گرمی ، کراچی اور ٹینکر مافیا

منگل 2 جون 2020

Zaeem Arshad

زعیم ارشد

یہ ہم سب ہی بخوبی جانتے ہیں کہ پانی ہر جاندار کی بنیادی ضرورت ہے، اور پانی کے بغیر زندگی ممکن نہیں ہے، دور حاضر کی ضروریات میں بھی پانی ہی اوّل درجے پر فائز ہے، دنیا بھر میں لو گ پینے کے صاف پانی کے حصول کیلئے شدید محنت اور کوششیں کر رہے ہوتے ہیں۔ پاکستان ان ممالک میں ایک ہے جس کے شہری پینے کے صاف پانی سے عمومی طور پر محروم ہی رہتے ہیں اس کی وجہ قدرتی آفات یا پانی کا موجود نہ ہونا نہیں ہے بلکہ اس کی بنیادی وجہ وہ بے حسی و بے ایمانی ہے جس کے مرتکب اس محکمہ سے وابسطہ ادارے اور ٹینکر مافیا ہیں۔

اس کی زندہ مثال پاکستان کا عظیم تجارتی مرکز کراچی ہے۔ یہاں تک کے رمضان کے مہینے میں بھی جبکہ گرمی کی شدت 37 ڈگری کو چھو رہی تھی، کراچی کے شہری واٹر ٹینکر کے ذریعے مہنگا پانی خردنے پر مجبور تھے ۔

(جاری ہے)

حالانکہ لاک ڈاؤن کی وجہ سے شہر کے بیشتر صنعتی یونٹس بند ہیں ، اس کے باوجود شہریوں کو پانی کی قلت کا شدید سامنا ہے اور لوگ پانی کے حصول کیلئے شدید گرمی میں مارے مارے پھر رہے تھے۔

جہاں متعلقہ اداروں اور مافیاز کی ملی بھگت سے شہریوں کو پانی خریدنے پر مجبور کیا جاتا ہے ۔ کمال حیرت بات یہ ہے کہ کراچی کے سب سے پوش علاقے ڈیفنس اور کلفٹن میں ٹینکر کے بغیر گزارہ ہی نہیں ہے۔ عمومی طور پر گرمیاں شروع ہوتے ہی کراچی کے رہائیشیوں کی پانی کے حصول کی اذیت ناک آزمائش شروع ہوجاتی ہے۔ کراچی ایک میٹروپولیٹن شہر ہے جس کی آبادی قریب پچیس کروڑ نفوس پر مشتمل ہے۔

کراچی میں جب پانی کا بحران آتا ہے تو اس سے بلا تفریق سب ہی علاقے متاثر ہوتے ہیں مگر کچی بستیاں تو بوند بوند پانی کو ترس جاتی ہیں۔ شدید گرمی اور پانی کا نہ ہونا، نہ صرف گرمی کی تمازت کو دوگنا کردیتا ہے بلکہ زندگی کو ایک بڑی تکلیف دہ آزمائش کی شکل بنا دیتا ہے۔ 
ایسے میں مافیاز اور ادارے کے بے ایمان اہلکاروں کی لاٹری نکل جاتی ہے اور آپس کی ملی بھگت سے پانی کی فروخت کا دھندہ عروج پر پہنچ جاتا ہے اور پانی کی ایک ایک بوند کی قیمت وصول کی جاتی ہے ایک ایک بوند کا خراج وصول کیا جاتا ہے۔

