لاک ڈاؤن کے دوران اساتذہ کے لیے چند مشاغل

جمعہ 12 جون 2020

Tasweer Ahmad

تصویر احمد

کسی بھی معاشرے کی ترقی اور اصلاح کادارومدار اُسکے اساتذہ پر ہوتا ہے جن معاشروں میں اساتذہ محنتی، مہربان اور قابل ہوتے ہیں وہ معاشرے اور قومیں بڑی تیزی سے ترقی کی منازل طے کرتی ہیں۔آج اگر مغربی معاشرہ ترقی کی راہ پر گامزن ہے تو اُسکی ایک بڑی وجہ اُن معاشروں کے محنتی ،قابل اور ایماندار اساتذہ ہیں ، اور دوسری طرف اگر ہمارا معاشرہ تباہی کے دھانے پر کھڑاہے تو اُسکی وجہ بھی بڑی حد تک ہمارے معاشرے کے اساتذہ ہیں۔

اِس سال فروری 2020میں مجھے آسٹریلین نیشنل یونیورسٹی میں چھ دن کی ایک ٹرینیگ کا اتفاق ہوا، اِس ٹرینیگ میں آسٹریلیا اور دیگر ممالک کے طلباء او رزیادہ تر آسٹریلیا کے پروفیسرزمدعو تھے۔اِس ٹرینیگ کے دوران مَیں آسٹریلین اساتذہ کی محنت، قابلیت اور لگن دیکھ کر حیران رہ گیا جس میں ایک طرف تو اِن اساتذہ نے بڑی محنت سے لیکچرز اور ٹرینیگ دیں ،وہیں دوسری طرف وہی اساتذہ صبح 8بجے سے رات تقریباً10بجے تک طلباء کے ساتھ موجود ہوتے تھے،انہی طلباء کیساتھ کھانا کھاتے تھے، اُنہی طلبا کیساتھ چائے وکافی پیتے تھے اور اُنہی طلباء کیساتھ گیمز یا hikingبھی کیا کرتے تھے۔

(جاری ہے)

یہ سٹوڈنٹس اور ٹیچرز کے درمیان informal relationshipہی دراصل صحیح learningکا ذریعہ ہے جس کے تحت طالبعلم بے ججہک ہو کر اپنے اُستاد سے سوال پوچھ سکتے ہیں،اپنا مسئلہ اور مشکل اُستاد کو بتا سکتے ہیں۔جبکہ اِسکے برعکس پاکستان کے سرکاری سکولوں کے اساتذہ کی حالت آپکے سامنے ہی ہے اُس پر مجھے زیادہ بات کرنے کے ضرورت نہیں ہے۔میری اِس تحریر کا مقصد اساتذہ کو موٹیویٹ (motivate)کرنا ہے کہ وہ اِس لاک ڈاؤن کے دوران کچھ اچھے مشاغل اپنا سکتے ہیں، جوکہ انہیں ٹیچنگ کے دوران فائدہ دیں گے اور طلبہ میں نئی قابلیت ہنرمندی اور جدت کا جذبہ بھی پیدا کریں گے۔


ایک تو یہ کہ اِن چھٹیوں کے دوران تمام اساتذہ (پرائمری، سکینڈری، کالج، یونیورسٹی)کو جنگی بنیادوں (war-footings)پر آگ بجھانے کی ٹرینیگ دینی چاہیے۔آپ یقین مانیے کہ فائر فائیٹنگ کی ٹرینیگ نہایت ضروری ہے کیونکہ ہمارے ملک میں آئے روز آگ لگنے کے نِت نئے واقعات سُننے کو مِل رہے ہیں جن میں املاک کے نقصان کیساتھ ساتھ قیمتی جانوں کا ضیاع بھی ہو جاتا ہے۔

حکومت اور محکمئہ تعلیم کو چاہیے کہ وہ فائر سیفٹی ڈیپارٹمنٹ کیساتھ ملکر اِن چھٹیوں میں اساتذہ کو فائر فائیٹنگ کی ٹرینیگ دے۔ پوری دنیا کے اساتذہ اورتعلیم کے شعبوں سے مُنسلک لوگوں کے لیے چھٹیوں(موسمِ گرما کی چھٹیوں)کا مقصد صرف آرام کرنا نہیں ہوتا،درحقیقت ترقی یافتہ دنیا کے اساتذہ اِن چھٹیوں کے دوران اپنی پیشہ وارانہ کمی اور کوہتاہیاں پوری کرتے ہیں، کوئی نئی سِکل یا ہنر سیکھتے ہیں اور یا پھر اپنے ملک یا پھر کسی دوسرے مُلک کا سفر کرتے ہیں ، وہ ہمارے لوگوں اور ہمارے اساتذہ کی طرح صرف وقت ضائع نہیں کرتے۔


