہ کرنے والے کیڑے کے موثر تدارک کے لئے اوپر مزکور سُنڈیوں سمیت دیگر قوم دُشمن کیڑوں کی سرگرمیوں کو ٹھپ کر رکھنا شرطِ اول ہے۔


ملی بھگت
کپاس پر حملے کرنے والے ملی بگ المعروف" ملی بھگت "نامی کیڑے کی ڈھاک، مزکورہ بالا تما قوم دشمن کیڑوں سمیت بہت سے دیگر" نکے وڈے کیڑوں " کے کسی قوم ، خصوصاً پاکستانی قوم کے مفادات کے خلاف ایکے اور ملاپ سے جنم لینے والے ،دن دُوگنی اور رات چوگنیِ تعداد میں بڑھنے کی استطاعت کے مالک اِس سازشی کیڑے کی روک تھام قوم کی صفوں میں قوم دُشمن عناصر کی طرف سے جاری نان سٹاپ" ملی بھگت" کی وجہ سے انتہائی مشکل ہے انتظامی طور پر کمزور، ء حُب الوطنی کے فُقدان والی اور بدعنوانی کے سیلاب کے لپیٹ میں آئی ہوئی اقوام اِس کیڑے کے حملے سے زیادہ متا ثر ہوتی ہیں۔

سیاسی لوٹوں کی طرح یہ کیڑا ہمیشہ اپنا شکنی مفاد سامنے رکھتا ہے اور اپنی پیٹ کی آتش بُجھانے کے لئے یہ قومی بحرانوں کے فلک بوس شعلوں کو ہوا دینے والی ہواؤں سے ہر ممکن تعاون سے بھی گُریز نہیں کرتا۔اقوام کی صفوں میں افراتفری دراصل اسِی موئے" ملی بھگت " نامی شریر اور بسیار خور کیڑے کی کارستانیوں کی وجہ سے ہی رونما ہوتی ہے۔خاندانی منصوبہ بندی کے سے سُنہری اصولوں جیسے ٹونے ٹوٹکوں پر عمل کرتے ہوئے اس قومی کیڑے کی ماداؤں کو مانع حمل گولیاں اور نروں کی نس بندی کر کے اس کی روز افزوں تعداد پر مُٹھ رکھی جاسکتی ہے۔

دوسرے قوم دُشمن کیڑوں کو باہم سرجوڑ کر قوم کے مفاد کیخلاف نت نئی سکیمیں تیار کرنے کے زریعے، ملی بھگت جیسے ذاتی مفاد کے لئے جو توڑ اور قومی مفاد کے توڑ پھوڑ کے ماہر کیڑے کی افزائشِ نسل کے لئے سازگار ماحول پیدا کرنے سے روکنے کے لئے ہرممکن ترلا کرنا بھی اس موزی کی حشر سامانیوں کو موئثر بریکیں لگانے کے لئے اشدضروری ہے․
ٹڈی دِل
تعداد میں بہت زیادہ ہونے کی وجہ سے اکشر لوگ اسے ٹڈی دَل بھی کہتے ہیں مگر انتہائی بذ دل اور موقع پرست ہونے کی وجہ سے دراصل یہ ،" ٹڈی دِل " کیڑے ہوتے ہیں۔

یہ کیڑے ورج مُکھی کی طرح چڑھتے سورج کا پجاری ہورتے ہیں اور حسبِ ضرورت گدھے اود گینڈے سمیت کسی بھی بد نما اور بد نوا جانور کو باپ بناے میں کوئی عار محسوس نہیں کرتے ہیں ۔ یہ صورت سے کیڑے اور سیرت سے فصلی بٹیرے لگتے ہیں۔ یہ بے وفا کیڑے قوم کے شجرِ سایہ دار کے۔ جس پتے پر پناہ لیتے ہیں بالآخراُسی میں چھید کر یتے ہیں۔ نت نئے آقاؤں کا بیت کرتے رہنے اور اُنہیں اپنا قائدِ اعظم ثانی قرار دیتے رہنے کی صفت بدرجہ اُتم موجود ہونے کی وجہ سے اسکی آنی جانیوں سے اُکتائے ہوئے لوگ اسے ، " لوٹا" کیڑاکہ کر بھی یاد کرتے ہیں۔

اس ہرجائی کیڑے کا حملہ تھوڑا بہت تو سارے وطنِ عزیز میں دیکھا جا تا ہے مگر پانچ دریاؤں کی سر زمین ، " پنجاب " کے جنوبی حصے میں اسکا حملہ اکثربہت شدید ہوتا ہے ۔شاید اس یاجوج ما جوج بے مرشد کیڑے نے پانچ دریاؤں کی سر زمین کو پانچ آقاؤں کی سرزمین سمجھ لیا ہے۔اس منافق کیڑے پر ہر دو لعنت سے ہی اسکا کنٹرول ممکن ہے۔
 ان موٹے موٹے قوم دُشمن کیڑوں کے علاو بھی پنجابی والا "دا" لگا کر اپنی زیرِ زمیں پناگاہوں میں جا چُھپنے والے شر پسند اور سماج دُشمن ہیومن نیماٹوڈز اور قوم کو ایک لمحہ کے لئے ٹکنے نہ دینے والے انواع و اقسام کے پسو، کھٹمل ، حیواناتی جوئیں،اور چمونے وغیرہ وغیرہ بھی ماڑی اقوم خاص طور، پاکستانی قوم کو اپنا تختہء مشق بنائے ہوئے ہیں جنکا موئثر، بروقت اور دیرپا تدارک کسی بھی قوم کے قرار، وقار اور فروغ ِجمہوری اقدار کے لئے اشد ضروری ہے۔

وطن دُشمن ان قومی کیڑوں کا مُکو ٹھپنا، معروف نباتات دُشمن کیڑوں کے طریقہء انسداد کے برعکس کسی کیڑے مار ادوا سے نہیں بلکہ اللہ تعا لیٰ کی بار گاہ میں قوم محبِ وطن شہریوں کی طرف سے "دلی دُعاسے ہی ممکن ہے"آئیے سب مل کر اس دُعا کا چھڑ کا کریں کہ اے اللہ پاکستان کے ہر گھرانے میں لیڈر پیدا کرنے کی بجائے اُسے ایک ہی سچا،سُتھر،اوردیدہ ور لیڈر عطا کر نے اور افرادِ قوم میں اجتمائی،ملی اور قومی سوچ پیدا کرنے کی ہماری دلی دُعاؤں کو شرفِ قبولیت عطا کر۔۔اللہ تعا لیٰ ان شر پسند کیڑوں اور انکے سرپرستوں کی ریشہ دوانیوں سے پاکستانی سمیت ہر نمانی قوم کو محفوظ فرمائے۔۔آمین!

ادارہ اردوپوائنٹ کا کالم نگار کی رائے سے متفق ہونا ضروری نہیں ہے۔

تازہ ترین کالمز :