آخر کار مجبور لوگ کس طرح گزارہ کریں، انہیں پینے کیلئے، صاف صفائی کیلئے، نہانے دھونے کیلئے غرض ہر کام کیلئے پانی درکار ہوتا ہے جو گرمیوں میں ناپید ہوتا ہے۔ المیہ یہ ہے کہ ان اداروں نے ہر علاقے میں اپنے ایجنٹ چھوڑے ہوئے ہوتے ہیں اور مجبور لوگ پانی کے حصول کیلئے ان سے رابطہ کرنے پر مجبور ہوتے ہیں۔ یہ ایجنٹ دو قسم کا پانی فروخت کرتے ہیں ، صاف اور مہنگا پانی اور آلودہ اور کم قیمت پانی، ان کچی بستیوں میں گلیاں تنگ ہونے کی وجہ سے بڑے ٹینکر نہیں جاسکتے تو یہ ایجنٹس گدھا گاڑیوں اور چھوٹی گاڑیوں کے ذریعے پانی سپلائی کرتے ہیں۔

ان مافیاز کے پاس ہر طرح کی سہولیات موجود ہیں یہ ایک ایک بوند پانی سے پیسہ بنانے کی فکر میں رہتے ہیں، جو لوگ چھوٹی گاڑیوں سے بھی پانی خریدنے کے قابل نہیں ہوتے ان کے کیلئے علاقے میں موجود پرچون کی دکانوں پر بارہ بارہ لٹر کے کین بکنے کیلئے رکھے ہوتے ہیں۔ گویا مافیا کے پنجے بہت گہرائی تک عوام کی زندگی میں گڑے ہوئے ہیں۔ مقامی لوگوں کا کہنا ہے کہ ایک دہائی پہلے تک ان کے علاقے کی پانی کی لائنوں میں پانی آیا کرتا تھا پھر مافیا سرگرم ہوگئے اور ہماری لائینیں خشک ہوگئیں انہوں نے ہمارا پانی چرا کر ہمیں ہی غیر قانونی طورپر بیچنا شروع کردیا، کیونکہ یہ ایک نہایت زبردست آمدنی والا دھندہ ہے لہذا اس کی پشت پناہی ایسے سب ہی ادارے کرتے ہیں جو ان کو روک سکتے ہیں یا اس عمل قبیحہ پر سزا دے سکتے ہیں۔

 
کراچی میں پانی کی فروخت کا دھندہ بڑے پیمانے پر چل رہا ہے، اس کی ایک جہ یہ بھی ہے کے کراچی کو اس کی آبادی کی ضرورت کے مطابق پانی کی مقدار مہیا نہیں کی جاتی ایک متعلقہ اہلکار کے مطابق ہم بہ مشکل آدھے کراچی کو ہو ہی پانی دے پاتے ہیں۔ انہوں نے بتایا کہ 2019 کے اعداد و شمار کے مطابق کراچی کیلئے روزانہ 750 ملین گیلن پانی کی منظوری دی گئی تھی جبکہ کراچی کی موجودہ آبادی کے حساب سے قریب 1200 MGD کی ضرورت ہے دھابیجی اور حب ڈیم دونوں سے ملا کر بھی بہ مشکل 580 MGD ملین گیلن پانی کراچی کو مل پاتا ہے۔

اس پر (KWSB) کے پانی کی فراہمی کے نظام کی خرابی اور دھابیجی پمپنگ اسٹیشن کی کم صلاحیت کی وجہ سے کراچی کوضرورت کے مطابق پانی نہیں مل پاتا ۔ اس کمی کی رہی سہی کسرپرانی لائینو ں میں ٹوٹ پھوٹ کی جہ سے بڑے پیمانے پر پانی کے رساؤ سے ظائع ہوجانا پوری کردیتا ہے ، راقم خود اس بات کا گواہ ہے کہ کراچی کے طول و عرض میں بہت بڑے پیمانے پر قیمتی ترین پانی لائینوں کی ٹوٹ پھوٹ کی وجہ سے برباد ہوجاتا ہے۔

