حق گوئی ہی عقلمندی کی ضمانت ہے

اتوار 21 جون 2020

Zaeem Arshad

زعیم ارشد

ہم جھوٹ بولتے ہیں، چغلیاں کرتے ہیں، مفروضوں کی بنیاد پر جھوٹی کہانیاں گھڑتے ہیں، افواہیں پھیلاتے ہیں۔ لوگوں کا مضحکہ اڑاتے ہیں، اور کیا نہیں کہتے اور سنتے ہیں اور پھر اسے اپنے آئندہ کے مقاصد کیلئے محفوظ بھی کرلیتے ہیں۔ اس حوالے میں Daniel Goleman کی کتاب جو بعنوان Vital lies, Simple Truths: Psychology of Self Deception شائع ہوئی ہے، جو ہمارے ان معاشرتی رویوں کا احاطہ کرتی ہے۔

Goleman بات کرنے کے عمل کے حوالے سے بتاتے ہوئے کہتے ہیں کہ جو کچھ بھی کہنا ، مگر سب کچھ سچ سچ کہنا اور کرنا ہوگا۔ کیونکہ جھوٹ بہت دیر تک پوشیدہ نہیں رہ سکتا جیسے کہ مشہور کہاوت ہے کہ : When we close the door on truth, it comes in through the window یعنی اگر آپ سچ کیلئے دروازہ بند کردیں گے تو وہ کھڑی سے آجائے گی، جیسے اردو کا مشہور شعر ہے کہ : سچائی چھپ نہیں سکتی بناوٹ کے اصولوں سے، کہ خوشبو آ نہیں سکتی کبھی کاغذ کے پھولوں سے۔

(جاری ہے)

یعنی جھوٹ جو ہے وہ ایک کاغذ کے پھول کی مانند ہے، جس کی کوئی حقیقت نہیں، جو محض وقتی خانہ پری کے سوا کچھ بھی نہیں۔
دنیا میں کچھ لوگ سچ کو ایمان کا درجہ دیتے ہیں، عقیدہ انسان کی جبلت میں بہت گہری جڑیں رکھتا ہے جو نسل در نسل پروان چڑھتا اور پھلتا پھولتا ہے۔ عقیدہ اور ایمان کی ماہیت اپنی ذات میں مختلف ہے ، ایمان سزا و جزا کی بات کرتا ہے جبکہ عقیدہ رسومات کو جنم دیتا ہے اور شعور پر سوالات اٹھاتا ہے۔

یعنی جو لوگ ایمان پر چلتے ہیں وہ ہمیشہ سچ کو تسلیم کرتے ہیں سچ کہتے ہیں اور کبھی بھی اپنے ذاتی مفاد کی خاطر سچ کو نہیں چھپاتے ۔ یہ ہی قابل اعتماد لوگ ہیں جو دنیا کے متعلق اپنے واضح نظریات رکھتے ہیں۔
اللہ اپنی عظیم کتاب قرآن مجید میں بنی نوع انسانی سے فرماتے ہیں کہ اے لوگو انصاف پر قائم رہو صرف سچ بولو۔ چاہے یہ تمہارے ، تمہارے اہل خانہ کے یا تمہارے من پسند لوگوں کے خلاف ہی کیوں نہ ہو، کیونکہ یہی حق اور یہی انصاف ہے۔


حیرت انگیز طور پر ہم جمہوریت کے لبادے میں زاتی مفادات، ضروریات، تعصب، اور غیر ضروری جانبداری کی وجہ سے حقیقت کو جھوٹ سے بدل دیتے ہیں اور اس فعل نازیبا پر کوئی شربندگی اور یا احساس جرم بھی محسوس نہیں کرتے۔ جیسا کہ آجکل یہ بہت ہی عام سی بات ہے کہ کوئی بھی دکاندار اپنے مال کو بیچنے کیلئے جھوٹے دعوے کرتا ہے، جو خواص اس کے مال میں موجود ہی نہیں ہوتے وہ بھی بلا کسی شرمندگی کے گنواتا ہے۔

