اور شیطان آزاد ہو گیا!!

منگل 19 مئی 2020

Zaeem Arshad

زعیم ارشد

کہتے ہیں کہ جنگل کے کنارے ایک گاؤں آباد تھا جس کے باسی ایک عفریت کے ہاتھوں بہت پریشان تھے وہ جب جی چاہتا تھا گاؤں سے کسی کو بھی اٹھا کر لے جاتا تھا اور کھا جاتا تھا۔ لوگ اتنے خوفزدہ تھے کے مقابلے کے بغیر ہی خود کو اس کے حوالے کردیا کرتے تھے۔ ایک دن اسی گاؤں کا نوجوان جب اس کا شکار بن رہا تھا تو اس نے دل میں سوچا کہ مرنا تو ویسے بھی ہے، کیوں نہ مقابلہ کیا جائے۔

لہذا وہ عفریت کے سامنے ڈٹ گیا ، عفریت کو مقابلے کی بالکل عادت تھی نہ امید وہ فوراً ہی چت ہو گیا، نوجوان نے اسے باندھ کر قاضی کی عدالت میں پیش کیا، اور تمام احوال عدالت کے گوش گزار کیا۔ قاضی صاحب نے تمام بیانات سننے کے بعد عفریت کو ناکافی ثبوت کی وجہ کہہ کر آزاد کردیا۔ جاتے جاتے عفریت اس نوجوان کو بھی اٹھا کر لے گیا کہ کوئی دوبارہ سر نہ اٹھا سکے۔

(جاری ہے)

کچھ دن بعد جب عفریت کو بھوک لگی تو اس نے پھر گاؤں کا رخ کیا، اور گاؤں میں اس کا سب سے پہلے جس سے سامنا ہوا وہ تھی قاضی صاحب کی بیٹی، عفریت اسے اٹھا کر لے گیا اور کھا گیا، اب قاضی صاحب پر یہ عقدہ کھلا کہ یہ آگ ان کے دامن تک بھی آسکتی تھی۔
ایسا ہی واقعہ گزشتہ دنوں پیش آیا جب لاہور کی عدالت نے ایک نہایت ہی مکروہ دھندے میں ملوث آدمی کی ضمانت پر رہائی کا حکم دیا، یہ شخص بچوں کے ساتھ بدفعلی کی ویڈیوز بنا کر دنیا کے مختلف ممالک کو فروخت کیا کرتا تھا۔

اس کی رہائی پر سخت عوامی رد عمل دیکھنے میں آیا، لوگوں کی درخواست ہے کہ اس شخص کو تو ایسی سزا دینا چاہئے جو رہتی دنیا تک ایک مثال بن جائے۔
اس شخص کو جس کا نام سعادت امین ہے 2018 میں (FIA) cybercrime cell نے ناروے کی ایمبیسی کی شکایت پر گرفتار کیا تھا اور اس کے قبضے سے
 بچوں سے بدفعلی کے 65,000 ویڈیو کلپ برآمد ہوئے تھے۔ یہ ایک نہایت ہی گھٹیا اور بدکردار انسان ہے جس نے معصوم بچوں کو نہ صرف اپنی حوس کا نشانہ بنایا بلکہ ان کی ویڈیوز بنا کر ایسا ہی مکروہ دھندہ کرنے والی ویب سائٹس کو فروخت بھی کی ۔

یعنی اسے تو دوگنی سزا دی جانی چاہئے۔
یہ شخص دنیا بھر میں اس قسم کے گھناؤنے کام کرنے والی ویب سائٹس کا فعال کارکن ہے، اور اس کے کام کا دائرہ کار سوئیڈن، اٹلی، انگلینڈ اور امریکہ تک پھیلا ہوا تھا۔ سائبر کرائم سیل نے اسے 8 سے 14 سال کے بچوں کی گندی ویڈیوز بنانے اور انہیں ناروے کی ایک کمپنی کو اون لائن فروخت کرنے کے جرم میں گرفتار کیا تھا۔

تحقیقات سے معلوم ہوا کہ یہ شخص گذشتہ کئی سالوں سے اس مکروہ دھندے میں ملوث تھا اور خوب ڈالرز کما رہا تھا۔ یہ شیطان صفت انسان سرگودھا میں بچوں کو کمپیوٹر سکھانے کے بہانے اپنے جال میں پھنساتا تھا اور پھر ان معصوم بچوں کو بے آبرو کرکے ان کی فلمیں دنیا بھر میں موجود ایجنٹس کو فروخت کیا کرتا تھا۔
اس کی رہائی کی وجہ سے عوام میں شدید غم و غصہ پایا جاتا ہے اور لوگ عدلیہ اور پولیس کی کارکرگی پر انگلیاں اٹھا رہے ہیں، وہ یہ سوال بھی کر رہے ہیں کہ اس خون آشام بھیڑئے کی آزادی اس بات کا پیش خیمہ ہے کہ وہ اور مضبوط ہوجائے اور مذید دلیری سے اس سے گھناؤنے جرم کو سر انجام دینے لگے۔

