
یہ بھی ممکن ہے کہ ہم کامیاب ہو جائیں !!
منگل 7 اپریل 2020

زعیم ارشد
(جاری ہے)
گھر پہنچنے کے بعد جب زرا سکون سے بیٹھا تو ان سارے پیغامات اور ویڈیو کلپس اور زبان زد عام گفتگو کو جمع کیا اور ایک کے بعد ایک کو غور سے پرکھنا شروع کیا ، سرسری تجزئے سے ہی ان میں بہت کچھ سچ نظر آنے لگا۔ میرا بالکل بھی ارادہ نہ تھا کہ اس موضوع پر قلم اٹھاؤں گا مگر اس واقعے نے مجھے جھنجھوڑ کر رکھ دیا، اور میں نے سوچا کہ اس معاملے پر کچھ نہ کچھ بات ہونا ہی چاہئے۔ مجھے جس چیز نے سب سے زیادہ متاثر کیا تھا وہ ایک انتہائی ڈری ہوئی خاتون کی ویڈیو تھی جو بظاہر اچھی خوشحال نظر آرہی تھیں ، وہ بتا رہی تھیں کہ کس طرح وہ مدد کرنے کیلئے گئیں مگر لوگوں نے انہیں گھیر لیا اور اس سے پہلے کے وہ اپنی کار سے اترتیں لوگوں نے ان کی گاڑی کو پیٹنا شروع کردیا، شیشوں کو توڑنے کی کوشش کرنے لگے اور بہت ممکن تھا کہ وہ ایسا کر بھی گزرتے، مگر وہ کسی طرح وہاں سے نکلنے میں کامیاب ہوگئیں، اس قصّے میں ایک عورت، جو مدد کرنا چاہتی ہے، مگر ہم اس کا بھی لحاظ کرنے کو تیار نہیں، کیا واقعی اتنا برا وقت آچکا ہے؟ کہ ہم اچھے برے کی تمیز ہی کھو بیٹھیں، جس طرح وہ ڈری اور سہمی ہوئی تھیں اس سے صاف ظاہر تھا کہ وہ بہت شدید ذہنی کرب سے گزری ہیں اور اس واقعے کا ان پر بہت ہی گہرا نفسیاتی اثر پڑا ہے۔ اسی تناظر میں اور بہت سی خبریں زیر گردش ہیں جن کی حقیقت سے کسی طور انکار نہیں کیا جاسکتا۔ کہ لوگ امداد حاصل کر نے کے لئے کیا کیا ہتھکنڈے استعمال کر رہے ہیں، وہ گروہ کی شکل میں باقاعدہ منصوبہ بندی کے تحت کوچوں و بازار وں میں آجاتے ہیں اور پھر کسی بھی طرح انہوں نے امداد حاصل کرنی ہے ، چاہے لوٹنا پڑے یا چھیننا۔ کیا واقعی لوگ اتنے مجبور و لاچار ہوگئے ہیں؟ کیا وہ بھوک و افلاس کے ہاتھوں اتنے مجبور ہیں کے وہ کچھ بھی کر سکتے ہیں۔ تو اس کا جواب یہ ہے کہ بہت ممکن ہے کچھ لوگ اس طرح کے حالات کا شکار بھی ہوں، مگر وہ لوگ عموماّ مسکین و بے ضرر ہیں اور کسی پر حملہ کرنے جتنی ہمّت ہرگز نہیں کر سکتے۔ جبکہ وہ گروہ جو شہر بھر میں مختلف مقامات پر بڑی تعداد میں جمع ہوتے ہیں اور بٹنے والی امداد کھا پی رہے ہیں، خوب طاقتور و توانا ہیں اور اپنے مقصد کے حصول کیلئے کچھ بھی کر گزرنے کو تیار ہیں۔
اس ضمن میں کیا کیا مشاہدے میں آیا ہے، آپ سن کر حیرت زدہ رہ جائیں گے اور بہت مایوس بھی ہوں گے کہ ہمارے اردگرد آخر ہو کیا رہا ہے؟ جیسے ایک ویڈیو میں دکھایا گیا ہے کہ ایک بندے نے راشن کے تھیلوں سے رکشہ بھر لیا جو کم از کم بیس گھرانوں کیلئے کافی تھا جو ایک فرد لے گیا تھا، اور اپنے ہی جیسے بہت سارے ضرورتمندوں کا حق مار گیا تھا۔ اسی طرح کئی کلپس میں دکھایا گیا ہے کہ لوگ، جن میں عمومی طور پر نوجوان ہیں جمع کیا ہوا راشن دکانوں پر فروخت کر رہیں ہیں ، اور دکاندار ان سے خرید بھی رہا ہے۔ اسی طرح ایک جگہ دکھایا گیا کہ لوگوں کی ایک بڑی تعداد ہے جو ایک برج پر جمع ہے، جس میں لوگ اپنی خواتین کو رکشوں اور موٹر سائیکلز پر لائے ہوئے ہیں، جو مل جل کر راشن جمع کر رہے ہیں اور پھر اسی رکشے یا موٹر سائیکل پر وصول شدہ راشن گھر چھوڑ کر دوبارہ وہیں آکھڑے ہوتے ہیں کسی نئے شکار کی تلاش میں۔ اچھا قابل غور بات یہ ہے کہ یہ رویہ کراچی سے پشاور تک ہر جگہ دیکھا جا رہا ہے۔ اور بے شمار دوست ان واقعات کے گواہ ہیں ، دل تو نہیں چاہتا تھا کہ اس بات پر یقین کروں مگر جب خود اس قسم کے تجربے سے گزرا تو یقین کرنا پڑا۔ ان حالات سے متعلق ایک اور نہایت حیرت انگیز اور چشم کشاء معاملہ اس وقت مشاہدے میں آیا جب ان ہی راشن لوٹنے والوں اور جمع کرکے بیچنے والوں کے ایک لڑکے نے قسم کھا کر انکشاف کیا کہ ہمارے گھروں میں کم از کم چھ چھ مہینے کا راشن جمع ہو چکا ہے۔ ان ہی میں ایک گروہ ایسے لوگو ں کا بھی ہے جو مزدوروں کا روپ دھار کر راستوں پر جھنڈ کے جھنڈ بنا کر بیٹھے نظر آئیں گے آپ ان سے کام کرنے کو کہیں وہ صاف انکار کردیں گے، آپ ان سے ٹھوڑی بحث کریں وہ کام کرنے سے دامن بچاتے رہیں گے۔ او ر کوشش کریں گے کہ ان کو بلا مشقّت ہی پیسے یا راشن دے دیا جائے۔
جبکہ دوسری جانب ایسے بہت سے مشاہدات موجود ہیں جس میں بے شمار لوگ رو رو کر التجائیں کر رہے ہوتے ہیں کہ ہم بھوک سے مر رہے ہیں ہمارے بچوں نے کئی دن سے ایک لقمہ تک نہیں کھایا۔ ہمارے پاس نہ پیسہ ہے نہ راشن ہے اور نہ کوئی ذریعہ کے اپنے بچوں کو بھوکے مرنے سے بچا سکیں ۔
کس پر یقین کریں کس کی مدد کریں کس کی مدد نہ کریں حقدار تک کیسے پہنچا جائے؟ عام شہری اسی الجھن میں گرفتار ہے، آپ کو اس وقت شدید دکھ ہوتا ہے جب آپ کو یہ پتہ چلتا ہے کہ آپ کی رحم دلی کا ناجایز فائدہ اٹھایا جا چکا ہے۔ اس مقام پر آپ بیوقوف بن چکے ہیں ، دل بہت ملول ہوتا ہے اور بعض لوگ پچھتاوے میں اپنی روش ہی بدل لیتے ہیں۔ یعنی آپ نے اپنے ہاتھ سے ایک شجر ثمر بار کو کاٹ دیا ہے۔ اس کا نقصان صرف ضرورتمندوں کو پہنچتا ہے موقع پرست تو پھر کہیں اور سے اپنا مطلب نکال لیں گے۔
ممکنہ حل: تو پھر ان تکلیف دہ معاملات سے بھلا کیسے نجات حاصل کی جاسکتی ہے؟ سب سے پہلے تو ہم سب کو ایک ترجیحی فہرست بنا لینا چاہئے، جس میں فوقیت قریبی رشتہ داروں کو دی جانی چاہئے، آپ مدد کی ابتداء اپنے خاندان سے شروع کریں سب سے زیادہ آپ کی امداد کے مستحق آپ کے اقرباء ہیں ، اس کے بعد پاس پڑوس پر نگاہ ڈالیں، وہاں ضرور کوئی نہ کوئی مستحق مل جائے گا، اس کے بعد جان پہچان کے لوگوں پر نظر ڈالیں ، اس کے بعد آپ کے ملازمین ان کے بہن بھائی، یہ سب لوگ آپ کی مدد کے بہت زیادہ مستحق ہیں۔ اس کے ساتھ ساتھ اگر ہم ہمارے ہا ں موجود فلاحی اداروں کی گذشتہ کئی دھائیوں کی کارکردگی پر نگاہ ڈالیں اور موازنہ کریں کہ کون کون سے فلاحی یا خیراتی ادارے ایسے ہیں جو خیراتی یا امدادی پیسے کا بہترین استعمال کیسے اور کہاں کر رہے ہیں۔ اگر ہم ان کے سات جڑ جائیں تو بہت حد تک ضرورتمندوں کو فائدہ پہنچایا جا سکتا ہے۔ ان اداروں کی گذشتہ کارکردگی اور ساکھ ہمیں فیصلہ کرنے میں مدد فرہم کریگی، ان کی سالہا سال کی بے لوث خدمت ہمارے لئے چناؤ کا ذریعہ بن سکتا ہے۔ ان کی خدمات کے نتائج سے عام شہری کس حد تک فائدہ اٹھا رہے ہیں ہماری رہنمائی کیلئے معاون و مددگار ثابت ہو سکتا ہے۔ مثال کے طورپر ایدھی ٹرسٹ، انصار برنی ٹرسٹ، عالمگیر ویلفئیر ٹرسٹ، چھیپا ویلفئر، سیلانی، جے ڈی سی وغیرہ وغیرہ۔ طریقہ یہ ہونا چاہئے کہ لوگ ان اداروں سے رابطہ کریں اور جیسا کے ان لوگوں کے پاس باقاعدہ افرادی قوت بھی موجود ہے جو خاص اس ہی طرح کے کاموں کو سرانجام دینے کیلئے تربیت یافتہ ہوتے ہیں۔ تو یہ ادارے ہنگامی صورتحال میں پسماندہ علاقوں میں اور جہاں جہاں ممکنہ ضرورتمند ہو سکتے ہیں اپنے کیمپ لگا کر امدادی سامان کی تقسیم کو پرسکون طریقے پر ممکن بنا سکتے ہیں، ساتھ ساتھ کیونکہ یہ ادارے باقاعدہ رجسٹرڈ ہیں اور بڑے پیمانے پر عوامی خدمت کر رہے ہوتے ہیں تو ان کے روابط پولیس اور ایسے اداروں سے بھی ہوتے ہیں اور بوقت ضرورت ان اداروں کی مدد بھی لے سکتے ہیں۔ بہت ممکن ہے اسطرح ہم لوٹ مار کرنے والوں سے اپنی محنت کی کمائی بچا کر مستحق لوگوں تک پہنچانے میں کامیاب ہوجائیں۔
ادارہ اردوپوائنٹ کا کالم نگار کی رائے سے متفق ہونا ضروری نہیں ہے۔
تازہ ترین کالمز :
زعیم ارشد کے کالمز
-
باجے کی آزادی
پیر 23 اگست 2021
-
معاشرے پر اندھی تقلید کے مضمرات
بدھ 18 اگست 2021
-
انوکھے لاڈلے
جمعرات 1 جولائی 2021
-
اسمبلیز سیاسی دنگلوں کے اکھاڑے
پیر 21 جون 2021
-
معاشرے پر افواہ گردی و دشنام طرازی کے منفی اثرات
بدھ 16 جون 2021
-
کورونا عظیم انسانی بحران، عالمی مددگار تنظیم سازی کی ضرورت
بدھ 5 مئی 2021
-
مودی حکومت کا دھرا معیار
ہفتہ 24 اپریل 2021
-
ہماری توجہ کے منتظر ویران ہوتے جنگل اور معدوم ہوتی جنگلی حیات
جمعہ 9 اپریل 2021
زعیم ارشد کے مزید کالمز
کالم نگار
مزید عنوان
UrduPoint Network is the largest independent digital media house from Pakistan, catering the needs of its users since year 1997. We provide breaking news, Pakistani news, International news, Business news, Sports news, Urdu news and Live Urdu News
© 1997-2025, UrduPoint Network
All rights of the publication are reserved by UrduPoint.com. Reproduction without proper consent is not allowed.