
موجودہ اخلاقی تنزلی اور ہماری ذمہ داری
جمعہ 6 مارچ 2020

زعیم ارشد
اسی جنون کا شکار ایک نو عمر لڑکا اپارٹمنٹس کے مرکزی دروازے کے پاس اپنے دوستوں کے ساتھ کرکٹ سے لطف اندوز ہو رہا تھا، گو کہ کرکٹ کے اعتبار سے جگہ نہایت غیر مناسب تھی مگر کون خاطر میں لاتا ہے ان معمولی باتوں کو، ایسے میں حادثہ بھی ایک فیلڈر کی طرح قریب ہی اپنے موقع کا منتظر رہتا ہے ۔
(جاری ہے)
معاشرے میں آج جو افراتفری اور ہڑبونگ مچی ہوئی ہے ، اس کی وجہ کہیں اپنی تہذیب سے دوری اور بنیادی اخلاقی و سماجی تربیت کا فقدان تو نہیں؟ ظاہر ہے جب بچوں کو بنیادی سماجی و اخلاقی تہذیب و تمدن کے متعلق بتایا اور سکھایا ہی نہیں گیا تو وہ کیسے اس پر عمل کر سکتے ہیں۔ جاپان میں بچوں کو اسکول میں شروع کے کئی سال کوئی کتاب نہیں پڑھائی جاتی، صرف اخلاقیات اور کردار سازی کی عملی تربیت دی جاتی ہے، اور خاص توجہ اس بات پر دی جاتی ہے کہ ایک شخص معاشرے کیلئے کس طرح مفید و کارآ مد بن سکتا ہے ، ایک باکردار، مضبوط سماجی رشتوں کی پہچان رکھنے والا ہی اپنے ماحول اپنے معاشرے کو کچھ اچھا دے سکتا ہے۔ اسکے برعکس اگر ہم اپنے اردگرد نگاہ ڈالیں تو عقل حیران رہ جائیگی کہ کیا واقعی ہم اپنے اسلاف کی روایتوں کے امین ہیں۔
پہلے پہل تو معاملات گھر کے باہر تک تھے ، باہر لوگوں سے لڑنا جھگڑنا، گالم گلوچ کرنا، اور بدتمیزی کرنا، مگر اب بات گھر تک پہنچ چکی ہے، بھائی بھائی کا لحاظ کرنے کو تیار نہیں، والدین تک کو خاطر میں نہیں لایا جاتا۔ معمولی باتوں پر اس حد تک بھڑک جانا کہ جس کے نتیجے پر عمر بھر پچھتانا پڑتا ہے، ہمارا عمومی قومی رویہ ہے ، اور بعد میں کوئی خاص پشیمانی بھی نہیں ہوتی اور اگر بہت ہی بڑی اخلاقی جرات کا مظاہرہ کیا جائے تو کہا جاتا ہے کہ کہ غطی ہو گئی، یعنی دل اب بھی پوری طرح اپنی غلطی ماننے کو تیار نہیں، بہت پرانی بات نہیں محض چند دھائیوں پہلے ، محلے کے بزرگ سانجھی ہوا کرتے تھے اور سب کیلئے یکساں قابل احترام ہوتے تھے۔ ان کی حیثیت گھر کے بڑے کی سی ہوتی تھی اور وہ غلطیوں پر بلا تکلف و تفریق چھترول کر دینا اپنی ذمہ داری سمجھتے تھے۔ اور کوئی بھی ان کی بات ٹالنے کی جسارت شاید ہی کرسکتا ہو۔ نئی نسل کی اخلاقی تربیت مشترکہ ذمہ داری سمجھی جاتی تھی، اور سب ہی اس میں مقدور بھر حصہ ملایا کرتے تھے۔ لہذ ا نتیجہ ایک شاندار تہذیب یافتہ معاشرہ تشکیل پاتا تھا، اور یہ شہروں قصبوں تک محدود نہ تھا بلکہ ہمارے گاؤں تو اس معاملے میں شہروں سے آگے اور مثالی ہوتے تھے۔
