
اور شیطان آزاد ہو گیا!!
منگل 19 مئی 2020

زعیم ارشد
(جاری ہے)
ایسا ہی واقعہ گزشتہ دنوں پیش آیا جب لاہور کی عدالت نے ایک نہایت ہی مکروہ دھندے میں ملوث آدمی کی ضمانت پر رہائی کا حکم دیا، یہ شخص بچوں کے ساتھ بدفعلی کی ویڈیوز بنا کر دنیا کے مختلف ممالک کو فروخت کیا کرتا تھا۔ اس کی رہائی پر سخت عوامی رد عمل دیکھنے میں آیا، لوگوں کی درخواست ہے کہ اس شخص کو تو ایسی سزا دینا چاہئے جو رہتی دنیا تک ایک مثال بن جائے۔
اس شخص کو جس کا نام سعادت امین ہے 2018 میں (FIA) cybercrime cell نے ناروے کی ایمبیسی کی شکایت پر گرفتار کیا تھا اور اس کے قبضے سے
بچوں سے بدفعلی کے 65,000 ویڈیو کلپ برآمد ہوئے تھے۔ یہ ایک نہایت ہی گھٹیا اور بدکردار انسان ہے جس نے معصوم بچوں کو نہ صرف اپنی حوس کا نشانہ بنایا بلکہ ان کی ویڈیوز بنا کر ایسا ہی مکروہ دھندہ کرنے والی ویب سائٹس کو فروخت بھی کی ۔ یعنی اسے تو دوگنی سزا دی جانی چاہئے۔
یہ شخص دنیا بھر میں اس قسم کے گھناؤنے کام کرنے والی ویب سائٹس کا فعال کارکن ہے، اور اس کے کام کا دائرہ کار سوئیڈن، اٹلی، انگلینڈ اور امریکہ تک پھیلا ہوا تھا۔ سائبر کرائم سیل نے اسے 8 سے 14 سال کے بچوں کی گندی ویڈیوز بنانے اور انہیں ناروے کی ایک کمپنی کو اون لائن فروخت کرنے کے جرم میں گرفتار کیا تھا۔ تحقیقات سے معلوم ہوا کہ یہ شخص گذشتہ کئی سالوں سے اس مکروہ دھندے میں ملوث تھا اور خوب ڈالرز کما رہا تھا۔ یہ شیطان صفت انسان سرگودھا میں بچوں کو کمپیوٹر سکھانے کے بہانے اپنے جال میں پھنساتا تھا اور پھر ان معصوم بچوں کو بے آبرو کرکے ان کی فلمیں دنیا بھر میں موجود ایجنٹس کو فروخت کیا کرتا تھا۔
اس کی رہائی کی وجہ سے عوام میں شدید غم و غصہ پایا جاتا ہے اور لوگ عدلیہ اور پولیس کی کارکرگی پر انگلیاں اٹھا رہے ہیں، وہ یہ سوال بھی کر رہے ہیں کہ اس خون آشام بھیڑئے کی آزادی اس بات کا پیش خیمہ ہے کہ وہ اور مضبوط ہوجائے اور مذید دلیری سے اس سے گھناؤنے جرم کو سر انجام دینے لگے۔ اس کی رہائی نے عوام میں بے چینی کی لہر دوڑا دی ہے اور وہ عدالت سے بچوں کیلئے انصاف کا مطالبہ کر رہے ہیں۔ ملک بھر سے ہر مکتبہ فکر کے لوگ اس شخص کو بدترین سزا دینے کا مطالبہ کر رہے ہیں۔ سب ہی اس بات پر حیران ہیں کہ اس مجرم کو ضمانت پر رہائی کیسے مل گئی جبکہ اس کے خلاف بیشمار ڈیجیٹل ثبوت موجود ہیں۔ ان لوگوں کا ماننا ہے کے عوام کا ردعمل بالکل درست ہے۔ جب ان سے پوچھا گیا کہ اس قدر بھیانک اور گھناؤنے جرم میں ملوث مجرم آخر کیسے قانون کے شکنجے سے بچ نکلتے ہیں تو انہوں نے بتایا کہ اس کا تعلق کیس کے رجسٹر ہونے کی نوعیت سے ہے اور سارا معاملہ تحقیقاتی آفیسر کی صوابدید پر آکر ٹھہر جاتا ہے کہ وہ کس طرح کیس رجسٹر کرتا ہے۔ عموماً اتنے سنگین جرائم میں ملوث مجرم ناکافی شہادتوں اور کیس کے صحیح طور پر درج نہ ہونے کی وجہ سے سزا سے بچ جاتے ہیں جس کی بے شمار مثالیں موجود ہیں۔
