زندہ ہے فرعون زندہ ہے

منگل 2 فروری 2021

Zaeem Arshad

زعیم ارشد

مصر کے قدیم بادشاہ فرعون کہلاتے تھے جو جبر ، ظلم ، مطلق العنانیت، اور رعایاکے استحصال کی وجہ سے نہ صرف اپنے دور میں خوف و دہشت کی علامت تھے، بلکہ آج بھی اپنی مثال آپ ہیں۔ کہتے ہیں ان میں سے کچھ تو اتنے خود سر اور بے لگام تھے کہ وہ خود کو خدا کہا کرتے تھے اور لوگوں کو مجبور کیا کرتے تھے کہ لوگ ان کی عبادت کریں، اور ان کو معبود مانیں، وہ قہر ، غضب ناانصافی اور ظلم کی علامت ہوا کرتے تھے۔

لگتا ایسا ہے کہ فرعون رہتی دنیا تک برائی کی ضرب المثل اور ظلم و ناانصافی کا استعارہ بن کر رہ گئے ہیں۔
اب اگر اس تناظر میں ہم اپنے اردگرد نگاہ ڈالیں تو ہر قسم کا فرعون موجود پائیں گے، وزیر سفیر سے لیکر کچن کی ڈرین کھولنے والا جمعدار تک اپنی ذات میں ایک فرعون لئے پھر رہا ہے۔

(جاری ہے)

اور موقع کی مناسبت سے اپنا رنگ دکھاتا ہے۔ شدید ٹریفک جام ہے، لوگ دھائیاں دے رہے ہیں کہ اچانک دور سے آنے والی ہوٹرز کی آواز آپ کے قریب آتی محسوس ہوگی اور کچھ ہی دیر میں آپ دیکھیں گے صاحب بہادر کے جاں نثار بزور بندوق راستہ بناتے ہوئے آپ کو کیڑے مکوڑوں کی طرح روندتے ہوئے نکل جاتے ہیں اور آپ اسی ہجوم میں پھنسے بے بسی سے کھڑے رہ کر ہوٹر کی آواز کو دور ہوتا ہوا سنتے رہ جاتے ہیں۔

المیہ تو یہ ہے کہ پہلے ایک وقت میں ایک فرعون ہوتا تھا مگر آج ہر طرف ہر جگہ ہر قسم کے فرعونوں سے بیک وقت آپ کا سابقہ پڑ رہا ہوتا ہے۔ ایک تو گاڑی کے اندر بیٹھا ہوتا ہے، جس کی گاڑی کی نمبر پلیٹ اس کی فرعونیت کے درجے کو ظاہر کر رہی ہوتی ہے کہ وہ کتنا بڑا فرعون ہے اور دوسرے وہ جو بڑی بڑی بندوقوں سے لیس عوام کو نشانے باندھ باندھ کر اور نہایت حقارت اور درشتی سے دائیں بائیں ہونے کا حکم جاری کر رہے ہوتے ہیں، اور ان کے رویئے سے ایسا لگ رہا ہوتا ہے کہ اگر کسی نے سامنے سے ہٹنے میں زرا تاخیر کی تو وہ گولیوں سے بھون دیا جائے گا۔

