سیاسی مداخلت پرلعنت

منگل 13 نومبر 2018

Umer Khan Jozvi

عمر خان جوزوی

ہمارے آبائی علاقے میں ایک ،،خان ،،صاحب رہتے تھے جوپہلے ہربات پرہرکسی کوگالی دیاکرتے تھے،کوئی چھوٹاہویابڑا،سامنے کوئی امیرہویاپھرکوئی غریب ،اس دورمیں ان کے ہاں ہرکوئی گالی کاسوفیصدحقدارٹھہرتا۔ان سے جس کابھی سامناہوتاوہ پھرگالی کاذائقہ چکھے بغیرواپس نہ ہوتا۔اب توحالات کے ساتھ خان صاحب بدل بلکہ بہت بدل گئے ہیں۔

آج وہ اپنے سے چھوٹوں کے ساتھ بھی پیاراورمحبت سے پیش آنے کے ساتھ ہرکسی سے جی جی سے بات اورخندہ پیشانی سے سب کا استقبال کرتے ہیں لیکن گالیوں کی عمریاموسم میں گالیاں دینے کے علاوہ ان کاکوئی اورکام ہی نہ ہوتاتھا۔خان صاحب ایک باروہ ووٹ مانگنے کے لئے کسی قریبی گاؤں میں گئے۔لوگوں کوجمع کرکے وہ وہاں ووٹ مانگ رہے تھے کہ اچانک مجمع میں سے کسی نے کہاکہ،،خان ،،جی ہم بھی آپ کے ہیں اورہمارے ووٹ بھی آپ کے ،پہلے بھی ووٹ آپ کودےئے اوراب کی باربھی ووٹ آپ کوہی دیں گے لیکن خان جی ہماراآپ سے ایک گلہ ہے یہ جوآپ بات بات پرہرکسی کوگالی دیتے ہیں یہ آپ کے ساتھ اچھانہیں لگتا۔

(جاری ہے)

براہ مہربانی آپ یہ گالیوں والاکام چھوڑدیں ۔۔یہ سنتے ہی خان جی پہلے مسکرائے پھر اپنے روایتی اندازمیں کہنے والے کومخاطب کرتے ہوئے وہ کہنے لگے ۔اوبے غیرتا ۔۔میں نے کسی کو کب گالی دی ہے۔اپنے اس خان اورپی ٹی آئی کے وزیروں اورمشیروں میں ہمیں کچھ زیادہ فرق نظرنہیں آرہا۔جس طرح ہمارے اس بھولے بھالے خان کونہیں پتہ تھاکہ گالی کسے کہتے ہیں۔

اسی طرح آج تحریک انصاف کے وزیروں اورمشیروں کوبھی نہیں معلوم کہ سیاسی مداخلت کس بلاکانام ہے۔سرکاری افسران اورملازمین کے سیاسی اورانتقامی تبالوں کے بعدبھی بڑی ڈھٹائی کے ساتھ ہرجگہ یہ کہاجارہاہے کہ ہم نے سرکاری اداروں سے سیاسی مداخلت کاخاتمہ کردیاہے۔جب ان سے پوچھاجاتاہے کہ کہاں اورکس ادارے میں سیاسی مداخلت کاخاتمہ کیاتوجواب میں کسی اورافسرکاایمرجنسی بنیادوں پرتبادلہ کرادیاجاتاہے۔

آئی جی پنجاب،ڈی پی اوپاکپتن اورپھرآئی جی اسلام آبادایمرجنسی بنیادوں پرپی ٹی آئی حکومت کے انتقامی اورسیاسی تبادلوں کانشانہ بنے لیکن اس کے باوجودتحریک انصاف کے وزیروں اورمشیروں کی زبانوں سے سیاسی مداخلت کالفظ ابھی تک چمٹاہواہے۔مسلم لیگ ن اورپیپلزپارٹی کے ادوارکی طرح آج بھی جوسرکاری افسراوراہلکارتحریک انصاف کے کسی سواتی ، کسی گوجر،کسی سائیں ،کسی چوہدری،کسی خان ،کسی سردار،کسی وڈیرے اورکسی نواب کے سامنے ایک باربھی کوئی ،،نا،،کردیں توپھرانہیں فوری طورپر انتقامی اورسیاسی تبادلوں کے ایمرجنسی وارڈمیں منتقل کردیاجاتاہے۔

