وزیر اعظم پاکستان کا دورہء سری لنکا اور مسلمانوں کا احتجاج

پیر 1 مارچ 2021

Zaeem Arshad

زعیم ارشد

آج کل پاکستان کے وزیر اعظم عمران خان سری لنکا کے خیر سگالی کے دورے پر ہیں جس میں دونوں ملکوں کے باہمی مفاد پر بات چیت ہو رہی ہے، باہمی اقتصادی تعاون اور تعلقات کے فروغ کیلئے یاد داشتوں پر دستخط ہو رہے ہیں، سیاحت کے فروغ اور سری لنکا کو سی پیک میں شمولیت کی دعوت بھی دی جا رہی ہے۔ سری لنکا کے ہم منصب مہندرا راجہ پاکسا نے وزیر اعظم کا بہت پرتپاک استقبال بھی کیا ہے، یعنی ملاقات بہت ہی خوشگوار ماحول میں ہو رہی ہے، سری لنکن اعلی قیادت وزیر اعظم کے استقبال اور مہمان نوازی میں پیش پیش ہیں۔

وزیراعظم نے سری لنکا کی ترقی میں معاونت فراہم کرنے کا عندیہ بھی دیا جسے مہندرا راجہ اور ان کی کابینہ کے لوگوں نے بہت سراہا، اس موقع پر جب وزیر اعظم پاکستان سری لنکن صدر کے دفتر پہنچے تو قریب دو ہزار سری لنکن مسلمانوں نے دفتر کے سامنے مظاہرہ کیا ، ان کے احتجاج کرنے کا مقصد یہ تھا کہ سری لنکا میں کرونا کی وجہ سے جو مسلمان مر جاتے ہیں، ان کی لاشوں کو عام ہندو اور بودھ مت کے ماننے والوں طرح جلا دیا جاتا ہے جو مسلمانوں کے عقیدہ کے مطابق نہ قابل تسلیم ہے، اور لواحقین کیلئے نہایت اذیت کا سبب بھی ہے۔

(جاری ہے)

سری لنکن مسلمان اس امید پر وہاں جمع تھے کہ پاکستانی مسلمان حکمران ضرور ان کی داد رسی کریں گے اور سری لنکن ہم منصب سے سفارش کرکے انہیں اس مشکل سے نجات دلانے میں مددگار ہوں گے۔ سری لنکن اپوزیشن لیڈر مجیب الرحمن نے بتایا کہ سری لنکن حکومت کرونا سے انتقال کرجانے والے مسلمانوں کو دفنانے کی اجازت دینے سے مسلسل انکاری ہے، حالانکہ دو ہفتے پہلے ان کے راجہ مہندرا نے مسلمانوں کو دفنانے کی اجازت دے دی تھی ، جسے پاکستانی وزیر اعظم نے اپنے ایک ٹوئیٹر پیغام میں سراہا بھی تھا۔

اس کے باوجود سری لنکن حکومت نے راجہ مہندار کے اس حکم پر عمل در آمد شروع نہیں کیا ہے۔ سری لنکن حکومت کا اس ضمن میں یہ موقف ہے کہ کرونا سے مرنے والے تمام لوگوں کو جلا دینا چاہئے، کیونکہ دفنانے کی صورت میں وائرس زیر زمین پانی میں شامل ہوکر لوگوں کو بیمار کرنے کا سبب بن سکتا ہے ۔
سری لنکا ایک بودھ اکثریتی ملک ہے جہاں ہندو دوسری بڑی اکثریت ہیں وہاں مسلمانوں کا آبادی میں کل تناسب 7%ہے، بودھ اور ہندو اپنے مذہبی عقیدے کے مطابق اپنے مردوں کو جلانا افضل مانتے ہیں اور جلا دینے کو مکتی یعنی نجات کا عمل مانتے ہیں ، جبکہ مسلمان اس کے برعکس اپنے مردے کو دفناتے ہیں اور جلانے کو سخت گناہ تصور کرتے ہیں۔

بلکہ یہ مانتے ہیں کہ جلانا یعنی مردے کو ایذا ء دینے کے مترادف ہے۔
 اس صورتحال میں مسلمان اقلیت شدید ترین ذہنی دباؤ اور نفسیاتی الجھن کا شکار ہے اور وہ وزیر اعظم پاکستان سے امید لگائے ہوئے ہیں کہ وہ ان کو اس مشکل سے ضرور نجات دلانے میں مددگار ثابت ہوسکتے ہیں۔ اب دیکھنا یہ ہے کہ وزیر اعظم پاکستان اس انتہائی نازک اور اہم معاملے کو کتنے احسن طریقے سے نبھاپاتے ہیں اور سرلنکن مسلمانوں کی امیدوں پر کس حد تک پورا اتر پاتے ہیں، کیونکہ یہ ایک خالصتاً سری لنکا کا اندرونی معاملہ ہے۔


 یہ امر انتہائی افسوسناک ہے کہ یہ کہہ کر مسلمانوں کے مرحومین کو بھی جلا دینا کہ زیر زمین پانی جراثیم زدہ ہوجائے گا بعید از قیاس ہے، کیونکہ کرونا کے وائرس کی زندگی کا دورانیہ مختلف عناصر ، حالات اور سطحوں پر الگ الگ ہے اور یہ بہت دن تک بغیر بردار Carrierکے رہ بھی نہیں سکتا، لہذا ایک بے بنیاد مفروضے کی آڑ لیکر مسلمانوں کے مرحومین کی بے حرمتی کرنا شدت پسندی اور مسلمان دشمنی ہی ہوسکتی ہے۔

ورنہ دنیا بھر میں مثالیں موجود ہیں اور سری لنکا سے زیادہ اموات کے ریکارڈ موجود ہیں مگر وہاں پر اس طرح لاشوں کو جلایا نہیں جارہا، لہذا وزیر اعظم پاکستان سے یہ امید کی جاتی ہے کہ وہ ضرور سری لنکا میں موجود مظلوم مسلمان بھائیوں کی داد رسی کریں گے جہاں تک بن پڑا اپنی پوری کوشش کریں گے کہ سری لنکن حکومت کو اس فعل معترضہ سے روک سکیں۔ اگر محترم جناب عمران خان صاحب اس حوالے سے کچھ بھی اچھا کر پائے تو یہ ان کے آخرت کے توشہ بطور محفوظ کرلیا جائے گا جو ان کے آگے کی منزلوں میں کام آئے گا۔

ادارہ اردوپوائنٹ کا کالم نگار کی رائے سے متفق ہونا ضروری نہیں ہے۔

تازہ ترین کالمز :