یہ عمومی فرعون ہوتے ہیں مگر عوام کیلئے یہ بھی اتنے ہی زہریلے اور تکلیف دہ ہوتے ہیں جتنا کہ وہ ایک خصوصی جو گاڑی میں بیٹھا ہوا ہوتا ہے ۔ آپ کئی گھنٹوں سے شناختی کارڈ ، ٹیکس ، یا کسی اور سرکاری ادارے کی لائن میں لگے ہو ں اور کئی گھنٹے بعد آپ کا نمبر آتا ہے اور ایک کلرک نما فرعون اچانک آپ کو بتاتا ہے کہ آپ کے کاغذات مکمل نہیں ہیں یا کوئی بھی بہانہ بنا کر وہ آپ کو کھڑکی سے ہٹنے کا حکم دے دیتا ہے یہ جانے بغیر کہ یہ بندہ رات بھر اس امید پر یہیں رہا ہے کہ صبح اس کا جلدی نمبر آجائے گا تو وہ باقی دن اپنے کام دھندے میں لگا لے گا مگر عموماً ایسا نہیں ہوتا، جب وہ کھڑکی سے آپ کو ہٹا رہا ہوتا ہے تو ساتھ ساتھ اپنے ساتھ بیٹھے ساتھی سے مسلسل خوش گپیوں میں مصروف ہوتا ہے اور اس کی کام پر توجہ نہ ہونے کے برابر ہوتی ہے۔

جتنی دیر وہ گپ لگارہا ہوتا ہے ساری لائن انتظار کرنے پر مجبور ہوتی ہے۔ اسے لوگوں کی تکلیف کا زرہ برابر احساس نہیں ہوتا۔ اگر گہیں آپ کا معاملہ کسی تھانے پر جا ٹھہرے تب تو سمجھ لیجئے کہ آپ اصلی جانشینوں کے ہاتھوں میں ہیں اب آپ کوئی بھی ہیں سائل اور مظلوم ہی بن کر نکل سکیں گے، کیونکہ اب آپ پر وہ وہ ہربے استعمال کریں گے کہ آپ اپنی شکایت بھول کر کسی صورت یہاں سے بھاگ جانے کو ترجیح دیں گے۔

لوگ روڈ پر حادثے کا شکار ہوکر مر جاتے ہیں اور فرعون ان مظلوم مرجانے والوں کے بھی جیب خالی کر جاتے ہیں، روز فرعون معصوم بچیوں ، بچوں اور عورتوں کو اپنی ہوس کا نشانہ بناتے ہیں، یہی فرعون موقع ملنے پر بچوں ، بچیوں کو چند پیسوں کی خاطر فروخت کر ڈالتے ہیں۔ فرعونوں کی ایک خطرناک قسم رہزنوں اور ڈاکوؤں کی شکل میں موجود ہے جو اپنے مقصد کی خاطر انسانوں کو موت کے گھاٹ اتارنے سے بھی نہیں چوکتے، اسی طرح ہر گلی ہر محلے ہر فیکٹری ہر کارخانے میں بھانت بھانت کے فرعون بھرے پڑے ہیں، جو اپنے اپنے درجات کے مطابق عوام الناس کی ایزا ء رسانی میں اپنا اپنا حصہ ملا رہے ہیں۔

جو آپ کے دروازے پر کچرا پھینک کر جا رہا ہے وہ بھی فرعون ہے اور جو ملک و ملت کو چونا لگا رہا ہے وہ بھی فرعون ہے، جو کنڈ ے سے بجلی چوری کر رہا ہے وہ بھی فرعون ہے اور جو زمینوں پر ناجائز قبضہ کر رہا ہے وہ بھی فرعون ہی ہے۔ یہاں ہم نے بہت کم اقسام کے فرعون تحریر کئے ہیں باقی آپ پر چھوڑے کہ کچھ آپ بھی اپنے ارد گرد تلاش کریں۔ غرض یہ کہ ہم خود بھی شاید فرعون کی ایک قسم ہیں کہ جب ہمیں کہیں موقع ملتا ہے تو ہاتھ دکھانے میں پس و پیش نہیں کرتے اور کر گزرتے ہیں۔


 اب اس تناظر میں ہم اپنے اردگرد نگاہ ڈالیں تو پائیں گے کہ پورا کا پورا معاشرہ بدترین فرعونیت کا شکار ہے اور ہر ایک دوسرے الزام دھر رہا ہے ، مگر اپنے گریبان میں جھانکنے سے قاصر ہے۔ اس بے حسی اور نامناسب روئیے کی وجہ کیا ہے۔ اس کی بنیادی وجہ معاشرے کی اخلاقی پستی و ابتری ہے۔ ہم پورے وثوق سے کہہ سکتے ہیں کہ بنیادی اخلاقی اصولوں کی غیر موجودگی نے خودغرضی کو بہت زیادہ پروان چڑھا دیا ہے، جس کی وجہ سے لوگ عمومی طور پر خود غرض و حاسد ہو کر رہ گئے ہیں۔