حکمران پنجاب کے آئی جی کوتبدیل کریں یاخیبرپختونخوامیں مسلم لیگ ن،اے این پی یاپیپلزپارٹی کے منظورنظر کسی اعلیٰ افسرکوگھربھیجیں ہمیں اس پرکوئی اعتراض نہیں ۔جنگل پرحکمرانی انہی کی ہوتی ہے جوجنگل کے بادشاہ اورحکمران ہوتے ہیں ۔ملک میں اس وقت تحریک انصاف کی حکومت ہے اورجنگل کے شیرکی طرح کسی کوترقی دینایاکسی کوکھڈے لائن لگاناان کاکام اورحق بھی ہے۔

ہم ن لیگ اورپیپلزپارٹی کے دورمیں بھی کہتے رہے اورآج بھی کہتے ہیں کہ سرکاری افسران اوراہلکاروں کے انتظامی بنیادوں پرتبادلے اورتقرریاں نہ صرف ہرنئے آنے والی حکومت کاحق اوراختیارہے بلکہ ایک مجبوری بھی ۔اوراسی وجہ سے انتظامی بنیادوں پرہونے والے تقرروتبادلوں کوکبھی ہم نے سرکاری اداروں میں سیاسی مداخلت کانام نہیں دیااورنہ ہی آج دیتے ہیں لیکن سیاسی انتقام کی آگ بجھانے اورذاتی مفادات کے حصول کے لئے کسی سرکاری افسراوراہلکارکو قربانی کابکرابنانے اورتبادلے کوہم کل بھی اداروں میں سیاسی مداخلت کانام دیتے تھے اوراس فعل اورعمل کوہم آج بھی سیاسی مداخلت اورانتقامی سیاست سے تعبیرکرتے ہیں ۔

ہم مانتے ہیں کہ مسلم لیگ ن سمیت سابق حکومتی ادوارمیں درجنوں اورسینکڑوں نہیں بلکہ ہزاروں سرکاری افسران اورملازمین انتقامی سیاست کی بھینٹ چڑھے لیکن سابق حکمرانوں سے کوئی گلہ کرنے کی بجائے تحریک انصاف کی حکومت سے ہمیں شکوہ صرف اس لئے ہے کہ سرکاری اداروں سے سیاسی مداخلت کاخاتمہ پی ٹی آئی کاہمیشہ نعرہ رہا۔وزیراعظم عمران خان نے ایک دونہیں کئی بار کہاکہ ہماری حکومت میں کسی بھی سرکاری افسر اورملازم کاانتقامی طورپرکوئی تبادلہ ہوگانہ ہی کسی سرکاری ادارے میں کوئی سیاسی مداخلت ہوگی۔

خیبرپختونخوامیں خٹک سرکارکے ذریعے پانچ سال حکمرانی کے بعدوزیراعظم عمران خان خیبرپختونخواکو رول ماڈل کے طورپرپیش کرتے ہوئے کہتے تھے کہ ہم نے خیبرپختونخواکے سرکاری اداروں میں سیاسی مداخلت کاخاتمہ کردیاہے اب پورے ملک میں قائم سرکاری اداروں سے سیاسی مداخلت کاخاتمہ کریں گے۔ خیبرپختونخواکے سرکاری اداروں میں سیاسی مداخلت کااگرواقعی خاتمہ کردیاگیاتھاتوپھروفاق اورپنجاب میں حکومت سنبھالنے کے فوری بعدہی سرکاری اداروں میں سیاسی مداخلت کے جراثیم داخل کرنے اوررواج ڈالنے کی کیاضرورت تھی۔