اس معاملے کی نشاندہی اگر آپ کسی متعلقہ اعلی افسر کو کرا بھی دیں تب بھی کچھ نہیں ہوتا اور سالوں سال پانی نہ صرف ضائع ہوتا رہتا ہے بلکہ اردگرد کی سڑکوں اور تعمیرات کو بھی سیم یا رساؤ کی وجہ سے نقصان پہنچاتا رہتا ہے۔ ایک اور شدید نقصان کی وجہ پانی کی مین لائنوں میں کئے گئے غیرقانونی شگاف ہیں جو مقامی بستی کے لوگ پانی کے حصول کیلئے کرتے ہیں، جب پانی آتا ہے وہ جتنا استعمال کرسکتے ہیں کرتے ہیں باقی پانی بڑی تعداد میں کسی کے استعمال کے بغیر برباد ہوجاتا ہے۔

یہ پانی عموماً مین شاہراہوں اور راستوں پر بہہ رہا ہوتا ہے، کیا ایسا کبھی ممکن نہیں کہ کسی بڑے صاحب کی اس قیمتی ترین شہ کے ضائع ہونے پر نگاہ نہ پڑی ہو، یا جو روز کنڈیوٹ چلانے والا عملہ ہے اسے اس کی خبر نہ ہو، مگر بے حسی اور مطلب پرستی کی انتہا ہے کہ سالوں سال گزرجانے کے بعد بھی مرمت کا کام نہیں ہو پاتا۔ 
واٹر بورڈ کے ایک اہلکار نے بتایا کہ ہم پانی کی کمی کا شکار ہیں جس کا فائدہ ٹینکر مافیا پوری طرح اٹھاتی ہے، یہ مافیا واٹر بورڈ کی مین لائنز میں سوراخ کر کے وہاں والو لگا لیتے ہیں اور آگے پانی فراہمی روک کر ٹینکر بھر بھر کر بیچتے ہیں۔

یہ غیرقانونی واٹر ہائڈرنٹس شہر بھر میں موجود ہیں اور ارباب اختیار کی ناک کے نیچے مونگ دل رہے ہیں۔ جس کا نقصان صرف عام شہری کو پہنچ رہا ہے باقی سب کو اپنا اپنا حصہ مل رہا ہے لہذا وہ خاموش ہیں۔ گزشتہ سال ایک کمیشن بنایا گیا تھا جس کے تحت غیرقانونی واٹر ہائڈرنٹس کو ختم کرنے کا کام کیا گیا تھا، مگر کمال حیرت امر یہ ہے کہ شہر میں اب بھی لاتعداد غیرقانونی واٹر ہائڈرنٹس نہ صرف موجود ہیں بلکہ پوری تندہی سے اپنا کام بھی کر رہے ہیں۔

 
یہ چشم کشاء حقائق اس پوشیدہ راز کی طرح سب پر عیاں ہیں جو کسی سے نہ کہنا کہہ کر سب کو بتائے جاتے ہیں۔ اگر بوسیدہ سسٹم کی مرمت کرلی جائے تو بھی بہتر نتائج مل سکتے ہیں، ہمیں یقین ہے کہ نظام کی ابتری اور دگرگوں حالت سے سب ہی ارباب اختیار بخوبی واقف ہیں مگر کوئی بھی عملی اقدام اس لئے کرنے سے قاصر ہیں کہ ان کے گھر میں کوئی تنگی و پریشانی نہیں دوسرا یہ کہ بہت ممکن ہے کہ ان کو بھی حصہ پہنچ رہا ہو۔

ہم یہ سمجھتے ہیں ہیں کہ اگر صرف زرا سی ایمانداری اور فرض شناسی سے کام کیا جائے اور حالات کے سدھار کی کوشش کی جائے تو نتائج بہت ہی بہتر آ سکتے ہیں اور ارباب اختیار خلق خدا سے دعائیں سمیٹ سکتے ہیں ، ورنہ اگر دنیا میں اس نااہلی کا جواب نا بھی مانگا گیا تو قوی امید ہے کہ آخرت میں ضرور شدید پکڑ ہوگی۔

ادارہ اردوپوائنٹ کا کالم نگار کی رائے سے متفق ہونا ضروری نہیں ہے۔

تازہ ترین کالمز :

متعلقہ عنوان :