خاموش معمارانِ وطن کو فاقہ کشی سے بچایا جائے

بدھ 3 جون 2020

Tahir Ayub Janjuah

طاہر ایوب جنجوعہ

 کرونا نے عالمی سطح پر جہاں دوسرے ہر طرح کے شعبہ زندگی کو متاثر کیا ہے، وہیں شعبہ تعلیم اور اس سے متعلقہ نظام زندگی کے تسلسل پر بھی ضربِ کاری لگائی ہے- پاکستان جیسا ترقی پذیر ملک جہاں شرح خواندگی پہلے ہی تشویشناک حدوں کو چھو رہی ہے، وہاں کئی ماہ سے بند پڑے تعلیمی ادارے ایک بڑا لمحہ فکریہ ہیں-
 اسی سلسلے میں پچھلے کافی دنوں سے حکومت اور پرائیویٹ سکولز مالکان کے درمیان آنکھ مچولی کا کھیل بھی جاری رہا- حکومت نے کرونا کی عالمی تباہ کاریوں کو مدنظر رکھتے ہوئے سرکاری اور پرائیویٹ تعلیمی اداروں کی بندش کا سلسلہ 15 جولائی تک بڑھا دیا ہے ہے- جب کہ دوسری طرف آل پاکستان پرائیویٹ سکول فیڈریشن نے اس فیصلے پر سخت موقف اپنایا اور احتجاج کا عندیہ دیتے ہوئے یکم جون سے تمام پرائیویٹ سکولز کو کھولنے کا بھی اعلان کیا، مگر بعد میں انہیں حکومت کے سامنے اس معاملے میں اپنے گھنٹے ٹیکنے ہی پڑے-
 اگرچہ آل پاکستان پرائیویٹ سکول فیڈریشن کے صدر کاشف مرزا نے 29 جولائی کو اپنی پریس کانفرنس میں پرائیویٹ سکول ٹیچرز کی تنخواہوں کے حوالے سے نہائت مضبوط موقف اپنایا اور ٹیچرز کی تنخواہوں کی ادائیگی کے معاملے کو ایک نہائت سنجیدہ نوعیت کا مسئلہ قرار دیا- اور یہاں تک بھی کہا کہ اگر حکومت ہمارے ان ٹیچرز کی کفالت کا ذمہ لے تو بھلے سارا سال سکول بند کرنا پڑے، ہم کریں گے- لیکن حقیقت یہ ہے کہ اس سب کے باوجود اس خاموش پڑھے لکھے سفید پوش طبقے کا کوئی پرسان حال نہیں، یہ وہ لوگ ہیں جو پہلے ہی انتہائی قلیل اور محدود آمدنی میں گزارا کر رہے تھے، اب جب سے یہ افتاد پڑی ہے ان کے مسائل میں خطرناک حد تک اضافہ ہو چکا ہے-
 ایک اندازے کے مطابق ہمارے ملک میں تقریباً پونے دو لاکھ کے لگ بھگ پرائیویٹ تعلیمی اداروں کے ساتھ 15 لاکھ سے زائد پرائیویٹ ٹیچرز کی روزی روٹی وابستہ ہے- ان میں اگر دوسرا انتظامی عملہ جن میں آپریشنل.عملہ، اسسٹنٹ، ہیلپر سویپر مالی وغیرہ کو بھی شامل کرلیا جائے تو یہ تعداد تقریباً بیس لاکھ کے لگ بھگ بنتی ہے- اب ان پونے دو لاکھ سکولز کی اگر کلاسیفکیشن کی جائے تو ان میں سے A کلاس یعنی ایلیٹ کلاس صرف دو تین فیصد سے زیادہ نہیں، جب کہ B کلاس آٹھ سے دس فیصد ہیں- اس کے علاوہ بقیہ تقریباً 85 فیصد سے زیادہ پرائیوٹ سکولز وہ ہیں جن کی فیسیں ہزاروں میں نہیں بلکہ سینکڑوں میں ہیں-
 اب یہ ظاہری سی بات ہے کہ A کلاس سکولز مالکان اپنے بھاری سرمائے کے بل بوتے پر اپنے ٹیچرز اور عملے کی تنخواہوں اور مراعات کا خیال ضرور رکھیں گے- جب کہ B کلاس مالکان بھی اپنے سٹاف کو کم از کم بھوکا نہیں مرنے دیں گے- لیکن مسئلہ یہ ہے کہ ان دونوں کیٹگریز میں آنے والے محض چند ہزار کے علاوہ باقی لاکھوں ٹیچرز نچلے طبقے کے اس مہذب اور خوددار طبقے سے ہیں، جو نہ تو کسی امداد کے لئے پورا دن لائنوں میں لگ سکتے ہیں، اور نہ کسی کے سامنے ہاتھ پھیلانے کی ہمت کر سکتے ہیں- اور یقیناً یہ لوگ اپنے بھوک سے بلکتے بچوں کو دیکھ کر گینتی بیلچہ اٹھا کر مزدوری کے لئے کسی چوک چوراہے میں کھڑے ہونے کے بھی قابل نہیں- اور نہ ان خاموش اور ایجوکیٹڈ ضرورت مندوں کے لئے کسی بھی طرح کے کوئی حکومتی امدادی فنڈز کے اجراء ہوا کرتے ہیں- 