۔؟آئی جی،ڈی آئی جی اورڈی پی اویہ تواعلیٰ عہدے ہیں،اس سے توہزاروں اورلاکھوں سیاسیوں کے مفادات وابستہ ہوتے ہیں اس ملک میں توآج تحریک انصاف کی حکمرانی کے سائے تلے پرائمری اورمڈل سکولوں کے غریب ٹیچربھی انتقامی سیاست اورایمرجنسی تبادلوں سے محفوظ نہیں ۔ہزارہ سمیت ملک کے کئی اضلاع اورعلاقوں میں آج بھی سرکاری سکولوں کے ٹیچروں،ہسپتالوں کے ڈاکٹروں اوردیگرسرکاری اہلکاروملازمین کے انتقامی طورپرتبادلے ہورہے ہیں مگرمسئلہ صرف یہ ہے کہ عہدے چھوٹے اورملازم واہلکارغریب ہونے کی وجہ سے نچلی سطح پرہونے والے ان انتقامی اورسیاسی تبادلوں کی گونج اعلیٰ عدلیہ اور ایوانوں تک نہیں پہنچتی جس کی وجہ سے سرکاری اداروں میں سیاسی مداخلت کے جراثیم روزبروزسرایت کرتے جارہے ہیں ۔

سرکاری اداروں میں سیاسی مداخلت کے اعلانات ،دعوے اوروعدے اپنی جگہ لیکن ایک بات جس کوجھٹلاناکسی بھی طورپرممکن نہیں وہ یہ کہ اس بدقسمت میں ملک میں عوام سے ووٹ کی بھیک مانگنے والے ہمارے اکثرسیاستدان اسمبلیوں اوراقتدارمیں جاتے ہی صرف اس لئے ہیں کہ وہ ایم این اے،ایم پی اے،وزیراورمشیربن کراپنے مخالفین پر سیاسی انتقام کی آگ ٹھنڈی کرسکیں ۔

اسی مجبوری کی وجہ سے وزیراعظم اورتحریک انصاف کے وزیروں اورمشیروں کی جانب سے سرکاری اداروں میں سیاسی مداخلت ختم کرنے کے نعروں اوردعوؤں تلے آج بھی کسی سواتی ،کسی گوجر،کسی سائیں ،کسی چوہدری،کسی خان ،کسی سردار،کسی وڈیرے اورکسی نواب کی فرمائش پرملک میں سرکاری افسران اوراہلکاران کے انتقامی تبادلوں کاجھکڑبڑی بے رحمی اوربیدردی کے ساتھ چل رہاہے۔

عمران خان اورتحریک انصاف کوعوام نے ووٹ تبدیلی کے نام پردےئے،نئے پاکستان بنانے کے لئے دےئے،تبدیلی اورنئے پاکستان میں بھی اگرپرانے والے کام ہی ہونے ہیں توپھرتبدیلی کے نام پرعوام کوبیوقوف بنانے کی کیاضرورت تھی۔۔؟تحریک انصاف کے ممبران اسمبلی،وزیروں اورمشیروں کواپنی خواہشات کوسائیڈپررکھ کر اپنے سینوں اوردلوں میں لگی سیاسی انتقام کی آگ بھی بجھانی ہوگی۔

پی ٹی آئی اورحکومت کے ذمہ داران جب تک انتقام کی سیاست اوراداروں میں سیاسی مداخلت پرہزاربارلعنت نہیں بھیجتے اس وقت تک ملک میں نہ توحقیقی تبدیلی آسکتی ہے اورنہ ہی نئے پاکستان کاخواب شرمندہ تعبیرہوسکتاہے۔اس لئے حکومتی وزیر،مشیراورممبران اسمبلی ٹیچر،ڈاکٹراوردیگرسرکاری افسران اوراہلکاروں کاپیچھاچھوڑکرپرانے پاکستان کونیاپاکستان بنانے کے لئے آگے بڑھیں تاکہ کپتان کادیرینہ خواب شرمندہ تعبیراورعوام سے تبدیلی لانے کاوعدہ پوراہوسکے۔

ادارہ اردوپوائنٹ کا کالم نگار کی رائے سے متفق ہونا ضروری نہیں ہے۔

تازہ ترین کالمز :