ریاست مدینہ کا بجٹ

ہفتہ 20 جون 2020

Umer Nawaz

عمر نواز

تعلیم انسان کو شعور اور آگاہی دیتی ہے تعلیم کے بغیر انسان کی زندگی ادھوری ہے انسان نے جب بھی ترقی کی ہے تعلیم سےہی کی ہے اگر دنیا کے ترقی یافتہ ملکوں کی بات کی جائے تو ان کی ترقی کا راز تعلیم ہی ہے اگر آج کے اس حالات کی بات کی جائے جو آج عہد کرونا چل رہا ہے تو جن ریاستوں اور جن قوموں نے کرونا وائرس کو شکست دی ہے تو تعلیم ہی کے ذریع دی ہے کیوں کہ تعلیم انسان کوسیکھاتی ہے کچھ کرنے کا جزبہ پیدا کرتی ہے بجٹ مالی سال کے شروع میں پیش کیا جاتا ہے اور ایک سال کی منصوبہ بندی کی جاتی ہے کہ آئندہ سال  میں کس شعبہ کو کتنے پیسے ملیں گے کس کو زیادہ ملے گے کس کو بقیہ سال کی نسبت کم ملے گے بجٹ میں ہی گزشتہ سال کی کارکردگی بتائی جاتی ہے کہ کس محکمہ کی کیا کارکردگی ہے کس نے کیا کھویا کیا پایا اور یہ فیصلہ کیا جاتا ہے کہ کس محکمے کو کتنے یسیوں کی ضرورت ہے اور پوری مالی  منصوبہ بندی کی جاتی ہے اگر حالیہ ریاست مدینہ کے بجٹ کی بات کی جائے تو یہ بجٹ عوام کے لیے لالی پاپ بھی نہیں تھا گزشتہ بجٹ مثالی تو نہیں ہوتے تھے لیکن پھر بھی کسی نا کسی طرح حکومت عوام کو مطمن کر لیتی تھی لیکن حالیہ بجٹ تو عام آدمی کے خلاف ہی تھا اگر سرکاری ملازمین کی بات جائے تو یہ اپنی نوعیت کا پہلا بجٹ ہو گا جس میں سر کاری ملازمین کو سرخ جھنڈی دیکھائی گئی اگر صحت کے شعبے کی بات کی جائے تو جس طرح پوری دنیا کو کرونا وائرس نے اپنی لپیٹ میں لیا ہوا ہے اسی طرح پاکستان  بھی اس وائرس کا شکار ہے اور روز بروز کیسز میں اضافہ ہورہا ہے اور شرح اموات میں بھی اضافہ ہورہا ہے لیکن بجٹ میں ہم نے صحت کے بجٹ میں کتنا اضافہ کیا ہے ہماری حکومت تو کہتی  ہے ہم نے کروناکی جنگ جیتنی ہے لیکن وہ کیسے کتنا ہم نے اس کے بجٹ میں اضافہ کیا ہے کتنے نئے ہسپتال بنانے کے لیے پیسے رکھے کتنے نئے میڈیکل کالجز اور لیبارٹری بنانے کے لیے پیسے مختص کیے ہیں پہلے کی نسبت اس میں کتنا اضافہ کیا ہے کرونا کے فرنٹ کے اوپر لڑنے والے ڈاکٹر اور پیرا میڈکس کی تنخواہوں میں اضافہ کیا ہے اور دفاع کا بجٹ کتنا ہے اگر بجٹ کے اوپر نظر دوڑائیں تو معلوم یہی ہوتا ہے کہ یہ بجٹ تو محمکہ خزانہ نے نہیں دفاع نے بنایا ہے جس میں اس نے سارا پیسہ اپنے ہی محکمہ کے نام کر دیا ہے کیا ہم نے کرونا وائرس کو بندوق کے ساتھ شکست دینی ہے ؟معلوم تو یہی ہوتا ہے اگر تعلیم کے بجٹ کی بات کی جائے تو وہ بھی دفاع کے بجٹ سے بہت کم ہے ہاں یہ بھی مانتا ہوں تعلیم صوبائی محکمہ ہے لیکن مرکز کس لیے ہے جنگیں ہتھیاروں سے نہیں بلکہ شعور اور آگاہی سے لڑی جاتی ہیں آج بندوق کا نہیں بلکہ انسانی ترقی کا زمانہ ہے ہتھیاروں کا زمانہ گزر چکا ہے اب تو ڈپلومیسی اور اکنامکس کی وار ہے۔

ادارہ اردوپوائنٹ کا کالم نگار کی رائے سے متفق ہونا ضروری نہیں ہے۔

تازہ ترین کالمز :