آج کے دور میں کمپیوٹر کی اہمیت سے کسی کو انکارنہیں، لیکن ہمارے پرائمری اور سکینڈری شعئبہ تعلیم کے اکثراساتذہ کمپیوٹر کی بنیادی سِکلز (MS Office, Word, PowerPoint)سے بھی نابلد ہیں، محکمئہ تعلیم کو چاہیے کہ وہ تمام اساتذہ کو کمپیوٹر کی بنیادی سکلز سیکھنے کاپابند کرے۔ محکمئہ تعلیم کو اساتذہ کے لے کمپیوٹرکے (crash courses)کروانے چاہیں جس میں ایک طرف انہیں کمپیوٹر کے بنیادی استعمال کی تربیت دینی چاہیے اور وہیں دوسری طرف انہیں کمپیوٹر کے ذریعے آن لائن ایجوکیشن سے متعلق بھی آگاہی فراہم کی جانی چاہیے۔

مستقبل قریب میں آن لائن ایجوکیشن ضرورت اور اہمیت بہت زیادہ بڑھ جائے گی اس لیے ہمیں اپنے اساتذہ کو آن لائن ایجوکیشن کے لیے تیار کرنا ہوگا۔
تیسرا اہم کام جو اساتذہ اِن چھٹیوں کے دوران کر سکتے ہیں وہ ہے کتاب بینی یا book reading۔ یہ چیز میں اپنی گزشتہ تحریر میں بھی عرض کر چکاہوں کہ محکمہ تعلیم اساتذہ کو پابند کرے کہ اساتذہ کرام اِن چھٹیوں کے دوران چند اچھی کتابوں (International BestSellers Books)کا مطالعہ ضرور کریں اور اِن کتابوں کے نوٹس بنائیں۔

مذید یہ کہ اساتذہ کی سالانہ ترقی اور پروموشن کا انحصار بھی اِن بیسٹ سیلرزپڑھی گئی کتابوں پر ہونا چاہیے۔اِس سلسلے میں محکمہ تعلیم 500-1000کے قریب اچھی کتابوں کی لِسٹ جاری کرسکتاہے اور اساتذہ کو پابند کر سکتا ہے کہ وہ ہر ماہ تقریباً دو یا تین کتابیں پڑھیں اور سال کے دوران تقریباً 25-30کتابیں ختم کریں اوریہ کہ اِن کتابوں کے نوٹس اساتذہ کرام کے پاس محفوظ ہونے چاہیں۔

یہ کتابیں اساتذہ کی قابلیت بڑھائیں گی وہیں دوسری طرف اُنکے علم میں اضافہ بھی کریں گی جس کو اساتذہ کرام تدریسی عمل کے دوران استعمال کر سکتے ہیں۔
تیراکی وہ چوتھا اہم مشغلہ جو کہ اساتذہ کرام اِس لاک ڈاؤن اور چھٹیوں کے دوران پریکٹس کرسکتے ہیں ۔پوری دنیا کے سکولوں میں بچوں کو تیراکی سیکھائی جاتی ہے اور بعض ممالک تو ایسے ہیں جن میں گریجویشن کے لیے سوئمنگ کا آنا لازمی شرط ہے،یعنی اگر طلباء کو بنیادی تیراکی آتی ہے تو تب ہی انہیں گریجویشن کی ڈگری دی جائے گی۔

اس لیے ہماری اساتذہ بھی اِن چھٹیوں کے دوران سوئمنگ سیکھ سکتے ہیں اور اپنی سِکل سیٹ بڑھا سکتے ہیں۔اس پر مذید یہ کہ اگر کبھی ہمارے محکمہ تعلیم کو توفیق ہوئی اور وہ سکولوں میں سوئمنگ پول بنادے تو یہی اساتذہ بچوں کو سوئمنگ سکھاسکتے ہیں۔ اسی طرح اساتذہ تیراکی کیساتھ ساتھ گھڑسواری جیسی سکلز بھی سیکھ سکتے ہیں۔
ہمارے اساتذہ کرام انگریزی اور ریاضی میں کوئی اتنے اچھے نہیں، اس لیے اساتذہ کرام اِن چھٹیوں کے دوران انگریزی سیکھنے کی استعداد بڑھا سکتے ہیں۔

