کہتے ہیں حکمران کو تو دیوار کی دوسری طرف بھی نظر آتا ہے لیکن ہمارے شعرا کو تو اس سے بھی زیادہ نظر آتا ہے حبیب جالب صاحب کی وہ غزل جو آج سے کئی سال پہلے لکھی گئی تھی وہ ہمارے آج کے حکمرانوں کے بیان کو سن کر ایسے لگتا ہے جیسے آج ہی لکھی گئی ہو آجکل ہمارے کپتان بھی یہ کہہ رہے ہیں کہ ان کا اقتدار شائد ہمیشہ ہی ہے یا پھر وہ سمجھ بیٹھے ہیں کہ ان کی کرسی کو کوئی خطرہ نی ان کے اس بیان کی حبیب جالب صاحب کی یہ غزل ٹیھک عکاسی کرتی ہے
اس سے پہلے وہ جو اک شخص یہاں تخت نشیں تھا اس کو بھی اپنے خدا ہونے پہ اتنا ہی یقیں تھا کوئی ٹھہرا ہو جو لوگوں کے مقابل تو بتاؤ وہ کہاں ہیں کہ جنہیں ناز بہت اپنے تئیں تھا آج سوئے ہیں تہ خاک نہ جانے یہاں کتنے کوئی شعلہ کوئی شبنم کوئی مہتاب جبیں تھا اب وہ پھرتے ہیں اسی شہر میں تنہا لیے دل کو اک زمانے میں مزاج ان کا سر عرش بریں تھا
اقتدارہمیشہ رہنے وا لی چیز نہیں کوئی پتہ نہیں چلتا کہ کب قسمت کی دیوی بدلے اور انسان اقتدار سے باہر ہو جائے اس دنیا میں کتنے کتنے حکمران آئے آج ان کے لوگوں کو نام تک یاد نہیں جب کوئی حکمران آیا اس نے اپنے طریقے سے حکمرانی کی نظام کواپنےطریقے سے چلانےکی کوشش کی کچھ اس امتحان میں کامیاب ہوئے تو کچھ ناکام۔
(جاری ہے)
وقت بدلنے کا کوئی پتہ نہیں چلتا کہ کب عروج کا سورج غروب ہو جائے اور زوال کی شام پر پھیلا آئے جب انسان پاور میں ہوتا ہے تو وہ یہ سمجھتا ہے یہ پاور اس کے لیے بنی ہے اور وہ پہلا انسان ہے اس روحِ زمین پر جس کو پہلی مرتبہ ملی ہےلیکن وہ یہ بھول رہا ہوتا ہے اقتدار کا نشہ ہی ایسا ہے انسان بہت جلد دھوکا کھا جاتا ہے ۔ اگر تاریخ کے اوراق پر نظر دوڑائی جائے تو معلوم ہوتا ہے کہ جب کوئی حکمران اقتدار میں ہوتا ہے تو اسی اپنی کرسی مظبوط ہونے کا بہت کامل یقین ہوتا ہے لیکن اس کی کرسی چند لمحوں میں ٹوٹ بھی جاتی ہے حکمرانوں نے خود بھی اور عوام نے بھی ایسے ہوتے ہوئے دیکھا ہے یہ بات بھی سب جانتے ہیں کہ اقتدار کے ختم ہونے کا بھی کچھ پتا نہیں چلتا کب عروج کا سورج غروب ہو جائے اور زوال کی شام اپنے پر پھیلانے لگے اگر پاکستان کے حکمرانوں کی بات کی جائے تو میجر جنرل سکندر مرزا سے لے کر عمران خان تک جتنے بھی حکمران آئے سب کو یہی یقین تھا کہ ان کا متبادل کوئی نہیں اس ملک میں لیکن چند لمحوں بعد ہی ان کے متبادل بھی آگئے جنرل ایوب خان کو بھی اتنا ہی یقین تھا جتنا ہمارے کپتان کو ہے کہ اس ملک میں ان کا کوئی متبادل نہیں وہ جب تک چاہیے اور جتنی دیر تک چاہیے حکومت کر سکتے ہیں یہ اقتدار بنا ہی اسی کے لیے ہے لیکن پھر عوام نے ان کو بھی جاتے ہوئے دیکھا آج ان کے جانشین سہارے تلاش کرتے پھر رہے ہیں کبھی کسی پارٹی میں توکبھی کسی پارٹی میں اسی طرح جنرل یحیی خان کا بھی یہی خیال تھا ان کا قلعہ بہت مظبوط ہے ان کا اقتدار تو شائد ہمیشہ رہنے والہ ہے لیکن ان کے عروج کا سورج بھی عوام نے غروب ہوتے ہوئے دیکھا آج ان کا اس ملک میں شائد کوئی نام لیوا بھی نہیں اگر مرد مومن کی بات کی جائے وہ تو شائد پیدا ہی حکمرانی کے لیے ہوئے تھے؟ انھوں نے اپنے اقتدار کو بچانے کے لیے سیاسی لیڈروں کو پھانسی کے پھندوں تک پہنچایا سیاسی ورکروں کو کوڑے مارے صحافیوں کو پابند سلاسل کیا سیاست کو گالی بنایا دین کو اپنا اقتدار بچانے کے لیے ڈھال بنایا لیکن اس کے باوجود بھی اسے یہ میدان خالی کرنا پڑا غلام اسحاق خان کی بھی کرسی یہ سمجھتی تھی کہ یہ بہت مظبوط ہے اور جمہوریت کمزور ہے اور یہ کرسی اب شائد ہمیشہ کے لیے بنی ہے لیکن اس صدر کو بھی عوام نے اقتدار کے ایوانوں سے جاتے ہوئے دیکھا جنرل مشرف کو بھی اپنے تائیں بہت ناز تھا وہ بھی یہ بھلا بیٹھے تھے کہ اب وہ ہمیشہ کے لیے حکمران ہیں اپنے کرسی بچانے کے لیے انھوں نے عدلیہ کو معزول کیا سیاسی لیڈروں کو ملک بدر کیا جھوٹے مقدمات درج کیے نیب جیسا پولیٹیکل انجینرنگ کا ادراہ بنایا کرائے کی جنگ میں ملک کو جھونک دیا لیکن اس کے باوجود بھی ان کی کرسی کے باضو عوام نے ٹوٹتے دیکھا انہی کے لیے ہی شائد شاعر نے یہ کہا تھا کہ
دل کے ارماں آنسوئوں میں بہہ گئے
اب ہمارے کپتان کو بھی یہ معلوم ہوتا ہے کہ ان کا کوئی متبادل اس ملک میں نہیں لیکن ان کی یہ غلط فہمی ہے اے میرے کپتان آپ سے پہلے آپ کے بڑوں کو بھی یہ غلط فہمی تھی ۔
ادارہ اردوپوائنٹ کا کالم نگار کی رائے سے متفق ہونا ضروری نہیں ہے۔