کرسی کتنی مضبوط ہے؟

بدھ 1 جولائی 2020

Umer Nawaz

عمر نواز

کہتے ہیں حکمران کو تو دیوار کی دوسری طرف بھی نظر آتا ہے لیکن ہمارے شعرا کو تو اس سے بھی زیادہ نظر آتا ہے حبیب جالب صاحب کی وہ غزل جو آج سے کئی سال پہلے لکھی گئی تھی وہ ہمارے آج کے حکمرانوں کے بیان کو سن کر ایسے لگتا ہے جیسے آج ہی لکھی گئی ہو آجکل ہمارے کپتان بھی یہ کہہ رہے ہیں کہ ان کا اقتدار شائد ہمیشہ ہی ہے یا پھر وہ سمجھ بیٹھے ہیں کہ ان کی کرسی کو کوئی خطرہ نی ان کے اس بیان کی حبیب جالب صاحب کی یہ غزل ٹیھک عکاسی کرتی ہے
اس سے پہلے وہ جو اک شخص یہاں تخت نشیں تھا
اس کو بھی اپنے خدا ہونے پہ اتنا ہی یقیں تھا
کوئی ٹھہرا ہو جو لوگوں کے مقابل تو بتاؤ
وہ کہاں ہیں کہ جنہیں ناز بہت اپنے تئیں تھا
آج سوئے ہیں تہ خاک نہ جانے یہاں کتنے
کوئی شعلہ کوئی شبنم کوئی مہتاب جبیں تھا
اب وہ پھرتے ہیں اسی شہر میں تنہا لیے دل کو
اک زمانے میں مزاج ان کا سر عرش بریں تھا
اقتدارہمیشہ رہنے وا لی چیز نہیں کوئی پتہ نہیں چلتا کہ کب قسمت کی دیوی بدلے اور انسان اقتدار سے باہر ہو جائے اس دنیا میں کتنے کتنے حکمران آئے آج ان کے لوگوں کو نام تک یاد نہیں جب کوئی حکمران آیا اس نے اپنے طریقے سے حکمرانی کی نظام کواپنےطریقے سے چلانےکی کوشش کی کچھ اس امتحان میں کامیاب ہوئے تو کچھ ناکام۔

(جاری ہے)

وقت بدلنے کا کوئی پتہ نہیں چلتا کہ کب عروج کا سورج غروب ہو جائے اور زوال کی شام پر پھیلا آئے جب انسان پاور میں ہوتا ہے تو وہ یہ سمجھتا ہے یہ پاور اس کے لیے بنی ہے اور وہ پہلا انسان ہے اس روحِ زمین پر جس کو پہلی مرتبہ ملی ہےلیکن وہ یہ بھول رہا ہوتا ہے اقتدار کا نشہ ہی ایسا ہے انسان بہت جلد دھوکا کھا جاتا ہے ۔ اگر تاریخ کے اوراق پر نظر دوڑائی جائے تو معلوم ہوتا ہے کہ جب کوئی حکمران اقتدار میں ہوتا ہے تو اسی اپنی کرسی مظبوط ہونے کا بہت کامل یقین ہوتا ہے لیکن اس کی کرسی چند لمحوں میں ٹوٹ بھی جاتی ہے حکمرانوں نے خود بھی اور عوام نے بھی ایسے ہوتے ہوئے دیکھا ہے یہ بات بھی سب جانتے ہیں کہ اقتدار کے ختم ہونے کا بھی کچھ پتا نہیں چلتا کب عروج کا سورج غروب ہو جائے اور زوال کی شام اپنے پر پھیلانے لگے اگر پاکستان کے حکمرانوں کی بات کی جائے تو میجر جنرل سکندر مرزا سے لے کر عمران خان تک جتنے بھی حکمران آئے سب کو یہی یقین تھا کہ ان کا متبادل کوئی نہیں اس ملک میں لیکن چند لمحوں بعد ہی ان کے متبادل بھی آگئے جنرل ایوب خان کو بھی اتنا ہی یقین تھا جتنا ہمارے کپتان کو ہے کہ اس ملک میں ان کا کوئی متبادل نہیں وہ جب تک چاہیے اور جتنی دیر تک چاہیے حکومت کر سکتے ہیں یہ اقتدار بنا ہی اسی کے لیے ہے لیکن پھر عوام نے ان کو بھی جاتے ہوئے دیکھا آج ان کے جانشین سہارے تلاش کرتے پھر رہے ہیں کبھی کسی پارٹی میں توکبھی کسی پارٹی میں اسی طرح جنرل یحیی خان کا بھی یہی خیال تھا ان کا قلعہ بہت مظبوط ہے ان کا اقتدار تو شائد ہمیشہ رہنے والہ ہے لیکن ان کے عروج کا سورج بھی عوام نے غروب ہوتے ہوئے دیکھا آج ان کا اس ملک میں شائد کوئی نام لیوا بھی نہیں اگر مرد مومن کی بات کی جائے وہ تو شائد پیدا ہی حکمرانی کے لیے ہوئے تھے؟ انھوں نے اپنے اقتدار کو بچانے کے لیے سیاسی لیڈروں کو  پھانسی کے پھندوں تک پہنچایا سیاسی ورکروں کو کوڑے مارے صحافیوں کو پابند سلاسل کیا سیاست کو گالی بنایا دین کو اپنا اقتدار بچانے کے لیے ڈھال بنایا لیکن اس کے باوجود بھی اسے یہ میدان خالی کرنا پڑا غلام اسحاق خان کی بھی کرسی یہ سمجھتی تھی کہ یہ بہت مظبوط ہے اور جمہوریت کمزور ہے اور یہ کرسی اب شائد ہمیشہ کے لیے بنی ہے لیکن اس صدر کو بھی عوام نے اقتدار کے ایوانوں سے جاتے ہوئے دیکھا جنرل مشرف کو بھی اپنے تائیں بہت ناز تھا وہ بھی یہ بھلا بیٹھے تھے کہ اب وہ ہمیشہ کے لیے حکمران ہیں اپنے کرسی بچانے کے لیے انھوں نے عدلیہ کو معزول کیا سیاسی لیڈروں کو ملک بدر کیا جھوٹے مقدمات درج کیے نیب جیسا پولیٹیکل انجینرنگ کا ادراہ بنایا کرائے کی جنگ میں ملک کو جھونک دیا لیکن اس کے باوجود بھی ان کی کرسی کے باضو عوام نے ٹوٹتے دیکھا انہی کے لیے ہی شائد شاعر نے یہ کہا تھا کہ
دل کے ارماں آنسوئوں میں بہہ گئے
اب ہمارے کپتان کو بھی یہ معلوم ہوتا ہے کہ ان کا کوئی متبادل اس ملک میں نہیں لیکن ان کی یہ غلط فہمی ہے اے میرے کپتان آپ سے پہلے آپ کے بڑوں کو بھی یہ غلط فہمی تھی ۔

ادارہ اردوپوائنٹ کا کالم نگار کی رائے سے متفق ہونا ضروری نہیں ہے۔

تازہ ترین کالمز :

متعلقہ عنوان :