مرگِ انبوہ،جشنے دارد

اتوار 16 فروری 2020

Tahir Ayub Janjuah

طاہر ایوب جنجوعہ

کچھ دن پہلے ایک ذاتی کام کے سلسلے میں ایک سرکاری محکمے کے دفتر جانے کا اتفاق ہوا، کئی گھنٹوں تک مختلف شعبہ جات کی خاک چھاننے کے بعد متعلقہ ذیلی دفتر پہنچنے میں کامیاب ہوا, متعلقہ نشست پر کلرک موصوف تو موجود نہیں تھے، البتہ ان کے ساتھ والی کرسی پر ایک اور باؤ جی ٹانگ پر ٹانگ چڑھائے فون پر خوش گپیوں میں مصروف تھے-
 سلام کے جواب کا رواج تو ہمارے ہاں شائد مفقود ہوتا جا رہا ہے، اسی لئے جناب نے اس قابل نہ جانا، اور گھورتے ہوئے منہ دوسری طرف پھیر لیا، چند لمحے کھڑے کھڑے انتظار کیا، اور تھوڑی دیر بعد ایک بار پھر ہمت کر کے سلام کا تحفہ بھیجنا چاہا،تا کہ اشاروں کنایوں میں ہی اپنا مدعا بیان کیا جا سکے، لیکن باؤجی شائد دنیا جہان سے بے نیاز باتوں کے سمندر میں اس قدر غرق ہو چکے تھے کہ ایک بار پھر جواب ندارد...تنگ آ کر باہر نکلا اور باہر بینچ پر اونگھتے اٹینڈنس سے ایک بار پھر متعلقہ کلرک کے بارے پوچھنے کی جسارت کر ڈالی..فراغت اور طمانیت کے سرکاری لمحوں میں خلل اندازی پر ان حضرت کی برہمی بھی برحق تھی، تلملاتے ہوئے گویا ہوئے،او بھائی انتظار کر لو، باؤ جی بڑے صاحب کے پاس گئے ہوں گے، آ جاتے ہیں-
 ایک آدھ گھنٹے کا انتظار ہمارے ہاں چشم براہی کے زمرے میں نہیں آتا، یہی وجہ ہے کہ ہمارے سرکاری اداروں میں ویٹنگ رومز یا انتظار گاہوں کا کوئی خاطر خواہ انتظام نہیں ہوتا،اور تو اور ایک آدھ لیٹرین کو بھی تالہ لگا کر رکھا ہوتا ہے،مبادا کہ کوئی مکھیاں مارتا سائل حوائج ضروریہ سے فراغت کے جرم کا ارتکاب ہی نہ کر بیٹھے، شائد اسی لئے اکثر مثانے کی کمزوری کا شکار کئی بیچارے کسی دیوار کا کونہ کھدارا یا کسی بڑے صاحب کے دفتر کے پچھلے حصے کی کوئی نکڑ تلاش کر کے فراغت پا ہی لیتے ہیں-
قصہ کوتاہ،ڈیڑھ گھنٹہ تو انتہائی سکون و اطمینان کی کیفیت میں کھڑے، ٹہلتے گزار لیا، لیکن اس کے بعد بے چینی و بیقراری کی رگیں پھڑکنا شروع ہوگئیں، اور بالآخر درجہ چہارم کی اس عظیم ھستی سے ایک بار پھر راہنمائی کی جسارت کرنا پڑی-
اب کی بار غیر متوقع مصلحت آمیز لہجے میں جواب ملا، اور یہ عقدہ وا ہوا کہ متعلقہ باؤ جی کسی سپرنڈنٹ آفس میں چائے نوش فرما رہے ہیں، اور عنقریب وارد ہونے والے ہیں، سو ایک بار پھر کچھ تسلی ہوئی، اس دوران بارہ بج چکے تھے، تقریباً ساڑھے بارہ بجے کے لگ بھگ بالآخر طلسم ٹوٹا، اور وہ خالی کرسی آباد ہوئی،جسے صبح سے دیکھ دیکھ کر اب دل میں ہول اٹھنا شروع ہو چکے تھے-
باؤ جی نے بیٹھتے ہی بال پین کان میں لگایا اور ساتھ ہی کہیں سے فائلوں کی گھٹھڑی اٹھا کر میز پر پٹخی اور گرہ کھول کر میز پر بکھیرنا شروع کر دیں- اس وقت تک اپنی بے تابی بھی عروج پر پہنچ چکی تھی،اس لئے دو تین بار فائل آگے بڑھانے پر تو شرف قبولیت نصیب نہ ہوا، البتہ چوتھی کوشش بارآور ثابت ہوئی اور اپنا مدعا بیان کرنے کی اجازت ملی، غور اور توقف کے کچھ منٹ بعد باؤجی کے بھاری بھرکم جثے سے بھاری بھرکم آواز نمودار ہوئی، اور فائل میری طرف پٹختے ہوئے فرمایا،بھئی فائل ان کمپلیٹ ہے، اسے کمپلیٹ کر کے لائیں، بے زارگی کے عالم میں کچھ ہدایات جاری فرمائیں، اور ساتھ ہی آفس سے باہر کی راہ بھی دکھائی -