اس کیفیت میں دوسرے کس حال میں ہیں پرواہ کرنے کی نہ گنجائش رہتی ہے نہ ضرورت۔
لہذا معاملہ لوگوں کو غیر معیاری کھانے کی اشیاء فروخت کرنے کا ہو یا نقلی ادویات بیچنے والے کا ، کوئی فرق نہیں پڑتا کہ وہ یہ جانے کہ گلا کس کا کٹا کیوں کر کٹا، کون مرا اور کون در بدر ہو گیا، معاشرتی و سماجی ناہمواری اور نا انصافی نے لوگوں میں زبرددست طبقاتی فرق اور مایوسی پیدا کردی ہے جو ہر طبقے میں فرعونوں کی آبیاری میں معاون و مددگار ثابت ہو رہی ہے۔


ہمارے معاشرے میں عمومی طور پر لوگ خود غرضانہ و حاسدانہ سوچ و فکر کی جانب مائل ہیں اور اسے ہی صحیح مانتے ہیں لہذا من حیث القوم ایک غیر مستحکم اور غیر آسودہ معاشرہ پروان چڑھ رہا ہے۔ لوگ ایک دوسرے سے بلاوجہ نالاں ہیں اور بلاوجہ بغض رکھتے ۔ اگر کسی کے پاس دولت ہے تو کیوں، اگر کوئی اچھا دکھتا ہے تو کیوں، اگر کسی کا مکان اچھا ہے تو کیوں اور اگر کوئی اچھے عہدے پر فائز ہے تو کیوں، یہ سب کچھ میرے پاس کیوں نہیں ہے، میرے اختلاف کرنے اور فرعون بننے کیلئے یہ تمام وجوہات کافی ہیں۔

لہذا پڑوسی پڑوسی کا دشمن ہے اور دل میں اپنے ہمسائے کیلئے ہمدردی و انسیت کا کوئی شائبہ تک نہیں رکھتا بلکہ ہر وقت حسد کی آگ میں جلتا رہتا ہے۔
یہ سب کچھ یونہی چلتا رہے گا، تب تک جب تک ہم سب مل کر اس بات پر توجہ نہ دیں گے اور مل کر قدم نہیں اٹھائیں گے۔ ہمیں خوش اخلاقی و رواداری کو اپنانا ہوگا، درگزر و ایثار ہمارا شعار ہونا چاہئے، دردمندی ہماری زندگی کا جز و لازم ہونا چاہئے، ہمیں سب سے پہلے یہ سب اپنی ذات سے شروع کرنا ہوگا، اپنے بچوں کو اس کی باقاعدہ تربیت دینا ہوگی اور اس نہج پر دینا ہوگی کہ بچوں کی زندگی میں ایثار و قربانی، حلم و خوش اخلاقی جزو لازم بن جائے اور ان کی فطرت ثانیہ بن جائے، حسد ، بغض، کینہ سے ان کے دلوں کو پاک کرنا ہوگا، اور ایسا پاک کرنا ہوگا کہ پھر کبھی آسانی سے جگہ نہ بنا سکیں۔


ظاہر ہے یہ راہ پرخار ہے سفر بھی طویل ہے، مگر آج قدم اٹھائے تو ایک نہ ایک دن منزل تک پہنچ ہی جائیں گے۔

ادارہ اردوپوائنٹ کا کالم نگار کی رائے سے متفق ہونا ضروری نہیں ہے۔

تازہ ترین کالمز :

متعلقہ عنوان :