ہمارے ہاں مخصوص دن منانے کی روایات اور عملی اقدامات

ہفتہ 2 مئی 2020

Zaeem Arshad

زعیم ارشد

ابھی دو دن پہلے مزدوروں کا عالمی دن منایا گیا، حسب سابق حسب دستور خوب باتیں بنیں اخبارات نے خاص اشاعتیں کیں مگر باتیں بس باتوں تک ہی رہ گئیں، عملی طور پر کچھ نہ ہوا، ہمارے ملک میں یہ ایک بہت ہی سنگین معاشرتی مسئلہ ہے کہ ہم بڑے زور شور سے اقوام عالم کی تقلید کرے ہیں مگر کبھی ان عوامل پر غور نہیں کرتے جن کی وجہ سے وہ دن منائے جا رہے ہوتے ہیں یا تقریبات منعقد کی جا رہی ہوتی ہیں۔

اب اگر ہم حال ہی میں گزرے مزدوروں کے عالمی دن یعنی یکم مئی پر غور کریں تو ایسا لگتا ہے جیسے یہ ایک رسم تکلف ہے جسے ہم بس دنیا کو دکھانے کے لئے منا رہے ہوتے ہیں، اسکی حقیقی تصویر ، تْریروں، باتوں اور چھپنے والے مضامین کے بالکل برعکس ہے۔ ہمارے مزدوروں کی حالت تو جناب ناصر کاظمی کے مندجہ ذیل شعر کی سی ہو کر رہ گئی ہے:
##کسی کلی نے بھی دیکھا نہ آنکھ بھر کے مجھے
#گزر گئی جرس گل اداس کر کے مجھے 
یہ ایک اٹل حقیقت ہے کہ ہمارے معاشرے میں مزدور ایک نہایت ہی ٹھکرایا ہوا، نظر انداز کیا گیا، اور غیر منصفانہ سلوک روا رکھا گیا طبقہ ہے۔

(جاری ہے)

مزدوروں کے عالمی دن پر ہمارے ہاں بڑے بڑے ہوٹلز میں نہایت اعلی پیمانے پر تقریبات کا انعقاد کیا جاتا ہے جس میں بڑے بڑے نامی گرامی حضرات بڑی بڑی گاڑیوں میں بیٹھ کر مہنگے لباس زیب تن کر کے تقریب کی پزیرائی کیلئے تشریف لاتے ہیں لمبے لمبے بھاشن دیئے جاتے ہیں مگر سوال یہ ہے کہ اس تقریب میں مزدور کتنے تھے جن کے نام پر یہ سارا کھڑاگ رچایا گیا ہوتا ہے۔

چلیں وہ غریب اس قابل نہ تھے کہ کسی فائیو اسٹار ہوٹل میں آسکیں تو ان کی فلاح و بہبود کیلئے کیا عملی اقدامات کئے گئے۔ جواب ہوگا کچھ بھی نہیں۔ کیوں کہ جو نام نہاد فلاحی ادارے یا NJOs مزدوروں کے نام پر بڑے بڑے فنڈز جمع کر رہی ہوتی ہیں وہ سمجھتی ہیں کہ یہ ہوٹل میں چند بڑے لوگوں کو بلا کر ہلا گلا کرلینا کھا پی لینا مزدوروں کے حقوق کے حصول کی جد وجہد کا ذریعہ ہے تو جناب ستر سال سے یہ سارے ناٹک ہو رہے ہیں ، مزدور کی قسمت نہ پہلے بدلی تھی اور نہ اب، وہ پہلے بھی بد ترین استحصال کا شکار تھے وہ آج بھی بدترین معاشی بدحالی سے دوچار ہیں۔

بلکہ ان کی زندگی تو قابل رحم ہیں علامہ اقبال کے اس شعر کی طرح:
تو قادر و عادل ہے مگر تیرے جہاں میں
#ہیں تلخ بہت بندہ ء مزدور کے اوقات
مزدور ہر معاشرے کی وہ ریڑھ کی ہڈی ہے جس کے بغیر، کارخانہء حیات بے رنگ نظر آئے گا۔ ان کی موجودگی کے بغیر کارخانے، فیکٹریز، عمارتیں، شاہراہیں، باغات، کھیت ، کھلیان سب نہ مکمل و ویران نظر آئیں گے۔

ہمارے چاروں طرف پھیلا آسائش و ترقی کا سمندر مزدوروں کے خون پسینے سے سینچا گیا ہوتا ہے۔ مگر مزدور آج بھی بھوکا سوتا ہے، پھٹے کپڑے پہنتا ہے ، اپنے بچوں کی ٹھیک سے پرورش بھی نہیں کر پاتا، تعلیم دلانا تو عبس ہی ہے۔ ان سب حقائق کے باجود آج تک مزدوروں کی فلاح و بہبود کیلئے کوئی ایسے ٹھوس اقدامات نہیں کئے گئے جو اس طبقے کو پنپنے کا موقع فراہم کرتے۔