 بس پھر اس کے بعد اکاؤنٹس سیکشن، رجسٹرار آفس، سپرنٹنڈنٹ آفس اور اسی طرح کے اوپر نیچے، چھوٹے،بڑے آفسز،، فوٹو کاپیوں کے بنڈل،پرفارمے سائن،سٹیمپس،انگوٹھے، ویری فیکیشنز اور اس طرح کی گھمن گھیریوں نے ایسا پٹخ پٹخ مارا کہ مزید دو دن تک انہیں دفاترز کے طواف کے سوا کوئی چارہ نہ تھا، اب اس دوران کسی دیہاڑی دار کی ایک نہیں کئی کئی دیہاڑیاں ضائع ہونے سے نہ تو حکومتِ وقت کی شان و شوکت اور جاہ و جلال پر کوئی فرق پڑتا ہے اور نہ کسی سرکاری عامل کی پرکشش تنخواہ اور مستقبل کی مراعات پر کوئی ضرب کاری لگتی ہے، فرق پڑتا ہے تو بس اتنا کہ ایک نوعِ بشر کا پیٹ گھٹتا جاتا ہے اور ایک کا لٹکتا جاتا ہے-
 خیر ان دو تین دنوں میں یہ راز افشاء ضرور ہوا کہ عوامی خدمت کے یہ ادارے مذہب، سیاست،ریاست اور سماجیات کے فلاسفرز کا گڑھ ہیں، اور یقیناً کئی کئی گھنٹے انتظار میں سوکھنے کے دوران بہت سے ایسے عقدے بھی کھلے،جن کی تحقیق و تفشیش اور دریافت میں کئی ہم جیسے لوکل محققین کئی کئی دن تک در در کی خاک چھانتے پھرتے ہیں-
 بحرحال ''ہنوز کار ندارد'' کیونکہ آگے ویک اینڈ آ رہا تھا، جمعہ ویسے ہی ہاف نہانے...ہاف دھونے اور ہاف گھومنے پھرنے کا ڈے کہلاتا ہے، اورہفتہ اتوار کو تو ہماری آلِ سرکار کی زندگیوں میں ویسے ہی عیدین کی حیثیت حاصل ہے- اس لئے اب بات سوموار طلبی تک پہنچ چکی تھی-
 اتوار کو ایک ڈھابے پر چائے نوشی کے دوران بظاہر اس عام اور معمولی سے لپھڑے کی روداد سناتے ہوئے ایک دوست نے زوردار قہقہ لگایا اور فوراً اپنا فون نکال کر ایک نمبر گھمایا، تھوڑی دیر کی بات چیت کے بعد وہ اٹھا، اور مجھے بھی ساتھ چلنے کا اشارہ کیا، شہر کے وسط میں ایک محلے کے ایک گھر پہنچے،جہاں ایک بکھرے بال موٹی گردن اور لٹکی توند والی ایک ھستی نے مسکراتے ہوئے استقبال کیا، قریب پہنچنے پر معلوم ہوا کہ یہ ہستی ایک سرکاری منصب دار ہیں اور اسی دفتر کے کارپرداز ہیں، جہاں پچھلے تین چار دن کا وقت برباد کر چکا، رسمی باتوں کے بعد سارا مدعا بیان ہوا، اور مبلغ دو ہزار مٹھی گرم بمعہ لفظ انشاء اللہ کے عوض کل شام تک مکمل کام کی گارنٹی لئے ہم وہاں سے رخصت ہوئے - 
اگلے دن صبح ساڑھے 9 بجے متعلقہ آفس پہنچا تو کلرک موصوف انتظار میں تھے، ایک معزز شہری کی حیثیت سے گدے والی کرسی پر سخت سردی میں گرم ھیٹر کے پاس بٹھایا گیا، پانی اور چائے سے تواضح بھی ہوئی، اور 12 بجے تک تمام دستاویزات خودبخود مکمل ہوئیں، اور فائل جمع بھی ہو گئی-
 کل محترم وزیر اعظم پاکستان کی فہم و فراست اور علم و دانش پر اس وقت کمال کا رشک آیا،جب انہوں نے نوجوانوں کو کامیاب زندگی گزارنے کا آسان نسخہ مرحمت فرمایا کہ اگر آپ معاشی تباہی سے بچنا چاہتے ہیں تو سرکاری نوکری کبھی نہ کریں، کیونکہ سرکاری نوکری صلاحیتوں کو برباد کر کے رکھ دیتی ہے- یعنی وزیر اعظم حضور نے یہ نصیحت فرمائی کہ کس بھی طرح کی لیاقت،استبداد،اہلیت اور صلاحیت رکھنے والا کوئی بھی نوجوان سرکاری اداروں میں نہ آئے تا کہ ''مرگ انبوہ ہے،جشن رہے گا'' کے مصداق طرزِ زندگی میں یکسانیت پیدا کی جا سکے�

(جاری ہے)

ادارہ اردوپوائنٹ کا کالم نگار کی رائے سے متفق ہونا ضروری نہیں ہے۔

تازہ ترین کالمز :