میکانیکل شتر سوار (کراچی کے موٹر سائیکل سوار)

اتوار 27 ستمبر 2020

Zaeem Arshad

زعیم ارشد

چند دھائیوں پہلے کی بات ہے کہ جہاں کہیں سرکس لگتا تھا یا کوئی میلا ٹھیلا ہوتا تھا تو اس کا سب سے ہاٹ آئٹم موت کا کنواں ہوتا تھا۔ لوگ جوک در جوک حیرت اور خوف کے ملے جلے جذبات کے ساتھ موت کے کنوئیں میں موٹر سائیکل کے کمالات دیکھنے جایا کرتے تھے۔ پھر یوں ہوا کہ وہ معدوم ہوتے ہوتے متروک ہوگئے ارے بھائی ایسا کیسے ہو گیا؟ تو پتہ چلا کہ وہ سارے کرتب جو ایک چھوٹے سے لکڑی کے بنے کنوئیں میں دکھائے جاتے تھے اور لوگ قیمتاً ٹکٹ لیکر وہ کرتب دیکھا کرتے تھے وہ سب کچھ بلکہ اس سے بھی کچھ زیادہ خطرناک اور ہیجان خیز بنا ایک پیسہ خرچ کئے ہر وقت ہر گھڑی کراچی کی سڑکوں اور گلیوں میں براہ راست دیکھا جا سکتا ہے۔

بیچارے موت کے کنوئیں میں موٹر سائیکل چلا کر روزی کمانے والے جب بھوکوں مرنے لگے تھے تو انہوں نے یہ پیشہ ہی ترک کردیا کہ پورا کا پورا شہر ہی موٹر سائیکل سواروں کے ہاتھوں موت کے کنوئیں میں تبدیل ہو کر رہ گیا ہے۔

(جاری ہے)


کراچی میں موٹر سائیکل وہ واحد سواری ہے جس سے ٹرک سے لیکر پیدل چلنے والے سب ہی خوف کھاتے ہیں۔ ان کی حالت کچھ کچھ خود کش بمبار کی سی ہے کہ جس پر قابو پانے کا ابھی تک کوئی سائنٹیفک فارمولا ایجاد نہیں ہوسکا کیونکہ یہ تو اپنی جان پہلے ہی ہتھیلی پر رکھ کر گھر سے نکلتے ہیں، یا یوں کہا جائے تو بھی کچھ غلط نہ ہوگا کہ موٹر سائیکل سوار وہ عظیم لوگ ہیں جو اپنے عادات و اطوار میں لکھنئو کے بانکوں یا برطانیہ کے Knights سے مماثلت رکھتے ہیں فرق صرف اتنا ہے کہ بانکے پہلے آپ پہلے آپ کہتے تھے اور یہ پہلے میں پہلے میں پر یقین رکھتے ہیں۔

یہ عصر حاضر کے رستم و سہراب ہیں ، سکندر اعظم ہیں اور جانے کیا کیا ہیں یہ بے خوفی کی علامت ہیں ، دلیری کا استعارہ ہیں ، نڈر، بیباک اور چابکدست ایسے کہ بڑے بڑے خطروں کے کھلاڑی ان کے آگے پانی بھرتے نظر آتے ہیں ، یہ میکانیکی شتر سوار کسی کو خاطر میں نہیں لاتے۔ انہیں دوسروں کی جان کی تو کیا اپنی جان کی بھی بالکل پرواہ نہیں ہوتی تب ہی تو ان کے ساتھ پچھلی سیٹ پر عورت ہو یا بوڑھا ان کی بے باکی و فطرت میں رچی شوخی انہیں ہوا میں اڑنے کی چاہت سے روکنے میں ہمیشہ ہی ناکام رہتی ہے ۔

یہ ٹریفک کے اژدھام میں اپنی جگہ اپنے زور بازو پر بنا رہے ہوتے ہیں بلکہ یوں کہنا زیادہ بہتر ہوگا کہ اپنی جگہ بڑے بڑے جغادرویوں کے حلق سے نکال رہے ہوتے ہیں وہ بھی کچھ اسطرح کہ دیکھنے والے کی جان حلق میں آجاتی ہے مگر یہ اپنی شان بے نیازی میں کسی کو بھی در خود اعتنا نہیں سمجھتے ہیں۔
 لگتا کچھ یوں ہے کہ علامہ اقبال کے شعر (اپنی دنیا آپ پیدا کر اگر زندوں میں ہے) کو صرف یہی لوگ سمجھ پائے ہیں اور ایسا سمجھا ہے کہ اب لوگ ان سے سمجھ اور سیکھ رہے ہیں۔


یہ شاہراہوں کے بے تاج بادشاہ شاہراہ کے چپے چپے پر اپنے ہونے کا چیخ چیخ کر احساس دلا رہے ہوتے ہیں۔ ہر سوار اپنے خواص اور صلاحیتوں میں دوسرے سے بالکل اسی طرح مختلف ہوتا ہے جیسے انسان کی انگلیوں کے نشانات ۔ ہر سوار ایک نئی طرز کا کرتب دکھا رہا ہوتا ہے، سارا ٹریفک ان کے ہاتھوں یرغمال بنا ہوتا ہے، یہ جب چاہیں جہاں بنا ٹریفک کے اصولوں کو خاطر میں لائے شاہراہ کے کسی بھی حصے کی جانب بلا تکلف اپنا رخ کر سکتے ہیں اور کسی بھی بڑی گاڑی کے آگے فاسٹ ٹریک پر نہایت سست رفتاری سے یا سلو ٹریک پر نہایت تیز رفتاری سے اپنی موٹر سائیکل چلا نے کی اہلیت رکھتے ہیں۔

یہ جانتے ہیں کہ جان دی ہوئی اسی کی تھی، ہر لمحہ جان آفرین کے حوالے کرنے کو جیسے تیار و بیقرار نظر آتے ہیں، بارہا دل میں خیال آتا ہے کہ ان کو ڈر کیوں نہیں لگتا، چوٹ تو لگتی ہی ہوگی نا، مگر یہ آہنی اعصاب کے مالک ہوتے ہیں خوف ان کو دیکھ کر ہی خوفزدہ ہو جاتا ہے کیونکہ انہیں پہلے ہی حادثات آہنی حوصلہ دے چکے ہوتے ہیں کہ حوادث کے نتیجے میں جسم کے مختلف حصوں میں ڈالی گئیں دھاتی پلیٹس ، اسکروز اور راڈز ان کی کی ہمت و حوصلے کو جیسے فولاد بنا رہی ہوتی ہے۔

جو یہ بلا تکلف و بلا امتیاز ہر ایک پر آزماتے ہیں۔ بلکہ چاہتے ہیں کہ ہر ایک کے جسم میں یہ دھاتی مواد موجود ہو، تاکہ دنیا ہمیں آہنی معاشرے کے طور پر جان سکے۔ نتیجةً کراچی کے لوگ گھر سے نکلتے وقت یہ دعا ضرور مانگتے ہیں کہ ۰ میرے اللہ برائی سے بچانا مجھ کو ۰ سمجھ تو گئے ہیں نا آپ۔

ادارہ اردوپوائنٹ کا کالم نگار کی رائے سے متفق ہونا ضروری نہیں ہے۔

تازہ ترین کالمز :

متعلقہ عنوان :