ٹڈیوں پہ ٹڈیوں کا حملہ

منگل 14 جولائی 2020

Tasweer Ahmad

تصویر احمد

 ٹڈی دل کے حملے کو ملک میں شروع ہوئے آج تقریباً دو ماہ سے زیادہ عرصہ ہونے کو ہے ، ٹڈی دل نے سندھ ، بلوچستان اور جنوبی پنجاب کے کئی اضلاع میں کھڑی فصلوں کو بُری طرح تباہ کردیا ہے۔کھیت کے کھیت اُجڑ گئے ہیں اور بیچارے کسان فصلوں کی تباہی سے بڑے پریشان ہیں۔ملک میں کرونا کیوجہ سے پہلے ہی سپلائی چِین بُری طرح متاثر ہوئی ہے ، اِس پر ٹڈی دل کے حملے نے رہی سہی کسر بھی نکال دی جس کی وجہ سے پورا ملک کرونا کی معاشی بد حالی کیساتھ ساتھ فوڈ سیکورٹی کے بحران کا بھی شکار ہونے کو ہے۔

اِس میں کافی حد تک قصور حکومت کی بروقت عدم توجہ، سست روی اور نظام کی بے حسی کا ہے، لیکن اِس کے ساتھ ہی میں یہ سمجھتا ہوں کہ اِس میں زیادہ قصور ٹیکنالوجی کے استعمال کا فقدان، سائنس وٹیکنالوجی کے اداروں کی بُری پرفارمنس اور ریسرچ اینڈ ٹیکنالوجی کے اداروں میں سزاوجزا کے نظام کا فقدان ہے۔

(جاری ہے)


ملک میں نیشنل ڈیزاسٹر مینیجمنٹ (NDMA)کے نام سے ایک ادارہ کام کر رہا ہے جسکو ایک باوردی صاحب چلا رہے ہیں۔

مجھے آج تک اِس ادارے کے بننے کی وجہ اور اِس کے مشن کی سمجھ نہیں آئی۔یہ ادارہ جنوری 2020ء سے پہلے بڑی مزے سے سورہا تھا، پھر اچانک ملک میں فروری 2020ء میں کرونا آیا تو حکومت اور لوگوں کو یاد آیا کہ ہمارے پاس (NDMA)کے نا م کا بھی کوئی ادارہ ہے اور پھر حکومت، عوام اور سول سوسائٹی سے اِس ادارے کو جگانا شروع کیا۔شروع شروع میں تو اِس ادارے کے چیئرمین کو سمجھ میں ہی نہیں آیا کہ آخر کرونا ہے کیا چیز! اورانہوں نے مارچ اور اپریل میں ٹی وی چینل پر کوئی بیان یا انٹرویو نہیں دیا،پھر اِسی طرح ملک میں ٹڈیوں کا حملے ہواتو اِس پر بھی وہ خاموش رہے۔

مجھے اِس بات کی سمجھ نہیں آپارہی کہ اِس ادارے کے پاس کسی قسم کےdisasterکو ہینڈل کرنے کے لیے کس طرح کی ٹرینیگ یا سازوسامان(Equipment)موجود ہ؟اگر ملک میں زلزلہ یا سیلاب آجائے تو یہ ادارہ اِس صورتحال میں کس طرح ڈیل کرے گا،اِس ادارے سے یہ سوالات پوچھے جانے چاہیں۔ اب اِس ٹڈی دل کے مسلئے کو ہی لے لیں ، نیشنل ڈیزاسٹڑ مینجمنٹ کا ادارہ بڑی آسانی سے ٹیکنالوجی کے استعمال سے ٹڈی دل کے مسلئے پر قابو پا سکتا تھا۔

اگرا ِس ادارے کے پاس 200-300کے قریب high-techڈرونز یا quad-coptersموجود ہوتے اور اِس کے لوگ اِس بات کیلئے ٹرینڈ ہوتے کہ کس طرح کھڑی فصلوں پر اِن ڈرونز کے ذریعے سپرے کرنا ہے تو اِس مسلئے پر بڑی حد تک قابو پایا جا سکتا تھا۔ ایسے کواڈ کاپٹرز یا ڈرونز جو 2-3کلوگرام کا pay-loadاُٹھا سکتے ، اُنکی مدد سے اگر کھڑی فصلوں پر سپرے کیا جاتا تو یہ مسلئہ بڑی حد تک کنٹرول ہو سکتا تھا۔