اب اک نظر ان تکلیف دہ رویوں کی طرف جو موجودہ معاشرے میں اخلاقی تنزلی کی وجہ سے پروان چڑہ رہے ہیں، کمال بات یہ ہے کہ ان رویوں کا شکار سب ہی ہیں مگر پہلا قدم اٹھانے کو کوئی بھی تیار نہیں سب اس انتظار میں ہیں کہ سامنے والا پہل کریگا تو میں بھی آگے بڑھوں گا، نتیجہ تو پھر سب کے سامنے ہے ہی۔
قتل و غارتگری کا پروان چڑھنا، دھوکہ و فریب کا عام ہونا، چوری چکاری کو معیوب نہ سمجھا جانا ، بدتمیزی و بد اخلاقی کو عام اور برا نہ سمجھا جانا دراصل بنیادی اخلاقی ڈھانچے میں ٹوٹ پھوٹ اور بگاڑ کی وجہ ہیں، جس کے نتائج پر والدین و اقربین کو شدید شرمندگی و کرب سے گزرنا پڑتا ہے۔ صبر ، رواداری، احترام اور خوش اخلاقی کی جگہ بے صبری، ترش روی، لاپرواہی اور بد اخلاقی نے لے لی ہے لہذا نتائج بھی پھر جیسی کرنی ویسی بھرنی کے مصداق ہی نکلیں گے اور سب پر اثر انداز ہوں گے، کیونکہ فرد ملّت سے ہے تنہا کچھ نہیں۔ اب وہ ٹریفک کی بے ہنگم چال ہو، یا مارکیٹ یا بینک میں لائن لگنے کا معاملہ ہو، نتیجے سب کے مایوسی، دل آزاری اور تکلیف ہی کی شکل میں نکلتے ہیں، زرا سوچیں کہ کیا ہم وہی نہیں ہیں جو بس میں ایک انجان بزرگ کو دیکھ کر جھٹ سیٹ چھوڑ دیا کرتے تھے اور کئی کئی لوگ بہ یک وقت یہ کوشش کرتے تھے کہ بزرگ اس کی جگہ بیٹھ جائیں، یا کوئی انجان مسافر مل جائے تو ہر شخص مقدور بھر مدد کیلئے دل سے تیار ہوتا تھا۔ پھر آج کیا ہوگیا کہ لو گ زخمی پڑے ہوتے ہیں اور مہربان ان کی جیبوں سے قیمتی اشیاء کا بوجھ ہلکا کر رہے ہوتے ہیں۔ یہ بے حسی کہاں سے آگئی ہمارے ہاں، لگتا کچھ یوں ہے جیسے پوری قوم انا کے نشے میں ڈوبی ہوئی ہے اور غرور و تکبر شاہ سے گدا تک سب کی شخصیت کا جزو لازم بن کے رہ گیا ہے، لہذا یہ وہ کھائی ہے جو ہم سے پاٹی نہیں جا رہی، یہی وہ دیوار ہے جو صائب اعمال کی راہ میں حائل ہے۔ لہذا اندر ہی اندر ضمیر کا الارم ہر شخص کو بے چین و مضطرب رکھتا ہے، مگر سب اسے تھپک تھپک کر سلا نے کی سعی لاحاصل میں مصروف رہتے ہیں۔ جس کی وجہ سے ہر شخص اداس و رنجیداہ نظر آتا ہے، عدم برداشت بری طرح پروان چڑھ چکا ہے اور کوئی نہیں جو کسی کو پیر رکھنے تک کی جگہ دینے کو تیار ہو۔ ان سب عوامل کی بنیادی وجہ معاشرتی و تہذیبی نظام کی تنزلی اور نئی نسل کی گھر سے اخلاقی تربیت کا نہ ہونا ہے۔ لہذا ایک بڑی تعداد ایسے لوگوں کی ہے جو اخلاق، تمیز، مروّت، رواداری، اور اپنی اخلاقی ذمہ داری سے یکسر نا بلد ہے اور بڑے چھوٹے کو ایک ہی چھڑی سے ہانک رہی ہے۔ لہذا ہر شخص شکایت و تنقید کرتا نظر آتا ہے ، مگر کیا حقیقتا نئی نسل ہی قصوروار ہے؟ اگر نہیں تو پھر ہمیں کھلے دل سے اپنی کوتاہی کو تسلیم کرنا چاہیے ، کچھ قصور اس میں ہمارا بھی ہے۔ وہ والدین اور خاندان کے بڑے جن کے ذریعے ہمارے تہذیبی اقدار و روایات کو نئی نسل میں منتقل ہونا تھا، نہ ہو سکا، تو اب یہ گمشدہ میراث کی حیثیت اختیار کرچکا ہے ، جو کردار سازی ہونا تھی نہ ہوسکی ، نئی نسل کو پتہ ہی نہ چلا کہ وہ ایک نہایت اہم اور خوبصورت نعمت سے محروم رہ گئے ہیں، آخر کیا عوامل تھے جو اس ابتلا کا سبب بنے؟ بہت ممکن ہے کہ زیادہ سے زیادہ پیسہ کمانے کی دوڑ بھی اس کی ایک وجہ ہو سکتی ہے۔ کیونکہ اس دوڑ میں سب سے آگے نکل جانے کی دھن نے باقی تمام قیمتی اور نایاب رشتوں، روایتوں اور قدروں سے دور کردیا، گزرے وقتوں میں جب والد شام ڈھلے گھر آجاتے تھے تو کھانے کے بعد سب کچھ دیر ساتھ بیٹھا کرتے تھے۔ کبھی تعریف اور کبھی ڈانٹ کے دور چلتے تھے ، والدہ دن بھر بچوں کے پیچھے ہوتی تھیں اور ایک ایک حرکت پر نہ صرف نگاہ رکھتی تھیں بلکہ ہدایات بھی دیتی رہتی تھیں، اسطرح ایک بہت ہی خوبصورت ، مضبوط اور شاندار باہمی ربط اندر ہی اندر پروان چڑھتا رہتا تھا، جس میں ایک دوسرے کیلئے پیار، اخلاص، تعظیم، اور احترام پروان چڑھتا رہتا تھا۔ مفید عادتیں پکّی ہوتی رہتی تھیں ۔ اور ایک کے بعد ایک قابل ستائش کردار تعمیر پاتے رہتے تھے اور معاشرے کا حصہ بنتے رہتے تھے۔ مگر پھر ایسا کیا ہوا، دولت کمانے کی دھن، اسٹیٹس بڑھانے کے جنون نے سب کچھ ملیامیٹ کر دیا، بچے اسکول اور ٹیوشن سینٹرز کے حوالے کردیئے گئے، اور سمجھا کے سارے فرض نبھا دیئے، مانں باپ دونوں کمانے لگے اور اپنے ہی بچو ں سے ایک ہی گھر میں رہتے ہوئے کبھی ہفتوں اور کبھی کبھی مہینوں بات نہیں ہو نے لگی ، اور جو بڑے چیمپئن تھے یعنی ملک سے ہی باہر تھے ان کا تو کہنا ہی کیا۔ لہذا ایک عمیق کھائی والدین اور بچوں کے درمیان حائل ہو گئی، دولت و اسٹیٹس کا سیلاب سب کچھ بہا کر لے گیا۔ بچے بڑے بڑے بین القوامی انگلش اسکولز کی چینز میں پڑھنے لگے، ڈاکٹر ، انجینئرز ، چارٹرد اکاؤنٹنٹ اور بہت کچھ بننے لگے، مگر صرف تعلیم یافتہ ہونے لگے، تہذیب یافتہ نہیں، اخلاقی تربیت مفقود ہتی چلی گئی، شروع شروع تو معاشرے پر اس کا زیادہ اثر نظر نہیں آیا مگر چند دھائیوں بعد جب ایک پوری نسل جو تعلیم یافتہ اور غیر تہذیب یافتہ تھی تیار ہوکر سماج کا حصہ بن چکی تو، مضمرات نظر آنے لگے اور ہم موجودہ معاشرے سے معتارف ہونے لگے، شروع شروع میں لگا کہ ہم پرانے خیالات کے لوگ ہیں اور نئی تہذیب و تمدن کی رفتار سے مطابقت پیدا نہیں کر پا رہے، مگر ساتھ ساتھ کچھ یوں بھی کہا جانے لگا کہ : اٹھا کر پھینک دو ان کو گلی میں، نئی تہذیب کے انڈے ہیں گندے۔ اب ان حالات کے تناظر میں ہم کیا امید کر سکتے ہیں کہ وہ اخلاق و تربیت کے چیمپئن ہونگے، بزرگوں کو دیکھتے ہی تعظیما خاموش کھڑے ہو جائیں گے۔ نہیں بالکل نہیں ایسا ہو ہی نہیں سکتا، کیونکہ جو بو ئے گا وہی کاٹے گا، جب ہم نے تو انہیں اپنی تہذیب، اپنے تمدن ، اپنی روایات و اقدار سے روشناس ہی نہیں کرایا تو پھر امید بھی عبس ہی ہوگی نا۔ اب حالت یہ ہے کہ، پورا معاشرہ اخلاقی تنزلی و بدنظمی کا شکار ہے اور سب ایک دوسرے پر الزام تراشی میں مصروف ہیں۔ ہر ایک دوسرے کو برا سمجھ رہا ہے، حد تو یہ ہے کہ رانگ سائیڈ آنے والے صحیح راہ چلنے والے کو برا بھلا کہہ کر گزر جاتے ہیں۔ تو کیا اسے ہم معاشرتی المیہ قرار نہیں دے سکتے، پوری قوم یکساں اخلاقی مسائل کا شکار ہے، معاشرہ مسلسل انحطاط پزیر ہے اور مذید حالات خراب ہو سکتے ہیں اگر اب بھی نا جاگے تو، اور اپنی ذمہ داری کو محسوس کرتے ہوئے عملی اقدامات نہ کئے گئے ۔ دراصل اب تک عملی اقدامات نہ ہونے کی وجہ سے اخلاقی خسارہ ہے کہ بڑھتا ہی جا رہا ہے، اور بڑھتا ہی رہے گا جب تک ہم سب مل کر اپنی نئی نسل کی اخلاقی تربیت کا مستقل انتظام نہیں کر لیتے۔ اور انہیں اپنی تہذیب اپنے تمدن کے قیمتی اور شاندار ہونے احساس نہیں دلا دیتے۔
ادارہ اردوپوائنٹ کا کالم نگار کی رائے سے متفق ہونا ضروری نہیں ہے۔
تازہ ترین کالمز :
زعیم ارشد کے کالمز
-
باجے کی آزادی
پیر 23 اگست 2021
-
معاشرے پر اندھی تقلید کے مضمرات
بدھ 18 اگست 2021
-
انوکھے لاڈلے
جمعرات 1 جولائی 2021
-
اسمبلیز سیاسی دنگلوں کے اکھاڑے
پیر 21 جون 2021
-
معاشرے پر افواہ گردی و دشنام طرازی کے منفی اثرات
بدھ 16 جون 2021
-
کورونا عظیم انسانی بحران، عالمی مددگار تنظیم سازی کی ضرورت
بدھ 5 مئی 2021
-
مودی حکومت کا دھرا معیار
ہفتہ 24 اپریل 2021
-
ہماری توجہ کے منتظر ویران ہوتے جنگل اور معدوم ہوتی جنگلی حیات
جمعہ 9 اپریل 2021
زعیم ارشد کے مزید کالمز
کالم نگار
مزید عنوان
UrduPoint Network is the largest independent digital media house from Pakistan, catering the needs of its users since year 1997. We provide breaking news, Pakistani news, International news, Business news, Sports news, Urdu news and Live Urdu News
© 1997-2025, UrduPoint Network
All rights of the publication are reserved by UrduPoint.com. Reproduction without proper consent is not allowed.