زبانی جمع خرچ ہر سال ہوتا ہے کچھ ادارے بھی بنا دیئے جاتے ہیں ان کا بھی فائدہ مزدوروں کے بجائے وہاں بھرتی کئے گئے لوگوں کو تنخواہوں اور مراعات کی شکل میں ہوتا ہے ، مزدور پہلے بھی تنگ دست تھا اور آج بھی تنگ دست ہے۔ اس ضمن میں مزدوروں سے نا انصافی کے سب سے بڑے ذمہ دار صوبائی حکومتیں ہیں جن کے پاس اس غریب و نادار طبقے کی بھلائی کیلئے کوئی عملی پروگرام موجود نہیں۔

بہت ممکن ہے کاغذات میں سب کچھ موجود ہو یا تقریبات کی ویڈیوز میں میں موجود ہو مگر ایک عام مزدور کیلئے عملی طور پر حکومتی سطح پر کوئی جامع اور قابل عمل پروگرام موجود نہ ہونے کی وجہ سے مزدور بالکل ٹھکرائے ہوئے اور لاوارث طبقے میں تبدیل ہو چکے ہیں۔ ہم ایسا کیوں نہیں کرسکتے کے خاص مزدوروں کیلئے جو روز دیہاڑی لگاتے ہیں ایسے فلاحی پروگرام ترتیب دیں جو ان کے لئے علاج معالجے کی سہولت فراہم کرے، ان کے بچوں کی تعلیم کا بندوبست کرے، کام کے دوران حادثاتی جزوی یا کلی معذوری پر علاج معالجے کی سہولت اور اخراجات ادا کئے جائیں۔

کام کے دوران حادثاتی موت پر خاندان کی مالی معاونت کا بندوبست ہونا چاہئے، میرے سوال کے جواب تو بہت سے اہل اقتدار دے دیں گے مگر کیا واقعی عملی طور پر معاشرے میں ایسا ہو رہا ہے، یہ تو سب اپنے اپنے گریبانوں میں جھانک کر ہی صحیح جواب دے سکتے ہیں۔ 
اگر ہم انہیں اپنا سمجھیں اور انہیں وہ اہمیت دیں جس کے وہ مستحق ہیں تو کوئی شک نہیں کہ ملک دن دوگنی رات چوگنی ترقی کرے، جس فائدہ یقیناً سب کو ہی پہنچے گا بلکہ مزدوروں سے زیادہ دوسروں کو پہنچے گا۔

مگر آج تک ایسا ہو ہی نہیں سکا، ہمارے معاشرے میں یہ سب سے پسا ہوا اور نظرانداز کیا گیا طبقہ ہے اور جس کا جی چاہتا ہے ان کے ساتھ اپنی من مانی کرتا ہے۔ ضرورت اس امر کی ہے کہ حکومتی سطح پر مزدوروں کے حقوق کی باقاعدہ حفاظت کی جائے اور ان کی فلاح و بہبود کیلئے عملی کام کیئے جائیں، ساتھ ساتھ مستقل بنیادوں پر ایسے ادارے تعمیر کئے جانے چاہیے جو پوری ایمانداری و چابکدستی سے مزدوروں کے حقوق کی پاسداری کے لئے ہمہ وقت عمل پیرا رہیں۔

جو معاشرے میں اس ٹھکرائے ہوئے طبقے کے وکیل ہوں ان کے مفادات کی ہر سطح پر حفاظت کے ذمہ دار ہوں۔ تب تو پھر بنتا ہے کہ خوب لیبر ڈے منائیں اور دنیا کو دکھائیں کہ ہم نے ایک غریب اور ترقی پزیر ملک ہونے کے باوجود ان لوگوں کو سراہا ہے ان کے مفادات کی حفاظت کی ہے جو ہمارے آرام و آسائش کا سبب ہیں ، زندگی سے کچھ خوبصورت پل چرالینا ان کا بھی حق بنتا ہے۔ کبھی کھبی بے فکری سے خوشیاں منالینا ان کا بھی حق بنتا ہے۔ ان کے بچے بھی اچھی تعلیم کے حقدار ہونا چاہئیں، انہیں بھی صحت و صفائی کی تمام سہولتیں میسر ہونا چاہئیں۔ 

ادارہ اردوپوائنٹ کا کالم نگار کی رائے سے متفق ہونا ضروری نہیں ہے۔

تازہ ترین کالمز :