ٹڈی دل کے مسلئے پر دوسری بے حسی اور تباہی ملک کے برائے نا م قسم کے سائنس اینڈ ٹیکنالوجی کے اداروں کی بھی ہے ۔ملک میں وزارتِ سائنس اینڈ ٹیکنالوجی، پاکستان سائنس فاؤنڈیشن ، نیشنل انجنئیرنگ اینڈ ریسرچ کمیشن، پاکستا ن سائنس اینڈ اپر ایٹماسفئیر ریسرچ کمیشن(سپارکو)، نیشنل ربورٹ سنٹراسلام آباد، نسٹل یونیورسٹی، پاکستان انسٹیٹیوٹ آف انجئیرنگ اینڈ اپلائیڈ سائنسز، نیشنل ایگریکلچر ریسرچ سنٹر، یونیورسٹیز آف انجنئیرنگ اینڈ ٹیکنالوجی لاہور ٹیکسلا، پاکستان ائیروناٹیکل کمپلیکس کامرہ کے نام سے درجن بھر ادارے قائم ہیں ۔

کیا یہ اتنے سارے ادارے ملکر بھی ملک کے لیے کوئی ڈرون یا quad-coptersنہیں بنا سکتے جن کے ساتھ 3-4کلوگرام کا pay-loadلگا کر زرعی فصلوں پر سپرے کیا جا سکے۔کیا یہ اتنے سارے ادارے فیلڈ اور ایگریکلچر ربورٹس نہیں بنا سکے جو اِس ٹڈی دل جیسی مصیبت کا کوئی حل نکال سکے۔ کیا حکومتِ پاکستان نے عوام کے ٹیکسوں کے پیسوں سے صرف اِن اداروں کے لوگوں کو تنخواہیں دینے اور اُنکی جیبیں بھرنے کا کام ہی لینا ہے۔

کیا اِن بھاری بھر کم تنخواہوں کے بدلے اِن اداروں کے لوگوں نے کچھ ڈیلیور نہیں کرنا۔
آج کل ٹیکنالوجی کے دور میں ٹڈی دل کے حملے پر قابو پا نا کوئی اتنی بڑی راکٹ سائنس نہیں ہے۔ ملک میں اگر 50-60فٹ اونچائی کے لیے کوئی ڈرون اتنے سارے ادارے بنا پاتے ، جو ٹڈی دل کی فصل پر حملے کی صورت میں سپرے کر سکتا، تو خلائی مشن کے نام سے جو ادارے بنا رکھے ہیں وہ کیاخاک کام کریں گے؟اِس ٹڈی دل کے حملے کی صورت میں اِن اداروں کو 15-20دنوں کے شارٹ نوٹس پر کوئی proto-typeبنا کر لانچ کرنے کا مشن دیا جانا چاہیے تھا جو اِس مشکل کی گھڑی میں ملک وقوم کی مدد کر سکتا ، اور اِن اداروں کی کارکردگی بھی justifyہو جاتی ۔

لیکن اِن تمام اداروں کے لوگ، یونیورسٹیز کے پروفیسرز حضرات اور خود سیاست دان بڑے مزے سے سوئے پڑے ہیں، انہیں صرف اِن اداروں سے بھاری بھرکم تنخواہیں اورمراعات لینے کی پڑی ہے۔ اگرآپ اِن لوگوں سے پرفارمنس یا کارکردگی کا پوچھیں تو یہ آپکے گلے پڑ جائیں گے۔یہ اِن اداروں اور اِن میں کام کرنیوالے لوگوں کے نکمے پن اور نااہلی کا نتیجہ ہے کہ پاکستان کو ٹڈیوں پر قابو پانے کے لیے بھی چائنہ یا کسی اور ملک کی مدد لینے کی ضرورت پڑ رہی ہے۔

ملک میں پاکستان ائیرونٹیکل کمپلیکس کا نام سے اتنا بڑا ادارہ موجود ہے، کیا اِس کے پاس اِس طرح کے پروٹو ٹائپ جہاز موجود نہیں ہیں جو کم بلندی پر پرواز کر کے ٹڈیوں کے حملے پر سپرے کر سکیں ؟کیا اس ائیرونیٹیکل کمپلیکس میں ملکی سطح پر ایسی کوئی Unmanned Aerial Vehicleنہیں بنائی گئی جو فصلوں پر سپرے کی صورت میں استعمال کی جاسکے؟کیا ہمارے اِن اتنے سارے اداروں کے پاس اِس طرح کے UAVs یا الیکڑانک gadgetsموجود نہیں جو سیلاب سے متاثرہ جگہوں یا زلزلہ سے متاثرہ جگہوں کی فضائی مونیٹیرنگ کر سکیں ، اور اِس کا ازالہ یا ریسکیوآپریشن لانچ کرنے میں مدد کر سکیں؟ لیکن مجھے نہیں لگتا کہ ہمارے پاس اِسطرح کی کوئی ٹیکنالوجی موجود ہے کیونکہ ہم ایک بڑی ہی سست اور کاہل قوم ہیں جب تک ہم ٹڈیوں جیسی قوم پر کو ئی دوسری ٹڈیا ں حملہ نہ کردیں ،ہمیں اُس وقت تک ہوش نہیں آتا!مصنف ،تصویر احمد۔


ادارہ اردوپوائنٹ کا کالم نگار کی رائے سے متفق ہونا ضروری نہیں ہے۔

تازہ ترین کالمز :