اب یہاں یہ سوال پیدا ہوتا ہے، اور اکثر لوگ یہ سوال اٹھاتے بھی ہیں کہ پرائیویٹ سکول مالکان ان حالات میں بھی والدین سے فیسوں تو بٹور ہی رہے ہیں، تو پھر سکولز مالکان نے اساتذہ کو یوں بے یارومددگار کیوں چھوڑ رکھا ہے؟- اس کا بالکل سادہ سا جواب ہے کہ ''سی'' کلاس سکول مالکان اکثر عام اور متوسط طبقے سے تعلق رکھتے ہیں- جو پہلے ہی محدود وسائل اور محدود آمدن کے ساتھ اس نظام کا حصہ ہیں- اور یقینا ان سی کلاس اسکولز میں طلباء بھی متوسط اور نچلے طبقے سے ہی تعلق رکھتے ہیں- اور جیسا کہ یہ امر مسلمہ ہے کہ کرونا نے متوسط اور نچلے طبقے کو سب سے زیادہ متاثر کیا ہے- تو پھر یہاں یہ بھی ماننا پڑتا ہے کہ ایسے والدین اپنے بچوں کی معقول اور مناسب فیسیں بھی ادا کرنے کے قابل نہیں- اور اگر کہیں استطاعت رکھتے بھی ہوں تو ایسے حالات میں بے یقینی کی کیفیت کا شکار ہو کر فیسیں جمع کروانے میں ہچکچاہٹ کا شکار ہیں- اور دوسرا سب سے بڑا مسئلہ یہ ہے کہ عدالت نے فیسوں میں 20 فیصد کی کٹوتی کی بھی شرط لگا دی ہے- جس کی وجہ سے سی کلاس سکولز مالکان کا ماہانہ بجٹ بے ترتیب اور غیر فعال ہو کر رہ گیا ہے-
 اس سب کے باوجود اگر کچھ بچے کھچے لوگ فیسیس ادا کر بھی رہے ہیں تو سکول مالکان پہلے سکول کے ماہانہ اخراجات، کرایہ، بلز وغیرہ کو ترجیح دینے کے بعد یقیناً اپنا گھر دیکھتے ہیں- اس کے بعد اگر کچھ بچ جائے تو وہ آٹے میں نمک کے مصداق اساتذہ کو بھی دے دیتے ہیں- لیکن مہنگائی اور اخراجات کے اس مشکل وبالی دور میں وہ اونٹ کے منہ میں زیرے کے برابر بھی نہیں ہوتا، یہی وجہ ہے کہ آج یہ خاموش معمار وطن اپنی چاردیورایوں میں پڑے بھوک کی شدت سے اندر ہی اندر کراہ رہے ہیں، لیکن کوئی سننے والا نہیں- سکول مالکان انہیں ہمیشہ واجب الادا فیسوں کے بھاری رجسٹر دکھا کر اور حکومتی سطح پر آواز اٹھائے جانے کا لالی پاپ دے کر اپنے فرائض سے بری الذمہ ہو جاتے ہیں، اور یہ پڑھے لکھے سفید پوش ہر بار دل ہی دل میں اپنے معاشی حالات کی دگرگوں کیفیت دیکھ کر لہو کے گھونٹ پی کر رہ جاتے ہیں-
 آج ان چند سطور کے توسط سے ارباب اختیار و اقتدار کی توجہ اس خاموش، مہذب اور پڑھے لکھے طبقے کی خودداری کی جانب مبذول کرانا چاہتا ہوں، کہ یہ لوگ بھی 22کروڑ کا حصہ ہیں- اور ان کی ذمہ داری بھی آپ پر ہی عائد ہوتی ہے- سکول مالکان سے مذاکرات کامیاب ہوتے ہیں یا نہیں لیکن اس خوددار، پڑھے لکھے، عزت دار طبقے کے معاشی مسائل کا کوئی نہ کوئی حل بہر صورت نکالا جائے- یہ وقت فرنشڈ کمروں میں بیٹھ کر سب اچھا کی رپورٹس سے مطمئن ہونے کا نہیں, بلکہ گراؤنڈ ریالٹیز اور حالات کی سنگینی کا اندازہ لگاتے ہوئے اس معاملے پر سنجیدگی کا رویہ اپنانے کی ضرورت ہے- اب تک جیسے تیسے وقت گزر گیا، لیکن اس کے بعد ان حالات میں یہ لوگ فاقہ کشی پر مجبور ہوں گے- خدارا اس معاملے پر فوراً کوئی ایکشن لیا جائے، یہ نہ ہو کہ گھر کی چاردیواریوں میں بند یہ شرفاء اور معمارانِ وطن اپنی بھوک اور مفلسی کے سبب اپنی خودداری کا بھرم نہ رکھ سکیں- اور فاقوں کے سبب خودکشیوں پر آ جائیں- 

ادارہ اردوپوائنٹ کا کالم نگار کی رائے سے متفق ہونا ضروری نہیں ہے۔

تازہ ترین کالمز :