اس کی رہائی نے عوام میں بے چینی کی لہر دوڑا دی ہے اور وہ عدالت سے بچوں کیلئے انصاف کا مطالبہ کر رہے ہیں۔ ملک بھر سے ہر مکتبہ فکر کے لوگ اس شخص کو بدترین سزا دینے کا مطالبہ کر رہے ہیں۔ سب ہی اس بات پر حیران ہیں کہ اس مجرم کو ضمانت پر رہائی کیسے مل گئی جبکہ اس کے خلاف بیشمار ڈیجیٹل ثبوت موجود ہیں۔ ان لوگوں کا ماننا ہے کے عوام کا ردعمل بالکل درست ہے۔

جب ان سے پوچھا گیا کہ اس قدر بھیانک اور گھناؤنے جرم میں ملوث مجرم آخر کیسے قانون کے شکنجے سے بچ نکلتے ہیں تو انہوں نے بتایا کہ اس کا تعلق کیس کے رجسٹر ہونے کی نوعیت سے ہے اور سارا معاملہ تحقیقاتی آفیسر کی صوابدید پر آکر ٹھہر جاتا ہے کہ وہ کس طرح کیس رجسٹر کرتا ہے۔ عموماً اتنے سنگین جرائم میں ملوث مجرم ناکافی شہادتوں اور کیس کے صحیح طور پر درج نہ ہونے کی وجہ سے سزا سے بچ جاتے ہیں جس کی بے شمار مثالیں موجود ہیں۔


معاشرے کو بچوں کیلئے بہت ہی خاص اور دوستانہ رویئے متعارف کرانے کی شدید ضرورت ہے۔ وہ چاہے درسگاہ ہوں، پولیس اسٹیشن ہوں، ہسپتال ہوں یا پھر عدالت ہوں بچوں کے لئے دوستانہ اور سازگار ماحول ہونا چاہئے۔ بچوں کے ساتھ سا تھ ان کے اہل خانہ کو بھی تحفظ فراہم کیا جانا چاہئے، کیوں کہ یہ مافیا بہت مضبوط ہیں اور تھانوں اور عدالتوں کے باہر ان بچوں کے اہل خانہ بلیک میل کئے جاتے ہیں ، شدید قسم کی دھمکیاں دی جاتی ہیں اور کبھی کبھی تو انہیں جان سے بھی ہاتھ دھونا پڑتا ہے۔

بچوں کے اہل خانہ پہلے ہی معاشرے میں ایک نا کردہ گناہ کی سزا پا رہے ہوتے ہیں ساتھ وہ اس ذہنی و نفسیاتی تکلیف کو بھی جھیل رہے ہوتے ہیں جو ایک بہت ہی بڑی ناانصافی ہے۔
جس طرح ابتداء میں بیان کیا گیا تھا کہ عفریت کس طرح قاضی صاحب کے گھر تک پہنچ گیا تھا، تو یہ نوشتہ دیوار سب کو پڑھ لینا چاہئے، کیونکہ جب ان خون آشام بھیڑیوں کے منہ خون لگ جاتا ہے تو پھر یہ بلا تفریق شکار کرنے لگتے ہیں۔

بہت ممکن ہے کہ کل کسی بڑی ہستی کا بچہ بھی اس قسم کی پریشانی کا شکار ہو جائے۔
بچے تو ہر قوم کا سرمایہ ہوتے ہیں ، پوری قوم کو ان کی ذمہ داری لینا ہوتی ہے، تب جا کر معاشرہ سنورتا ہے۔ سب کو مل کر بچوں کے دشمنوں کے خلاف جنگ میں حصہ لینا ہوگا۔ اور تب تک لڑنا ہوگا جب تک ان جیسے ناسوروں سے معاشرے کو مکمل طور پر پاک نہیں کر دیا جاتا۔ ہمیں اپنے بچوں کو ایک صحتمند اور محفوظ ماحول دینا ہوگا، اس مقصد کیلئے عام آدمی سے لیکر حکومتی سطح تک سب کو مل کر اپنا اپنا کردار ادا کرنا ہوگا۔

مجرموں کا بار بار بچ جانا ان کی ہمت بڑھا دیتا ہے، اور وہ دوبارہ جرم کرنے سے نہیں ہچکچاتے، تو ایسا قانون موجود ہونا چاہئے کہ جو ایسا گنا ہ کرے وہ دنیا کے لئے عبرت کا نشان بنا دیا جائے۔ ساتھ ساتھ بچوں کیلئے مختلف پلیٹ فارمز پر آگہی و تربیت کے پروگرام ہونا چاہئیں، جن کے ذریعے بچوں کو اپنی حفاظت کی آگہی ہونا چاہئے۔ اس طرح کے پروگرام کم از کم اسکول لیول پر تو ضرور شروع کئے جانے چاہئیں تاکہ بچوں میں بڑے پیمانے پر ان کی اپنی حفاظت کی آگہی کو اجاگر کیا جا سکے۔

ادارہ اردوپوائنٹ کا کالم نگار کی رائے سے متفق ہونا ضروری نہیں ہے۔

تازہ ترین کالمز :