اسی طرح خریدار کا بھی رویہ ہوتا ہے کہ جب وہ دکاندار سے کسی مال کے خرید کیلئے بھاؤ تاؤ کر رہا ہوتا ہے تو جھوٹے اور بے بنیاد دعوے کر رہا ہوتا ہے، گویا دونوں ہی جھوٹ اور فریب کو برائی کا درجہ دینے کو تیار نہیں ہیں۔ اور ایسے لوگوں کے بارے میں بلاجواز جھوٹ بولنے سے زرا بھی نہیں چوکتے جن کیلئے ان کے دل میں بغض اور عناد ہوتا ہے۔ بالکل یہی حال عدالتوں کا ہے، لوگ وہاں بے دریغ اور بے تحاشہ جھوٹ بولتے ہیں، جس میں وکیل، گواہ سب ہی شامل ہوتے ہیں یہ جھوٹ انصاف کی راہ کی سب سے بڑی رکاوٹ ہے۔

جس کی وجہ سے بہت سے بے گناہ سزا بھگت رہے ہوتے ہیں۔ اور بے شمار مجرم با آسانی قانون کے شکنجے سے نکل بھاگنے میں کامیاب ہو جاتے ہیں۔
 اللہ اپنی عظیم کتاب قرآن کریم میں فرماتے ہیں کہ : اے ایمان والو انصاف کے ساتھ ثابت قدم رہو، اللہ کے کیلئے حق اور سچ کی گواہی دو، چاہے وہ تمہارے خلاف ہو، اور چاہے وہ تمہارے والدین، اولاد، دوست احبا ب کے بھی خلاف ہو، مگر تم نے سچ اور حق کے ساتھ گواہی دینا ہے۔

چاہے کوئی امیر ہو یا غریب، اللہ کے سامنے دونوں برابر ہیں۔ لہذا ذاتی مفادات کی پیروی نہ کرو، ایسا نہ کہ تم ناانصافی کے مرتکب ہو جااؤ۔ اور اگر تم گواہی مسخ کرتے ہو یا انکار کرتے ہو تو یہ جان رکھو کہ تم جو کچھ بھی کرتے ہو اللہ اس کی حقیقت سے خوب واقف ہے۔
عموماً لوگ جان بوجھ کر خاص مقصد کیلئے جھوٹ بولتے ہیں مگر کبھی کبھی ایسا بھی ہوتا ہے بنا چاہے بھی لوگ جھوٹ بول جاتے ہیں۔

ڈینئل گول مین اپنی کتاب میں ایک خاص نفسیاتی رجحان کا تذکرہ کرتے ہوئے بتاتے ہیں کہ ۔ چاہے جو بھی معاملات کی بنیاد ہو مگر سچ کو چھپانا، یا حقیقت بدلنا یا اس سے انحراف کرنا در اصل ایک جرم ہے اور انصاف کے تقاضوں کو جھٹلانے کے مترادف اور ایماندارانہ نقطہ نظر کی نفی اور اس کو مسخ کرنا ہے۔
جن معاشروں میں لوگ عمومی طور پر جھوٹ بولتے ہیں اور حقائق کو مسخ کرنے کو برا نہیں سمجھتے، جہاں لوگوں کے درمیان مساوات نہیں ہے وہاں لوگ انصاف سے محروم پائے گئے ہیں۔

مثال کے طور پر ہم سیاسی بنیادوں پر اپنے سیاسی مخالفین سے اختلافات رکھتے ہیں، لہذا ہم جانبدارانہ رجحان کی وجہ سے اپنے مخالفین کو کبھی بھی ان کی خدمات کو انصاف کی بنیاد پر نہیں سراہتے، بلکہ اپنے متعصبانہ روئیے کی وجہ سے انہیں ہمیشہ غلط ہی گردانتے ہیں جو ہماری سیاسی عمل پزیری میں معاون ثابت ہوتا ہے۔ جبکہ حکومت کا انتخاب کارکرگی اور خوقابلیت کی بنیاد پر ہونا چاہئے۔

