"اجتماعیت تحفہ یا ناسور"

بدھ 10 جون 2020

Tahir Abbas

طاہر عباس

رشتےاحساس, جذبات اور محبت سے وجود میں آتے ہیں اور ان چیزوں کی کمی ہوجاۓ تو پھر یہی رشتے گلے کا طوق بن جاتے ہیں ۔ اجتماعیت اورمشترکہ خاندان کامیابی اور ترقی کی علامت بشرطیکہ ان میں خلوص اور نیک نیتی ہو اور اگر ایسا نہیں تو یہ اجتماعیت کی زندگی کسی جنگ سے کم نہیں ہوتی جس میں روز کبھی لفظی توکبھی مادی گولہ باری ہوتی رہتی ہے اور اس دوران سگے رشتے دار اپنا اصلی چہرہ دکھا جاتے ہیں ۔

میں نے سنا تھا کہ محبت اور رشتہ داری میں کوئ جبر نہیں ہوتا ۔ان کی مثال ایک کھونٹی پہ زبر دستی باندھے گۓ جانورکی طرح ہوتی ہے جو اس کھونٹی سے آزاد ہونے کے لیے یا تو رسی توڑ دیتا ہے یا اپنا ہی گلہ اس رسی سے گھونٹ کے مر جاتا ہے ۔
وقت کے صفحات کو اگر الٹا کر کے پرتنا شروع کیا جاۓ تو تھوڑی ہی مسافت طے کر کے ہمیں معلوم ہوگا کہ زیادہ تر خاندان اجتماعیت پر مشتمل تھے جن کا سربراہ گھر کا سب سے بڑا فرد ہوتا ہے جس کا حکم پہلا اورآخری ہوتا تھا۔

(جاری ہے)

گھر کے تمام لوگ ان کے احکامات کی پیروی کرتے ہوۓ زندگی کے معاملات کو آگے کی طرف بڑھا رہے ہوتے تھے ۔ان کے اخلاص میں محبت اور نیت میں کوئ فطور نہیں پایا جاتا تھا ۔ایسے گھر ترقی کے ضامن اور لوگوں کے لیے مثال بن جاتے تھے ۔ اجتماعیت کا سب سے بڑا حسن یہ ہوتا تھا کہ سب لوگ مل جل کر اپنے فرائض نبھانے میں کوئ کوتاہی نہ برستے تھے۔ باقی دنیاوی معاملات کے ساتھ ساتھ ازدواجی زندگی کے فیصلہ بھی گھر کا سربراہ سرانجام دیتے تھے اور ان کے باندھے رشتوں کا دورانیہ زندگی سے کم نہیں ہوتا تھا خواہ وہ رشتے ایک دوسرے کے میل کے جوڑے جاتے یا خاندان کے سب سے بگڑے ہوۓ شخص کے ساتھ, گھر کی سب سے حسین لڑکی کے ساتھ جوڑ دیا جاتا ۔

وہ رشتے لمبا سفر اسی لیے طے کرتے تھے کیونکہ ان میں رشتوں کی قدر, ایک دوسرے کے لیے باہمی محبت اور نیک نیتی کے ساتھ بڑوں کی عزت کا پاسدار رکھنا پایا جاتا تھا ۔گھریلو زندگی میں عورتیں مل جل کر فرائض سرانجام دیتی تھی,کسی کے ذمہ روٹیاں پکانا تو کسی کے ذمہ دودھ سے دہی اور لسی بنانا ہوتا اور یوں بڑے احسن طریقے سے امور طے پا جاتے تھے ۔ اسی طرح, مرد حضرات کھیتوں میں مختلف کام مکمل کر لیتے تھے اوراس کو شہری زندگی سے جوڑا جاۓ تو وہ دفاتر یا کاروبار کے معاملات کو ملکر مکمل کیا جاتاتھا۔


اس خوبصورت دورانیہ کے دلکش نظام اجتماعیت کو اس وقت نظر لگ گئ, جب انہی رشتوں میں اعتماد کی بجاۓ بد اعتمادی, محبت کی بجاۓ نفرت, رشتوں سے زیادہ مال کی حب, منافقت,انا پرستی, خودداری اور انتقام کی آگ نے جگہ لےلی۔ ہزاروں ہسنتے بستےاور خوشحال زندگی گزارنے والے خاندان اس ناسور کی بھینٹ چڑھ گۓ اور ریزہ ریزہ ہوگۓ۔ کسی کو مال کی زیادتی تو کسی کو اپنے بچوں کی عیاشی کے لیے پیسوں کء زیادتی, کسی کو آعلی آسائشیں چاہیے تو کسی کو محبت کی شادی کرنی اور پھر اسی طرح یہ خاندانی رسم ورواج جدید دور کے چڑھتے سورج کے ساتھ ہی شب کے اندھیرے میں ڈوب گۓ ۔