معاشرے کو بچوں کیلئے بہت ہی خاص اور دوستانہ رویئے متعارف کرانے کی شدید ضرورت ہے۔ وہ چاہے درسگاہ ہوں، پولیس اسٹیشن ہوں، ہسپتال ہوں یا پھر عدالت ہوں بچوں کے لئے دوستانہ اور سازگار ماحول ہونا چاہئے۔ بچوں کے ساتھ سا تھ ان کے اہل خانہ کو بھی تحفظ فراہم کیا جانا چاہئے، کیوں کہ یہ مافیا بہت مضبوط ہیں اور تھانوں اور عدالتوں کے باہر ان بچوں کے اہل خانہ بلیک میل کئے جاتے ہیں ، شدید قسم کی دھمکیاں دی جاتی ہیں اور کبھی کبھی تو انہیں جان سے بھی ہاتھ دھونا پڑتا ہے۔ بچوں کے اہل خانہ پہلے ہی معاشرے میں ایک نا کردہ گناہ کی سزا پا رہے ہوتے ہیں ساتھ وہ اس ذہنی و نفسیاتی تکلیف کو بھی جھیل رہے ہوتے ہیں جو ایک بہت ہی بڑی ناانصافی ہے۔
جس طرح ابتداء میں بیان کیا گیا تھا کہ عفریت کس طرح قاضی صاحب کے گھر تک پہنچ گیا تھا، تو یہ نوشتہ دیوار سب کو پڑھ لینا چاہئے، کیونکہ جب ان خون آشام بھیڑیوں کے منہ خون لگ جاتا ہے تو پھر یہ بلا تفریق شکار کرنے لگتے ہیں۔ بہت ممکن ہے کہ کل کسی بڑی ہستی کا بچہ بھی اس قسم کی پریشانی کا شکار ہو جائے۔
بچے تو ہر قوم کا سرمایہ ہوتے ہیں ، پوری قوم کو ان کی ذمہ داری لینا ہوتی ہے، تب جا کر معاشرہ سنورتا ہے۔ سب کو مل کر بچوں کے دشمنوں کے خلاف جنگ میں حصہ لینا ہوگا۔ اور تب تک لڑنا ہوگا جب تک ان جیسے ناسوروں سے معاشرے کو مکمل طور پر پاک نہیں کر دیا جاتا۔ ہمیں اپنے بچوں کو ایک صحتمند اور محفوظ ماحول دینا ہوگا، اس مقصد کیلئے عام آدمی سے لیکر حکومتی سطح تک سب کو مل کر اپنا اپنا کردار ادا کرنا ہوگا۔ مجرموں کا بار بار بچ جانا ان کی ہمت بڑھا دیتا ہے، اور وہ دوبارہ جرم کرنے سے نہیں ہچکچاتے، تو ایسا قانون موجود ہونا چاہئے کہ جو ایسا گنا ہ کرے وہ دنیا کے لئے عبرت کا نشان بنا دیا جائے۔ ساتھ ساتھ بچوں کیلئے مختلف پلیٹ فارمز پر آگہی و تربیت کے پروگرام ہونا چاہئیں، جن کے ذریعے بچوں کو اپنی حفاظت کی آگہی ہونا چاہئے۔ اس طرح کے پروگرام کم از کم اسکول لیول پر تو ضرور شروع کئے جانے چاہئیں تاکہ بچوں میں بڑے پیمانے پر ان کی اپنی حفاظت کی آگہی کو اجاگر کیا جا سکے۔
ادارہ اردوپوائنٹ کا کالم نگار کی رائے سے متفق ہونا ضروری نہیں ہے۔
تازہ ترین کالمز :
زعیم ارشد کے کالمز
-
باجے کی آزادی
پیر 23 اگست 2021
-
معاشرے پر اندھی تقلید کے مضمرات
بدھ 18 اگست 2021
-
انوکھے لاڈلے
جمعرات 1 جولائی 2021
-
اسمبلیز سیاسی دنگلوں کے اکھاڑے
پیر 21 جون 2021
-
معاشرے پر افواہ گردی و دشنام طرازی کے منفی اثرات
بدھ 16 جون 2021
-
کورونا عظیم انسانی بحران، عالمی مددگار تنظیم سازی کی ضرورت
بدھ 5 مئی 2021
-
مودی حکومت کا دھرا معیار
ہفتہ 24 اپریل 2021
-
ہماری توجہ کے منتظر ویران ہوتے جنگل اور معدوم ہوتی جنگلی حیات
جمعہ 9 اپریل 2021
زعیم ارشد کے مزید کالمز
کالم نگار
مزید عنوان
UrduPoint Network is the largest independent digital media house from Pakistan, catering the needs of its users since year 1997. We provide breaking news, Pakistani news, International news, Business news, Sports news, Urdu news and Live Urdu News
© 1997-2025, UrduPoint Network
All rights of the publication are reserved by UrduPoint.com. Reproduction without proper consent is not allowed.