انگلش پڑھنے، لکھنے، بولنے اور سُننے کی صلاحیت بڑھا سکتے ہیں۔اِس سلسلے میں اساتذہTOEFLیاIELTSکے کورسز کر سکتے ہیں یا اِن تکنیکس سے استفادہ کر سکتے ہیں جو اِن امتحانات کو دینے کے لیے استعمال ہوتی ہیں۔اِس سلسلے میں محکمہ تعلیم TOEFLیاIELTSانسیٹیوٹس کے ساتھ معاہدہ کر سکتی ہے جسکے تحت ہمارے اساتذہ رعایتی فیس کیساتھ یہ امتحانات دے سکیں اور ٹائفل یا آئیلیٹس کی سرٹیفیکیشن حاصل کر سکتے ہیں۔


شاید قارئین کے علم میں ہو کہ اِس لاک ڈاؤن کے دوران دنیا کے زیادہ تر بزنس مین کوئی نئی زبان ( مثلاً چائینز، کورین، فرنچ یا عربی) سیکھ رہے ہیں۔ اِس اچھی عادت کو اپناتے ہوئے ہمارے اساتذہ بھی کوئی نئی زبان سیکھ سکتے ہیں۔یہ نئی زبان اِن اساتذہ کو مستقبل میں کسی نئے کلچر سے متعارف کرواسکتی ہے اور یہ لوگ اپنی سی وی میں ایک نئی زبان پر عبور کو لکھ سکتے ہیں۔


اور میرے ذہن میں جوآخری سِکل آرہی ہے وہ ہے دونوں ہاتھوں سے لکھنا(double hand-writing)۔ہمارے اساتذہ اِن چھٹیوں کے دوران دونوں ہاتھوں سے لکھنے کا ہنر سیکھ سکتے ہیں۔کیونکہ جو لوگ صرف دائیں ہاتھ سے لکھتے ہیں اُنکے دماغ کا صرف بایاں حصہ کام کرتا ہے اور جو لوگ دونوں ہاتھوں سے لکھتے اور کام کرتے ہیں اُنکے دماغ کے دونوں حصے کام کرتے ہیں۔دونوں ہاتھوں سے لکھنے کی تین سٹیج ہیں، جس میں دونوں ہاتھوں سے الگ الگ لکھنا، دونوں ہاتھوں سے بیک وقت لکھنا، اور دونوں ہاتھوں سے بیک وقت دو مختلف زبانوں میں لکھنا۔

اساتذہ کرام اِن سکلز کو بھی سیکھ سکتے ہیں اور آگے بچوں کو سکھا سکتے ہیں۔
میری اساتذہ کرام اور محکمہ تعلیم سے یہ چیز سوچنے اور ذہن نشین کرنے کی گذارش ہے کہ انہیں جو اِس کرونا لاک ڈاؤن کے دوران گھر بیٹھے تنخواہ مِل رہی ہے وہ میرے اور عوام(ٹیکس دہندگان)کے پیسے سے مِل رہی ہے۔یہ وہی میرے(عوام)ٹیکس کا پیسہ ہے جو میں پٹرو ل خریدتے ہوئے، کپڑے اور جوتے خریدتے ہوئے حکومت کو دیتا ہوں اور حکومت اِس پیسے سے سکولوں کے اساتذہ اور باقی شعبوں کے لوگوں کو تنخواہیں دیتی ہے،لہذااِن استادوں کو بھی دل پر ہاتھ رکھ کر سوچنا چاہیے کہ اگر ہم اِس لاک ڈاؤن کے دوران گھر بیٹھے تنخواہ لے رہے ہیں تو پھر انہیں اِسکے جواب میں ریاستِ پاکستان کوکچھ واپس بھی لوٹانا (serve)چاہیے اور اِس serveکرنے کی سب سے بہترین صورت یہ ہو سکتی ہے کہ اساتذہ کرام اِس لاک ڈاؤن کے دوران کو نیا ہنر یا سکل سیکھیں جسکو یہ اساتذہ کرام سکول کُھلنے کے بعد اپنے شاگردوں اور آنیوالی نسلوں کو سکھا سکتے ہیں۔

لیکن خداراگھر بیٹھے صرف وقت ضائع نہ کریں، یہ طالبعلم ہماری ذمہ داری ، ہمارے اور پاکستان کے بچے ہیں اِنکے مستقبل کا خیال کریں اور اپنے پیشے سے ایماندار رہیں۔

ادارہ اردوپوائنٹ کا کالم نگار کی رائے سے متفق ہونا ضروری نہیں ہے۔

تازہ ترین کالمز :