گھریلو ناچاقیاں اور مالی جھگڑے ان کے گھروں کا مقدر بن گۓ ۔
ہمیں معاشرے میں مل جل کر رہنے کی تلقین کی جاتی ہے اور یہی ترقی یافتہ معاشروں کی احسن نشانی سمجھی جاتی ہے مگر جب یہ بات مشترکہ خاندان کی زندگی پر آ جاتی ہے تو نا کام ہو جاتی ہے کیونکہ آج کے دور میں رشتوں میں وہ چاشنی اور محبت کہاں جو ہمارے ابآواجداد کے زمانے میں پائ جاتی تھی ۔

اج کے رشتےمیں تو لالچ,منافقت اور مال کی حوس زیادہ جب کے احساس,محبت اور قربانی کا جزبہ کم پایا جاتا ہے اجتماعیت کے خوبصورت نظام کو جدید دوع کے بہت سے عناصر نے نقصان پہنچایا جن میں سر فہرست ذرائع ابلاغ کا پھیلنا, سرمایہ دارانہ نظام اور غربت ہیں ۔
 ایک وقت ایسا تھا کہ پورے گاؤں میں صرف ایک گھر میں ریڈیو کی سہولت موجود ہوتی تھی اور شام کے وقت تمام لوگ ملکر اس گھر ڈیرے ڈال لیتے تھے اور اس سہولت سے لطف اندوز ہوتے تھے ۔

کچھ عرصہ گزرنے کے بعد سائنس نے اور ترقی کی اور ٹیلی ویژن نام کی نئ مخلوق کی ایجاد کر ڈالی ۔اب ریڈیو کی جگہ ٹیلی ویژن لے چکا تھا مگر وہی رونق اب بھی برقرار تھی ۔ آہستہ آہستہ یہ جدید آلہ تمام گھروں کی زینت بن گیا اور یوں اس کے ساتھ وہ بیٹھک بھی اپنے منطقی انجام کو پہنچ گئ ۔ دور حاضر جس کو گلوبل ویلج یعنی کہ عالمی گاؤں کا نام دیا جاتا ہے کا شاخسانہ ہے کہ ٹیکنالوجی کی دنیا میں انقلاب لے آئ مگر ایک ہی گھر میں رہنے والے لوگوں کو میلوں دوری کے فاصلے پر بھیج دیا ۔


اگر مزید وجوہات کو پرکھنا شروع کریں تو سرمایہ دارانہ نظام جوکہ محض منافع اور منافع بڑھانے کے مواقع کے استعمال کی بات کرتا ہے ۔اس نظام کی ہی بدولت دنیا کے چند افراد اکثریتی دولت کے مالک گردانے جاتے ہیں اور امیر کوامیر تر اور غریب کو غریب طر بنادیا اور اسی ہی کی کرم نوازی ہے جس کی وجہ سے یہ فرق بڑھتا ہی جا رہا ہے ۔ ایسے نظام میں اجتماعیت کا کیا لین دین جہاں بات ہی صرف مفاد پرستی اور دولت کی جاۓ گی ۔

اسی کی وجہ سے لاکھوں لوگوں کے گھروں میں انتشار کی آگ بھڑک رہی اور گھریلو ناچاقیاں کم ہونے کا نام ہی نہیں لیتی ۔ اس نظام کی بدولت غربت میں اضافہ ہوا ہے اور اسی غربت کے نظر کرم کی وجہ سے لاکھوں لوگ اپنی زندگی کو لقمہ اجل بنا چکے ہیں تو کئ اپنی عزت نفس کو خاک میں ملا چکے ہیں ۔اس تناظر خاندانوں کا جڑے رہنا خودکشی کرنے کے مترادف ہے ۔
قصہ المختصر,  بات کو اگر انجام تک پہنچانے کی کوشش کی جاۓ تو یہ کہنا بجا نہ ہو گا کہ خاندانی یا اشتراکیت کا نظام لوگوں کو سماجی,معاشی اور سیاسی طور پر یکتا اور ترقی کی راہ پر گامزن کرتا ہے اور اس نظام کو نفرت,انتقام اور زر کے حرس وحوص نے فرسودگی کی حالت میں لاکھڑا کیا ۔

مل جل کر رہنے میں ہی بہتری ہے بشرطیکہ تمام افراد اس نظام سے راضی ہوں وگرنہ ایسے نظام میں گھر لفظی تو کبھی مادی جنگ کا گہوارہ بنا رہے گا ۔ اللہ ہم سب کو باہمی اتفاق سے رہنے کی توفیق عطا فرماۓ ۔

ادارہ اردوپوائنٹ کا کالم نگار کی رائے سے متفق ہونا ضروری نہیں ہے۔

تازہ ترین کالمز :