بچھڑا کچھ اس ادا سے کہ رُت ہی بدل گئی

ہفتہ 5 ستمبر 2020

Usama Khalid

اُسامہ خالد

ناصر خالد کی والدہ ابھی 30سال سے بھی کم عمر تھیں کہ ایک دن اچانک گھر کا کام کرتے ہوئے شوہر کی شہادت کی خبر آئی۔ شوہر پر دیوار گری، اور بیوہ پر آسمان۔چار چھوٹے چھوٹے بچے گود میں لیے بے بسی کی تصویر بنی رہ گئی۔
ہمارا معاشرہ کس قدربے حس اور جاہل ہے۔ دوسری شادی کو ایک لعنت بنا کر رکھ دیا ہے۔کتابوں اور تقریروں میں ہم آج بھی ونی کیے جانے کو کوستے ہیں۔

زنا کے خلاف بھاشن دیتے پھرتے ہیں۔ مگر ہمارا میڈیا دوسری شادی کو اس قدر گھٹیا بنا کر دکھاتا ہے کہ کوئی شخص اگر شادی کر لے تو اُسے کافر اور قابلِ قتل قرار دینے سے کم پر گزارا نہیں ہوتا۔ ہم کم عمر کی شادی کے بھی خلاف ہیں۔ مگر کم عمر کے زنا کو ذاتی معاملہ کہہ کر جھٹک دیتے ہیں۔ کتنے جھوٹے ہیں ہم طباعت میں، کہتے کیا ہیں، کرتے کیا ہیں۔

(جاری ہے)


کوئی ایک بھی لکھاری ایسا نہیں جو یہ کہے کہ باطل کا ساتھ دیا جانا چاہیے۔

اور کوئی ایک بھی لکھاری نہیں جو اس باطل تصور کے ساتھ کھڑا نہ ہو۔ کوئی ڈرامہ یا فلم یا ناول اُٹھا دیکھیے۔ اور کتابوں کے باہر کی زندگی میں تو بیوہ ہونا زانی ہونے سے بھی بڑا جرم ہے، جس پر لفظوں کے پتھر برسا برسا کر مار دیا جاتا ہے۔ کبھی سبز قدم تو کبھی منحوس کہہ کر مرنے والے کی موت کا ذمہ دار ٹھہرا کر جائیداد چھین لی جاتی ہے۔ کوئی بھائی یا بہن زیادہ سے زیادہ خدا ترسی کے نام پر ولایت کا سرٹیفیکیٹ حاصل کرنے کے لیے ماہانا دس بیس ہزار کا وظیفہ مقرر کر دیتا ہے، اور امید کی جاتی ہے کہ اب یہ عورت مریم اور اس کے بچے ابنِ مریم بن کر زندگی گزاریں گے۔


لیفٹینینٹ شہید ناصر خالد کی والدہ کے ساتھ شاید اُس کے خاندان والوں نے اتنا بھی برا سلوک نہیں کیا، مگر وہ ماں ہمیشہ کے لیے بچوں کی ہو کر رہ گئی۔ سب بہاریں خزاؤں میں بدل گئیں۔ اور گزرتے وقت کے ساتھ ایم اے اردو کر کے پڑھانے لگی۔ محترمہ کے ساتھ ملاقات سکول میں ہی ہوئی۔ ہم نہم و دہم کو انگریزی پڑھاتے، اور آپ اردو سکھاتیں۔ اس قدر تکلیف دہ زندگی گزارنے کے باوجود، مجال ہے کبھی چہرے سے مسکراہٹ غائب ہوئی ہو۔

ہمیشہ مسکراتیں، خوش رہتیں، خوش رکھتیں۔ کوئی برا بھلا کہہ بھی دیتا تو پلٹ کر جواب نہ دیتیں۔ معاشی حالات ابتر تھے، مگر عجیب خاتون تھیں، ہمیشہ چہرے پر اطمینان۔ جب بھی بچوں میں سے کسی کو کوئی کامیابی ملتی، پورے سکول میں خوشی سے سناتی پھرتیں، کبھی کچھ کھلاتیں، کبھی کچھ۔ بار بار بتاتیں ناصر فوجی بن رہا ہے۔ ناصر بہت یاد کرتا ہے۔ چھٹی پہ آیا تھا، بہت خوش تھا ماں سے مل کر۔

میرے بچے ہی میری کمائی ہیں۔ انہیں کے سہارے میں زندہ ہوں۔ یہی میری مسکراہٹ ہیں۔
 جس دن ناصر کا آسٹریلیا میں ٹرینینگ کے لیے ویزا لگا، سکول میں جشن کا سا سماں تھا۔ تنگ دست ہونے کے باوجود سب کو کھانا کھلایا، خوشی بانٹی، رنگ بکھیرے۔ اور ہمیں لگا کہ اللہ نے ان کی مشکلات کے بدلے یہ خوشیاں دے کر بیلنس کر دیا ہے۔ سارے غم بھول گئی تھیں۔

بہت خوش تھیں۔ اور اُن کی خوشی ہر طرف دیدنی تھی۔
 آج جب خبر ملی کہ شمالی وزیرستان میں کسی دھماکے کے باعث ناصر شہید ہو گیا ہے، زمین کانپ گئی۔ بیلنس پھر سے آؤٹ ہو گیا۔ دل یوں پھٹا کہ کلیجہ منہ کو آگیا۔ کئی گھنٹے بیت جانے کے بعد بھی سوال تھم نہیں رہے۔ لفظ بھیگتے جا رہے ہیں، اور کاغذ جلتا جا رہا ہے۔ سوشل میڈیا پر ماں بیٹے کی تصویر گھوم رہی ہے۔

ناصر چلا گیا ہے۔ کس منہ سے اُس کی ماں کو دلاسہ دیں؟ فون کر کے کیا کہیں؟ شہادت پر مبارک باد کا رواج بتانے والے یہ بھی بتا دیں کہ وہ حوصلہ کہاں سے آتا ہے کہ جب ایک ماں کو اُس کے بیٹے کے چلے جانے کی مبارک دی جاتی ہے؟ پاکستان مسائل کا گڑھ بنتا جاتا ہے۔ بچے دوسرے ملکوں کو بھاگ رہے ہیں۔ بڑے بچوں کو مستقبل سے ڈرا رہے ہیں۔ میڈیا فلموں اور ڈراموں کے ذریعے تباہی لا رہا ہے۔

اور اس بھڑکتی ہوئی آگ میں یہ معصوم یتیم جانیں دے رہے ہیں۔ ہم فوج کی کرپشن اور سول معاملات میں مداخلت کا رونا رونے والے ان ماؤں کے زخموں پر مرہم رکھنے کیوں نہیں جاتے؟ اور جائیں بھی تو کس منہ کے ساتھ؟ کہاں سے ملتا ہے ایسا مرہم جو ایسی ماؤں کے دلوں کو جلا بخشے؟
ہم حق و باطل کی لڑائی میں حق کا ساتھ دینے کا دعویٰ کرنے والے قلم کار، آخر کب تک اپنی مرضی کے حق کا ساتھ دیتے رہیں گے؟ کب ہمارے قلم ان شہداء کے حق میں اور ان کے خلاف ہونے والے مظالم کے لیے آواز بلند کریں گے؟ یہی آج کا سوال ہے۔ اور یہ آج کی الجھن۔

ادارہ اردوپوائنٹ کا کالم نگار کی رائے سے متفق ہونا ضروری نہیں ہے۔

تازہ ترین کالمز :