جو نہیں ہو پاتا نتیجہاً اس کے مضمرات عوام کو بڑے پینانے پر برداشت کرنا پڑتے ہیں، جبکہ نااہل اور بے ایمان حکومت دھوکہ دھی سے بار بار منتخب ہوتی رہے۔ سماجی طور پر معاشرے میں دروغ گوئی کی روش کا پروان چڑھنا ایک بڑے معاشرتی المیے کا سبب اور اخلاقی گراوٹ کا پیش خیمہ ہو سکتا ہے۔
میڈیا کا کردار اس ضمن میں بہت ہی اہمیت کا حامل ہے، وہ چاہے تو لوگوں تک حق سچ بھی پہنچا سکتے ہیں یا جھوٹ اور غلط معلومات (افواہیں) پہنچا کر لوگوں میں انکارکی و پریشانی کا سبب بھی بن سکتا ہے۔

بد قسمتی سے آج کے دور میں میڈیا سچ اور حقیقت بتانے کی بجائے بے ایمانی اور جھوٹی افواہیں پھیلانے کا کام کر رہا ہے، جھوٹی رپورٹنگ اور بے ایمانی پر مبنی تجزیئے لوگوں میں پریشانی اور تناؤ کا سبب بنتے ہیں۔ لہذا یہ منفی پروپیگنڈہ اور جھوٹی نشریات عام لوگوں میں انتشار، پریشانی اور ذہنی دباؤ کا سبب بنتے ہیں۔ میڈیا معاشرے میں غلط معلومات پھیلانے کا کام بڑے پیمانے پر کر رہا ہے، جو لوگوں کے اچھائی کے بارے میں بنیادی تصور کو برباد کرنے کا کام بھی کر رہا ہے۔

خاص طور پر اس کرونا کی وباء کے مشکل وقت کے دوران میڈیا کا کردار اور ہمارے معاشرتی رویوں کی اصل تصویر کھل کر ہمارے سامنے آگئی ہے۔ نتیجہ صاف ظاہر ہے لوگ بے احتیاطی کر رہے ہیں صحت کے بنیادی اصولوں کو پامال کررہے ہیں اور خود کو نقصان پہنچا رہے ہیں۔ لہذا لوگوں کی ایک بڑی تعداد اس وباء کا شکار ہوچکی ہے۔
 جھوٹ بولنا اور حقائق کو مسخ کردینا عام ہے، لوگ اپنے ذاتی مفادات کی خاطر یا عادت سے مجبور ہوکر جھوٹ بولتے ہیں اور حقائق کو مسخ کردیتے ہیں۔

اس طرح کے رویوں سے حاصل ہونے والے فوائد نقصانات کی بہ نسبت بہت ہی کم ہوتے ہیں۔ عام طور پر ان رویوں کی وجہ سے لوگوں کے درمیان بد اعتمادی کی فضا قائم ہوجاتی ہے، اور لوگ ایک دوسرے کو مشکوک سمجھنے لگتے ہیں۔ اور آپس کے تعلقات میں سخت گیری اور بے اعتمادی جگہ لے لیتی ہے۔
 ہمارے لئے یہ لمحہء فکریہ ہے اور یہ لمحہ تبدیلی کا متقاضی ہے۔ اللہ ہماری رہنمائی فرمائیں اور ہمیں اپنی پسندیدہ طریق پر چلنے کی سعادت نصیب فرمائیں۔

ادارہ اردوپوائنٹ کا کالم نگار کی رائے سے متفق ہونا ضروری نہیں ہے۔

تازہ ترین کالمز :

متعلقہ عنوان :